پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سخاوت

سخاوت

جو دو سخا ایک اچھى اور پسندیدہ صفت ہے _ ایک سخى انسان مال و دولت جمع کرنے میں محنت کرتا ہے لیکن مال سے دل بستگى نہیں رکھتا _ وہ دولت چاہتا ہے لیکن خرچ کرنے کے لیے دوسروں کو دینے کے لیے _ وہ مال کو ذخیرہ اندوزى کے لیے جمع نہیں کرتا _ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اچھى زندگى گزارتا ہے اور فلاحى کاموںمیں شرکت بھى کرتا ہے _ وہ محروم اور بے نوا لوگوں کى مدد کرتا ہے _ ایسے لوگ اپنے مال سے صحیح استفادہ اٹھاتے ہیں _

کنجوس شخص مال کو جمع کرنے اور ذخیرہ اندوزى کے لیے اکٹھاکرتا ہے ، خرچ کرنے کے لیے نہیں اس سے نہ وہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ اس کا خاندان _ نہ ہى دل اسے راہ خیر میںخرچ کرنے کو چاہتا ہے _ ایسا ذخیرہ اندوز شخص ایک ایسا ملازم ہے جو بغیر خواہش کے مال ورثاء کے لیے اکٹھاکرتاہے _

اسلام نے بخل کى مذمت اور سخاوت کى تعریف کى ہے _

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

سخاوت ایمان کا حصّہ ہے اور ایمان بہشت میں لے جاتا ہے _(1)

نبى اکرم (ص) فرماتے ہیں:

سخاوت ایک ایسا شجر بہشت ہے کہ جس کى شاخیں زمین تک پہنچى ہوئی ہیں _ جس نے بھى ان میں سے کوئی ایک شاخ پکڑلى وہ اسے جنت تک لے جائے گى _(2)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

بہشت اہل سخاوت کا گھر ہے _(3)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں:

اللہ جوّاد اور سخى ہے اور وہ سخاوت کو پسند کرتا ہے (4)

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و الہ و سلم فرماتے ہیں:

''بخل وہ درخت ہے کہ جو آتش دوزخ میںاگتا ہے _ اور کنجوس لوگ دوزخ میں جائیں گے '' _(5)

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں:

''مومن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ بخیل اور بزدل ہو '' _(6)

جو د وبخشش دلوں اور محبتوں کوانسان کى طرف جذب کرلیتے ہیں ، لوگ ایک شخى شخص کو پسند کرتے ہیں اس کا احترام کرتے ہیں اور اس کى عزت کرتے ہیں _ جو د و بخشش سے دلوں کو تسخیر کیا جا سکتا ہے اور ان پہ حکومت کى جاسکتى ہے _

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

سخى شخص اللہ کے بندوں اور بہشت کے نزدیک ہے اور آتش دوزخ سے دور ہے _ اور بخیل انسان خدا سے دور ہے اور انسانوں سے بھى دور ہے ، بہشت سے دور ہے ، لیکن آگ سے نزدیک ہے _(7)

بخیل شخص اپنے اموال سے واجب حقوق ادا نہیں کرتا اور اس وجہ سے بھى وہ عذاب اخروى کا حقدار ہوگا سخاوت انسان کى دنیا و آخرت کو آباد کرتى ہے اور بخل انسان کى دنیا و آخرت کو تباہ کردیتا ہے جو دو سخا کى بنیاد دیگر تمام اچھى صفات کى طرح سے فطرى ہے لیکن اسے پروان چھڑھانا بہت حد تک ماں باپ کے اختیار میں ہے _ یہ درست ہے کہ ہر بچہ ایک خاص مزاج رکھتا ہے ، بعض مزاج جود و عطا کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں اور بعض بخل اور کنجوسى کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں _ لیکن بہر حال ماں باپ کى تربیت بلا شک بہت اہم اثرابت مترتب کرتى ہے _ ماں باپ اگر باتدبیر اور داناہوں تو وہ بخل کے اسباب و عوامل کو روک سکتے ہیں اور بچوں کى طبیعت ہیں جودو سخا کى پرورش کر سکتے ہیں _

