پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

وفائے عہد

وفائے عہد

انسانى زندگى کا نظام عہد و پیمان کے بغیر نہیں چل سکتا _ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ قول و قرار کرتے ہیں یہ عہد و پیمان ہى ہے جس کے ساتھ خاندان تشکیل پاتاہے _ شہروں اور ملکوں کو معاہدے ہى ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہیں _ لوگ اس قول و قرار کو بہت اہمیّت دیتے ہیں اور یہ ان کى اجتماعى زندگى کى بنیاد ہے ایفائے ہد کا ضرورى ہونا ایک فطرى چیز ہے اور ہر انسان فطرتاً اس کو سمجھتا ہے اورعہد و پیمان کى خلاف ورزى کو برا اور قبیح سمجھتا ہے _ ہر شخص جو دوسرے سے عہد و پیمان باندھتا ہے توقع کرتاہے کہ وہ اس کى پاسدارى کرے گا _ جو گروہ بھى اپنے عہد و معاہدوں کا وفادار ہوگا ان کا اجتماعى نظام اچھے طریقے سے چلے گا _ کیوں کہ ان کو ایک دوسرے پر اعتماد اور حسن ظن ہوگا _ وہ نفسیاتى طور پر آرام اور اطمینان سے رہیں گے _ ان کے درمیان زیادہ لڑائی جھگڑا نہیں ہوگا _ وہ اعصاب کى کمزوریوں اور نفسیاتى پریشانیوں میں کم مبتلا ہوں گے _ ان کى زندگى سعادت و خوش بختى سے ہمکنار ہوگى _ لوگ جس قدر بھى اپنے عہد کے زیادہ وفادار ہوں گے وہ زیادہ سکون و آرام سے زندگى گزارسکیں گے _ جب کہ اس کے برعکس جن ملک کے لوگ اپنے عہد کے وفادار نہ ہوں اس کا نظم و ضبط درست نہیں ہوگا ایسے لوگ باہمى لڑائی جھگڑے میں مبتلا رہیں گے _ ان کے درمیان نفسیاتى پریشانیاں ، اضطراب اور بے چینى زیادہ ہوگى _ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کریں گے اور بدگمان رہیں گے _ ہر شخص یا ہر وہ معاشرة کو جو اپنے عہد وپیمان کا پابند ہو دوسروں کے نزدیک عزیز، محترم اور قابل اعتماد ہوگا _ جب کہ عہد شکن لوگ دوسروں کے نزدیک ذلیل اور گھیا سمجھے جائیں گے _ اسلام کامقدس دین ایک فطرى دین ہے اس میں اس حیات آفرین امر پر بہت تاکید کى گئی ہے _ اور ایفائے عہد کو واجب اور ایمان کى نشانیوں میں سے قرار دیا گیا ہے _ مثال کے طور پر

اللہ تعالى قرآن حکم میں فرماتا ہے :

'' اوفو بالعہد ان العہد کان مسئولا''

اپنے وعدے کو پورا کرو کیوں کہ وعدے کے بارغ میں پوچھا جائے گا _ (اسراء ، آیہ 34)

 

اللہ تعاى قرآن حکیم میں ایک دوسرى جگہ فرماتا ہے :

والذین ہم لاماناتہم و عہدہم راعون

(اورکامیاب مومنین کى ایک نشانى یہ ہے کہ ) وہ امانت ادا کرتے ہیں اور عہد کى پاسدارى کرتے ہیں _ (سورہ مومنون _ آیہ 8)

 

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

'' لا لہ دین لمن لاعہد''

''جن شخص کا عہد نہیں اس کا دین ہى نہیں ہے '' _(1)

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جو شخص بھى ا للہ اورروز جزا پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنا وعد ہ و فاکرئے (2)

حضرت على علیہ السلام مالک اشتر سے فرماتے ہیں :

پیمان شکنى سے خدا بھى ناراض ہو تا ہے اور لوگ بھى (3)

حضرت على على السلام فرماتے ہیں :

جس مقام پر اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکتا وہاں وہاں وعدہ ہى نہ کر اور جہاں تو ضمانت پورى نہیں کرسکتا وہاں ضامن نہ بن (4)

