پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تربيت كرنے والوں كى آگاہى اور باہمى تعاون

تربیت کرنے والوں کى آگاہى اور باہمى تعاون

بچے کى تربیت کوئی ایسى سادہ اور آسان سى بات نہیں ہے کہ جسے ہر ماں باپ آسانى سے انجام دے سکیں _ بلکہ یہ کام بہت سى باریکیوں اور ظرافتوں کا حامل ہے _ اس میں سینکڑوں بال سے باریک تر نکات موجود ہیں _ مربى کا تعلق بچے کى روح سے ہوتا ہے _ وہ روحانى ، نفسیاتى علمى اور تجرباتى پہلوؤں سے آگاہى کے بغیر اپنى ذمہ دارى بخوبى انجام نہیں دے سکتا _ بچے کى دنیا ایک اور ہى دنیا ہے اور اس کے افکار ایک اور ہى طرح کے افکار ہیں اس کى سوچوں کا انداز مختلف ہوتا ہے ، جس کا بڑوں کے طرز تفکر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا بچے کى روح نہایت ظریف اور حساس ہوتى ہے اور ہر نقش سے خالى ہوتى ہے اور ہر طرح کى تربیت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوتى ہے _ بچہ ایک ایسا چھٹا سا انسان ہوتا ہے ، جس نے ابھى تک ایک مستقل شکل اختیار نہیں کى ہوتى جب کہ ہر طرح کى شکل قبول کرنے کى اس میں صلاحیت ہوتى ہے _ بچے کے مربّى کو انسان شناس اور بالخصوص بچوں کا شناسا ہونا چاہیے _ تربیت کے اسرار و رموز پر اس کى نظر ہونى چاہیے _ انسانى کمالات او رنقائص پر اس کى نگاہ ہونے چاہیے _ اس کے اندر احساس ذمہ دارى بیدار ہونا چاہیے اور اسے اپنے کام سے دلچسپى بھى ہونا چاہیے _ اسے صابراور حوصلہ مند ہونا چاہیے اور مشکلات سے ہراسان نہیں ہونا چاہیے _ علاوہ ازین تربیت کے قوانین سو فیصد کلى نہیں ہوتے کہ جنہیں ہر جگہ پر اور ہر کسى کے لیے قابل اعتماد قرار دیا جا سکے _ بلکہ ہر بچے کى اپنى جسمانى ساخت اور عقلى صلاحیتوں کے اعتبار سے اپنى ہى خصوصیات ہوتى ہیں لہذا اس کى تربیت اس کى جسمانى ساخت ، عقلى قوتوں ، حالات اور ماحول کے تقاضوں کى مناسبت سے ہونى چاہیے _ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کى جسمانى ساخت کا صحیح طرح سے جائزہ لیں اور اسى کے پیش نظر اس کى تربیت کریں ورنہ ممکن ہے ان کى کوششوں کاوہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکے جو ان کى خواہش ہے _

مرداور عورت کو چاہیے کہ ماں باپ بننے سے پہلے بچے کى تعلیم و تربیت کے طریقے سے آگاہى حاصل کریں _ اس کے بعد بچے کى پیدائشے کے لئے اقدام کریں ، کیوں کہ بچے کى تربیت کامرحلہ اس کى ولادت سے بلکہ اس سے بھى پہلے شروع ہوجاتاہے _ اس حساس عرصے میں بچے کى لطیف اور حساس طبیعت کوئی شکل اختیار کرتى اور اس کے اخلاق، کردار ، عادات حتى کہ افکار کى بنیاد پڑتى ہے _

یہ صحیح نہیں ہے کہ ماں باپ اس حاس عرصے میں غفلت سے کام لیں اور تعلیم و تربیت کو آئندہ پر ٹال دیں _ یعنى تعلیم و تربیت کو اس وقت پر اٹھانہ رکھیں کہ جب بچہ اچھے یا برے اخلاق و کردار یا اچھى یا برى عادتوں کے بارے میں تقریبا ایک مزاج اختیار کرچکا ہو _ کیونکہ ابتدائی مراحل میں تربیت عادتوں کے تبدیل کرنے کى نسبت کہیں آسان ہے _ عادت کا تبدیل کرنا اگرچہ ناممکن نہیں تا ہم اس کے لیے بہت زیادہ آگاہی، صبر ، حوصلہ اور کوشش کى ضرورت پڑتى ہے اور یہ سب تربیت کرنے والوں کے بس کى بات نہیں _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

اصعب السیاسیات نقل العادات

''مشکل ترین سیاست لوگوں کى عادات کو تبدیل کرنا ہے '' (غرر الحکم ص 181)

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

للعادة على کلّ انسان سلطان

عادت انسان پر مسلط ہوجاتى ہے _ (غررالحکم _ص 580)

امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

''العادة طبع ثان''

''عادت فطرت ثانیہ بن جاتى ہے '' _ (غررالحکم _ ص 26)

 

ترک عادت اس قدر مشکل ہے کہ اسے بہترین عبادتوں سے شمار کیا گیا ہے حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں :

''افضل العبادة غلبة السعادة''

'' برى عادت پر غلبہ پالینا افضل ترین عبادتوں میں سے ہے '' ( غرر الحکم _ص 176)

