حسد
حسد ایک برى صفت ہے حاسد شخص ہمیشہ دوسروں کى خوشى اور آرام و سکون کو دیکھ کررنج اور دکھ میں مبتلا رہتا ہے کسى اور شخص کے پاس کوئی نعمت دیکھنے کے بعد غمگین ہو جاتا ہے اور اس سے نعمت کے چھن جانے کى آرزو کرتا ہے _ چونکہ عموماً یہ کسى کو کسى قم کا نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اس سے وہ نعمت بھى نہیں چھین سکتا لہذا غمگین رہتا ہے اور حسد کى آگ میں دن رات جلتا رہتا ہے _ حاسد شخص دنیا کى لذت اور آسائشے سے محروم رہتا ہے حسد اور کینہ پرورى انسان پرورى انسان پر عرصہ حیات تنگ کردیتے ہیں _ اور انسان سے راحت و آرام چھین لیتے ہیں _
پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
''حاسد انسان کو سب لوگوں سے کم لذت اورخوشى محسوس ہوتى ہے '' _(1)
حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:
''حسد حاسد کى زندگى کو تاریک کردیتا ہے '' _(2)
امیر المومنین على علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:
''حاسد شخص کو ہرگز راحت اور مسرت نصیب نہیں ہوتى '' _(3)
حسد انسان کے دل اور اعصاب پر بے اثر مرتب کرتا ہے اور انسان کو بیمار اور علیل کردیتا ہے _
حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:
''حاسد شخص ہمیشہ بیمار اور علیل رہتا ہے '' _(4)
حسد ایمان کى بنیادوں کو تباہ کردیتا ہے اور انسان کو گناہ اور نافرمانى پہ ابھارتا ہے بہت سے قتل ، جرم ،جھگڑے، لڑائیاں اور حق تلفیاں حسد ہى کى بنیاد پر ہوتى ہیں _ حاسد کبھى محسود کى غیبت اور بدگوئی کرتا ہے اور اس پہ تہمت بھى لگاتا ہے اس کے خلاف باتیں بناتا ہے _ اس کا مال ضائع کرتا ہے _
اما م باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
''حسد ایمان کو یوں تباہ کردیتا ہے جیسے آگ ایندھن کو جلادیتى ہے '' _(5)
حسد انسان کى طبیعت کا حصہ ہے _ ایسا شخص کوئی کم ہى ہوگا کہ جو اس سے خالى ہو _ پیغمبر اکرم اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
''تین چیزیں ایسى ہیں کہ جن سے کوئی شخص نہ ہوگا _
_ گمان بد،
_ فال بد
_ او رحسد(6)
لہذا اس برى صفت کا پورى قوت سے مقابلہ کیا جانا چاہیے اور اسے بڑھنے اور پھلنے پھولنے سے روکنا چاہیے _ اگر اس برى عادت کو نظر انداز کردیا جائے تو چوں کہ اس کاریشہ انسان کى طبیعت کے اندر ہوتا ہے لہذا یہ پھلنے پھولنے لگتى ہے اور اس حد تک جا پہنچتى ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا اور اس کا قلع قمع کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے _ بہترین موقع کہ جب اچھے اخلاق کى پرورش کى جاسکتى ہے اور برے اخلاق کو پھلنے پھولنے سے روکا جاسکتا ہے بچپن کا زمانہ ہے _ اگر چہ یہ چھوٹى عمر میں ہى بچوں کى طبیعت میں موجود ہوتا ہے لیکن ماں باپ اپنے اعمال اور طرز عمل سے اس برى عادت کو تحریک بھى کرسکتے ہیں اور اس کا قلمع قمع بھی_ اگر ماں باپ1پنى سارى اولاد سے عادلانہ سلوک کریں اور کسى کو دوسرے پہ ترجیح