پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

صحت و صفائي

صحت و صفائی

بچے کا لباس سال کے مختلف موسموں اور آب دہوا کے اعتبار سے ایسا تیارکنا چاہیے کہ نہ اسے ٹھنڈے مگے اور نہ ہى گرمى کى شدت سے اس کا پسنہ بہتا رہے اور اسے تکلیف محسوس ہو _ نرم اور سادہ سوتى کپڑے بچے کى صحت اور آرام کے لیے بہتر ہیں _ تنگ اور چپکے ہوئے لباس بچے کى آزادى کو سلب کرلیتے ہیں اور ایسا ہونا اچھا نہیں ہے _ ان کو تبدیل کرتے وقت بھى ماں اور بچے دونوں کو زحمت ہوتى ہے _ اکثر لوگوں میں رواج ہے کہ بچے کو سخت کپڑوں میں پیک کردیتے ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں مضبوطى سے باندھ دیتے ہیں _ ظاہراً ایسا کرنا اچھا نہیں ہے اور بچے کے جسم اور روح کے لیے ضرر رساں ہے _ اس غیر انسانى عمل سے اس ننھى سى کمزور جان کى آزادى سلب کرلى جاتى ہے _ اسے اجازت نہیں دى جاتى کہ وہ آزادى سے اپنے ہاتھ پاؤں مارے اور حرکت دے سکے اس طرح سے اس کى فطرى نشو و نمااور حرکت میں رکاوٹ پیدا ہوتى ہے _

ایک مغربى مصنف لکھتا ہے :

جو نہى بچہ کے پیٹ سے نکلتا ہے اور آزادى سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دیتا ہے تو فوراً اس کے ہاتھ پاؤں کو ایک نئی قید و بند میں جکڑدیا جاتا ہے _ پہلے تو اسے پیک کردیتے ہیں _ اس کے ہاتھ پاؤں کو دراز کرکے زمین پر سلادیتے ہیں اور پھر اس کے جسم پر اتنے کپڑے اور لباس چڑھاتے ہیں اور کمربند باندھتے ہیں کہ وہ حرکت تک نہیں کر سکتا ... اس طرح سے بچے کى داخلى نشو و نما کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتى ہے اس خارجى رکاوٹ کى وجہ سے رک جاتى ہے کیونکہ بچہ نشو و نما اور پرورش کے لیے اپنے بدن کے اعضاء کو اچھى طرح سے حرکت نہیں دے پاتا ... جن ممالک میں اس طرح کى وحشیانہ دیکھ بھال کا معمول نہین ہے اس علاقے کے لوگ طاقت دریاقوى ، بلند قامت اور متناسب اعضا ء کے حال ہوتے ہیں _ اس کے برعکس جن علاقوں میں بچوں کو کس باندھ دیا جاتا ہے وہاں پر بہت سے لوگ لولے لنگڑے ، ٹیڑے میڑھے، پست قامت اور عجیب و غریب ہوتے ہیں ... کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کى پرورش اور ایسے وحشیانہ عمل اس کے اخلاق اور مزاج کى کیفیّت پر نامطلوب اثر نہیں ڈالیں گے _ سب سے پہلا احساس اس میں درد اور قید و بند کا ہوتا ہے کیونکہ وہ ذرا بھى حرکت کرنا چاہتا ہے تو اسے رکاوٹ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا اس کى حالت تو اس قیدى سے بھى برى ہوتى ہے جو قید بامشقت بھگت رہا ہوتا ہے _ ایسے بچے ایسے ہى کوشش کرتے رہتے ہیں ، پھر انہیں غصہ آتا ہے _ پھر چیختے چلاتے ہیں ... اگر آپ کے بھى ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں تو آپ اس بھى زیادہ او ربلند تر چیخیں چلائیں _

بچہ بھى ایک انسان ہے اس میں بھى احساس اور شعور ہے وہ بھى آزادى اورراحت کا طلب گار ہے _ اسے بھى اگر کس باندھ دیا جائے اور اس کى آزادى سلب کرلى جائے تو اسے تکلیف ہوتى ہے _ لیکن وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا اس کا ایک ہى ردعمل ہے گریہ و زارى اور دادو فریاد اور اس کے سوا اس کا کوئی چارہ ہى نہیں _ یہ دباؤ، بے آرامى اور تکلیف تدریجاً بچے کے اعصاب اور ذہن پر اثرانداز ہوتى ہے اور اسے ایک تند مزاج اور چڑچڑآ شخص بنادیتى ہے بچے کے لباس کو صاف ستھرا اور پاکیزہ رکھیں جب بھى وہ پیشاب کرے تو اس کا لباس تبدیل کریں

 

اس کے پاؤں کو دھوئیں اور زیتون کے تیل سے اس کى مالش کریں تا کہ وہ خشکى اور سوزن کا شکار نہ ہو _ چند مرتبہ پیشاب کے بعد بچے کو نہلائیں اور اسے پاک کریں اس طرح بچے کى صحت و سلامتى میں آپ اس کى مدد کرسکتے ہیں اور اسے بچپنے کى کئی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں _ علاوہ ازیں بچہ نفیس و پاکیزہ ہوگا ، آنکھوں کو بھلا لگے گا اور سب اس سے پیار کریں گے _

