پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ماں باپ كى ذمہ داري

ماں باپ کى ذمہ داری

اسلام کى نظر مین ماں باپ کا مقام بہت بلند ہے _ اللہ تعالى نھ ، رسول اکرام نے اور آئمہ معصومین علیہم السلام نے اس بار ے میں بہت تا کید کى ہے اور اس سلسلے میں بہت سى آیات اور روایات موجود ہین _ ماں باپ سے حسن سلوک کو بہترین عبادات میں سے شمار کیا گیا ہے _ ارشاد الہى ہے _

وقضى ربک الا تعبد و االا آیاہ و لاوالدین احسنا

اورتیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ صرف اسى کى عبادت کرو اور والادن کے ساتھ حسن سلوک اختیاد کرو _ ( بنى اسرائیل 23 )

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے _

تین چیزین بہترین عمل ہین :

1_ پابندى وقت کے ساتے نماز نچگہنہ کى اوائیگى _

2_ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور

3_ را خدامیں جہاد (اصول کافى ج 2 ص 158)

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماں ماپ کو سہ مرتبہ کیوں اور کیوں کرملا ہے ؟ کیا اللہ تعالى انے انہیں یہ مقام بلا وجہ عطا کردیا ہے یا ان کے کسى قیمتى عمل کى وجہ سے ؟ ماں باپ بچے کے لیے کون سابڑا کام انجام دیتے ہیں کہ جس کے باعث وہ اس فذر مقام و خدمت کے لائق قرار پاتے ہیں _ باپ نے ایک جنسى جذبے کس تسکین کے لیے ایک خلیہ حیات ( ) رحم مادر میں منتقل کیا ہے _ یہ سیل ماں کى جانب سے ایک اور سیل کے ساتھ مل کرمرکب ہو جاتا ہے جو ایک نئے وجود کے طور پر رحم مادر مین پرورش پاتا ہے _ جونو ماہ کے بعد ایک ننھے منے بچے کى صورت میں زمین پر قدم رکھتا ہے _ اں اسے دودھ او رودسرى غذا دیتى ہے _ اسے کبھى صاف کرتى ہے کبھى کپڑ ے بدلتى ہے اس کى ترى اور خشکى کا خیال رکھتى ہے ان مراحل میں باپ خاندان کے اخراجات پورے کرتا ہے اوران کى دیکے بھال کرتا ہے _ کیاماں باپ کى ان کاموں کے علاوہ کوئی مہ دارى نہیں ؟ کیا انہى کاموں کى وجہ سے ماں باپ کو اس قدر بلند مقام حاصل ہے ؟ کیا صرف ماں باپ اپنى اولاد پر حق رکھتے ہیں اور اولاد اپنے مان باپ پر کوئی حق نہیں رکھتى ؟ میرے خیال میں ایسا یک طرفہ حق تو کوى بھى قبول نہیں کرتا _ احادیث معصومین علیم السلام میں ایسے حقوق اولاد بھى بان فرمائے کئے ہیں کہ جن کى ادائیکى ماں باپ کى ذمہ دارى ہے _ ان میں سے چند احادیث ہم ذیل میں ذکر کر تے ہین :

1_ پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

چنانچہ جس طرح تیرا باپ تجھ پر حق رکھتا ہے تیرى اولاد بھى پر حق رکھتى ہے  (مجمع الزوائد ، ج 8 ، ص 146)

2_پیغمبر اکر م صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

جیسے اولاد اپنے ماں باپ کس نا فرمانى کى وجہ سے عاق ہو حاتى ہے اسى طرح سے ممکن ہے ماں باپ بھى اپنے فریضے کى عدم ادائیگى کے باعث اولاد کى طرف سے عاق ہو جائیں: (بحار ، ج 10 ،ص 93)

3_ رسول کریم صلى اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا :

خدا ایسے ماں باپ پر لعنت کرے جو اپنى اولاد کے عاق ہونے کا باعث بنیں ( مکارم الاخلاق ، ص 518 )

4_ اما م سجّاد علیہ السلام نے فرمایا :

تیر ى اولاد کا حق یہ ہے کہ تو اس پر غور کر کہ وہ برى ہے یااچھى ہے بہر حال تجھى سے وجود میں آئی ہے اوراس دنیا میں وہ تجھى سے منسوب ہے اور تیرى ذمہ دار ہے کہ تو اسے ادب سکھا، اللہ کى معرفت کے لیے اس کى راہنمائی کر اور اطاعت پروردگار میں اس کى مددکر، تیرا سلوک اپنى اولاد کے ساتھ ایسے شخص کاساہونا چاہیے کہ جسے یقین ہوتا ہے کہ احسان کے بدلے میں اسے اچھى جزا ملے گى اور بد سلوکى کے باعث اسے سزاملے گى ''_(مکارم الاخلاق ص 484)

5_ امیر المؤمنین على علیہ السلام نے فرمایا:

''کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرى وجہ سے تیرا خاندان اور تیرے اقربا بدبخت ترین لوگوں میں سے ہوجائیں ''_ (غررالحکم ص 802)

