پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جسمانى سزا

جسمانى سزا

بہت سے والدین بچوں کى تربیت کے لیے جسمانى سزا ضرورى سمجھتے ہیں اور اکثر اساتذہ کے ذہن میں بھى یہ سودا سمایا ہوتا ہے لوگوں میں مشہور ہے کہ ''لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے _ گزشتہ زمانے میں اس طرز عمل کے حامى بہت افراد تھے _ اور یہ طریقہ کارائج بھى تھا _ سکول کى ضروریات میں سے ڈنڈا، زنحیر اور کوڑا و غیرہ بھى تھا _ جو والدین اپنى اولاد کى تربیت کے خو اہش مند ہوتے وہ انہیں مارنے سے دریغ نہ کرتے _ لیکن بہت سے دانشور بالعوم اور ماہرین نفسیات بالخصوص اس طرز عمل کو بچے کے لیے نقصان وہ سمجھتے ہیں _ اور اس سے منع کرتے ہیں دنیا کے ترقى یافتہ ممالک میں جسمانى سزا پر تقریباً تقریباً پابندى ہے اور اس سلسلے میں کئی قوانین منظور اور نافذ ہوچکے ہیں _ دانشور کہتے ہیں _

جسمانى سزا سے بچے کى اصلاح نہیں کى جا سکتى _ ممکن ہے ظاہرى طور پر اس کا تھوڑا بہت اثر ہولیکن یہ ناقابل تلافى نقصان کى حامل بھى ہوتى ہیں مثلاً

1_ مارکھا کھا کر بچہ اس بات کا عادى ہوجاتا ہے کہ وہ زور اور طاقت کے سامنے بلا چون و چرا سر جھکالے _ اور ہوسکتا ہے اس طریقے سے وہ یہ سمجھے لگے کہ طاقت ہى کامیابى کى کلید ہے _ اور جب بھى غصّہ آئے مارناچاہیے _ اور اس سلسلے میں کچھ لحاظ نہیں رکھنا چاہیے _ مارپیٹ کے ذریعے ماں باپ جنگل کے وحشیانہ قوانین اپنے بچے پر لاگوکردیتے ہیں _

2_ مارکھانے والے بچے کے دل میں والدین کے بارے میں کینہ و نفرت پیدا ہو جاتى ہے اورزیادہ تریہى ہوتا ہے کہ وہ آخر تک اسے فراموش نہیں کرتا _ ہوسکتا ہے وہ کسى رد عمل کا مظاہرہ کرے اور سرکش ہوجائے _

3_ مارپٹائی بچے کو بزدل بنادیتى ہے _ اس کے ذریعے سے بچے کى شخصیت بھى کچلى جاتى ہے اور اس کا روحانى توازن بگڑجاتا ہے اور وہ غصّے اور دوسرى نفسیاتى بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے _

4_ جسمانى مارپیٹ زیادہ تر بچے کى اصلاح نہیں کرتى اور اس کے اندر اصلاح کا جذبہ نہیں ابھارتى _ ممکن ہے مارپیٹ اور ڈنڈے کے خوف سے ظاہراً وہ برا کام نہ کرے _ اور دوسروں کى موجودگى میں وہ کچھ نہ کرے لیکن اس کى حقیقى برائی اس طرح سے دور نہیں ہوتى اور باطن موجود رہتى ہے اور بعد ازاں کسى دوسرسى صورت میں آشکار ہوتى ہے _

ایک صاحب کہتے ہیں:

میرے بارہ سال بیٹے نے المارى سے ماں کے پیسے اٹھالیے _ اس کام پر میں نے اس کى ڈنڈے سے پٹائی کى _ اس کے بعد وہ خوف کے مارے المارى کے قریب نہیں جاتا تھا _

