پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جب بچہ باہر كى دنيا كو ديكھنے لگتا ہے

جب بچہ باہر کى دنیا کو دیکھنے لگتا ہے

بچہ ایک چھو ٹا سا انسان ہوتا ہے اور انسان مدنى با لطبع ہے _ مدد اور تعادن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ زندگى گزار سکتا ہے دوسروں کى طرف توجہ رکھتا ہے ان سے استفادہ کرتا ہے اور انہیں فائدہ پہنچا تا ہے _ لیکن نومولود اپنى زندگى کے ابتدائی مہینوں میں کسى کو نہیں پہچانتا اور دوسروں کى طرف توجہ نہیں کرتا یعنى اجتماعى مزاج ابھى اس میں ظاہر نہیں ہوا ہوتا جب تقر بیا چار ماہ کا ہو جاتا ہے تو آہستہ آہستہ مدنى بالطبع ہونے کے آثار اس میں ظاہر ہو نے لگتے ہیں _ اس وقت وہ اپنے سے خارجى دنیا اور اپنےھ ارد گرد کے موجودات کى طرف توجہ کرتا ہے وہ ماں کى حرکات و سکنات کو دیکھتا رہتا ہے _ ماں کى حرکات پر اپنا رو عمل ظاہر کرتا ہے مسکراہٹ کے جواب میں مسکراتا ہے اور اس کى را بردؤں کے جواب میں اپنے ابردؤں کو حرکت دیتا ہے بچوں کے کھیل کو حیرت سے دیکھتا ہے ، اٹھکیلیاں کرتا ہے اور مسکر اتا ہے دوسروں کے جذبات کو محسوس کرتا ہے ، غصے پر اپنے تیئں پیچھے کھینچ لیتا ہے _

خوش دخرم چر ے اور محبّت آمیز آواز ہو تو ھمک ھمک کر قریب آتا ہے _ وہ چا ہتا ہے کہ اسے بٹھا دیا جائے تا کہ دنیا کو اپنے سامنے دیکھے _

جب بچہ اس مرحلے میں پہنچ جائے تو ماں باپ کو توجہ رکھنا چاہیئے کہ بچے میں اجتماعى احساسات پیدا ہو چکے ہیں اور وہ اب خاندان کا ایک با قاعدہ حصہ بن گیا ہے _ دوسروں کى طرف تو جہ رکھٹا ہے اور ان کے جذبات کو کسى حد تک محسوس کرتا ہے _ اب نہیں چائے کہ اسے بے شعور اور لا تعلق سمجھا جائے اور اس سے لا تعلق ہا جائے _ ان چار اہ کى مدت میں اس نے تجربے کیے ہیں اور چیزوں کو یاد کیا ہے وہ اب خارجى دنیا کو دیکھنے والا اور اجتماعى وجود رکھنے والا انسان ہے _ یہ احساس اگر چہ بہت سادہ اور بار یک ساہے _ لیکن یہ اس کى آئندہ کى مفصّل اجتماعى زندگى کا افق ہے _ اگر ماں باپ اپنے بچے کے اس نئے احساس کو پہچانیں اور سوچ سنجھ کر عقلى بنیاد وں پر اس کى تکمیل کى کوشش کریں تو وہ ایک اجتماعى شعور رکھنے والا مفید انسان پروان چڑھا سکتے ہیں لیکن خارجى دنیا کایہ احساس آہستہ آہستہ دب جاتا ہے اور بچہ داخلى دنیا کى ہو لنا ک وادى کى طرف لوٹ جاتا ہے اور یہ بذات خود نقصان وہ صفات میں سے ہے _ اسى صفت کى وجہ سے انسان گوشہ نشینى پسند کرنے لگتا ہے اور خو د بین ہو جاتا ہے _ معاشر ے اور معاشرتى کاموں سے گریزاں ہو جاتا ہے دوسرں کے بارے میں بد گمال ہو جاتا ہے اور احساس کمترى کا شکار ہو جاتا ہے _ تعاوں اور ہمکار ى سے ڈرتاہے اور خوف کھا تا ہے _

اس موقع پر ماں باپ کے سر پرنئی ذمہ داریاں آجاتى ہیں _ انہیں چا ہیے کہ بچے کو با شعور سمجھیں کہ جو ان کے جذبات کو محسوس کرتا ہے اور ان کے کردار سے اثر قبول کرتا ہے _ بچے کو بھول نہیں جانا چاہیے اور ہمیشہ اس کى طرف تو جہ رکھنا چاہیے اس سے مسکراتے برتٹوں اور اور خوش وو خرم چہرے سے ملاقات کرناچا ہیے _ اس سے محبت آمیز انداز سے بات کرنا چاہیے _ پیار بھر ے انداز سے بوسہ لے کر اس سے اظہار محبت کرنا چا ہیے _ ایک مہربان ماں اپنے سر اور گردن کى حرکت سے ، اپنے چشم و آبرو کے اشار ے سے ، اپنى میٹھى مسکراہٹ سے اور اپنى محبت آمیز گنگنا ہٹ سے بچے کى حس اجتماعى کو تقویّت پہنچا سکتى ہے اور اسے خارجى دنیا کى طرف متوجہ کرسکتى ہے کھیلنے کى اچھى اچھى اور مناسب چیزوں کے ذریعے اسے خارجى دنیا کى طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے _

بچے کى اندرونى خواہشات اگر ٹھیک طریقے سے پورى کردى جائیں تو وہ آرام اور سکون محسوس کرتا ہے _ دوسروں کے بارے میں خوش بین ہوجاتا ہے _لوگوں کو خیر خواہ ، مہربان اور ہمدرد سمجھتا ہے _ جب معاشرہ اس سے اچھا سلوک کرتا ہے اور اس کى اندرونى خواہشات کا مثبت جواب دیتا ہے تو بچہ بھى اس سے خوش بین اور مانوس ہو جاتا ہے _ اس طرح کا طرز فکر بچے کى روح اور جسم پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کى آئندہ زندگى کے لیے اچھى بنیاد بنتا ہے اچھے ماں اور باپ بچے کو مارتے نہیں ، تر ش روٹى سے پیش نہیں آتے اور اس کى زندگى کو تلخ نہیں بنا تے کیونکہ انہیں معلوم ہو تا ہے کہ اس طرح کا احمقانہ رویہ بچے پر روحانى اور نفسیاتى اعتبار سے برے اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کے جذبات اور پاک احساسات کو مجروح کردیتا ہے اور اس کى شکستگى کا باعث بنتا ہے _ اسى غیر عاقلانہ طر ز عمل کا نتیجہ ہى ہو تا ہے کہ بچہ ڈر پوک ، احساس کمتر ى کا شکار ، گوشہ نشین ، بد بین اوردل گرفتہ ہو جاتا ہے _

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ وآلہ و سلّم نے فرمایا :

اپنى اولاد کا احترام کرواور ان کى اچھى تربیت کرد تا کہ اللہ تمہین بخش دے ( 1)


1_ مکارم الاخلاق ص 255