پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

كھيل كود

کھیل کود

جیسے سانس لینا بچے کے لیے ضرورى ہے ایسے ہى کھیل کوداس کے لیے ایک فطرى امرہے _ پر ائمرى و مڈل میں بچے کى سب سے بڑى سرگرمى اور مشغولیت کھیل ہے _ اس کے بعد آہستہ کم ہوجاتى ہے اور پھر ضرورى کام اس کى جگہ لے لیتے ہیں _ کھیل کے لیے بچے کے پاس دلیل نہیں ہے _ البتہ وہ ایسا نہیں کرسکتاکہ کھیلے نہ _ بچہ ایک موجود زندہ ہے اور ہر موجود زندہ کو چاہیے وہ فعّال رہے _ کھیل بھى بچے کے لیے ایک قسم کى فعالیت اور کام ہے بچے کانہ کھیلنا اس کى بیمارى اور ناتوانى کى علامت ہے _ اسلام نے بھے بچے کى فطرى ضرورت کى طرف توجہ دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اسے آزاد چھوڑا جائے تا کہ وہ کھیلے _

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا:

بچے کہ سات سال تک آزاد چھوڑدیں تا کہ وہ کھیلے _ (1)

رسول اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک مرتبہ بچوں کے پاس سے گزرے کہ جومٹى سے کھیل رہے تھے _ آپ(ص) کے بعض اصحاب نے اہیں کھیلنے سے منع کیا _

رسول اللہ نے فرمایا:

انہیں کھیلنے دومٹى بچوں کى چراگاہ ہے _ (2)
 

کھیل بچے کے لیے ایک فطرى ورزش ہے _ اس سے اس کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں _ اس کى فہم اورعقلى قوتوں کو کام میں لاتى ہے اور اسے مزید طاقت عطا کرتى ہے _ بچے کے اجتماعى جذبات اور احساسات کو بیدار کرتى ہے _ اسے معاشرتى زندگى گزارنے اور ذمہ داریوں کو قبول کرنے پر آمادہ کرتى ہے _

ماہرین نفسیات کھیل کے اصلى محرک کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے جو تحقیقات کى ہیں وہ ہمارے کام کى ہرگز نہیں ہیں ہمارے لیے جو اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس فطرى امر سے بچے کى تعلیم و تربیت کے لیے استفادہ کریں اور اس کى آئندہ کى زندگى کو بہتر بنانے کے لیے اسے کام میں لائیں _ ایک ذمہ دار مرّى کو نہیں چاہیے کہ وہ کھیل کو بس ایک مشغولیت شمارکرے اور اس حساس اورپر اہمّیت عرصے کو بے وقعت سمجھے _ بچے کھیل کے دوران خارجى دنیا سے آشنا ہوتا ہے _ حقائق سمجھنے لگتا ہے _ کام کرنے کا انداز سیکھتاہے _ خطرات سے بچنے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم دست ہونے ، مشق کرنے اور مہارت حاصل کرنے کا انداز سیکھتا ہے _ اجتماعى کھیل میں دو دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا اوراجتماعى قوانین کى پابندى کرنا سیکھتا ہے _

دیلیم اسٹرن لکھتے ہیں :

کھیل صلاحیتوں کے رشد و نمو کا ایک فطرى ذریعہ ہے یا آئندہ کے اعمال کے لیے ابتدائی مشق کے مانند ہے _ (3)

الیکسى میکیم دیچ گورکى لکھتے ہیں:

کھیل بچوں کے لیے جہاں ادراک کى طرف راستہ ہے _ وہ راستہ کہ جس پہ وہ زندگى گزارتے ہیں ، وہ راستہ کہ جس پہ بدل کے انہیں جانا ہے _ کھیلنے والا بچہ اچھلنے کودنے کى ضرورت پورى کرتا ہے چیزوں کے خواص سے آشنا ہوتا ہے _ کھیل بچے کو آداب معاشرت سیکھنے میں مدد دیتا ہے _ بچے نے جو کچھ دیکھا ہوتا ہے اور جو کچھ وہ جانتا ہے اسے کھیل میں ظاہر کرتاہے _ کھیل اس کے احساس کو مزیدگہرا کردیتا ہے اور اس کے تصورات کو واضح تر بنادیتا ہے _ بچے گھر بناتے ہیں _ کارخانہ تعمیر کرتے ہیں _ قطب شمالى کى طرف جاتے ہیں _ فضا میں پرواز کرتے ہیں ، سرحدوں کى حفاظت کرتے ہیں اور گاڑى چلاتے ہیں _

