پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

گھر ميں بچوں كا لڑائي جھگڑا

گھر میں بچوں کا لڑائی جھگڑا

ایک بہت بڑى گھریلو پریشانى بچوں کا لڑائی جھگڑا ہے _ بچے جب ایک سے زیادہ ہوجائیں تو پھر ان کے درمیان لڑائی جگھڑا بھى شروع ہوجاتا ہے _ ایک دوسرے کو اپنے لیے بدشگون سمجھتا ہے _ وہ آپس میں ایک دوسرے کو دھکّے دیتے ہیں ، کھلونے چھینتے ہیں ، ایک دوسرے کى کاپى پر لکیریں کھینچ دیتے ہیں ،مذاق اڑاتے ہیں، ایک شور مچاتاہے تا کہ دوسرا اسکول کا سبق یا دنہ کر سکے ، ہر بچہ جانتا ہے کہ وہ کن طریقوں سے اپنے بھائی یا بہن کو ستا اور لا سکتا ہے وہ ایک دوسرے کى خوب خبر لیتے ہیں _ اس صورت حال پر ماں باپ بے چار ے کڑھتے رہتے ہیں _ لڑائی جھگڑے کى شکایت ان کے پاس آتى ہے ، خرابى تو اس وقت پیدا ہوتى ہے جب بچوں کى لڑائی ماں باپ پر اثر انداز ہوجاتى ہے _ ماں ، باپ س کہتى ہے تم تو بچے کى تربیت کى طرف توجہ نہیں دیتے ، وہ تم سے دڑتے تک نہیں ، یہ تمہارى لا پروا ہى کى وجہ ہى سے گھر میدان جنگ بن چکا ہے _

باپ ، ماں سے کہتا ہے ،اگر تو سمجھدار عورت ہوتى تو یہ سچے اتنے شیطان اور نالائق نہ ہوتے _ تیرى حمایت کى وجہ سے بچوں کى یہ حالت ہے _

یہاں پر ماں باپ کو یادرکھنا چاہیے کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں _ ان سے اس بات کى توقع نہ رکھیں کہ وہ پینتالیس سالہ کسى شخص کى طرح آرام سے کسى کونسے میں بیٹھے ہوں _ آپ اس حقیقت کو قبول کریں کہ بچوں کا لڑائی جھگڑا تو ایک فطرى سى بات ہے _ لڑائی تو بڑوں میں بھى ہوجاتى ہے _ ایک گھر میں بچوں سے کیسے توقع کى جاسکتى ہے کہ وہ ہمیشہ آرام و سکون سے بیٹھے رہیں اور کبھى لڑائی جھگڑا نہ کریں_ بچے تو شریر ہوتے ہى ہیں _ وہ جلدى پھر آپس میں گھل مل جاتے میں بڑوں کى طرح دیر تک ایک دوسرے سے منہ بسورے بیٹھے نہیں رہتے _ ایک ماہر نفسیات اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ یہ بات ہمیں سوچنا ہى نہیں چاہیے کہ ایک گھر ، اس میں چند بچے بھى ہوں مگر وہ ہمیشہ مل جل کر رہیں کبھى لڑیں جھگڑیں نہیں _ ہم نے جس بچے سے بھى بات کى ہے وہ یہ کہتا ہے کہ امى ابو یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ہم بہن بھائی جب اکھٹے ہوں تو ہمیں بہت زیادہ اتفاق و آرام سے رہنا چاہیے _ اگر آپ حقیقت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنى اس توقع سے تھوڑا سا پیچھے ہٹ جائیں توبچوں کے اس لڑائی جھگڑے سے اتنا پریشان نہیں ہوں گے _ (1)

ہمیں یہ بات بھى معلوم ہونى چاہیے کہ بچوں کہ یہ عادت ہمیشہ نہیں رہے گى بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ خود بخود ختم ہوجائے گى _ اگر ماں باپ ان کے بچن کے طرز عمل کو ایک حقیقت کے طور پر مان لین تو پھر کسى حد تک انہیں اطمینان ہوجائے گا اور کم از کم وہ ان کے بچپن کے لڑائی جھگڑے خو د ان تک نہیں پہنچنے دیں گے _

