پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ضدّى پن

ضدّى پن

سب بچوں میں کچھ نہ کچھ ضدى پن اور خود سرى ہوتى ہے خصوصاً دو سال کى عمر میں _ ضدى بچہ اصرار کرتا ہے کہ جو کچھ بھى اس دل میں آئے انجام دے اور کوئی اس کے راستے میں حائل نہ ہو _ اگر وہ اپنى خواہش کے مطابق کام نہ کرسکے تو پھر وہ روتا ہے چیختا چلاتا ہے تا کہ کوئی راہ مکمل آئے _ اپنے آپ کو زمین پرگھیٹتا ہے _ سر دیوار سے ٹکراتا ہے _ شور مچاتا ہے غصہ کرتا ہے اور کھانا چھوڑدیتا ہے _برتن توڑتا ہے یہاں تک کہ کبھى ماں باپ یا بہن بھائی پر حملہ بھى کرتا ہے _ اتنا شورمچاتا ہے کہ ماں باپ پر اس کو کامیابى حاصل ہوجائے اور وہ اپنا مقصد پالے _ یہ بچپنے کى ایسى عادت ہے کہ کبھى تو نسبتاً بڑے بچوں میں بھى دیکھى جاتى ہے _ اکثر ماں باپ بچوں کى اس عادت سے نالاں رہتے ہیں اور اس کاحل سوچتے رہتے ہیں _ بچوں کے ضدى پن کے بارے میں ماں باپ عموماً ان دو طریقوں میں سے ایک اختیار کرتے ہیں _

پہلا طریقہ: بعض ماں باپ کا یہ نظریہ ہے کہ بچے کى ضد کے مقابلے میں سخت ردّ عمل کا مظاہرہ کیا جائے اور اس کى خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا جائے _ ایسے ماں باپ کا کہنا ہے کہ یہ بچہ بہت خود سراور ضدّى ہوچکا ہے _ اس کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کى جانا چاہیے تا کہ یہ اپنے ضدّى پن سے دستبردار ہوجائے _ و کہتے ہیں کہ ہم اس بچے کو ایک انچ بھى اپنا زور چلانے کى اجازت نہیں دیں گے _ وہ سختى ، زور اور مارپیٹ کے ذریعے بچے کو روکتے ہیں اور اپنى خواہشات اس پر سوار کردتیے ہیں _ یعنى در حقیقت وہ بچے کى ہٹ دھرمى کے جواب میں ہٹ دھرمى کا مظاہرہ کرتے ہیں _ یہ طرز عمل درست نہیں ہے کیوں کہ اگر چہ انہوں نے مارپیٹ اور زور کے ذریعے بچے کو اس کى ضد سے پیچھے ہٹا دیا ہے اور چپ کروادیا ہے لیکن دوسرى طرف اس کى شخصیت پر بڑى کارہى ضرب لگائی ہے _

دو سال کى عمر شخصیّت اور ارادے کے اظہار کى عمر ہے اور ضدّى پن ارادے کى پختگى اور خود اعتمادى کا بنیادى جوہر ہے بچے کى عقلاس عمر میں اتنى رشد یافتہ نہیں ہوتى کہ وہ اپنى خواہشات پر کنٹرول کرسکے اور ان کے نتائج کے بارے میں غور و فکر کرسکے _ وہ سوچے سمجھے بغیر کسى کام کا ارادہ کرلیتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کى خواہش کے مطابق عمل کیا جائے تا کہ اس کے وجود کا اظہار ہوسکے اور اس کى شخصیّت نمایان ہوسکے _ اگر ماں باپ اس کى مخالفت کریں گے تو وہ گویا اس کى شخصیت کو مجروح کریں گے _ ممکن ہے وہ ایک پر سکون فروبن جائے لیکن حیثیت اور ارادے سے عاری_ جب بچہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی اس کى خواہش پورى نہیں کررہا اور طاقت کے ذریعے اسے روکا جارہاہے تو وہ مایوس اور بدگمان ہوجاتا ہے _ اضطراب اور پریشانى کى یہى حالت اس میں باقى رہتى ہے البتہ اس بات کا امکان بھى ہے کہ اپنى خواہشات کى شکست کا بدلہ لینے کے لیے وہ بڑا ہو کر خطرناک کاموں کا مرتکب ہو مثلاً قتل اور ظلم و غیرہ تا کہ اس ذریعے سے وہ اپنے وجود کا اظہار کرسکے اور اپنى شخصیت منواسکے _