آنٹن سمیو نویچ ماکارنو جو روس کے معروف ماہر امور پرورش ہیں ، کہتے ہیں : کھیل میں بچہ جیسا ہوتا ہے، بڑا ہوکر کام میں بھى ویسا ہى ہوگا _ کیونکہ ہر کھیل میں ہر چیز سے پہلے فکر و عمل کى کوشش کارفرما ہوتى ہے _ اچھا کھیل اچھے کام کے مانند ہے _ جو کھیل آشکارہوتا ہے اس میں بچے ے احساسات اور آرزوئیں ظاہر ہوتى ہیں _ کھیلنے والے بچے کو غور سے دیکھیں _ اسے دیکھیں کو جو پروگرام اس نے اپنے لیے بنایا ہے اس پر کیسے حقیقت پسندى سے عمل کرتا ہے _ کھیل میں بچے کے احساسات حقیقى اور اصلى ہوتے ہیں _ بڑوں کو ان سے کبھى بھى بے اعتناء نہیں رہنا چاہیے _ (4)

ولیم میکڈوگل رقم طراز ہیں:

قبل اس کے کہ فطرت میدان عمل میں داخل ہو، کھیل کسى شخص کے فطرى میلان کا مظہر ہوتا ہے _ (5)

لہذا بچہ اگر چہ کھیل میں ظاہراً کوئی اہم مرسوم کام انجام نہیں دے رہا ہوتا لیکن اس کے باوجود کھیل کام سے کوئی نمایان فرق بھى نہیں رکھتا _ اسى کھیل کے دوران میں بچے کے فطرى اور ذاتى میلانات ظاہر ہوتے ہیں اسى میں اس کا اجتماعى و انفرادى کردار صحت پذیر ہوتا ہے اور اس کے مستقبل کو روشن کرتا ہے _ بچے کے سرپرستوں کو چند قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے_

بعض ایسے ہیں جو کھیل کو بچے کا عیب اور بے ادبى کى علامت سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ حتى المقدور بچے کو کھیل سے بازرکھیں تا کہ وہ آرام سے ایک گوشے میں بیٹھا رہے _

کچھ ایسے بھى ہیں جو بچوں کے کھیل کے مخالف نہیں ہیں اور وہ بچے کو کھیلنے کے لیے آزاد چھوڑدیتے ہیں اور اس کے کھیل میں کوئی دخل بھى نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ بچہ خود ہى اچھى طرح جانتا ہے کہ کسے اور کس چیز سے کھیلا جائے _

تیسرى قسم ایسے سرپرستوں کى ہے جو بچوں کے کھیل کے لیے مشغولیت کے علاوہ کوئی ہدف نہیں سمجھتے _ وہ کھیل کے مقصد کى طرف توجہ کیے بغیر بچوں کے لیے کھیل کا سامان خرید تے ہیں کھیل کا اچھا برا سامان خرید کر بچوں کے ہاتھوں میں تھمادیتے ہیں اور اپنے گھر کو کھیل کے سامان کى دوکان بنادیے ہیں لیکن بچوں کے کھیل میں کوئی دخل اندازى نہیں کرتے بچہ اپنى مرضى سے کھیلتا ہے ، بگاڑتا ہے اور پھینک دیتا ہے ہنستا ہے اورخوش ہوتا ہے اوراپنے خوبصورت کھلونوں کى بناء پر دوسروں پر فخر کرتا ہے _

چوتھى قسم ایسے سرپرستوں کى ہے جو نہ صرف بچے کو کھیل کى اجازت دیتے ہیں بلکہ ان کے کھیل پر پورى نظر بھى رکھتے ہیں _ اور گوئی مشکل پیش آجائے تو وضاحت کرتے ہیں اور اس مشکل کو حل کرتے ہیں _بچے کوموقع نہیں دیتے کہ مشکلات میں اپنى فکر و عقل کو استعمال کرے اور اپنى صلاحیت سے مشکلات کو حل کرے، اس طرح سے بچے میں خود صلاحیت پیدانہیں ہوتى اور اس کى قوت ارادى پروان نہیں چڑھتى بلکہ وہ تمام تر ماں باپ پر انحصار کرتا ہے کہ وہ فوراً اس کى مدد کو لپکیں _

ان چاروں میں سے کوئی طریقہ بھى پسندیدہ اور سودمند نہیں ہے کہ جسے بچے کى تعلیم و تربیت کے لیے مفید اور بے نقص قراردیا جائے _ ہر ایک میں ایک یا زیاہ نقص موجود ہیں _

