تربیت _ عمل سے نہ کہ زبان سے
بہت سے ماں باپ ایسے ہیں جو تربیت کے لیے وعظ و نصیت اور زبانى امر و نہى کافى سمجھتے ہیں _ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ جب وہ بچے کو امر و نہى کررہے ہوتے ہیں ، اسے زبانى سمجھا بجھارے ہوتے ہیں تو گویا وہ تربیت میں مشغول ہیں اور باقى امور حیات میں وہ تربیت سے دست بردار ہوجاتے ہیں _ یہى وجہ ہے کہ ایسے ماں باپ ننھے بچے کو تربیت کے قابل نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ابھى بچہ ہے کچھ نہیں سمجھ سکے گا _ جب بچہ رشد و تمیز کى عمر کو پہنچتا ہے تو وہ تربیت کا آغاز کرتے ہیں _ جب وہ خوب و بد کو سمجھنے لگے تو اس کى تربیت شروع کرتے ہیں _ جب کہ یہ نظریہ بالکل غلط ہے _ بچہ اپنى پیدائشے کے روز ہى سے تربیت کے قابل ہوتا ہے _ وہ لحظہ لحظہ تربیت پاتا ہے اور ایک خاط مزاج ہیں ڈھلتا چلا جاتا ہے ، ماں باپ متوجہ ہوں یا نہ ہوں _ بچہ تربیت کے لیے اس امر کا انتظار نہیں کرتا کہ ماں باپ اسے کسى کام کا حکم دیں یا کسى چیز سے روکیں بچے کے اعصاب اور حساس و ظریف ذہن روز اوّل ہى سے ایک کیمرے کى طرح تمام چیزوں کى فلم بنانے لگتے ہیں اور اسى کے مطابق اس کى تعمیر ہوتى ہے او ر وہ تربیت پاتاہے _ پانچ چھ سالہ بچہ تعمیر شدہ ہوتا ہے اور جو ایک خاص صورت اختیار کرچکا ہوتا ہے اور جو کچھ اسے بننا ہوتا ہے بن چکتا ہے _ اچھائی یا برائی کا عادى ہوچکتا ہے لہذا بعد کى تربیت بہت مشکل اور کم اثر ہوتى ہے بچے تو بالکل مقلد ہوتا ہے وہ اپنے ماں باپ اور ادھر ادھر رہنے والے دیگر لوگوں کے اعمال، رفتار اور اخلاق کو دیکھتا ہے اور اس کى تقلید کرتا ہے وہ ماں باپ کو احترام کى نظر سے دیکھتا ہے اور انہیں کے طرز حیات اور کاموں کو اچھائی اور برائی کا
معیار قرار دیتا ہے اور پھر اسى کے مطابق عمل کرتا ہے _ بچے کا وجود تو کسى سانچے میں نہیں ڈھلا ہوتا وہ ماں باپ کو ایک نمونہ سمجھ کر ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتا ہے _ وہ کردار کو دیکھتا ہے باتوں اور پند ونصیحت پر توجہ نہیں دیتا _ اگر کردار گفتار سے ہم آہنگ نہ ہو تو وہ کردار کو ترجیح دیتا ہے _
بیٹى اپنى ماں کو دیکھتى ہے اور اس سے آداب زندگى ، شوہر دارى ، خانہ دارى اور بچوں کى پرورش کا سلیقہ سیکھتى ہے اور اپنے باپ کو د یکھ کے مردوں کو پہچانتى ہے _ بیٹا اپنے باپ کے طرز زندگى سے درس حبات لبتا ہے ، اس سے بیو ى اور بچوں سے سلوک کرنا سکیھتا ہے اور اپنى ماں کے طرر عمل سے عورتو کو پہچانتا ہے اور اپنى آئندہ زندگى کے لیے اسى کو دیکھ کر منصوبے بنا تا ہے _
