پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

اسقاط حمل

اسقاط حمل

اسلام کے نقطہ نظر سے عورت اور مرد کى باہمى رضامندى سے حمل ٹھرنے کو روکنے میںکوئی مضائقہ نہیں ہے اگر بیوى اور شوہر اولاد کى خواہش نہ رکھتے ہوں تو پھر وہ ضرر گولیوں، ٹیکوں یا انزال وغیرہ کے ذریعے حمل ٹھہرنے کو روک سکتے ہیں _ البتہ بچے کى پیدائشے کو روکنا اسلام کى نظر میں پسندیدہ نہیں ہے _ کیونکہ اسلام کى خواہش ہے کہ مسلمانوں کى نسل جتنى بھى ہوسکے پھولے پھلے _ لیکن بہر حال ایسا کرنا حرام نہیں ہے لیکن جب نر او ر مادہ سیل ترکیب پاکر عورت کے رحم میں ٹھہر جائیں اور ایک زندہ موجود وجود میں آجائے تو وہ اسلام کى نظر میں محترم ہے اورزندگى کا حق رکھتا ہے _ و ہ نیا موجود اگر چہ بہت چھوٹا ہى کیوں نہ ہو صلاحیت کے اعتبار سے انسان ہے ، وہ ایسا موجود زندہ ہے کہ بڑى تیزى کے ساتھ اور حتمى طور پر غیر معمولى طریقے سے کمالات انسانى کى طرف رواں دواں ہے _ وہ ننھا منا سا موجود جو کہ اتنى غیر معمولى استعداد رکھتا ہے اپنى مہربان ماں سے امید رکھتا ہے کہ وہ اس کے لیے پر امن ماحول فراہم کرے گى تا کہ وہ پرورش پاکر ایک کامل انسان بن سکے _ اگر اس بالیقات اور باشرف وجود کو تونے ساقط کردیا اور اسے قتل کردیا تو تم قاتل قرار پاؤگى اور اس برے عمل کے ارتکاب کى وجہ سے قیامت کے دن تمہارى بازپرس کى جائے گى _

دین مقدس اسلام کہ جو تمام لوگوں کے حقوق کا نگہبان ہے اس نے اسقاط حمل اور اولاد کشى کو کلّى طور پر حرام قراردیا ہے _ اسحان بن عمّار کہتے ہیں کہ میں نے حضر ت موسى (ع) بن جعفر (ع) کى خدمت ہیں عرض کیا کہ وہ عورت جو حاملہ ہونے سے ڈرتى ہے کیا آپ اسے اجازت دیتے ہیں کہ

رہ دراکے ذریعے حمل گرادے _ آپ (ع) نے فرمایا:

نہیں میں ہرگز اس چیز کى اجازت نہیں دیتا _

راوى نے پھر کہا : ابتداء دور حمل کہ جب ابھى نطفہ ہوتا ہے ، اس وقت کے لیے کیا حکم ہے ؟

فرمایا:

انسان کى خلقت کا آےاز اسى نطفے سے ہوتا ہے _ (1)

اللہ تعالى قرآن مجید میں فرماتا ہے :

و اذا الموء دة سئلت _ باى ذنب قتلت

یعنى _ قیامت کے دن ماں باپ سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کس جرم میں اپنے بے گناہ بچے کو مارڈالا ؟(تکویر _8،9)

اسقاط حمل نہایت برا عمل ہے کہ جس سے اسلام نے روکا ہے _ علاوہ ازیں یہ کام ماں کے جسم و جاں کے لیے بھى باعث ضرر ہے _ ڈاکٹر پاک ناد نے اسقاط حمل کے بارے میں منعقدہ ایک کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

... یہ ثابت ہواہے کہ اسقاط حمل اوسط عمر میں کمى کردیتا ہے نیز سائنسى تحقیق کے مطابق اسقاط حمل عورتوں کے نفسیاتى اعتدال کو تباہ کردیتا ہے _(2)

1951 ء سے 1953 ء تک کے نیویارک کے اعداد و شمار کے مطابق 2601 عورتوں کى وفات اسقاط حمل کى وجہ سے ہوئی دس سال کے دوران میں اس تعدا میں 1261 4 کا اضافہ ہوا _ چکى میں 1963 ء کے ریکارڈ کے مطابق 39 عورتوں کا انتقال اسقاط حمل کى وجہ سے ہوا_
 