بہترین روش کو جو ایک ذمہ دار اور آگاہ مربى اختیار کرسکتا ہے یہ ہے کہ _

اولاً: بچے کو کاملاً آزاد چھوڑ دے تا کہ وہ اپنے میلان کے مطابق کھیلے _

ثانیاً: اس کے کھیلنے کے لیے ضرورى چیزیں فراہم کرے _

ثالثاً: کھیل کے لیے ایسى چیزوں کا انتخاب کرے کہ جن سے بچے کى فکر اور دماغى صلاحیتوں کو تقویت پہنچے اور دوسرى طرف اس میں کوئی فنى پہلو بھى موجود ہونا چاہیے جوبچے کو مفید کاموں کے لیے تشویق کرے اور اسے اجتماعى اور معاشرتى امور اور کاموں کى انجام وہى پر آمادہ کرے کھیلوں کى زیادہ تر چیزیں وقت اور پیسے کے ضیاع کے علاوہ کچھ ثمر نہیں رکھتیں _

مثلاً اگر آپ اس کے لیے بجلى سے چلنے والى کاریاریل گاڑى خریدیں یا کوئی اور چیز _

خریدیں تو آپ کا بچہ صرف ایک تماشہ بن جائے گا _ سارادن اسى میں گمن رہے گا _ اسے دیکھے گا _ ہنسے گا _ نہ اس میں کوئی اس کى فکر استعمال ہوگى _ نہ کوئی ایسى چیز یاد کرسکے گا جو آئندہ زندگى میں اس کے کام آسکے _

کھیلنے کے لیے بہترین چیزیں کھیل کا وہ سامان ہے جو فنى پہلو رکھتا ہو اور نامکملہوجسے بچے مکمل کریں مثلاً کسى عمارت کے مختلف حصے اور ٹکڑے ہوں _ نامکمل تصویرں _ سلائی اور کڑھائی کا سامان ، بجلى کى لائن بچھانے اور دیگر میکانیاتى کام _ اسى طرح بڑھئی اور دیگر فنون سے متعلقہ چیزں _ زراعت اور درخت لگانے میں درکار اشیاء ٹریکٹر ، اور کھیتى باڑى کى مشنیں _ دھاگا بننے اور کپڑے بننے کى مشینیں ڈرائنگ اور مصور ہى و نقاشى کى اشیاء _ الگ الگ الف، ب ، اسى طرح سکھلانے اور بنانے کى چیز یں اور مجموعى طور پر کھیل کا وہ ستاسامان کو جو بچے کے کام آسکے اور وہ اسے بناتا رہے _ بگاڑے پھر بنائے اور اس طرح سے اپنے تجربے اور پہچان کو بڑھاتا رہے _ کھیل کا ایسا سامان بچے کى دماغى صلاحیت کو تقویت پہنچاتا ہے اور اسے مفید اجتماعى کاموں کى طرف راغب کرتا ہے اور اسے تعمیرى اور پیدادارى سرگرمیوں کے لیے ابھارتا ہے _ نہ کہ اسے ایک تماشائی اور صارف اور خرچ کرنے والا بنادیتا ہے _

اس کے بعد بچہ کو راہنمائی کى ضرورت ہوتى ہے تو ایک اچھا مربى بچوں کے کھیل کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور اس پر نظررکھتا ہے _ کھیل کى نگرانى بذات خود ایک طرح کى تعلیم و تربیت ہے _

ایک آگاہ اور ذمہ دار مربى کھیل کا مفید سامان بچے کے سپرد کرنے کے بعد اسے آزاد چھوڑدیتا ہے تا کہ وہ کھیلے اور اس میں اپنى فکر کو استعمال کرے لیکن بالواسطہ وہ کھیل کى نگرانی کرتا ہے اور جہاں ضرور ى ہو اس کى مدد کرتا ہے _