لہذا ذمہ دار اور آگاہ افراد کے لیے ضرورى ہے کہ ابتدامیں ہى اپنى اطلاح کریں _ اگر ان کے اعمال ، کردار اور اخلاف عیب دار ہیں توا ان کى اطلاح کریں _ اچھى صفات اپنائیں نیک اخلاق اختیار کریں اور پسندیدہ کردار ادار کریں _ مختصریہ کہ اپنے آپ کو ایک اچھے اور کامل انسان کى صورت میں ڈھالیں اس کے بعد نئے انسانوں کى تولید اور پرورش کى طرف قدم بڑھائیں _
ماں باپ کو پہلے سو چنا چا ہیے کہ و ہ کس طرح کا بچہ معاشر ے کے سپرد کرنا چاہتے ہیں اگر انھیں یہ پسند ہے کہ ان کا بچہ خوش اخلاق ، مہربان ، انسان دوست ، خیر خواہ ، دیندار ، با ہدف شریف ، آگاہ حریت پسند ، شجاع ، مفید ، فعال ، اور فرض شناس ہو تو خود انہیں بھى ایسا ہى ہو نا چاہیے تا مہ وہ بچے کے لیے نمونہ عمل قرار پائیں _ جس ماں کى خواہش ہو کہ اس کى بیٹى فرض شناس ، خوش اخلاق ، مہربان ، سمجھدار ، شوہر کى وفادار ، باتمیز ، ہر طرح کے حالات میں گزر لبسر کر لینے والى اور نظم و ضبط حیات حاصل کرے _ اگر ماں بد اخلاق ،بے ادب ، سست ، بے نظم ، بے مہر ، کثیف ، دوسروں سے زیادہ توقع با ند ھنے والى اور بہانہ ساز ہو تو وہ صرف و عظ و نصیحت سے ایک اچھى بیٹى پروان نہیں چڑھا سکتى _
ڈاکٹر جلالى لکھتے ہیں _
بچوں کو احساسات اور جذبات کے اعتبار سے وہى لوگ صحیح تربیت وے سکتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے بچپن میں اور باقى تمام عمر صحیح تربیت پائی ہو _ جوماں باپ آپس میں ناراض رہتے ہوں اور چھوٹى باتوں پر جھگڑاتے ہوں ، یا جن لوگوں نے کاردبار کے طور پرپرورش کا سلسلہ شروع کیا ہو اور انھیں تربیت دینے کا کوئی ذوق و شوق نہ ہو _ اور جو بچوں کو نقرت کى نگاہ سے دیکھتے ہوں ، خود حوصلے سے عارى ہوں اور غصیلى طبیعت رکھتے ہوں اور جنیں خود اپنے آپ پر اعتماد نہ ہو وہ بچوں کے جذبات اور احساسات کو صحیح راستے پر نہیں ڈال سکتے (1)
ڈاکٹر جلالى مزید لکھتے ہیں :
بچے کى تربیت جس کے بھى ذمے ہوا سے چاہیے کہ کبھى کبھى اپنى صفات کا بھى جائزہ لے اور اپنى ذمہ داریوں کے بار ے میں سو چے اور اپنى خامیوں کو دور کرے (2)
حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں :
من نصب نفسہ اماماً فلیبدا بتعلیم نفسہ قبل تعلیم غیرہ و لیکن تادیبہ بسیرتہ قبل تادیبہ بلسانہ و معلّم نفسہ و مؤدبہا احق بالاجلال من معلم النّاس و مؤدبہم _ جو شخص دوسروں کا پیشوا بنے چاہیے کہ پہلے وہ اپنے اصلاح کرے پھر دوسروں کى اصلاح کے لیے اٹھے اور دوسروں کو زبان سے ادب سکھانے سے پہلے اپنے کردار سے ادب سکھائے اور جو اپنے آپ کو تعلیم اور ادب سکھاتا ہے وہ اس شخص کى نسبت زیادہ عزّت کا حقدار ہے جو دوسروں کو ادب سکھاتا ہے _ (نہج البلاغہ _کلامت قصار نمبر 73)
حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:
وقّروا کبارکن یوقّرکم صغارکم _