دوسرا طریقہ : بعض پرورش کنندگان کا نظریہ ہے کہ جہاں تک ممک ہوسکے بچے کے دل کو راضى کرنا چاہیے _ اور اس کى خواہش کے مطابق عمل کرنا چاہیے _ اسے جازت دى جانا چاہیے کہ جو کام وہ چاہے انجام دے ، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کى ضد اور اصرار کے سامنے تسلیم محض ہونا چاہیے _ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بچہ ہے اسے آزادى ملنى چاہیے جب بڑا ہوگا تو خودہى ضد اور بہانے بنانے چھوڑدے گا _ یہ طریقہ بھى غیبت سے خالى نہیں ہے _

اولاً: بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ جو بڑے جانى یا مالى نقصان کے حامل ہوتے ہیں او رخود بچے کى یا دوسروں کى جان و ماں کو خطرہ میں ڈال دیتے ہیں ایسے کاموں میں بچے کو آزادى دینا خلاف عقل او رخلاف وجدان ہے ہوسکتا ہے دو تین سالہ بچہ بڑى سیڑھى کے ذریعے اوپر

جانا چاہے کہ جس میں احتمال ہے وہ گر پڑے گا اور اس کے ساتھ پاؤں ٹوٹ جائیں گے ممکن ہے وہ چاہے کہ ماچں سے خود گیس جلائے کہ جس میں امکان ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور پورے گھر کو جلادے گا _ ہوسکتا ہے وہ دوسروں کے احوال اور حقوق پر تجاوز کرنا چاہے یا دوسرے بچوں کو اذیت دینا چاہے _ ایسے کاموں میں بچوں کو آزادى نہیں دى جا سکتى _

ثانیاً: جو بچہ ہمیشہ مطلق العنان رہا ہو _ ضد سے اور شور شرابے سے اپنے مقاصد حاصل کرتا رہا ہو ، جس نے اپنے سامنے کسى کو ٹھرتے نہ دیکھا ہو رفتہ رفتہ اس طریقے کا عادى ہو جاتا ہے اور ایک خود غرض اور ڈکٹیڑبن جاتا ہے _ اسے لوگوں سے توقع ہوتى ہے کہ وہ بے چون و چرا اس کى خواہش پر عمل کریں اور اس کے طرز عمل اور کردار پر کوئی تنقید نہ کریں _ اس نے بچپن میں اپنى خواہشات کے مقابلے میں کسى کو قیام کرتے نہیں دیکھا کہ وہ دوسروں کى خواہشات کا اعتناء کرے _ اگر وہ دیکھے کہ زور و زیادتى سے اپنى خواہشات کو سیرات کرسکے اور اپنے مقصد کو پائے تو بہت خوش ہوتا ہے _ لیکن زیادہ تر ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ دوسرے تیار نہیں ہوتے کہ اس کى ڈکٹیڑى کو برداشت کریں _ اس لحاظ سے وہ معاشرے سے مایوس ہوکر گوشہ نشین ہوجاتا ہے ہمیشہ آہ و زارى کرتا رہتا ہے _ اپنے تئیں شکست خوردہ سمجھتا ہے اورلوگوں کو حق ناشناس سمجھتا ہے _

اسلام ہٹ دھرمى کو برى صفات میں سے شمار کرتا ہے اور اس کى مذّمت میں بہت سى حدیثیں وارد ہوٹى ہیں _

نمونہ کے طور پر _ حضر ت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ہٹ دھرمى برائیوں کا سبب ہے '' (1)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا:

'' ڈھٹائی عقل انسانى کو نقصان پہنچاتى ہے'' (2)

حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:

''ہٹ دھرمى جنگ اور دشمنى کا باعث ہے''(3)

حضرت على علیہ السلام نے ہى فرمایا:

''ہٹ دھرمى کا نقصان انسان کى دنیا اور آخرت کے لیے سب سے زیادہ ہے ''_(4)

تیسرا طریقہ: بہترین روش اعتدال کو ملحوظ رکھنا ہے _ یہ وہ طریقہ ہے کہ جس کے مطابق ماں باپ بچے کى خودسرى کو عیب نہیں سمجھتے بلکہ اس کى استقامت اور اصرار کو اس کے وجود اور قوت ارادى کے اظہار کا وسیلہ جانتے ہیں _ نہ صرف یہ کہ اس کو ختم نہیں کرتے بلکہ تعلیم و تربیت کے لیے اسى فائدہ اٹھاتے ہیں ، بچے کى خواہشوں کے درمیان فرق کرتے ہیں، بے ضرر خواہشات کے ضمن میں بچے کو آزادى دیتے ہیں تا کہ وہ اپنے میلان کے مطابق عمل کرے اور اس طرح اپنى قوت ارادى میں اضافہ کرے _ اس کے بے ضرر یا کم ضرر کاموں میں زیادہ دخالت نہیں کرتے وہ بچے کے دوست بن جاتے ہیں اور کاموں کى ادائیگى میں اس کى راہنمائی کرتے ہیں _