ایک ماہر نفسیات لکھتے ہیں:

شاید بچوں کے بہت سارے کام مثلاً آپس میں مذاق کرنا _ ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا کرنا _ کشتى کرنا _ صرف وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کے بڑے ہونے سے ختم ہوجاتے ہیں _ (2)

ہاں یہ درست ہے کہ زیادہ تر موقع پر ماں باپ بچوں کے لڑائی جھگڑوں کو ختم نہیں کرسکتے لیکن عقل اور تدبیر سے ان میں کمى پیدا کرسکتے ہیں_ عقل مند ماں باپ بچوں کے لڑائی جھگڑے پر بالکل تماشائی نہیں بنے رہ سکتے _ بلکہ ان کى ذمہ دارى ہے کہ عقل و تدبیر سے اس کے عوامل کو ختم کریں _ انہیں اجازت نہ دیں کہ وہ ایک دوسرے کو اذیت پہنچائیں _ ماں باپ کو چاہیے کہ پہلے وہ اختلاف کے عوامل کو سمجھیں اور ان اسباب کو پیدا ہونے سے روکیں وگرنہ بعد میں مسئلہ مشکل ہوجائے گا _ بچوں کے درمیان اختلاف کى ایک اہم وجہ ان کا آپس میں حسد ہے نظر انداز کرنے سے حسد ختم نہیں ہوسکتا _ اور ڈانٹ ڈپٹ بھى اس کا علاج نہیں ہے _ چاہیے کہ حسد پیدا ہونے کے اسباب کو روکا جائے _

بچہ خود پرست ہے وہ چاہتا ہے کہ فقط وہى ماں باپ کا محبوب ہو اور کوئی اور ان کے دل میں جگہ نہ پائے _ پہلا بچہ عموماً ماں باپ کو لاڈلاہوتا ہے _ وہ اس سے پیار محبت کرتے ہیں _ اس کى خواہشات کو پورا کرتے ہیں _ لیکن جب دوسرا بچہ دنیا میں آتا ہے تو حالات بدل جاتے ہیں _ ماں باپ کى پورى توجہ نو مولودکى طرف ہوجاتى ہے اب بڑا بچہ خطرہ کا احساس کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ ننھا بن بلا یا مہمان اب اس کا رقیب بن گیا ہے _ اور ماں باپ کو اس نے اپنا بنالیا ہے _ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے انتقام لینا چاہیے _ لیکن نومولود پر اں باپ کى شفقت ہوتى ہے لہذا اسے قبول کیے بغیر چارہ بھى نہیں ہوتا _ ان حالات میں ممکن ہے بڑا بچہ اپنے آپ کو بیمار ظاہر کرے ، زمین پر گرجائے ، کھانا ہ کھائے ، غصّہ کرے ، روئے یا اپنے کپڑوں کو خراب کردے تا کہ اس طرح سے وہ ماں باپ کى توجہ اپنى طرف مبذول کرسکے یہ بچہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے اور اسى وقت سے بھائی یا بہن کے بارے میں اپنے دل میں کینہ کرلیتا ہے _ اور اس موقع کے انتظام میں رہتا ہے کہ اس سے انتقام لے سکے _ اس کیفیّت میں سب بچے پیدا ہوتے ہیں اور گھر کے دوسرے بچوں سے آملتے ہیں _ انہیں حالات میں حسد اور کینہ پیدا ہوتا ہے _ کیا یہ بہتر نہیں ہے کاماں باپ شروع ہى ہے اپنے طرز عمل پر توجہ رکھیں _ اور بچوں میں حسد کے اسباب پیدا نہ ہونے دیں _ سمجھدار ماں باپ نو مولود کے دنیا میں آنے سے پہلے ہى بڑے بچوں کو ذہنى طور پر اس کے استقبال کے لیے اور قبول کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں _ ان سے کہتے ہیں _ انہیں پہلے ہى سمجھاتے ہیں کہ جلد ہى تمہارا ننھا بھائی یا ننھى بہن پیدا ہوگى _ تعجب وہ بڑى ہوگى تو تم سے پیار کرے گى _ تمہارے ساتھ مل کے کھیلے گى _