بچے کو راہ کمال پر تربیت دینے کے لیے ایک مسئلہ یہ بھى اہم ہے کہ ماں باپ اور دیگر تمام مربیوں کے درمیان فکرى اور عملى طور پر تربیت کے تمام پروگراموں میں اور ان کے اجراء کى کیفیت میں ہم آہنگى اور تفاہم موجود ہو _ اگر ماں باپ اور دیگر لوگ کہ جن کا بچے کى تربیت میں عمل دخل ہو مثلاً دادا اور دادى و غیرہ ان کے درمیان تربیتى پروگراموں میں اتفاق اور ہم آہنگى موجود ہو اور ان کے اجرائیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تو وہ مطلوب نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں اور ایک اچھا اور ممتاز بچہ پروان چڑھا سکتے ہیں _ لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک بھى تربیت کے بارے بے اعتناء یا تربیتى امور میں خلاف سلیقہ رکھتا ہو تو مراد حاصل نہیں ہوسکتى کیونکنہ تربیت کے مسئلہ میں مکمل یقین اور ہم آہنگى ضرورى ہے _

بچے کو اپنے فریضے سے آگاہى ہونا چاہیے _ جب ماں باپ کچھ اور کہہ رہے ہیں اور دادا دادى اور تو بچہ حیران و پریشان ہوجاتا ہے _ اسے سمجھ نہیں آتى کہ کیا کرے _ بالخصوص اگر ان میں سے ہر کوئی اپنے نظریے پر زور دے رہا ہو _ ایسى صورت میں نہ فقط یہ کہ اچھا نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ ایسا ہوتا تربیت میں نقص کا باعث بھى بن سکتا ہے _ تربیت کى بڑى مشکلات میں سے یہ ہے کہ بچے کے بارے میں باپ کچھ فیصلہ کرے اور ماں یا دادى اس میں دخالت کرکے اس کے برخلاف عمل کرے یا پھر اس کے الٹ مسئلہ ہو _ مربیوں کے درمیان ایسے اتفاق اور ہم آہنگى کى ضرورت ہے کہ جس سے بچہ واضح طور پر یہ سمجھ سکے کہ اسے کیا کرنا ہے اور اس کى خلاف ورزى کا خیال اس کے ذہن میں نہ آئے _

کبھى یوں ہوتا ہے کہ باپ ایک خوش اخلاق اور اچھا تربیت یافتہ بچہ پروان چڑھانا چاہتا ہے لیکن ماں بداخلاف اور بے تربیت ہوتى ہے اسے تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور کبھى معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے _ یہ مشکل بہت سے گھرانوں میں نظر آتى ہے _ ایسے

 

خاندانوں میں پرورش پانے والے بچے عموماً اچھى اور صحیح تربیت کے حامل نہیں ہوتے کیونکہ ایک تربیت یافتہ اور صالح فرد کى تربیت اس کى ناصالح بیوى کے سبب بے اثر ہوجاتى ہے _ اس صورت میں صحیح تربیت بہت مشکل امر بن جاتا ہے البتہ ایسى دشواریں کا یہ مطلب نہیں کہ ہم تربیت کى ذمہ دارى سے دست بردار ہوجائیں _

ایسى صورت میں تربیت کى ذمہ دارى اور بھى ہواہوجاتى ہے _ چاہیے کہ ایسى صورت میں اولاد کى تربیت کے بارے میں زیادہ توجہ دى جائے _ اپنے اخلاق و کردار کى پورى طرح اصلاح کى جائے اور بچوں کى زیادہ دیکھ بھال سے کام لیا جائے اور ان سے زیادہ سے زیادہ مانسیت پیدا کى جائے _ اچھے کام اور خوش رفتارى کے ذریعے بچوں کى توجہ اپنى طرف جذب کى جائے اور ان کے لیے بہترین نمونہ عمل بن جایا جائے _ اپنے بچوں سے تفاہم پیدا کیا جائے _ اچھائی برائی اور نیکى بدى کا مفہوم ان کے سامنے کامل طور پر واضح کیا جائے _ ایسا عمل کیا جائے کہ بچہ خودبخود اچھے اور برے اخلاق کے درمیا ن تمیز کرسکے اور برائیوں سے متنفر ہو جائے _ اگر مرّبى عاقل ، تدبر، صابر، اور حوصلہ مند ہو تو کسى حد تک اپنے ہدف تک پہنچ سکتا ہے اور اپنى بیوى کى غلط تربیت اور بدآموزى کى اثرات زائل کرسکتا ہے _ بہر حال یہ ایک مشکل اور اہم کام ہے لیکن کے علاوہ چارہ بھى نہیں _

ایک دانشور کا قول ہے :

وہ خاندان کہ جس میں ماں اور باپ کى تربیت کے بارے میں ہم فکر ہیں اور اپنے کردار اور رفتار کو اس کے مطابق ڈھالتے ہیں تو بچے کے اعصاب کے لیے مناسب ماحول مہیا ہوجاتا ہے _ خاندان ایک ایسا چھوٹا سا معاشرہ ہے کہ جس میں بچے کى اخلاقى خصوصیات ایک خاص صورت اختیار کرتى ہیں _ وہ خاندان کہ جس کے افراد ایک دوسرے سے دوستانہ برتاؤ کرتے ہیں اس کے بچے عموماً متین ، خوددار اور انصاف پسند ہوتے ہیں _ اس کے برعکس وہ

 

گھر کہ جس میں ماں باپ کے درمیان روزروز کى نوک جھونک اورتو تکرار رہتى ہے اس کے بچے کج اخلاق ، بہانہ ساز اور غصیلے ہوتے ہیں _(1)


(1). روان شناسى تجربى کو دک ص 191_