جو چیز ان میں سے زیادہ اثر رکھتى ہے وہ ماں باپ کا کردار ہے _ ماں باپ بچے کے لیے نمونہ عمل اور سرمشق ہیں _ اگر ماں باپ سخى ہوں خود خرچ کرنے والے ہوں اور نیک کاموں میں شرکت کرنے والے ہوں تو ان کے بچے بھى ماں باپ کا کردار دیکھیں گے اور ان کى تقلید کریں گے _ او ررفتہ رفتہ ان کے ندر بھى اس کى عادت پڑ جائے گى _ اس کے برعکس اگر والدین بخیل اور کنجوس ہوں تو ان کے بچے بھى زیادہ تر انہیں کا نمونہ اپنائیں گے اور کنجوسى کے عادى بن جائیں گے _ اخلاق کو پروان چڑھانے میں عادت بہت کردار ادا کرتى ہے _

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:

'' اپنے نفس کو بخشش کا عادى بناؤ اور ہر خلق میں سے بہتر کا انتخاب کرو کیونکہ خوبى عادت کى شکل اختیار کر لیتى ہے _ (8)

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:

''سخاوت اچھى عادتوں میں سے ہے '' (9)

 

حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا:

''انان کى گنہکار ى کے لیے یہى کافى ہے وہ اپنے خاندا کے لیے کچھ خرچ نہ کرے اور اسے محروم رکھے'' (10)

ماں باپ بچے میں سخاوت اور بخشش کے جذبے کو فروع دینے کے لیے مندرجہ ذیل طریقوں سے استفادہ کرسکتے ہیں _

1_ بچوں سے کہیں کہ جو چیزوں ان کى ہیں ان میںسے کچھ ماں باپ کو یا بہى بھائی کو دے دیں اور جب ایسا کریں تو ان کى تعریف و ستائشے کریں _ اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ آہستہ آہستہ انہیں سخاوت کى عادت پڑجائے _ البتہ اس امر کى طرف توجہ رکھیں کہ ممکن ہے شروع شروع میں یہ عمل بچوں کے لیے مشکل ہو _ لہذا یہ علم کبھى کبھى اور کم مقدار میں ہونا چاہیے _ اور اس میں زبردستى بھى نہ کى جائے کہیں الٹ نتیجہ نہ نکل آئے اور بچے سرکشى نہ کرنے لگیں _

2_ کبھى کبھى بچوں سے کہیں کہ وہ اجازت دیں کہ ان کے کھلونوں سے دوسروے بچے کھیلیں _ اسى طرح انہیں نصیحت کریں کہ ان کے پاس جو کھانے کى چیزیں ہیں وہ اپنے دوستوں اور ہم جولیوں کو دیں اور اس امر پر ان کو شاباش بھى دیں _

3_ کبھى کبھى انہیں نصیحت کریں کہ وہ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ غریب لوگوں کو دیں _ یا کسى کار خیر میں صرف کریں _ اور اگر یہ کام ایک دائمى شکل اختیار کرے تو اس کا اثر بہتر ہوگا _

4_ اپنے بچوں سے کہیں کہ وہ اپنے دوستوں کى گھر پہ دعوت کریں اور پھر ان کى خاطر تواضع کریں _

5_ آپ ہر روز کچھ پیسے بچے کو دے سکتے ہیں کہ وہ کسى غریب کو دے یا کار خیر میں صرف کرے _

6_ غریب لوگوں کى مشکلات اور ان کى زندگى کى دشواریوں کو بچوں سے بیان کریں ممکن ہو تو انہیں اپنے ہمراہ ہسپتال ، یتیم خانوں اور غریب مسکین اور گھروں میں لے جائیں اور ان کى موجودگى میں ضرورت مند وں کى مدد کریں _