6_ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

''جو کوئی بھى یہ چاہتا ہو کہ اپنى اولاد کو عاق ہونے سے بچائے اسے چاہیے کہ نیک کاموں میں اس کى مدد کرے''_ (مجمع الزوائد ج 8 ص 146)

7_ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

''جس کسى کے ہاں بیٹى ہو اور وہ اسے خوب ادب و اخلاق سکھائے ، اسے تعلیم دینے کے لیے کوشش کرے، اس کے لیے آرام و آسائشے کے اسباب فراہم کرے تو وہ بیٹى اسے دوزخ کى آگ سے بچائے گى '' _(مجمع الزوائد _ ج 8 _ ص 158)

سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالى قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

یا ایہا الذین آمنوا قو اانفسکم و اہلیکم ناراً وقودہا الناس و الحجارة _

اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں _ (سورہ تحریم _ آیہ 6)

بچے نے سبب کہ ابھى وضع زندگى کے بارے میں کوئی راستہ متعین نہیں کیا ہوتا اور سعادت و بدبختى ہر دو کى اس میں قابلیت ہوتى ہے اس سے ایک کامل انسان بھى بنایا جا سکتا ہے اور ایک گھٹیا درجے کا حیوان بھى _ ہر انسان کى سعادت اور بدبختى اس کى کیفیت تربیت سے وابستہ ہے اور اس عظیم کام کى ذمہ دارى ماں باپ کے کندھوں پر ڈالى گئی ہے _ اصولاً ماں باپ کا معنى یہى ہے _ ماں باپ یعنى انسان ساز اور کمال بخشنے والے دو وجود _ عظیم ترین خدمت کہ جو ماں باپ اپنى اولاد کے لیے انجام دے سکتے ہیں وہ یہ ہے اسے خوش اخلاق ، مہربان، انسان دوست ، خیرخواہ، حریت پسند، شجاع ، عدالت پسند، دانا، درست کام کرنے والا، شرافت مند ، با ایمان فرض شناس ، سالم ، محنتى ، تعلیم یافتہ ، اور خدمت گزار بننے کى تربیت دیں _

ماں باپ کو چاہیے کہ اپنے بچے کو اس طرح سے ڈھالیں کہ وہ دنیا میں بھى سعادت مند ہو اور آخرت میں بھى سرخرد_ ایسے ہى افراد در حقیقت ماں باپ کے عظیم مرتبے پر فائز ہو سکتے ہیں نہ وہ کہ جنہوں نے ایک جنسى جذبہ کے تحت اولاد کو وجود بخشاہے اور اسے بڑا ہونے کے لئے چھوڑدیا ہے کہ وہ خود بخود تر بیت پائے _

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

باپ جو اپنى اولاد کو بہترین چیز عطا کرسکتا ہے وہ اچھا ادب اور نیک تربیت ہے _ (مجمع الزوائد _ ج 8 ص 159)

خصوصاً ماں کى اس سلسلے میں زیادہ اہمیت ہے _ حتى کہ دوران حمل بھى اس کى خوراک اور طرز عمل بچے کى سعادت اور بدبختى پر اثر انداز ہوتا ہے _

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:

خوش نصیب وہ ہے کہ جس کى خوش بختى کى بنیاد ماں کے پیٹ میں پڑى ہو اور بدبخت وہ ہے جس کى سعادت کا آغاز شکم مادر سے ہوا ہو _

(بحار الانوار _ ج 77 _ ص115_133)

رسول اکرم (ص) نے فرمایا:

الجنة تحت اقدام الامہات _ (مستدرک _ ج 2 _ ص 638)

 

جو ماں باپ اپنى اولاد کى تعلیم و تربیت کى طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ اپنى رفتار و کردار سے انہیں منحرف بنادیتے ہیں وہ بہت بڑے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں ایسے ماں باپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا اس بے گناہ بچے نے تقاضا کیا تھا کہ تم اسے وجود بخشو کہ اب وجود میں لانے کے بعد اسے تم نے گائے ے بچھڑے کى طرح چھوڑدیا ہے _ اب جب کہ تم اس کے وجود کا باعث بن گئے ہو تو شرعاً اور عقلا ً تم ذمہ دار ہو کہ اس کى تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کرو _ لہذا تعلیم و تربیت ہر ماں باپ کى عظیم ترین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے _

اس کے علاوہ ماں باپ معاشرے کے سامنے بھى جواب وہ ہیں _ آج کے بچے ہى کل کے مرد او رعورت ہیں _ کل کا معاشرہ انہیں سے تشکیل پاناہے _ آج جو سبق سیکھیں گے کل اسى پر عمل کریں گے _ اگر ان کى تربیت درست ہوگئی تو کل کا معاشرہ ایک کامل تراور صالح معاشرہ ہوگا اور اگر آج کى نسل نے غلط پروگرام کے تحت اور نادرست طور پر پرورش پائی تو ضرورى ہے کہ کل کا معاشرہ فاسدتر اور بدتر قرارپائے _ کل کى سیاسى ، علم اور سماجى شخصیات انہیں سے وجود میں آئیں گى _ آج کے بچے کل کے ماں باپ ہیں _ آج کے بچے کل کے مربّى قرار پائیں گے _ اور اگر انہوں نے اچھى تربیت پائی ہوگى تو اپنى اولاد کو بھى ویسا ہى بنالیں گے اور اسى طرح اس کے برعکس _ لہذا اگر ماں باپ چاہیں _ تو آئندہ آنے والے معاشرہ کى اصلاح کرسکتے ہیں اور اسى طرح اگرچاہیں تو اسے برائیں اور تباہى سے ہمکنار کرسکتے ہیں _ اس طرح سے ماں باپ معاشرے کى حوالے سے بھى ایک اہم ذمہ دارى کے حامل ہیں _ اگر وہ اپنے بچوں کى صحیح تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کریں تو انہوں نے گویا معاشرے کى ایک عظیم خدمت سرانجام دى ہے او روہ اپنى زحمتوں کے صلے میں اجر کے حقدار ہیں اور اگر وہ اس معاملے میں غفلت اور سہل انگارى سے کام لیں تو نہ صرف اپنے بے گناہ بچوں کے بارے میں بلکہ پورے معاشرے کے لیے خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں اور یقینى طور پر بارگاہ الہى میں جواب وہ ہوں گے _

تعلیم و تربیت کے موضوع کو معمولى نہیں سمجھنا چاہیے _ ماں باپ اولاد کى تربیت کے لئے جو کوشش کرتے ہیں اور جو مصیبتیں اٹھاتے ہیں وہ سینکڑوں استادوں ، انجینئروں ، ڈاکٹروں اور عالموں کے کاموں پر بھارى ہیں _ یہ ماں باپ ہیں جو انسان کامل پرواں چڑھاتے ہیں اور ایک لائق و دیندار استاد، ڈاکٹر اور انجینئر وجود میں لاتے ہیں _

خاص طور پر مائیں بچوں کى تربیت کے بارے میں زیادہ ذمہ دارى رکھتى ہیں اور تربیت کا بوجھ ان کے کندھوں پر رکھا گیا ہے _ بچے اپنے بچپن کا زیادہ عرصہ ماؤں کے دامن میں ہى گزارتے ہیں _ اور آئندہ زندگى کے رخ کى بنیاد اسى زمانہ میں پڑتى ہے _ لہذا افراد کى خوشبختى اور بدبختى اور معاشرے کى ترقى او رتنزل کى کنجى ماؤں کے ہاتھ میں ہے _ عورت کا مقام وکالت وزارت ، اور افسرى میں نہیں یہ سب چیزیں مقام مادر سے کہیں کم تر ہیں _ مائیں کامل انسانوں کى پرورش کرتى ہیں اور صالح وزیر، وکیل ، افسر اور استاد پروان چڑھاتى ہیں اور معاشرے کو عطا کرتى ہیں _

جو ماں باپ پاک، صالح اور قیمتى بچے پروان چڑھاتے ہیں نہ صرف یہ کہ وہ اپنى اولاد اور معاشرے کى خدمت کرتے ہیں بلکہ خود بھى اسى جہان میں ان کے وجود کى خیر وخوبى سے بہرہ مند ہوتے ہیں _ نیک اولاد ماں باپ کى سرافرازى کا سرمایہ ہوتى ہے اور ناتوانى کے زمانے میں ان کا سہارا ہوتى ہے _ اگر ماں باپ ان کى تعلیم و تربیت کے لیے کوشش کریں تو اسى دنیا میں اس کا نتیجہ دیکھیں گے اور اگر اس معاملے میں غفلت اور سہل انگارى سے کام لیں تو اسى دنیا میں اس کا ضرر بھى دیکھ لیں گے _

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:

برى اولاد انسان کے لیے بڑى مصیبتوں میں سے ہے _ (غرر الحکم _ ص 180)

حضرت على علیہ السلام نے یہ بھى فرمایاہے:

برى اولاد ماں باپ کى آبروگنوادیتى ہے اور وارثوں کو رسوا کردیتى ہے _ (غررالحکم _780)

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

خدا رحمت کرے ان ماں باپ پر جنہوں نے اپنى اولاد کو تربیت دى کہ وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں _(مکارم الاخلاق_ ص 517)

لہذا جو ماں باپ بن جاتے ہیں ان کے کندھے پر ایک بھارى ذمہ دارى آن پڑتى ہے او ریہ ذمہ دارى خدا کے حضور بھى مخلوق کے روبرو بھى اور اولاد کے سامنے بھى ہے _ اگر انہوں نے اپنى ذمہ دارى کو صحیح طریقے سے ادا کردیا تو ان کے لئے ایک عظیم خدمت انجام دى ہے ، وہ دنیا و آخرت میں اس کا نیک صلہ پائیں گے _ لیکن اگر انہوں نے اس معاملے میں کوتاہى کى تو خود بھى نقصان اٹھائیں گے اور اپنى اولاد اور معاشرے کے ساتھ بھى خیانت اور ناقابل بخشش گناہ کے مرتکب ہوں گے _