پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تقليد

تقلید

تقلید کى سرشت انسانى فطرت میں موجود قوى ترین جبلتّوں میں سے ہے یہ بھى ایک سودمند اور تعمیرى سرشت ہے _ اسى طبیعت کى بدولت بچہ بہت سى رسوم زندگى آداب معاشرت کھانا کھنا ، لباس پہننا ، طرز تکلّم ، اور الفاظ اور جملوں کى ادائیگى کا طریقہ ماں باپ اور دوسروں سے سیکھتا ہے انسان ایک مقلّد ہے اوراپنى پورى زندگى میں دوسروں کى تھوڑى یا زیادہ تقلید کرتا ہے لیکن ایک سے پانچ چھ سال کى عمر کے دوران اس میں یہ سرشت زیادہ نمایان ہوتى ہے ، بچہ ایک عرصے تک چیزوں کے حقیقى مصالح اور مفاسد سے ہرگز آگاہ نہیں ہوتا وہ اپنے کاموں کے لیے ایک عاقلانہ اور درست ہدف کا تعین نہیں کرسکتا اس مدت میں اس کى تمام تر توجہ ماں باپ اور ارد گرد کے دوسرے لوگوں کى طرف ہوتى ہے ان کے اعمال اور حرکات کو دیکھتا ہے اور ان کى تقلید کرتا ہے _

لفظ پانى ماں باپ سے سنتا ہے تقلید کرتے ہوئے وہى لفظ اپنى زبان سے ادا کرتا ہے _ پھر اس کے معنى کى طرف توجہ کرتا ہے پھر اسے اس کے موقع پر استعمال کرتا ہے ایک بچى دیکھتى ہے کہ ماں صفائی کرتى ہے اور کپڑے دھوتى ہے وہ بھى بالکل ایسے ہى کام انجام دیتى ہے _ دیکھتى ہے کہ ماں آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتى وہ بھى اس سے بچتى ہے _ وہ دیکھتى ہے کہ وہ پھلوں کو دھوتى ہے ان کے چھلکے اتارتى ہے اور پھر کھاتى ہے وہ بھى یہى عادت اپنا لیتى ہے _ وہ دیکھتى ہے کہ امى ابو اور اس کے بہن بھائی گھر کے امور میں منظم ہیں اور ہر چیز کو اس کى مخصوص جگہ پر رکھتے ہیں وہ بھى اپنى زندگى میں اس نظم کے بارے ان کى تقلید کرتى ہے وہ دیکھتى ہے کہ اس کے ماں باپ ادب سے بات کرتے میں وہ بھى مؤدب ہوجاتى ہے وہ دیکھتى ہے کہ گھر کے چلانے میں ماں باپ اور بہن بھائی ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں وہ بھى اس تعاون میں اپنا حصّہ ادا کرتى ہے _ جب وہ دیکھتى ہے کہ سڑک عبور کرتے ہوئے اس کے ماں باپ اس جگہ سے عبور کرتے ہیں جہاں لائنیں لگى ہوئی ہیں وہ بھى یہى کام انجام دیتى ہے اور رفتہ رفتہ اسے اس کى عادت پڑجاتى ہے جب بیٹا دیکھتا ہے کہ اس کا باپ باغبانى کرتا ہے یا لکڑى کاکام کرتا ہے یا تعمیر کا کام کرتا ہے _ وہ بھى شروع شروع میں وہى کام کھیل کى طرح انجام دیتا ہے اور یہى کھیل ممکن ہے اس کى زندگى کے آئندہ پیشے کے طور پر مؤثر ہو _