مثلاً اگر اس کے لیے کئی گاڑى یا ریل گاڑى خریدتا ہے تو اس سے پوچھ کہ کار اور ریل گاڑى کس کام آتى ہے _ بچہ سوچنے کے بعد جواب دیتا ہے مسافروں اور سامان کولے جانے کے لیے _ پھر وہ مزید اس میں دخالت نہیں کرتا _ بچہ خود سوچنے لگتا ہے کہ اس پر سامان اور مسافر سوار کرے اور اگر اس کام میں کوئی کمى ہو اور کسى اور چیز کى ضرورت ہو تو وہ خود اسے مہیا کرے گا _ اگر گاڑى میں یا کسى اور کھلونے میں کوئی فنى خرابى پیدا ہوجائے تو نہ آپ خود اس خرابى کو دورکریں اور نہ اس کے لیے کوئی اور کھلونا خریدیں _ بلکہ خودبچے کوتشویق کریں کہ وہ اس کى خرابى کو دور کرے اور مجموعى طور پر اس کمے مسائل حل کرنے میں بلا واسطہ دخالت نہ کریں _ بلکہ اس سلسلے میں خود بچے سے کام لیں اور اس کى راہنمائی کریں تا کہ اس میں اپنے آپ پر اعتماد پیدا ہو اور اس کا ذوق اور ہنر ظاہر ہونے لگے اگر آپ اپنى بیٹى کے لیے گڑیا خریدیں تو اسے بالکل کامل صورت میں نہ خریدیں بلکہ اس کى تکمیل کرنے کے لیے خود بیٹى سے کہیں _ اگر آپ بیٹى سے پوچھیں کہ اس گڑیا کے لیے کیا چیز ضرورى ہے تو وہ سوچنے کے بعد جواب دے گى کہ اسے لباس کى ضرورت ہے _ پھر آپ اسے کپڑادے سکتے ہیں تا کہ وہ اس کے لیے لباس تیارکرے _ آپ کى راہنمائی میں وہ اپنى گڑیا کے لیے لباس تیار کرے گى _ اس پہنائے گى _ اس کے کپڑے دھوئے گى گڑیا کے لیے کھانا تیار کرے گى _ اس کا منہ دھوئے گى _ اسے نہلائے گى _ اسے سلادے گى _ پھر اسے جگائے گى پھر اسے مہمان کے طور پر لے جائے گى _ پھر اس کو بات کرنا اور ادب آداب سکھائے گى اس طرح سے بیٹى گڑیا سے کھیلے گى _ لیکن ایک سودمند مفید اور تعمیرى کھیل_

اس وقت آپ یہ دیکھیں گے آپ کى بیٹى نے جو کچھ دیکھا یا سنا ہے وہ اپنى گڑیا پر آزمائے گى بچہ ایک مقلّد ہے _ بہت سے کام اپنے ماں باپ، بھائی بہنوں اور دوسرے لوگوں کى تقلید میں انجام دیتا ہے _ کھلونے اس وقت مفید ہیں جب بچہ ان سے کھیلے اور کام اور ہنر سیکھے نہ یہ کہ انہیں حفاظت سے رکھے اور ان کى حرکات کو کافى سمجھے اور دوسرے بچوں پر فخر کرے _ کھلونوں کے لیے ایک مخصوص جگہ ہونا چاہیے جہاں بچہ کھیل کے بعد انہیں رکھ سکے _ اس جگہ کى صفائی اور تنظیم و ترتیب بچے کے ذمّے ہونى چاہیے _

کھلونے بہت زیادہ نہیں ہونے چاہئیں کہ بچہ ان میں الجھارہے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ اسے کس کے ساتھ کھیلنا ہے بلکہ ضرورى مقدار پر اکتفاء کرنا چاہیے _ ضرورى نہیں کہ کھلونے بہت خوبصورت اور مہنگے ہوں _ خود بچہ کاغذ ، گتے ،ڈبّے ، ٹکٹوں و غیرہ کے ذریعے کھلونے بنا سکتا ہے یا جو کھلونے اس نے خریدے ہیں انہیں کھل کر سکتا ہے _

مجموعى طور پر کھیل کو چند قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1_ انفرادى کھیل کہ جس میں بچہ خو اکیلا ہى کھیل سکتا ہے _

2_ اجتماعى کھیل کہ جو دوسروں سے مل کر کھیلا جاتا ہے

3_ فکر کھیل کہ جو فہم و امداک کو تقویت پہنچاتا ہے _

4_ ورزشى کھیل کہ جو جسم اور پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے _

5_ حملے اور دفاع کا کھیل کہ جس میں کھلاڑى حملہ اور دفاع کے بارے میں سیکھتا ہے _

6_ ایک دوسرے سے تعاون کرکے کھیلا جانے والا کھیل کہ جس میں دوسروں سے تعاون کى روح کو تقویت پہنچائی جا سکتى ہے _