اور یہ درست ہے کہ بچے نے اس کے بعد المارى سے پیسے نہیں اٹھائے اور اس لحاظ سے باپ نے اپنا مقصد پالیا ہے لیکن معاملہ اتنا سادہ نہ تھا _ یہ قصہ آگے بڑھا _ بعد ازاں وہ بس کا کرایہ ادا نہ کرتا _ ماں سوداسلف کے لیے پیسے دیتى تو اسى میں چرالیتا _ بعد میں معلوم ہو اکہ اس نے اپنے دوستوں کے بھى پیسے چرائے ہیں _ گویا مارنے بچے کو مجبور کیا وہ ایک کام کا تکرار نہ کرے _ لیکن اس کام کى اصل حقیقت تو ختم نہ ہوئی _ (1)

ایک دانشور لکھتے ہیں :

جن بچوں کى مارپٹائی ہوتى رہتى ہے وہ بعد از ان ڈھیلے ڈھالے اور بیکارسے شخص بن سکتے ہیں _ یا پھر دھونس ڈعاندلى جماتے ہیں گویا پورى زندگى اپنے افسردہ بچپن کا انتقام لیتے ہیں _ (2)

مسٹررسل لکھتے ہیں:

میرے نظرلیے کے مطابق بدنى سزا کسى لحاظ سے بھى درست نہیں ہے _ (3)

اسلام نے بھى جسمانى سزا کو نقصان وہ قرار دیا ہے اور اس سے روکا ہے _

حضرت على علیہ اسلام فرماتے ہیں:

عقل مند ادب کے ذریعے نصیحت حامل کرتا ہے _ یہ تو صرف حیوانات ہیں جو مارکے بغیر ٹھیک نہیں ہوتے _ (4)

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

جو شخص بھى دوسرے کو ایک تازیانہ مارے گا _ اللہ تعالى اس پر آگ کا تازیانہ برسائے گا _ (5)

رسول اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

تعلیم و تربیت ہیں پیار محبت سے کام ہیں اور سخت گیری نه کریں کیونکه دانش مند استاد سخت گیر استاد ہے بہتر ہوتا ہے (6)

ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے امام موسى بن جعفر علیہ السلام سے اپنے بیٹے کى شکایت کى تو آپ نے فرمایا:

اسے مارنانہ البتہ اس سے کچھ دور رہو لیکن تمہارى یہ دورى اور ناراضى زیادہ دیرے کے لیے نہ ہو _ (7)

بہر حال بدنى سزائیں تربیت کے لیے نہایت ہى خطرناک ہیں اور حتى الامکان ان سے بچنا چاہیے لیکن اگر کوئی دوسرا طریقہ مؤثر نہ ہو اور مارکے علاوہ کوئی چارہ کارنہ ہو تو ایک ضرورت کى حد تک اس سے کام لیا جا سکتا ہے _ اسلام نے بھى اس کے لیے اجازت دى ہے مثلاً رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

اپنے بچوں کو چھ سال کى عمر میں نماز کے لیے کہو اور اگر نصیحت اور ڈانٹ مؤثر نہ ہوں اور وہ تمہارے حکم کى خلاف ورزى کریں _ تو سات سال کى عمرمیں تم انہیں مارکر نماز کے لیے کہہ سکتے ہو _(8)

ایک اور حدیث میں امام محمد باقر یا امام جعفر صادق علیہما السلام نے فرمایا:

جب بچہ نو سال کى عمر کو پہنچے تو اس وضو کرنا سکھاؤ اور اس سے کہو کہ وضو کرے اور نماز پڑھے _ اور اگر وہ نہ مانے تو مار کر نماز پڑھاؤ _(9)

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:

اگر تمہارا خادم خدا کى نافرمانى کرے تو اسے مارو اور اگر تمہارى نافرمانى کرے تو اسے معاف کردو _ (10)

امیر المومنین علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:

جس طرح سے اپنے بیٹے کو سرزنش کرواسى طریقے سے تیمم کو سرزنش کرو اور جس مقام پر اپنے بیٹے کو سرزنش کے لیے مارو اس مقام پر تیمم کے لیے بھى اس سے کام لو _ (11)