بچے کى تعلیم و تربیت اور اسى کى تعمیر میں تقلید کا اثر و عظ ونصیحت سے زیادہ ہوتا ہے _ تقلید خودبخود انچام پاتى ہے اور اس کے لیے کہنے کى ضرورت نہیں پڑتى _ کہ دیکھ امّى کیا کررہى ہے بلکہ کہے بغیر ہى وہ امّى اور ابو کے کام کى طرف پورى توجہ دیتا ہے _ ایک متکبر، بد اخلاق، بے ادب اور بد زبان باپ اپنے بچے کے لیے سرمشق قرار پائے گا _ اور ایک ہٹ ڈھرم ، گستاخ بے ادب اور بد زبان ماں اپنے ننھے بچے کو ایسى ہى برى صفات سے پر کردے گى _

ایک جھوٹا ، بزدل اور خیانت کارمربّى ، ایک سچا ، شجاع اور امانت دار بچہ پروان نہیں چڑھا سکتا _ بچے آپ کى وعظ ونصیحت اور گفتگو پر کوئی توجہ نہیں کرتے وہ آپ کے اعمال اورکردار کى طرف پورى توجہ کترے ہیں اور اسے کے مطابق عمل کرتے ہیں _ لہذا تقلید کى سرشت کو اہم تربیتى عوامل میں سے شمار کیا جا سکتا ہے _ اس مقام پر ماں باپ اورتمام تربیت کرنے والے ایک بہت ہى بھارى ذمہ دارى کے حامل ہیں وہ اپنے کاموں کے بارے میں بے توجہ نہیں رہ سکتے وہ اپنے اچھے اعمال و اخلاق سے اپنے بچوں کے لیے بہترین نمونہ بن سکتے ہیں _ اگر ماں باپ برے ہوں گے تو وہ وعظ و نصیحت سے بچوں کى نیکى اور بھلائی کى طرف ہدایت نہیں کرسکتے _ لہذا جن ماں باپ کو اپنے بچوں سے محبت ہے انہیں چاہیے کوشش کریں کہ پہلے اپنے آپ کى اور گھر کے ماحول کى اصلاح کریں اور اپنے بچوں کے لیے بہترین نمونہ عمل بنیں _ خود ایسا عمل کریں جیسا وہ چاہتے ہوں کہ ان کى اولاد عمل کرے _ تقلید سے روکنا بہت مشکل ہے آپ کوشش کریں کہ اپنى اولاد کے لیے بہترین نمونہ عمل بنیں _

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

اگر آپ دوسروں کى اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اصلاح کریں یہ بہت بڑى برائی ہے کہ آپ دوسروں کى اصلاح کے لیے اٹھ کھڑ ے ہوں اور خود فاسد رہیں ( 1)

پیغمبر اکر م صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوذر سے فرمایا :

اللہ تعالى ماں باپ کى نیکى اور پر ہیز گارى و جہ سغ ان کى اولاد اور پھران کى اولاد کو صلاح اور نیک تربناد ے گا(2)

ایک ذمہ دا ر مربى اپنے بچے کے دوستوں اور ہم جو لیوں سے لا تعلق اور بے توجہ نہیں رہ سکتا کیونکہ بچہ بہت سارے کاموں میں اپنے دوستوں اورہم جو لیوں کى تقلید کرے گا _

بعض اوقات بچہ سینما میں یا ٹیلى وین کى سکر ین پر ادا کاروں کو قتل ، جرم ، چورى ، اور چاقو زنى کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اس کے اندر بھى اس سے تحریک پیدا ہوتى ہے اور وہ بھى و یسے ہى اعمال کرنے لگتا ہے _ آپ مجلوں اور اخبار وں میں ان بچوں کے احوال پڑھتے ہوں گے کہ جو اعمال کرنے لگتا ہے _ آپ مجلوں اور اخبار وں میں ان بچوں کے احوال سینما اور ٹیلى وین میں انہوں نے جو پو لیس کے کام دیکھے یا قتل اور جرم کے مناظر دیکھے تو وہ ان میں تحریک پیدا کرنے کا عامل بن گئے _ ایسى صورت میں کیا بچوں کو ایسى چیزیں دیکھنے کے لیے کھلا چھوڑا جا سکتا ہے ؟


1_ غررالحکام ص 278
2_ مکارم الا خلاق ص 546