ماں کى حیثیت سے زندگى کا آغاز
جب مرد کا نطفہ (SPERM) عورت کے رحم میں جاتا ہے اور عورت کے نطفے (OVAL) سے ملتاہے تو اس لمحے سے عورت کے لیے ماں بننے کے دور کار آغاز ہوتا ہے _ اسى وقت سے عورت کے رحم میں ایک زندہ موجود وجود میں آتا ہے اور وہ تیزى کے ساتھ حرکت کرتا ہوا تکمیل کى طرف بڑھتا ہے _ وہ بہت چھوٹا سا وجود غیر معمولى صورت کے ساتھ پرورش پاتا ہے اور بڑا ہوتا ہے _ یہاں تک کہ ایک انسان کى کامل صورت اختیار کرلیتا ہے _ انسان کى عمر حقیقى طور پر اسى زمانے سے شروع ہوجاتى ہے _
ایک دانشور لکھتا ہے :
جس وقت انسان اس دنیا میں آتاہے تو نو مہینے اس کى عمر کے گزرچکے ہوتے ہیں _ اور ان اولین نو مہینوں میں وہ ایسے مراحل سے گزرتا ہے کہ جس میں ایک ایسے وجود کا تعین ہوجاتا ہے جو بالکل مختلف اور بے نظیر ہوتا ہے اور یہ زمانہ اس کى سارى عمر کے لیے مؤثر ہوتا ہے_(1)
عورت جب حاملہ ہوجاتى ہے تو اسى وقت وہ ماں بن جاتى ہے اور جو بچہ اس کے پیٹ رحم میں پرورش پارہا ہوتا ہے اس کے بارے میں وہ ذمہ دار ہوتیہے _ یہ درست ہے کہ باپ کا نطفہ قانون وراثت کے اعتبار سے بچے کى جسمانى اور نفسیاتى شخصیت پر اثر رکھتا ہے
لیکن اس موجود زندہ کا مستقبل بہت زیادہ ماں کے اختیار میں ہوتا ہے ، باپ کا نطفہ بیج کى حیثیت رکھتا ہے اور ماحول کسى فرد کى شخصیت کى پرورش پر بہت زیادہ اثر پذیر ہوتا ہے _
ایک دانشور لکھتا ہے :
بچے کے والدین کیایک ایسے ماحول میں نشو و نما کرسکتے ہیں کہ جو اس کى طبیعت اور مزاج کے لیے صحیح و سلامت ہو اور وہ اسے ایک خراب اور گندے ماحول میں بھى پروان چڑھاسکتے ہیں _ اور امر مسلّم ہے کہ ایسا ماحول ایک انسان کى روح جاوداں کے رہنے کى جگہ نہیں ہے _ یہى وجہ ہے کہ ماں باپ انسانیت کى طرف سے سب سے بھارى ذمہ دارى کے حامل ہوتے ہیں _ (2)
ہر شخص کى سلامتى یا بیمارى ، طاقت یا کمزورى ، خوبصورتى یا بدصورتى ، خوش استعدادى یا بد استعدادى اور خوش اخلاقى یا بد اخلاقى کى بنیاد ماں کے رحم میں پڑتى ہے _
بچے کى خوش بختى یا بد بختى کى اساس ماں کے بطن میں ہى رکھى جاتى ہے_
رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
ہر شخص کى سعادت اور بدبختى اس وقت سے شروع ہوتى ہے جب وہ ماں
کے رحم میں ہوتا ہے _ (3)
دوران حمل ایک نہایت حساس اور ذمہ دارى کا زمانہ ہے _ ایک خاتون کہ جو اپنى اہم ذمہ دارى سے واقف ہو وہ دوران حمل کو ایک معمولى زمانہ تصور نہیں کر سکتى اور اس سے بے پرواہ نہیں رہ سکتى کیونکہ اگر وہ تھوڑى سى بھى غفلت یا سہل انگارى سے کام لے تو ممکن ہے اس کى اپنى صحت خراب ہوجائے یا اس کا بچہ ناقص ہوجائے ، یا بیمار پڑجائے اور ہمیشہ کے لئے بد نصیب بن کر دنیا میں آئے _ اور سارى عمر آہ و زارى کرتا رہے _
ایک دانشور لکھتے ہیں :
ماں کا بدن اور پر انداز ہونے والے واقعات بچے کے پروان چڑھنے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بچہ ماں کے بدن کى نسبت حساس تر ہو تا ہے چونکہ ماں کا بدن تو کممل ہو چکا ہوتا ہے اور اسے ابھى تکمیل کے مراحل طے کرنا ہو تے ہیں _ لہذا ہر عورت کا یہ فریضہ ہے کہ اپنے بچے کے پہلے گھر کے لیے بہترین ماحول فراہم کرنے کى کوشش کرے اور ایسا وہ صرف اسى صورت میں کرسکتى ہے کہ جب اسے معلوم ہو کہ کون سغ واقعات اور امور بچے کے رشد پر اثر انداز ہوتے ہیں صرف اس امر سے ڈرتے رہنا کہ بچے کا رشد معمول کے خلاف ہو بچے کى بھلائی کے لیے کافى نہیں ہے اور ان عوامل سے عفلت کہ جواس چیز کا باعث بنتے ہیں کیس درد کى دوا نہیں بن سکتى _ انسان کا رشد کس طریقے سے ہوتا ہے اور کس طریقے سے اس میں تبدیلیان جنم لیتى ہیں اگر ماں اس سے واقف ہو تو وہ اپنى ذمہ دارى ادا کر سکتى ہے بچے کى نشوو نما کے لیے ولادت سے پہلے یاولادت ک بعد اسک کامل ماحول کى ضمانت کبھى بھى ممکن نہیں البتہ قدر مسلم یہ ہے کہ تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ ایک سالم اور صحت مند بچہ دنیا میں آئے یہ والدین اور گھر کے بڑے افراد کى ذمہ دارى ہے کہ بچے کو صحیح و سالم دنیا لانے کى کوشش کریں _ البتہ جہالت طبعى حوادث کونہیں روک سکتى _ اگر انسان کو یہ خبرنہ ہو کہ بچہ کس طرح نشوو نما پاتا ہے تویہ بے خبرى آنے والوں کى بدبختى کا باعث بنتى ہے _ دنیا میں بے نقص آنا ہر انسان کا حق ہے (4)
1_ بیوگرافى پیش از تولد ص 16
2_ راز آفرینش انسان _ ص _ 108------_
3_ بحار الانوار _ ج 77_ص 133نیز ج 77_ ص 115
4_ بیو گرانى پیش از تولد ص 184