اس طریقے سے آپ بچوں کے احساسات کو تحریک کر سکتے ہیں او ران کى طبیعت میں سخاوت کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں تا کہ آہستہ آہستہ وہ قوى ہوجائے اور ایک عادت اور اخلاق کى شکل اختیار کرے البتہ ہم اس بات کے مدعى نہیں ہیں کہ اس طرح کے کام سب بچوں پر سو فیصد کامیاب اثر ڈالیں گے اور سب کے اندر جو د و سخا کا جذبہ پیدا کردیں گے _ آپ کو بھى روشن امید نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ہر شخص کى ایک خاص استعداد ہوتى ہے اور خصوصى مزاج ہوتا ہے کہ شاید جسے انہوں نے ماں باپ سے یابزرگوں سے درثے میں پایا ہو _ لیکن یہ دعوى یقینا کیا جا سکتا ہے کہ بچوں کے لیے ماں باپ کى تربیت اور کوشش بے اثر نہیں رہے گى _ اور کچھ نہ کچھ ان پر ضرور اثر کرے گى _ کامل نتیجہ نہ بھى نکلے تو بھى بے نتیجہ تو نہیں رہے گى _

ایک خاتون اپنے ایک خطر میں لکھتى ہے :

... ... ایک پر فضا مقام پر ہمارا ایک باغ تھا اس میں مختلف قسم کے پھل تھے امى او او رہمارى دادى اماں کچھ پھل حاجت مندوں کو بھیجى تھیں _ جو خدمت گزار ہوتے ان پر ان کى خصوصى عنایت ہوتى تھى _ اور یہ کام وہ میرے ذریعے سے انجام دیا کرتى تھى _ چھ ، سات سال کى عمر سے مجھے اس کام کى عادت پڑگئی ، گاؤں میں دو نابینا خاندا ن تھے _ میرا دل ان کى حالت پہ بہت کڑھتا تھا _ ہر روز جب میں ان کے گھر جاتى ان کا ہاتھ پکڑتى ،کمرے سے انہیں صحن میں لے آتى اور پھر صحن سے انہیں کمرے میں لے جاتى اور چشمے سے ان کے برتن بھى کر ان کے کمرے میں رکھ دیتى وہ میرے لیے دعا کرتے جب مین نے یہ بات اپنى امّى ابو کو بتائی وہ بہت خوش ہوئے _ میرے ابو نے یہ شعر پڑھا
شکر خداى کن کہ موفق شدى بہ خیر
زانعام و فضل خود نہ معطل گذاشتت میرى امى نے کہا جو نابینا ہوجا ئے وہ واقعاً ہى مستحق ہے _

وہ ہمیشہ اچھے کاموں میں مجھے تشویق کرتے _ میں اپنا جیب خرچ جمع کرتى اور فقرا کو دے دیتى آہستہ آہستہ اس کام کى مجھے عادت ہوگئی _ اس وقت میں سماجى خدمت کے ایک ادارے میں :ام کرتى ہوں اور چودہ خاندانوں کى سرپرستى کر رہى ہوں _

میرے طرز علم نے میرے بچے پر بھى اچھا اثر کیا ہے ایک دن کہنے لگا کہ ہر روز مجھے کچھ دیا کریں مں نے کہا کیا کروگے ؟ او رکتنے پیسے کہنے لگا ہر روز دو روپے مین چاہتا ہوں جمع کروں ہر روز میں اسے دو روپے دے دیتى ہوں _ اور کہتى دعاین رکھنا فضول خرچى نہ کرنا _ چند دنوں بعد وہ اپنا گلاّلے آیا اس میں اڑتالیس روپے تھے کہنے لگا امّى مجھے اجازت دیں یہ پیسے میں فلان نابینا کو دے آؤں وہ ہمارے سکول کے راستے میں رہتا ہے _ مجھے بے حد خوشى ہوئی اور میں نے بے اختیار اس کو چوم لیا _

 

 

1_ جامع السعادت ، ج 2 ، ص 113
2_ جامع السعادات ، ج 2، ص 113
3_ جامع السعادات ، ج 2، ص 114
4_جامع السعادات ، ج 2، ص 113
5_جامع السعادات ، ج 2، ص 110
6_جامع السعادات ، ج 2، ص ص 111
7_ مہجة البیضاء ، ج 3 ، ص 248
8_ بحار، ج 77، ص 213
9_ غرر الحکم ، ص 17
10_ رسائل ، ج 15، ص 521