ابتداء میں بچہ انفرادى کھیل کھیلتا ہے _ اس مرحلے میں بچے کو آزاد چھوڑدینا چاہیے تا کہ وہ کھلونے سے کھیلتا رہے _ لیکن مربّى کى ذمہ دارى ہے کہ اس کے کھیل پر نظر رکھے اس کے لیے کھلونوں کا انتخاب کرے اس کى دماغى قوت کو کام میں لائے اور اس کى سوجھ بوجھ میں اضافہ کرے دوسرى طرف ، مربى یہ بھى دیکھے کہ بچے کا کھیل فنّى اور پیدا دارى پہلو بھى رکھتا ہوتا کہ اسے مفید اجتماعى کاموں کا عادى بنایا جا سکے ، کبھى بچہ یہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ اپنا کوئی کھلونا توڑبگاڑدے اور پھر اسے دوبارہ ٹھیک کرے _ اسے اس کام میں آزادى دینا چاہیے کیوں کہ وہ تجربہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے فنّى پہلو کو سیکھنا چاہتا ہے _ لیکن اگر اسے کوئی مشکل دور پیش آجائے تو مربّى کو چاہیے کہ اس کى راہنمائی کرے _

کچھ عرصے بعد بچہ کسى حد تک اجتماعى مزاج کا حامل ہوجاتا ہے _ اس موقع پر اسے اجتماعى اور گروہى کھیل پسند ہوتے ہیں _ جب مربّى دیکھے کہ بچہ معاشرے کى طرف متوجہ ہے اور اجتماعى کھیل کھیلنے کا آرزو مند ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کى حوصلہ افزائی کرے تا کہ بچے کا یہ اجتماعى جذبہ دن بدن ترقى کرتا جائے _ اس مرحلے پر بھى مربى کے لیے ضرورى ہے کہ وہ بچے کے کھیل پر نظر رکھے اور اسے مفید اجتماعى کھیلوں کى طرف راہنمائی کرے _ زیادہ مروّج کھلیں فٹ بال ، والى بال اور باسکٹ با ل ہیں _(6) اکثر بچے اسکول میں اور اسکول سے باہر اپنے فارغ اوقات انہى کھیلوں میں گزارتے ہیں _ یہ کھیلیں اگر بچہ پٹھوں کى ورزش اور مضبوطى کے لیے سودمند ہیں لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ ان کھیلوں میں ایک بہت بڑا نقص بھى ہے وہ یہ کہ حملہ آور ہونے کى کھیلیں ہیں اور ایسى کھیلیں بچے میں جنگجوئی اور تشدد پسندى کا مزاج پیدا کردیتى ہیں _ ان کھیلوں میں حصّہ لینے والے بچوں کى پورى توجہ اس جانب مبذول ہوتى ہے کہ اپنے ساتھیوں یعنى دوسرے انسانوں پر کس طرح برترى حاصل کى جائے اور انہیں کیسے مغلوب اور شکست خورد کیا جائے اور یہ انسان کے لیے ایک برى صفت ہے _ ان کھیلوں میں اگر چہ تعاون بھى ہوتا ہے لیکن یہ تعاون بھى دوسرے انسانوں پر غلبہ حاصل کرنے کى نیت سے ہوتا ہے _ ان کھیلوں سے بھى بدتر کشتى اور باکسنگ ہے _ جو کہ ابتدائی انسان کے وحشى پن کى ایک کامل یادگار ہے _ کالش اس طرح کے کھیل بالکل رائج نہ ہوتے اور ان کى جگہ ایسے کھیل مرسوم ہوتے جن میں اجتماعى تعاون کى روح کارفرما ہوتى اور بچوں میں انسان دوستى کے جذبے کوتقویت ملتى اور وہ فائدہ مند پیداوارى سرگرمیوں کى طرف متوجہ ہوتے _ رسل اس ضمن میں تحریرکرتے ہیں:

آج کى انسانیت پہلے کى نسبت بہت زیادہ فکرى پرورش اور باہمى تعاون کى محتاج ہے کہ جس کا سب سے بڑا دشمن مادہ پرستى ہے _

انسان رقابت آمیز اعمال اور مزاحمت و حسد کا محتاج نہیں ہے کیونکہ یہ تو وہ چیزیں ہیں کہ جو کبھى انسان پر غالب آجاتى ہیں اور کبھى وہ ان پر غالب آجاتا ہے _ (7)