اگر وہ نو مولود کے لیے کوئی چیز تیار کریں تو بڑے بچوں کے لیے بھى کوئی چیز خریدیں جب ماں نئی پیدائشے کے لیے کسى میڈیکل سینٹر میں داخل ہوجائے تو باپ بچوں کے لیے تحفہ لاسکتا ہے اور ان سے کہہ سکتا ہے کہ یہ ننّھے کى آمد کى خوشى میں تمہارے لیے تحفہ لایا ہوں _ جب نو مولود گھر آئے تو زیادہ شورو شرابہ نہ کریں اور دوسرے بچوں کى موجودگى میں اسى کى زیادہ تعریف نہ کریں _ پہلے کى طرح بلکہ پہلے سے بھى زیادہ ان کا خیال کریں _ ان سے محبت کریں ایسا سلوک کریں کہ بڑے بچے مطمئن ہوں وہ سمجھیں کہ نئے بچے کہ آنے سے ان کى زندگى کو نقصان نہیں پہنچا _ اس طرح سے وہ نئے بچے کے لیے اپنى گو دپھیلا سکتے ہیں اور خوشى خوشى اس کا استقبال کرسکتے ہیں _ مجموعى طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ماں باپ چاہیں کہ ان کے بچے آپس میں دوست ہوں اور ان میں لڑائی جھگڑانہ ہو تو ان میں حسد کے اسباب پیدا ہونے دیں اور ان کو ایک آنکھ سے دیکھیں _ سب سے ایک جیسا سلوک کریں تا کہ وہ آپس میں دوست ہوں _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

انصاف اختلاف کو ختم کردیتا ہے اور دوستى کا سبب بنتا ہے _ (3)

امیر المومنین على علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:

عادلانہ سلوک بہترین تدبیر ہے _(4)

ممکن ہے بعض بچوں میں واقعاً ایسى خصوصیت ہو کہ جس کى وجہ سے ماں باپ کى محبت ان سے زیادہ ہوجائے _ ہوسکتا ہے بعض بچے زیادہ ذہین ہوں ، زیادہ خوبصورت ہوں _ بعض کا اخلاق بہتر ہو _ ہوسکتا ہے زیادہ محنتى ہو _ ہوسکتا ہے بعض زیادہ خوش زبان ہوں ، ہو سکتا ہے کسى کا سلوک دوسرے سے ماں باپ سے بہتر ہو _ ہوسکتا ہے کوئی کلاس سے دوسروں کى نسبت نمبر اچھے لائے _ ہوسکتا ہے ماں باپ بیٹى یا بیٹے کو زیادہ پسند کرتے ہوں _

ممکن ہے اس میں کوئی حرج بھى نہ ہو کہ ماں باپ قلباً کسى ایک بچے کو زیادہ پسند کرتے ہوں لیکن ان کا سلوک سب سے ایک جیسا ہونا چاہیے او راس میں فرق نہیں کرنا چاہیے _ یہاں تک کہ بچے ذرا بھى دوسرے کے بارے میں ترجیحى سلوک نہ دیکھیں _ یہاں اس امر کا تذکرہ ضرورى ہے کہ بچے ماں باپ کى محبت کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں _ اور اس پر بہت توجہ دیتے ہیں اور حقیقت کو جلد سمجھ لیتے ہیں _ لہذا ماں باپ کو بہت محتاط ہونے کى ضرورت ہے _