ایسى صورت میں بچے کو زیادتر کاموں میں آزادى حاصل ہوتى ہے اس طرح سے وہ اپنے ارادے کو مضبوط کرسکتا ہے اور اپنے وجود کا اظہار کرسکتا ہے _ ماں باپ کے بارے میں وہ بھى اچھى رائے رکھتا ہے اور انھیں اپنے راستے میں حائل نہیں سمجھتا _

لیکن خطرناک نقصان وہ اور خلاف و ضمیر کاموں میں ناجائز امور میں اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کے معاملے میں بچے کے سامنے استقامت کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ذرا سى بھى ڈھیل نہیں دیتے وہ پورى بے نیازى سے اور صراحت سے بچے سے کہتے ہیں اس کام کو نہ کرنا _ وہ کوشش کرتے ہیں کى حتى الامکان اس کام سے روکنے کى وجہ اسے بائیں اوراسے مطمئن کریں اور اس کى توجہ کسى اور اچھے کام کى طرف موڑدیں _ بچہ چونکہ ماں باپ کے بارے میں اچھے رائے رکھتا ہے اور اس پر زیادہ پابندیاں نہیں ہوتیں زیادہ تر مان جاتا ہے اور اس کام کو چھوڑدیتا ہے _ لیکن اگر وہ غلط کاموں کے بارے میں ضد کرے _ شورشرابہ کرے _ زمین پر پاؤں مارے تو آپ سختى سے اسے روک دیں _ اور اس سلسلے میں کوئی ڈھیل نہ دیں _ اس کے شوروشین اور رونے دھونے پر توجہ نہ دیں _ اسے اس کے حال پر رہنے دیں تا کہ وہ سمجھے کہ دنیا میں ہر چیز کا کوئی حساب ہے کہ جو اس کے شورشرابے سے بدل نہیں سکتا _ آپ کچھ صبر کریں وہ خود شو رشرابے سے تھک ہارکر چپ کرجائے گا _ بچے کو سمجھائیں کہ آپ کى نہ حقیقى نہ ہے _ اسے سمجھائیں کہ زور اور خود سرى سے زندگى نہیں گزارى جاسکتى دوسروں کے حقوق کا بھى لحاظ رکھنا چاہیے _ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اس کى ہٹ دھرمى اور شور شرابے پر مارپیٹ شروع کردیں اور سختى سے اسے چپ کرائیں کیونکہ اس طرح سے اسے چپ تو کرایا جاسکتا ہے لیکن حتمى طور پر اس کى روح اور نفسیات پر اس کے برے اثرات باقى رہ جائیں گے کیوں کہ وہ آپ سے بدبین ہوجائے گا _ اور آپ کو بھى ایک زیادتى کرنے والا اور ڈکٹیٹر سمجھے گا _ ہوسکتا ہے کہ آپ کے خلاف اس کے دل میں کینہ پیدا ہوجائے اور وہ انتقام لینے کى ٹھان لے ہوسکتا ہے آپ کى آمریت کو اپنے لیے نمونہ بنالے _ اس بحث کے اختتام پر ضرورى ہے کہ مربّى حضرات کى خدمت میں چند امور ذکر کیے جائیں _

1_ جہاں تک ممکن ہو بچوں کو عمل کى آزادى دیں _ ان کے امور میں زیادہ دخالت نہ کریں اور ہر وقت یہ کرو یہ نہ کرو نہ کرتے رہیں _ بچہ کرسى ، درخت یا چھوٹى سیڑھى کے ذریعے اوپر جانا چاہتا ہے آپ کہیں بیٹے گر جاؤگے وہ پھل کا چھلکا اتارنے لگے تو آپ کہیں بیٹا ہاتھ کو زخمى کرلوگے ، وہ سما وار روشن کرنے لگے تو آپ کہیں جل جاؤگے ، وہ چائے ڈالنا چاہے تو آپ کہیں چینک توڑ دوگے ،گھر میں کھیلنا چاہے تو کہیں شور نہ کرو _ گلى میں جانا چاہے تو آپ کہیں سائیکل کے نیچے آجاؤگے _