باعث افسوس ہے کہ سرپرست حضرات نہ فقط یہ کہ اس امر کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ دانستہ یا نا دانستہ ایسے کھیلوں کى بہت زیادہ ترویج کررہے ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کو حدّ سے زیادہ ان میں مصروف کررہے ہیں _ اے کاش اسکولوں اور کالجوں کے سمجھدار اور ذمہ سرپرست اس بارے میں کوئی چارہ کار سوچتے اور ہمدرد ماہرین کے ذریعے فائدہ مند اجتماعى کھیلوں کو رواج دیتے جو ایسے مذکورہ کھیلوں کى جگہ لے سکتے _

اس سلسلہ بحث کے آخر پر اس نکتے کا ذکر بھى پر اس نکتے کا ذکر کر بھى ضرورى ہے کہ بچھ کو اگر چہ کھیل کى ضرورت ہے اور یہ اس کے لیے ضرورى ہے لیکن کھیل کے اوقات محدود ہونے چاہئیں _ ایک سمجھدار اور با شعور مرّبى بچے کے کھیل کے اوقات اس طرح سے مرتب کرتا ہے کہ بچہ خود بخود اجتماعى اور سودمندپیدا وارى سرگرمیوں کى طرف مائل ہو جاتا ہے _ یوں زندگى کے دوسے مرحلے میں کھیل کو چھوڑ کرحقیقى اور سودمند کام انجام دینے لگتا ہے _ ایسا مربى اس امر کى اجازت نہیں دیتا کہ بچے کا مزاج ہى کھیل کودکا بن جائے اور اس کا کمال یہى کھیل کود بن جائے او ر وہ اس بات پر فخر کرنے لگے کہ میںبہترین کھلاڑى ہوں _

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا :

جو کھیل کارہیا ہو گا کامیاب نہ ہو سکے گا _ (8)

رسل اس کے متعلق لکھتا ہے

یہ نظریہ کہ کسى انسان کى شخصیّت کا معیار کھیل میں اس کا سابقہ ہے ، ہمارے سماجى عجزو تنزل کى علامت ہے کہ ہم یہ بات نہیں سنجھ سکے کہ ایک جدید اور پیچیدہ دنیا میں رہنے کے لیے معرفت اور تفکر کى ضرورت ہے (9)

اجتماعى کھیلوں کى ایک مشکل یہ ہے کہ ان سے بچوں میں کدورت اور لڑائی جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے _ اکٹھے کھینے والے بچے کبھى ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے بھى ہیں _

ایسے موقع پر سرپرست حضرات کى ذمہ دارى ہے کہ فورا دخالت کریں اور ان میں صلح و محبت پیدا کرکے انہیں کھیل میں مشغول کردیں یہ کام اتنا مشکل بھى نہیں ہے کیونکہ ابھى تک عناد اور دشمنى بچوں کے دل میں جڑ پیدا نہیں کرچکى ہوتى _ اس لیے وہ بہت جلد ایک دوسرے سے پھر گھل مل جاتے ہیں _

بد قسمتى سے بعض اوقات بچوں کا جھگڑا بڑوں میں سرایت کرجاتا ہے اور وہ کہ جو عقل مند ہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑ ے ہو جاتے ہیں _ پھرماں باپ بغیر تحقیق کے اور کى بات سمجھے بغیراپنے بچے کا دفاع شروع کردیتے ہیں اور یہ امر کبھى لڑائی جھگڑا مار پیٹ یہاں تک کہ کبھى تھا نے تک جاپہنچتا ہے _ جب کہ ایسا کرنے سے بچوں کى غلط تربیت ہوتى ہے اور یہ بچے پر بہت بڑا ظلم ہے جو بچے ایسے واقعے کو دیکھتا ہے سو چتا ہے کہ جق و حقیقت کى کوئی اہمیّت نہ8یں اور کسى کو حق سے سرو کاو نہیں اور ہر ماں باپ تعصب کى بنا پر اپنے بچے کا دفاع کررہے ہیں _ اس طرح کا بچہ بے جا تعصب اور حق کشى کا عملى سبق اپنے ماں باپ سے لیتا ہے اور کل کے معاشر ے میں اس سے کام لیتا ہے

 


1_ وسائل ج 15 ص 193
2_ مجمع الزوائد ج 8 ص 159
3 _ روانشناسى کودک تالیف دکتر جلالى ص 331
4_ روان شناسى تجربى کودک ص 130
5_ روان شناسى کودک از ڈاکٹر جلالى ص 332
6_ ایران میں یہى کھیل زیادہ رائج ہیں (مترجم)
7_ در تربیت ص 121
8_ غر الحکم ، ص 854
9_ در تربیت ص 122