پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

چورى چكاري

چورى چکاری

کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے بچہ دوسروں کے ماں کى طرف ہاتھ بڑھاتا ہے کھانا ، پھل یا کسى اور بچے کے کھلونے زبردستى لے لیتا ہے _ باپ کى جیب سے یا ماں کے پرس سے چورى چھپے پیسے نکال لیتا ہے _ ماں نے کھانے کے لیے چیزیں چھپا کے رکھى ہوتى ہیں اس میں ہاتھ مارتا ہے _ دکان سے چپکے سے چیزا اٹھا لیتا ہے _ بہن یا بھائی یا ہم جماعت کى پنسل ، پین ، رہبڑیا کا پى اٹھالیتا ہے _ اکثر بچے بچپن میں اس طرح کے کم زیادہ کام کرتے ہیں _ شاید ایسا شخص کوئی کم ہى ملے کہ جسے بچپن کے دنوں میں اس طرح کے واقعات ہر گز پیش نہ آئے ہوں ، بعض ماں باپ اس طرح کے واقعات دیکھ کر بہت ناراحت ہوتے ہیں اور بچے کے تاریک مستقبل کے بارے میں اظہار افسوس کرتے ہیں ، وہ پریشان ہوجاتے ہیں کہ ان کا بچہ آئندہ ایک قاتل یا چور بن جائے گا اس وجہ سے وہ اپنے آپ میں کڑھتے رہتے ہیں _

سب سے پہلے ان ماں باپ کو اس امر کى طرف توجہ دلانا چاہیے کہ زیادہ ناراحت نہ ہوں اور اس پہ اظہار افسوس نہ کریں _ کیونکہ یہ چھوٹى چھوتى چیزیں اٹھالینا یا چرا لینا اس امر کى دلیل نہیں کہ آپ کا بچہ آئندہ شریر ، غاصب اور چور ہوگا ، کیونکہ بچہ ابھى رشد و تمیز کے اس مرحلہ پر نہیں پہنچا کہ کسى کى ملکیّت کے مفہوم کو اچھى طرح سمجھ سکے اور اپنے اور د وسرے کى ملکیت میں فرق کرسکے _ بچے کے احساست اس کى عقل سے زیادہ قوى ہوتے ہیں اس لیے جو چیز بھى اسے اچھى لگتى ہے انجام سوچے بغیر اس کى طرف لپکتا ہے _ بچہ فطرى طور پر شریر نہیں ہوتا اور بچے کى یہ غلطیاں اس کے باطن سے پیدا نہیں ہوتى _ یہ تو عارضى سى چیزیں ہیں _ جب بڑا ہوگا تو پھر ان کا مرتکب نہیں ہوگا _ ایسے کتنے ہى پرہیزگار ، امین اور راست باز انسان ہیں کہ جو بچپن میں اس طرح کى ننّھى منى خطائیں کرتے رہے ہیں _ البتہ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ آپ ایسى خطاؤں کو دیکھ کر کوئی رد عمل ظاہر نہ کریں اور اس سے بالکل لا تعلق رہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کو دیکھ کر بچے کو شریر اور ناقابل اصلاح نہ سمجھ لیں _ ایسے ہى داد و فریاد نہ کرنے لگین بلکہ صبر اور بردبارى سے ان کا علاج کریں _