نہ دیں _ لباس ،خوراک کے معاملے میں ، گھر کے کاموں کے معاملے میں _ جیب خرچ اور اظہار محبت کے معاملے میں میل جول کے معاملے میں عدالت و مساوات کو ملحوظ نظر رکھیں چھوٹے بڑے میں _ خوبصورت اور بدصورت میں _ بیٹے بیٹى میں _ با صلاحیت اور بے صلاحیت میں کوئی فرق نہ کریں تو بچوں میں حسد پروان نہیں چڑھے گا اور ممکن ہے تدریجاً ختم ہى ہوجائے _ بچوں کى موجودگى میں کبھى کسى ایک کى تعریف و ستائشے نہ کریں اور ان کا آپس میں موازنہ نہ کریں _ بعض ماں باپ تعلیم و تربیت کے لیے اور بچوں کى تشویق کے لیے ان کا آپس میں موزانہ کرتے ہیں مثلاً ہتے ہیں احمد بیٹا دیکھ تمارى بہن نے کتنا اچھا سبق پڑھا ہے کتنے اچھے نمبر لاتى ہے _ گھر کے کاموں میں ماں کى مدد کرتى ہے ، کتنى با ادب اور ہوش مند ہے _ تم بھى بہن کى طرح ہو جاؤ تا کہ امّى ابو تم سے بھى پیار کریں _ یہ نادان ماں باپ اس طرح چاہتے ہیں کہ اپنے بچے کى تربیت کریں جب کہ ایسا بہت کم ہوتاہے کہ اس طریقے سے مقصد حاصلہ ہو _ جب کہ اس کے برعکس معصوم بچے کے دل میں حسد اور کینہ پیدا ہوجاتا ہے اور اسے حسد اور دشمنى پر آمادہ کردیتا ہے _ ہوسکتا ہے اس طرح سے بچہ کے دل میں اپنى بہن یا بھائی کے لیے کینہ پیدا ہوجائے اور وہ اسے نقصان پہنچانے پر تل جائے اور سارى عمران کے دل میں حسد اور دشمنى باقى رہے _
کبھى اپنے بچوں کا دوسرے بچوں سے موازنہ نہ کریں اور اپنى اولاد کے سامنے دوسروں کى تعریف نہ کریں _ یہ درست نہیں ہے کہ ماں باپ اپنى اولاد سے کہیں فلاں کے بیٹے کو دیکھو کتنا اچھا ہے کتنا با ادب ہے _ کتنا اچھا سبق پڑھتاہے _ کتنا فرمانبردار ہے گھر کے کاموں میںامّى ابّو کا کتنا ہاتھ بٹاتا ہے _ اس کے ماں باپ کس قدر خوش قسمت ہیں _ ان کے حال پہ رشک آتاہے _ ایسے ماں باپ کو سمجھنا چاہیے کہ اس طرح کاموازنہ اور اس طرح کى سرزنش کا نتیجہ حسد کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا _ زیادہ تر ان کا نتیجہ الٹ ہى نکلتا ہے اور انہیں ڈھٹاتى اور انتقام پر ابھارتا ہے _
ماں باپ کو ایسے طرز عمل سے سختى ہے پرہیز کرنا چاہیے _ البتہ سارے بچے ایک سے نہیں ہوتے کوئی بیٹا ہے کوئی بیٹى ہے _ کوئی باصلاحیّت ہے کوئی نہیں ہے کوئی خوش اخلاق ہے کوئی بد اخلاق ہے کوئی خوبصورت ہے کوئی نہیں ہے _ کوئی فرمانبردار ہے کوئی نہیں ہے _ کوئی تیز کوئی سست ہے _ ہوسکتا ہے ماں باپ ان میں سے کسى ایک سے دوسروں کى نسبت زایدہ محبت کرتے ہوں اس میں کوئی حرج نہیںہے _ دل کى محبت اور پسند انسان کے اختیار میں نہیں ہے _ اور جب تک اس فرق کا عملاً اظہار نہ ہو تو یہ نقصان دہ نہیں ہے _ لیکن ماں باپ کو عمل اور زبان سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے سے سختى سے بچنا چاہیے _ عمل ، گفتار ،اور اظہار محبت کرتے ہوئے مساوات اور برابرى کو پورى طرح سے ملحوظ رکھنا چاہیے اس طرح سے کہ بچہ محسوس نہ کرے کہ دوسرے کو مجھ پر ترجیح دى جا رہى ہے _ اگر آپ کسى بچے کو اس کے کام