ایک شخص نبى اکر م (ص) کى خدمت میں آیا اور عرض کى ایک تیمم بچہ میرى سرپرستى میں ہے کیا میں اسے سرزنش کے لیے مارسکتا ہوں فرمایا:

جس مقام پر تم اپنے بیٹے کو تربیت کے لیے مارسکتے ہو اس مقام پر تیمم کى تربیت کے لیے بھى مارسے کام لے سکتے ہو _ (12)

بہر حال جب تک ضرورت نہ پڑجائے اس حساس اور خطرناک وسیلے سے کام نہیں لینا چاہیے _ اور جب ضرورى ہو اس وقت بھى احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے _ اور سزا جچى تلى اور سوچى سمجھى ہوئی چاہیے _

ایک شخص نے رسول اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کى خدمت میں عرض کى میرے گھر والے میرى نافرمانى کرتے ہیں میں کس طریقے سے انہیں تنبیہ کروں _ فرمایا:

انہیںمعاف کردو _

اس نے دوسرى اور تیسرى مرتبہ یہى سوال کیا تو حضور(ص) نے یہى جواب دیا _

اور اس کے بعد فرمایا:

اگر تم انہیں سرزنش کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں دھیان رکھنا چاہیے کہ سزا ان کے جرم سے زیادہ نہ ہو اور چہرے پر مارنے سے اجتناب کرنا _ (13)

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

ضرورت کے موقع پر بچے اور خادم کو تنبیہ کے لیے پانچ یا چھ ضربوں سے زیادہ نہ مارو او رزیادہ زور سے بھى نہ مارو _ (14)

تنبیہ کے موقع پر کوشش کریں کہ دوسروں کى موجودگى میں نہ ہو کیونکہ روحانى طور پر بچے پر اس کے برے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اسے وہ عمر بھى نہیں بھلاتا _ مارحدسے بڑھ جائے تو اسلام میں اس کے لیے دیت اور جرمانہ مقررکیا گیا ہے _ لہذا اس حد تک نہیں مارنا چاہیے _ اسلام کے قوانین کے مطابق اگر مارنے کے نتیجے میںکسى کا چہرہ سیاہ پڑجائے تو مارنے والے کو اس چھ طلائی دینار دینا ہوں گے _ اور اگر چہرہ سبز پڑجائے تو تین دینار اور گر سرخ ہوجائے تو ڈیڑھ دینارے_(15)

ماں باپ کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ پاگلوں کى طرح بیچارے بچے کى جان کے درپئے ہو جائیں _ اور اس مکوں اور لاتوں سے ماریں _ یازنجیز اور ڈنڈے سے اس کا بدن سیاہ کردیں _

بہر حال ضرورت کے موقع پر اسلام نہ فقط بدنى سزا کو مفید سمجھتا ہے بلکہ اس کا حکم دیتا ہے _کیونکہ بے حد و حساب اور مطلق آزادى کا بھى مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوتا _ یہى بے حساب اور غلط آزادى ہے کہ جس نے مغرب کے بچوں اور نوجوانوں کو بگاڑدیا ہے _

 

 

1_ روان شناسى تجربى کودک، ص 263
2_ روان شناسى تجربى کودک، ص 266
3_ در تربیت ، ص 169
4_ غرر الحکم ، ص 236
5_ وسائل، ج 19 ، ص 12
6_ بحار، ج 77، ص 175
7_ بحار، ج 104 ، ص 99
8_ مستدرک، ج 1 ، ص 171
9_ وسائل، ج 3 ، ص 13
10_ غرر الحکم ، ص 115
11_ وسائل ،ج 15 ، ص 197
12_ مستدرک ، ج 2 ، ص 625
13_ مجمع الزوائد ، ج 8، ص 106
14_ وسائل ، ج 18 ، ص 581
15_ وسائل ، ج 19 ، ص 295