اس لئے کہ پورے معاشر ے میں ایفا ئے عہد کا احیاء ہو اور وہ سب لوکوں کى ایک ذمہ دار یکے طور پر جانا جائے تو آپ اس اچھى عادت کو قانون فطرت کى خلاف ورزى سمجھیں تا کہ انہیں ایفا ئے عہد کى عادت پڑے _ اور وعدہ خلافى کو قانون فطرت کى خلاف ورزى سمجھیں _ ایفائے عہد کى تربیت بچپن میں اور گھر کے ماحول سے شروع کى جانا چاہیے _ بچہ ماں باپ کى طرف احترام کى نظر سے دیکھتا ہے اور گفتار و کردار میں ان کى تقلید کرتا ہے _ ماں باپ بچے کے لیے نمونہ عمل ہیں ، بچے کا ذہن بہت حساس ہوتا ہے اور بہت چھوٹى چھوٹى چیزوں کى تصویر بھى اس کے ذہن میں نقش ہوجاتى ہے _ وہ ماں باپ کے کاموں کو بہت گہر نظر سے دیکھتا ہے اور آئندہ کى نزدگى میں اس سے استفادہ کرتا ہے _ بچہ اپنى طبیعت اور فطرت کے باعث ایفائے عہد کے ضرورى ہونے کو سمجھتا ہے جب ماں باپ اس سے وعدہ کرتے ہیٹ تو اسے ان سے توقع ہوتى ہے کہ وہ اپنے وعدہ پر عمل کریں گے _ اگر وہ عمل کریں تو بچہ ایفائے عہد کا عملى درس ان سے حاصل کرتا ہے _ لیکن اگر وہ اپنا وعدہ پورا نہ کریں تو اسے دکھ ہوتا ہے اور ماں باپ کو غلط کام کرنے والا سمجھتا ہے _ جس گھر میں ماں باپ اپنے وعدے پر عمل کریں آپس میں اپنے بچوں سے اور دوسرے لوگوں سے وعدہ خلافى نہ کریں اس گھر کے بچوں میں بھى ایفائے عہد کى عادت ہوگى _ جب کہ اس کے برعکس جس گھر میں ماں باپ اپنے وعدوں ہر روز ماں باپ کى عہد شکنى کو دیکھتے ہیں ان کى نظر میں ایفائے عہد کى کوئی حیثیت نہیں _ اور وعدے کو فقط چکرا اور فریب دینے کا بہانہ سمجھتے ہیں _

اگر ماں باپ خود عہد شکن ہوں اور جھوٹے وعدوں سے بچے کو فریب دیں اور اپنے وعدے پر عمل نہ کریں _ یا اپنے غلط طرز عمل سے معصوم بچوں کو عہد شکنى کا سبق دیں اور عملاً انہیں سمجھائیں کہ انسان اپنے مفادات کے لیے جھوٹے وعدے کرسکتا ہے اور پھر انہیں توڑسکتا ہے جو معصوم اور سادہ بچے اپنے ماں باپ سے سینکڑوں جھوٹ اور وعدہ خلافیاں دیکھتے ہیں _ کیا ایسے بچوں سے توقع ہوسکتى ہے کہ وہ باوفا ہوں ماں بچے کو چپ کرانے کے لیے اس سے وعدہ وعید کرتى ہے کہ میں تمہارے لیے مٹھائی لاؤں گى آئس کریم لے کے دوں گى ، ٹافى کھلاؤں گى _ پھل کے کے دوں گى جوتا نیا خریدوں گى نئے کپڑے لاؤں گی، کھلونے خریدوں گى ، تمہیں دعوت پر اور سیر پر لے جاؤں گى یہ وعدے وہ کبھى صرف اس لیے کرتى ہے کہ بچہ کڑدى دوائی پے لے _ اس لیے کہ بچہ ڈاکٹر کے پاس اور انجکشن لگانے والے کے پاس چلاجائے اسے خوشخبریاں دیتى ہے _ اس سے کہتى ہے اگر تو نے فلاں کام کیا تو تجھے پیٹوں گى ، ماڑ ڈالوں گى ، پولیس کے حوالے کہ دوں گى _ گھر سے نکال دوں گى _ تہہ خانے میں بند کردوں گى _ تم سے کوئی بات نہیں کروں گى _ پیسے نہیں دوں گى عید پر تمہارے لیے نئے کپڑے نہیں خریدوں گى _ تمہیں دعوت پہ نہیں لے جاؤں گى تمہارے ابو سے شکایت کروں گى اور ایسى سینکڑوں دہمکیاں _ اگر آپ مختلف خاندانوں اور خود اپنى زندگى پر غورں کریں تو دیکھیں گے کہ ہر روز سادہ لوح بچوں سے کتنے وعدے کیے جاتے ہیں کہ جن میں سے اکثر پرعمل نہیں ہوتا _ کیا ماں باپ جانتے ہیں کہ ان وعدہ خلافیوں کى بچوں کى حساس روح پر کتنى برى تاثیر ہوتى ہے اور اس طریقے سے وہ ان کے بارے میں کتنى بڑى خیانت کے مرتکب ہوتے میں _ بچہ ماں باپ سے جو ناپسندیدہ عمل دیکھتا یا سنتا ہے وہ اس سے اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ اس کے اثرات آخر عمر تک نہیں جاتے _

خاندان ماں باپ کہ جو وعدہ خلافى کرتے ہیں ایک تو وعدہ خلافى کے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں دوسرا وہ ان وعدہ خلافیوں سے اور جھوٹ سے بچے کى بھى تربیت کرتے ہیں کہ جس کا گناہ مسلّمہ طور پر عہد شکنى سے بھى بڑا ہے _

اس وجہ سے اسلام ماں باپ سے کہتا ہے کہ آپ جو وعدہ اپنے بچوں سے کریں اسے حتماً ایفا کریں _

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :

بچوں سے پیار کریں ، ان سے مہربانى سے پیش آئیں اور اگر ان سے کوئی وعدہ کریں تو اسے حتماً پورا کریں _ بچے یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ ان کو روزى دیتے ہیں'' _(5)

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

جب آپ بچوں سے کوئی وعدہ کریں تو اسے حتماً پورا کریں _(6)

 


1_ بحار ، ج 75 ، ص 96
2_ کافى ، ح 2 ، ص 364
3_ بحار ، ج 77 ، ص 96
4_ غرر الحکم ص 801
5_ وسائل، ج 15 ، ص 201، بحار ج 104 ، 92
6_مستدرک ج 2 ، ص 606_