پر تشویق کرنا چاہیے ہیں تو مخفى طور پر کریں _ دوسرے بہن بھائیوں کى موجودگى میں نہ کریں _ البتہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ماں باپ عادلانہ طرز عمل اور مساوات بہن بھائیں کى موجودگى میں نہ کریں _ البتہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ماں باپ عادلانہ طرز عمل اور مساوات سے بہن بھائیوں کے درمیان محبّت سے حسد بالکل ختم کردیں _ کیونکہ حسد انسان کے باطنى مزاج میں موجود ہوتا ہے _ ہر بچے کى خواہش ہوتى ہے کہ وہى ماں باپ کو زیادہ لاؤ لاہو اور اس لے علاوہ دوسرا ان کے دل میں نہ سمائے _ جب وہ دیکھتا ہے کہ ماں باپ دوسرے سے اظہار محبت کررہے ہیں تو اسے اچھا نہیں لگتا اور اس کے دل میں حسد پیدا ہوتا ہے لیکن اس کا کوئی چارہ نہیں _ بچے کو آہستہ آہستہ یہ بات سمجھنى چاہیئے کہ وہ تنہا ماں باپ کا محبوب نہیں بن سکتا _ دوسروں کا بھى اس میں حق ہے_ ماں باپ اپنے عاقلانہ اور عادلانہ طرز عمل سے بچے کو دوسرے بہن بھائیوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کرسکتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوسکے اس ک حسد سے بچا سکتے ہیں _
اگر آپ دیکھیں کہ آپ کا بیٹا دوسرے بھائی یا بہن سے حسد کرتا ہے _ اسے اذیت کرتا ہے _ مارتا ہے ، چٹکیاں لیتا ہے _گالى دیتا ہے اس کے کھلونے توڑتا ہے ،ان کے حصے کے پھل اور کھانا چھین لیتا ہے _ اس صورت میں ماں باپ خاموش نہیں رہ سکتے کیوں کہ ہوسکتا ہے ان کى خاموشى کے اچھے نتائج نہ نکلیں _ ناچار زیادتى کرنے والے بچے کو انہیں روکنا چاہیے لیکن مارپیٹ سے اصلاح نہیں ہوگى _ کیونکہ اس طریقے سے ممکن ہے صورت حال اور بھى بگڑجائے اور اس کے حسد میں اضافہ ہوجائے _ بہتر ہے کہ اسے سختى سے روکیں اور کہیں میں اجازت نہیں دے سکتا کہ اپنى بہن یا بھائی کو تنگ کرو _ آخر یہ تمہارى بہن ہے اگر تم اسے پیار نہ کروگے تو کون کرے گا او ر یہ تمہارا بھائی ہے تمہیں تو چاہیے کہ دوسرے ان پہ زیادتى کریں تو تم ان کى حفاظت کرو _ یہ تم سے کتنا پیار کرتے ہیں _ اللہ نہ تمہیں کتنے پیارے بہن بھائی دیے ہیں اور ہمیں تم سب سے پیار ہے _ تمہیں نہیں چاہیے کہ ایک دوسرے کو ستاؤ اور تنگ کرو_
آخر میں ضرور ى ہے کہ اس با ت کا ذکر کیا جائے کہ بچوں کے درمیان کامل مساوات کو ملحوظ رکھنا شاید ممکن نہ ہو _ ماں باپ چھوٹے بڑے ،بیٹى اور بیٹے کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیسے کرسکتے ہیں _ بڑے بچوں کو نسبتاً زیادہ آزادى دى جا سکتى ہے _ لیکن چھوٹوں کو آزادى نہیں دى جا سکتى _ بڑے بچوں کو زیادہ جیب خر چ کى ضرورت ہوتى ہے اور چھوٹوں کو نہیں چھوٹے بچوں کو زیادہ ضرورت ہوتى ہے کہ ان کى رکھوالى کى جائے اور ماں باپ انى کى طرف زیادہ توجہ دیں _ کہیں آتے جاتے ہوئے بیٹیوں کى نسبت بیٹوں کو زیادہ آزادى دى جا سکتى ہے اور مناسب بھى نہیں کہ بیٹیوں کو زیادہ آزادى دى جائے _ لہذا مساوات اور عدالت کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ عمر اور جنس کے اختلاف کے تقاضوں کو بھى ماں باپ کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے اور ان کى ضروریات کے فرق کا بھى لحاظ رکھنا پڑتا ہے _ اس وجہ سے خواہ مخواہ فرق پیدا ہوتا ہے لیکن سمجھدار ماں باپ اس طرح کے فرق کو اپنى اولاد کے سامنے بیان کرسکتے ہیں اور انہیں سمجھا سکتے ہیں کہ یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں بلکہ عمر اور جنس کے فرق کى وجہ سے ایسا ہے مثلاً بڑے بیٹیوں سے کہا جا سکتا ہے _ تمہارا یہ بھائی چھوٹا اور کمزور ہے _ خود سے کام نہیں کرسکتا _ اپنے آپ کو گندا کرلیتا ہے _ خود سے کھانا نہیں کھاسکتا _ اسے امى اور ابو کى زیادہ ضرورت ہے لیکن تم ماشاء اللہ بڑے ہوگئے ہو _ تم میں توانائی زیادہ ہے اور تھے کى طرح سے تمہارى دیکھ بھال کى ضرورت نہیں ہے _ اگر ہم اس پر زیادہ وقت لگاتے ہیں تو اس کى وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمیں اس سے زیادہ محبت ہے _ بلکہ چارہ ہى نہیں ہے _ مطمئن رہو کہ ہمارى تم سے محبت کم نہیں ہوگى _ جب تم چھوٹے سے تھے تو اسى طرح سے تمہارا بھى خیال رکھنا پڑتا تھا _
آخر میں اس نکتے کا ذکر بھى ضرورى ہے کہ اسلام کى نظر میں حسد اگر چہ تقبیح اور برا ہے اور اسے گناہوں میں سے شمار کیا گیا ہے لیکن رشک نہ صرف یہ کہ برا نہیں ہے بلکہ جد و جہد ، کوشش اور انسانى ترقى کے عوامل میں سے ہے _ رشک اور حسد میں فرق یہ ہے کہ دوسروں کے پاس کسى نعمت کو دیکھ کر اگر انسان ناراحت ہوجائے اور یہ آرزو کرے کہ یہ ان کے پاس نہ رہے تو یہ حسد ہے _ جب کہ رشک یہ ہے کہ انسان دوسروں سے اس نعمت کے چھن جانے کى آرزو نہ کرے _ بلکہ یہ آرزو کرے کہ یہ نعمت اس کو بھى میسر آئے _ اور یہ آرزو برى نہیں ہے _
ایک صاحب لکھتے ہیں:
میرى ایک بہن تھى مجھ سے دوسال بڑى تھى امى ابو بہن کى نسبت مجھ سے زیادہ پیار کرتے تھے _ جو بھى میں آرزو کرتا فوراً اسے پورا کردیتے _ ہر جگہ مییرے تعریف کرتے لیکن میرى بہن کى طرف کوئی توجہ نہ دیتے _ جب کہ بہن مجھے تنگ کرتى ادھر ادھر جب بھى اسے موقع ملتا مجھے مارتى ہمیشہ مجھے تنگ کرتى رہتى _ برا بھلا کہتى _ مذاق اڑاتى _ میرے کھلونے خراب کردیتى _ اسے اچھ ا نہ لگتا کہ میں ایک منٹ بھى خوش رہوں میں ہمیشہ سوچتا رہتا کہ بہن مجھے آخر تنگ کیوں کرتى ہے آخر میں نے کیاکیا ہے وہ مجھ سے بہت حسد کرتى تھى اور شاید اس کى وجہ وہى ماں باپ کا مجھ سے ترجیحى سلوک تھا _ وہ اپنے تئیں مجھ سے بھلائی کرنا چاہتے تھے لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ بہن مجھ سے انتقام لے گى اور صبح و شام مجھے ستائے گى _ اب جب کہ میرے والدین دینا سے جا چکے ہیں میرى بہن مجھ پر انتہائی مہربان ہے_ وہ تیار نہیں ہے کہ مجھ ذرّہ بھر بھى تکلیف پہنچے _
1_ مستدرک ، ج 2، ص 327
2_مستدرک ، ج 2، ص 328
3_مستدرک ، ج 2، ص 327
4_ مستدرک، ج 2، ص 328
5_ شافى ، ج 1 ، ص 173
6_ مہجة البیضاء ، ج 3 ، ص 189