خاص طور پر دو تین سالہ بچہ اپنے اور غیر کے مال میں فرق نہیں کرسکتا اور ملکیّت کى حدود کو اچھى طرح نہیں سمجھ سکتا _ جس چیز تک اس کا ہاتھ پہنچ جائے اس اپنا بنالیتا چاہتا ہے _ جو چیز بھى اسے اچھى لگے اٹھالینا چاہتا ہے اس مرحلے پر ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ کا کوئی فائدہ نہیں _ اس مرحلہ پر ماں باپ جو بہترین روش اپنا سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ بچے کو عملاً اس کام سے روک دیں _ اگر وہ زبردستى کوئی چیز دوسرے بچے سے لینا چاہے تو اسے اجازت نہ دیں اور اگر وہ لے لے تو اس سے لے کر واپس کردیں _جو چیز وہ چاہتے ہیں کہ بچہ نہ اٹھائے اسے اس کى دسترس سے دور رکھیں _ زیادہ تر بچے جب رشد و تمیز کى حد تک پہنچ جاتے ہیں اور ملکیّت کى حدود کو اچھى طرح جان لیتے ہیں تو پھر دوسروں کے مال کى طرف وہ ہاتھ نہیں بڑھاتے اور چورى نہیں کرتے البتہ بعض بچے اس عمر میں بھى اس غلط کا م کے مرتکب ہوجاتے ہیں _ اس موقع پر ماں باپ کو خاموش اور لاتعلق نہیں رہنا چاہیے یہ درست نہیں ہے کہ ماں باپ اپنے بچے کى چورى چکارى کو دیکھیں اور اس کى اصلاح نہ کریں اور یہ کہتے رہیں کہ ابھى بچہ ہے _ اس کى عقل ہى اتنى ہے جب بڑا ہوگا تو پھر چورى چکا رى نہیں کرے گا _ البتہ یہ احتمال ہے کہ جب وہ بڑاہو تو چورى نہ کرے لیکن یہ احتما ل بہت ہے کہ ان چھوٹى چھوٹى چوریوں سے اسے چورى کى مستقل عادت پڑجائے اور وہ ایک چورا اور غاصب بن کر ابھر سے _ علاوہ ازیں یہ بات بھى درست نہیں ہے کہ بچہ کسى کا یاماں باپ کا مال اٹھا لے اور کوئی اس سے کچھ نہ کہے _ او راس سے بھى بدتر یہ ہے کہ ماں باپ اپنے بچے کے غلط کام پر اسے منع کرنے کى بجائے اس کا دفاع اور اس کى حمایت کرنے لگیں _ اگر کوئی ان سے شکایت کرے کہ ان کے بچے نے اس کا مال چرایا ہے تو یہ شور و غل کرنے لگیں کہ ہمارے

بچے پر یہ الزام لگا یا کیوں گیا ؟

اس طرح کے نادن ماں باپ اپنے طرز عمل سے اپنى اولاد کو چورى چکارى کى تشویق کرتے ہیں اور عملاً انھیں سبق دیتے ہیں کہ وہ چورى کریں اور مکر جائیں اور اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کے لیے شور مچائیں _

اس بناپر ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے اولاد کے غلط کاموں سے لاتعلق رہیں بلکہ انہیں کوشش کرنا چاہیے کہ وہ انہیں ایسے کام سے روکیں _ کہیں ایسا نہ ہو کہ برائی ان کے اندر جڑ پکڑے اور عادت بن جائے اور عادت کو ترک کرنا بہت مشکل ہے _

حضرت على علیہ اسلام فرماتے ہیں:

''عادت کو ترک کرنا انتہائی کٹھن کام ہے '' _(1)

ماں باپ کو پہلے مرحلے پر کوشش کرنا چاہیے کہ ان عوامل کو دور کریں کو جو بچے کى چورى کا سبب بنے ہیں تتا کہ یہ عمل اصلاً پیش ہى نہ آئے _ اگر بچے کو پنسل ، ربٹر، کاپى یا قلم کى ضرورت ہے ت وماں باپ کو چاہیے کہ اس کى ضرورت کو پورا کریں _ کیونکہ اگر انہوں نے اس کى ضروریات کو پورا نہ کیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے ہم درس کى چیز اٹھالے یا ماں باپ کى جیب سے پیسے چورى کرے _ اگر اسے کھیل کے لیے گیندکى ضرورت ہے اور ماں باپ نہ لے کردیں تو ممکن ہے کہ وہ کسى دوسرے بچے کا گیندزبردستى لے لے _ یا محلّے کى دوکان سے چورى کرے _ ماں باپ کو چاہیے کہ حتى المقدور بچے کى حقیقى ضروریات کو پورا کریں _ اور اگر ممکن نہ ہو توبچے کو پیار سے سمجھائیں اور اس کاحل خود اس پہ چھوڑدیں _ مثلاً اسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ تمہارے لیے رنگوں والى پینسلیں خرید سکیں _ تم فلاں دوکان سے ادھار لے لو _ بعد میں اسے پیسے دے دیں گے _ یا آج اپنے دوست سے عاریتاً لے لو بچے پر زیادہ سختیاں اور کنٹرول اور سخت پا بندیاں اس کے ذہن میں چورى کاراستہ پیدا کرسکتى ہیں _ اگر ماں باپ کھانے پینے کى چیزیں کسى المارى میں یا کسى اور ڈبے میں رکھ کر اس کوتا لگادیں اور اس کى چابى چھپالیں تو بچہ اس سوچ میں پڑجائے گا کہ کسى طرح سے چابى ڈھونڈے اور مناسب موقع پاکر اس چیز کو نکالے_ یہ بات خاص طور پر اس وقت ہوتى ہے جب ماں باپ خود کھائیں اور بچے کہ نہ دیں _