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''اسلام دین پاکیزگى ہے _ آپ بھى پاکیزہ رہیں کیونکہ فقط پاکیزہ لوگ بہشت میں داخل ہوں گے '' _(1)

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''بچوں کو چلنا ہٹ اور میل کچیل سے پاک کریں کیونکہ شیطان انہیں سونگھتا ہے پھر بچہ خواب میں دڑتا ہے اور بے چین ہوتا ہے اور فرشتہ ناراحت ہوتے ہیں '' _(2)

بیٹوں کا ختنہ کرنا ایک اسلامى رواج ہے اور واجب ہے _ختنہ بچے کى صحت و سلامتى کے لیے بھى مفید ہے ختنہ کرکے بچے کو میل کچیل اور آلہ تناسل اور اضافى گوشت کے درمیان پیدا ہونے والے موذى جراثیم سے بچایا جا سکتا ہے _ ختنے کو زمانہ بلوغ تک مؤخر کیا جا سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ پیدائشے کے پہلے پہلے دنوں میں ہى یہ انجام پاجائے _ اسلام حکم دیتا ہے کہ ساتویں دن نو مولود کا ختنہ کردیا جائے _

حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اختنوا اولادکم لسبعة ایّام، فانہ اطہر و اسرع لنبات اللحم ، و ان الارض لتکرہ بول الاغلف''

''ساتویں دن اپنے بچوں کا ختنہ کریں _ یہ ان کے لیے بہتر بھى ہے اور پاکیزہ تر بھى نیز ان کى سریع تر نشو و نما اور پرورش کے لیے بھى مفید ہے اور یقینا زمین اس انسان کے پیشاب سے کراہت کرتى ہے کہ جس کا ختنہ نہ ہوا ہو '' _(3)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں:

''اختنوا اولاد کم یوم السابع فانہ اطہر و اسرع لنبات اللحم''

''نو مولد کا ساتویں دن ختنہ کریں تا کہ وہ پاک ہوجائے اور بہتر رشد و نمو کرے '' _(4)

عقیدہ کرنا بھى مستحبات مؤکد میں سے ہے _ اسلام نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ساتویںدن بچے کے بال کٹوائے جائیں اور اس کے بالوں کے وزن کے برابر سونے یا چاندى صدقہ دیا جائے اور اسى روز عقیقہ کے طور پر دنبہ ذبح کیا جائے اور اس کا گوشت فقرا میں تقسیم کیا جائے _ یا انہیں دعوت کرکے کھلایاجائے _ عقیقہ کرنا ایک اچھا صدقہ ہے اور بچہ کى جان کى سلامتى اور دفع بلا کے لئے مفید ہے _

نو مولود نہایت نازک او ر ناتوان ہوتا ہے _ اسے ماں باپ کى توجہ اور نگرانى کى بہت احتیاج ہوتى ہے _ صحت و سلامتى یا رنج و بیمارى کى بچپن میں ہى انسان میں بنیاد پڑجاتى ہے اور اس کى ذمہ دارى ماں باپ پر عائد ہوتى ہے جو ماں باپ اس کے وجود میں آنے کا باعث بنے ہیں ان کا فریضہ ہے کہ اس کى حفاظت اور نگہداشت کے لیے کا وش کریں اور ایک سالم اور تندرست انسان پروان چڑھائیں _ اگرماں باپ کى سہل انگارى اور غفلت کى وجہ سے بچے کے جسم و روح کو کوئی نقصان پہنچا تو وہ مسئول ہیں اور ان سے مؤاخذہ کیا جائے گا _ بچہ دسیوں بیماریوں میں گھر اہوتا ہے ، جن میں سے بہت سى بیماریوں کو لاحق ہونے سے روکا جا سکتا ہے مثلاً بچوں کا فالج ، جسم پر چھالوں کا پیدا ہونا ، خسرہ چیچک ، خناق، تشنج اور کالى کھانسى و غیرہ جیسى بیماریوں سے متعلقہ ٹیکے لگواکر (دیکسنیشن کے ذریعے ) بچے جا سکتا ہے خوش قسمتى سے شفا خانوں اور طبى مراکز میں اس قسم کى بیماریوں کى روک تھام کا انتظام موجود ہے _ اور رجوع کرنے والوں کو اس مقصد کے لیے مفت ٹیکہ لگایا جاتا ہے _ ماں باپ کے پاس اس بارے میں کوئی عذر موجود نہیں ہے _ اگر وہ کوتاہى کریں اور ان کا عزیز بچہ فالج زدہ ہوجائے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجائے یا آخر عمر تک ناقص اور بیماررہ جائے تو وہ خدا اور اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہوں گے _ بہر حال ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ اپنى اولاد کى صحت و سلامتى کى حفاظت کے لیے کوشش کریں اور توانا اور صحیح و سالم انسان پروان چڑھائیں_

 


1_ مجمع الزوائد ج 5 ص 132
2_ بحار الانوار ج 104 ص 95
3_ وسائل الشیعہ ج 15ص 161
4_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 165