پھر یہ ننھا بچہ کیا کرے آخر وہ بھى انسان ہے _ اس کا بھى ارادہ ہے _ وہ بھى اپنے وجود کا اظہار کرنا چاہتا ہے _ جب آپ اس کے کاموں میں دخالت کریں گے وہ خستہ حال ہوجائے گا اور اس کے اندر ایک ہٹ دھرمى اور خود مرى کى کیفیت پیدا ہوجائے گى بچے کى ہٹ دھرمیوں کى ایک وجہ ماں باپ کى اس کے کاموں میں زیادہ دخالت ہے _

2_ جب آپ کا بچہ ضد کرے تو کوشش کریں کہ اس کى ضد کى وجہ معلوم کریں اور اس کو دور کریں تا کہ وہ خود بخود مطمئن ہوجائے _ اگر اسے بھوک لگى ہو تو کھانا دیں _ اگر وہ تھکا ہوا ہے تو اسے سلادیں _ اگر وہ گھر کے تنگ ما حول ، ریڈیو اور ٹیلى وین کے شور اور مہمانوں کى وجہ سے تنگ آگیا ہے تو اس کے لیے آرام وہ ماحول فراہم کریں _

3_ بچے کى توہین اور اسے سرزنش نہ کریں کیونکہ توہین اور سرزنش اسے ضد بازى پر ابھارتى ہے وہ اپنے آپ سے کہتا ہے کہ یہ میرى توہین کرتے ہیں اور مجھے ملامت کرتے رہتے ہیں _ میں بھى ان کے سامنے ڈٹ جاؤں گا اور ان سے انتقام لوں گا _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں :

''سرزنش میں زیادتى ہٹ دھرمى کى آگ کو بھر کاتى ہے '' _(5)

4_ کبھى کسى بچے پر اس کے بھائی بہن ظلم اور زیادتى کرتے ہیں اور اس کى کوئی حمایت نہیں کرتا یوں وہ ہٹ دھرمى اور سرکشى پر اتر آتا ہے اس صورت میں ماں باپ کو چاہیے کہ اس کى سرکشى کى وجہ معلوم کریں _ اور اسے دور کریں تا کہ وہ اسے چھوڑدے _

5_ اگر آپ کا بچہ شد کرتا ہے اور آپ کو اس کى وجہ معلوم نہیں ہوتى تو آپ اپنے آپ کا جائزہ لیں او ردیکھیں کہ خود آپ کہیں ضدى پن کا شکار تو نہیں ہیں _ شاید آپ کا ضدى پن بچے کے ضدى پن کا باعث بنا ہو _ ایسا بہت ہوتا ہے کہ بچے ماں باپ ہى کے ضدى پن کا مظہر ہوتے ہیں اور انہیں کى تقلید کرتے ہیں _

ایک خاتون اپنى یادداشتوں میں لکھتى ہیں کہ مجھے یادہے بچپن میں ایک روز ہمارے ہاں مہمان آئے _ میں نے کسى بات پہ ضدکى تو اس پہ مہمانوں کے سامنے مجھے مارپڑى مجھے مہمانوں سے بہت شرمندگى ہوئی _ میں نے بہت چیخ و پکار کى _ امى مسلسل کہے جاتى تھیں چپ کر ہابیٹى کا شور مچانا اچھا نہیں ہوتا_ میں آرہى ہوں تمہیں چپ کرواتى ہوں _ امى نے اس بارے میں بالکل نہ سوچا کہ میرى ضدکى وجہ کیا ہے اور میں کیوں شورمچار ہى ہوں _وہ صرف یہ چاہتى تھیں کہ اس طرح کى باتوں سے مجھے چپ کروادیں ، جو مجھے اور بھى برى لگتى ہیں _ لیکن میں نے بھى زیادہ شورمچایا _ ماں نے اپنے تئیں اس کا بہترین حل سوچا _ گڑیا کے جو کپڑے میں نے خودسیے تھے وہ اٹھالائیں مجھے وہ جان سے زیادہ عزیز تھے _ انھیں امّى نے میرے سامنے آگ لگادى _ گویا میرى سارى امیدیں ختم ہوگئی _ میں آگ کے شعلے کى طرف دیکھتى تھى اور آنسو بہاتى تھى _ اس وحشیانہ واقعہ سے میرے دل میں ایک گرہ سى پڑگئی کہ جسے میں آج تک بھلانہیں سکى _ اور اب بھى مجھے اس پر افسوس رہتا ہے اور کبھى کبھى میں اپنى امّى سے کہتے ہوں ... ... ...

 

 


1_ غرر الحکم ، ص 16
2_ غرر الحکم ، ص 17
3_ غرر الحکم، ص 18
4_ غرر الحکم ، ص 104
5_ تحف العقول ،ص 80_