بعض ماں باپ بچوں کى تربیت کے لیے ایک کى خصوصیات دوسرے کے سامنے بیان کرتے ہیں_ مثلاً کہتے ہیں : حسن خوب سبق پڑھوتا کہ عباس کى طرح اچھے نمبر حاصل کرسکو_ کہتے ہیں: زہرا تم اپنى بہن زینب کى طرح ماں کى مدد کرو زینب کتنى اچھى بچى ہے کہتے ہیں: رضا تم بھى اپنے بھائی على کى طرح دستر خوان پر سلیقے سے بیٹھو_ دیکھو وہ کتنا با ادب بچہ ہے _

ایسے ماں باپ کا طرز عمل بالکل غلط ہے کیونکہ غلط ہے کیونکہ اس کا نہ فقط مثبت تربیتى نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ اس سے بچوں میں رقابت اور حسد پیدا ہوجاتاہے اور انہیں انتقام اور دشمنى پر ابھارتا ہے _ کبھى بچے خود بھى ایسى باتوں کا اظہار کرتے ہیں _

بچوں کے لڑائی جھگڑے کى ایک وجہ ماں باپ کى ان سے بے جا توقع ہے _ بچہ چاہتا ہے کہ اپنے بھائی یا بہن کے کھلونوں سے کھلیے لیکن وہ اسے اس کى اجازت نہیں دیتے _ لہذا لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _ ایسے وقت ماں یا باپ دخالت کرتے ہیں اور پیاز کے ساتھ سمجھاتے ہیں اور اگر پیار کا اثر نہ ہو تو سختى سے انہیں سمجھا تے ہیں کہ وہ اپنے کھلونے اپنے بھائی کودے دیں _ مثلاً کہتے ہیں: یہ تمہارا بھائی ہے ، کیوں اے کھلونے نہیں دیتے ہو کھلونے لائے و ہم ہى ہیں ، کیا یہ تمہارى ملکیّت ہیں کہ جو اسے کھیلنے کى اجازت نہیں دیتے ہو اگر تم نے ایسا کیا تو پھر تم سے ہم پیار نہیں کریں گے اور نہ ہى آئندہ تمہیں کھلونے خرید کردیں گے _

بچہ بیچار مجبور ہوجاتا ہے _ کھلونے دے تو دیتا ہے لیکن ماں یا باپ کو سخت مزاج اور بھائی کو ظالم سمجھنے لگتا ہے اور دل میں دونوں سے نفرت پیدا ہوجاتى ہے اور جب بھى اسے موقع ملتا ہے پھر وہ اس کا اظہار کرتا ہے کیوں کہ بچہ ان کھلونوں کو اپنا مال سمجھ رہا ہوتا ہے اور اس کا خیال ہوتا ہے کہ کسى کو حق نہیں کہ اس کى اجازت کے بغیر انہیں ہاتھ لگائے لہذا وہ اپنے آپ کو مظلوم اور اپنے بھائی اور باپ کو ظالم سمجھتا ہے _ ایسے موقع پر یہ بچہ حق پر ہے کیوں کہ ماں باپ کسى کو اجازت نہیں دیتے کہ ان کى مخصوص چیزوں کو کوئی چھیڑے پھر یہ حق وہ بچوں کو کیوں نہیں دیتے اور ہر شخص کى کچھ اپنى چیزیں ہوتى ہیں کہ جن کے استعمال سے وہ دوسروں کو روک سکتا ہے _ البتہ عقل مند اور باتدبیر ماں باپ آہستہ آہستہ بچوں کے اندر تعاون اور ایثار کا جذبہ پیدا کرسکتے ہیں _ اور ایسى فضا پیدا کرسکتے ہیں کہ وہ خوشى خوشى اپنے بہن بھائیوں کو اپنے کھلونوں سے کھیلنے اور اپنى چیزوں کے استعمال کى اجازت دیں _