تم اپنے بزرگوں کا احترام کرو تا کہ تمہارے بچے تمہارا احترام کریں _ (غرر الحکم _ ص 78)
پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت ابوذر سے فرمایا:
جب کوئی شخص خود صالح ہوجاتا ہے تو اللہ تعالى اس کے نیک ہوجانے کے وسیلے سے اس کى اولاد اور اس کى اولاد کى اولاد کو بھى نیک بنادیتا ہے _(مکارم الاخلاق _ ص 546)
امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں:
ان سمت ہمّتک لاصلاح النّاس فابدء بنفسک فانّ تعاطیک صلاح غیرک و انت فاسد اکبر العیب_
اگر تو دوسروں کى اصلاح کرنا چاہتا ہے تو اس سلسلے کا آغاز اپنى ذات کى اصلاح سے کر اور اگر تودوسروں کى اصلاح کرنا چاہے اور اپنے آپ کو فاسد ہى رہنے دے تو یہ سب سے بڑا عیب ہوگا _(غرر الحکم ص 278)
تو یہ سب سے بڑا عیب ہوگا _
حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:
انّ الوعظ الّذى لا یمّجہ سمع و لا یعولہ نفع ما سکت عنہ لسان القول و نطق بہ لسان الفعل_
جس نصیحت کے لیے زبان گفتار خاموش ہو اور زبان کردار گویا ہو کوئی کان اسے باہر نہیں نکال سکتا اور کوئی فائدہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا_ (غرر الحکم ص 232)
ایک خاتون اپنے ایک خط لکھتى ہے:
... میرے ماں باپ کے کردار نے مجھ پر بہت اثر کیا ہے انہوں نے ہمیشہ میرے ساتھ اور میرے بہن بھائیوں کے ساتھ مہربانى کى ہے _ میں نے کبھى بھى ان کے کردار اور گفتار میں برائی نہیں دیکھى _ خود ہمارى بہت عادت ویسى ہى ہوگئی _ میں ان کا اچھا اخلاق اور کردار بھلا نہیں سکتى _ اب جب کہ میں خودمان بن گئی ہوں تو کوشش کرتى ہوں کہ کوئی برا کام خاص طور پر اپنے بچوں کے سامنے مجھ سے سرزد نہ ہو _ میرے ماں اور باپ کا کردار میرى زندگى میں میرے لئے نمونہ عمل بن گیا _ میں کوشش کرتى ہوں کہ اپنے بچوں کى بھى اس طرح سے تربیت کروں _
ایک اور خاتون اپنے خط میں لکھتى ہیں:
... جب میں اپنى گزشتہ زندگى کے بارے میں سوچتى ہوں تو مجھے یاد آتا ہے _ کہ میرى ماں چھوٹى چھوٹى باتوں میں ایسے ہى چیختى چلاتى تھى _ اب جب کہ میں خودماں بن گئی ہوں تو میں دیکھتى ہوں کہ تھوڑى سى کمى کے ساتھ وہى میرى حالت بھى ہے _ اس کى سارى بد اخلاقیاں مجھ میں پیدا ہوگئی ہیں اور عجیب مسئلہ یہ ہے کہ میں جتنا بھى کوشش کرتى ہوں کہ اپنى اصلاح کروں نہیں کر پاتى ہوں _ یقینى طور پر میرے لئے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ماں باپ کا کردار اور اخلاق اولاد کى تربیت پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے اور یہ جو کہا جاتا ہے : کہ ماں اپنى تربیت کے ذریعے ایک دینا کو بدل سکتى ہے بالکل درست بات ہے _
1_ روان شناسى کودک_ ص 296_
2_ روان شناسى کودک ص 297_