جب ماں باپ اپنے پیسے سات تہوں میں کسى جگہ چھپادیں تو ممکن ہے بچے میں تحریک پیدا ہو اور وہ اتنا انہیں تلاش کرے کہ آخر پالے _ ممکن ہو تو ماں باپ کو پیسے زیادہ بھى باندھ باندھ کر نہیں رکھنے چاہئیں _ انہیں بچوں سے مل جل کر اور ہم رنگ ہوکر رہنا چاہیے اور ان کے ساتھ افہام و تفہیم پیدا کرنا چاہیے _ انہیں سمجھائیں کہ زندگى کس حساب کے تحت ہى بسر ہوسکتى ہے کھانے پینے کى چیزوں کى معیّن وقت پر ہى استعمال کرنا چاہیے اور پیسے ضروریات زندگى کى تکمیل کے لیے ہیں انہیں کسى حساب کے مطابق ہى خرچ کرنا چاہیے _

بچوں کہ چورى ، ڈاکے اور قتل کى فلمیں نہیں دکھانا چاہئیں _ ریڈیوا اور کتابوں کى ایسى کہانیوں سے بھى بچوں کو دور رکھنا چاہیے _کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ چورى کرنے کے جرم میں عدالت میں پیش ہونے والے بچوں نے یہ بیان دیا ہے کہ یہ کام انہوں نے سینما یا ٹیلى وین میں ہوتے دیکھا ہے _

سب سے اہم یہ ہے کہ ماں باپ اور گھر کے سارے افراد کوشش کریں کہ ان کے گھر کا ماحول امانت دارى اور سچائی پر مبنى ہو _ دوسروں کى ملکیّت کا احترام کیا جائے اور اس پر تجاوز نہ کیا جائے _ ماں باپ کى اجازت کے بغیر ان کى جیب سے پیسے نہ نکالے اور اسے بتائے بغیر اس کے اموال میں بے جا تصرّف نہ کرے _ شوہر بھى بتائے بغیر زوجہ کى المارى اور سوٹ کیس کو ن چھپیڑے اور اس کے لیے مخصوص چیزوں میں تصرف نہ کرے _ ماں باپ کو بھى بچوں کى ملکیّت کا احترام کرنا چاہیے اور بچوں کى اجازت کے بغیر ان سے مخصوص المارى طور اٹیچى کیس کو ہاتھ نہ لگائیں اور ان کے کھیلوں کے سامان میں تصرّف نہ کریں _

بچے کے چھوٹے سے تجاوز پر اس کى عزّت و آبرو کو نابود کرکے اسے ذلیل و خوار نہ کریں اسے یہ نہ کہیں اسے چور اسے خیانت کرے تم چور بن جاؤ گے اور جیل خانے میں جاؤگے ان توہین خطابات کے ساتھ آپ بچے کو چورى سے نہیں روک سکتے بلکہ اسے سے وہ ڈھیٹ بن جائے گا اور ممکن ہے کہ ان سب باتوں کا انتقام لینے کے لیے وہ بڑى بڑى چوریاں شروع کردے _

وہ بہترین طریقہ کہ ماں باپ کو جس کا انتخاب کرنا چاہیے یہ ہے کہ محبت اور نرمى کے ساتھ بچے کو سمجھائیں چورى کى برائی کو بیان کریں اور ملکیت کى وضاحت کریں _ مثلاً اسے کہیں تم نے جو فلان چیزا ٹھائی ہے وہ کسى اور شخص کى ہے اسے فوراً واپس لوٹادیں _ اور آئندہ ایسا عمل نہ دہرائیں _

لیکن اگر اس طرز عمل سے بھى کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہ کیا جا سکے تو مجبوراً بچے کو سختى اور ڈانٹ ڈپٹ سے روکا جائے اور اگر ناگزیر ہو توبعض مواقع پر مارپیٹ سے بھى بچے کو چورى سے روکا جا سکتا ہے _

 

1_ غرر الحکم ، ص 181