کبھى اختلاف کى وجہ یہ ہوتى ہے کہ کبھى ماں باپ کوئی کا م ایک بچے کے سپردکردیتے ہیں اور دوسروں کو ایسے ہى چھوڑدیتے ہیں اس صورت میں لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _اگر ماں باپ اس طرح کى کشمکشوں سے بچنا چاہیں تو انہیں چاہیے کہ سب بچوں کو ایک نظر سے دیکھیں اور ان میں کوئی تفریق روانہ رکھیں _ یا تو کسى سے کوئی نہ کہیں _ یا پھر ان کى صلاحیت کو سمجھ کر ہر کسى کے لیے کوئی کام متعین کریں اور ان کے ذمہ لگائیں تا کہ اختلاف پیدا نہ ہو بیکارى بھى خرابیوں کى ایک وجہ ہے بچوں کى مشغولیت کے لیے کوئی کام ہونا چاہیے تا کہ ان میں جھگڑا کم سے کم ہو _ خاص طور پر اگر ہ سکے تو انہیں کسى ایسے کھیل پر ابھاریں کہ جسے وہ مل جل کر کھیل سکیں _ یہ ان کے لیے بہت مفید ہوگا _

کبھى ماں باپ کى آپس کى لڑائی بھى بچوں میں جھگڑے کا باعث بن جاتى ہے _ جب معصوم بچے دیکھتے ہیں کہ ان کے ماں باپ ہمیشہ ایک دوسرے سے قوتکار اور لڑائی جھگڑا کرتے رہتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید لڑائی جھگڑا زندگى کے لازمى امور میں سے ہے _ اور ایک ایسا کام ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا _ اس لحاظ سے وہ ماں باپ کى تقلید کرتے ہیں _ اور یہى کام وہ آپس میں کرتے ہیں _

لہذا جو ماں باپ بچوں کے لڑائی جھگڑے سے تنگ ہوں انہیں پہلے اپنى اصلاح کرنا چاہیے _ آپس کے نزاع اور کشمکش کو ترک کردینا چاہیے پھر بچوں کى اصلاح کے درپے ہونا چاہیے _ شاید ایسا کوئی خاندان کم ہى ہو کہ جس میں کبھى کوئی جھگڑا پیدانہ ہواہو _ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ بچوں کى عدم موجودگى میں وہ آپس میں اس سلسلے میں بات کریں _ اور اگر کوئی بات بچوں کے سامنے ہوجائے تو وہ بچوں سے کہہ سکتے ہیں کہ کسى مسئلے پر ہمارا اختلاف رائے ہے _ ہم چاہتے ہیں کہ اسے حل کریں _

آخر میں ہم اس بات کى طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ممکن ہے آپ ان تمام امور کو ملحوظ خاطر رکھیں لیکن پھر بھى بچوں کے لڑائی جھگڑے سے کامل طور پر نہ بیچ سکیں _ آپ کو یہ توقع نہیں ہونى چاہیے _ نہ ہى ہم نے اس کى ضمانت دى ہے _ آپ کے بچے بھى عام بچوں کى طرح ہیں _ بچوں کے جھگڑے ایک فطرى سى بات ہے _ بچوں میں توانائی زیادہ ہوتى ہے _ جو وہ ایسے کاموں پہ خرچ کرتے ہیں _ آپ متوجہ رہیں کہ وہ ایک دوسرے نقصان نہ پہنچائیں اور ایک دوسرے کو شدید اذیت نہ دیں بہتر یہ ہے کہ حتى الامکان بچوں کے چھوٹے موٹے جگڑوں میں آپ شریک نہ ہوں _ انہیں آپ رہنے دیں کہ وہ اپنے مسئلے خود حل کریں _ نہ ہى آپ ایسى باتوں پر زیادہ پریشان ہوں _ ان کا طرز عمل خود ہى ٹھیک ہوجائے گا _

 

1_ روان شناسى کودک از تولّد تادہ سالگى ، ص 286
2_ روان شناسى کودک _ رفتار کودکان از تولد تا دہ سالگى ص 286
3_ غرر الحکم ، ص 64
4_ غررالحکم ، ص 64