اسقاط حمل کا ایک بہانہ فقر و تنگ دستى بھى قراردیا جاتا ہے _ بعض نادان ماں باپ فقر و غربت کے بہانے سے اپنے بے گناہ بچوں کو ضائع کردیتےہیں _

اس میں شک نہیں کہ فقر و تگ دستى ایک بڑى مصیبت ہے اور بہت سارے خاندان اس میں مبتلا ہیں اور اسے برداشت کرنا بہت مشکل کام ہے _ لیکن اسلام اسے بچہ ضائع کرنے کا عذر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں _ آخر بے گناہ بچے کا کیا قصور ہے کہ ماں باپ اسے حق حیات سے محروم کردیں _ اللہ تعالى قرآن مجید میں فرماتا ہے :

ولا تقتلوا اولاد کم خشیة املاق نحن نرزقہم و ایّاکم انّ قتلہم کان خطا کبیراً

اپنى اولاد کو مفلسى کے خوف سے قتل نہ کرو ہم ہیں کہ جو تمہیں اور انہیں روز دیتے ہیں _ اولاد کو قتل کرنا یقینا ایک بہت بڑا گناہ ہے _ (بنى اسرائیل _آیہ 31)

اب جب کہ ایک انسان کا نطفہ ٹھر چکا ہے ماں با پ کو چاہیے کہ سختى کو برداشت کریں ممکن ہے یہى بچہ کل ایک ممتاز اور عظیم شخصیّت بن جائے کہ ماں باپ اور معاشرہ جس کے وجود سے استفادہ کریں _ ممکن ہے اسب چے کے وجود کى برکت سے خاندان کى اقتصادى حالت بھى بہتر ہوجائے یا اس کے ذریعے سے فقر و تنگ دستى سے نجات مل جائے _

اس کے علاوہ بھى کئی بہانے پیش کئے جاتے ہیں _ مثلاً گھر سے باہر کى مشغولیات ، دفتر کى مصروفیات یا بچوں کى کثرت و غیرہ لیکن یہ ایسے عذر نہیں ہیں کہ ان کى وجہ سے شریعت یا عقل اس برے عمل کو جائز قراردے دے _

اسقاط حمل نہ یہ کہ اسلام کى نظر میں ایک برا اور حرام عمل ہے بلکہ اس بڑے گناہ کے لیے کفارہ بھى مقرر کیا گیا ہے کہ جو جنین کى عمر کے اختلاف کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے _

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

اگر ساقط شدہ بچہ نطفہ ہواتو اس کا خون بہسونے کے بیس دینا رہے، اگر علقہ اور لوتھڑا ہوتو سونے کے چالیس دینار، اگر مضغہ اور گوشت کى حد تک پہنچ چکا ہوتوسونے کے ساتھ دینار، اگر اس میں ہڈى بن گئی ہو تو سونے کى اسّى دینار، اگر وہ انسان کى صورت اختیار کر چکا ہو تو سونے کے سودینار اور اگر اس میں روح بھى پیدا ہوچکى ہو تو اس کى دیت ایک کامل انسان کى دیت ہوگى _(3)

خانم افسر الملوک عاملى نے اس بارے میں ایک خوبصورت نظم کہى ہے:


بخواب آمد مرا طفل جنینى
بگفتا مادرم را گر بہ بینی
بگو ماد رخطا از من چہ دیدى
کہ بہ جرمم بہ خونم درکشیدی
درونت کودکى آرام بودم
کجا محکوم برا عدام بودم؟
بخونم چنگ و دندان تیز کردى
نہ خون دامان خود، لبریز کردی
بدم تازہ رسیدہ میہمانت
نہ آسیبى رسید از من بجانت
بہ مہمان بایدت مہمان نوازى
نہ بیرحمانہ اش نابودسازی
تو فکر خرج و برجم را نمودى
زجسم کو چکى جان در ربودی
مرا روزى بہمرہ بود مادر
ولى افسوس ننمودى تو باور
تو گردش را بہ من ترجیح دادى
اساس ظلم در عالم نہادی

امید کودکان بر مام باشد
چو مادر باشدش آرام باشد
امید بودردیت را ببینم
گلى از گلش حسنت بچینم
ولى میخواست پستانت زنت چنگ
غمت بیرون نمایم از دل تنگ
دلم مى خواست از شیرت بنوشم
صداى مادرم آید بگوشم
امیدم بود لبخندم ببینى
کنار تختخوابم خوش نشینی
امیدم بددبستانم فرستى
دھى تعلیم ، درس حق پرستی
بیایم از دردوشادت نمایم
سردو کودکان بہرت سرایم
امیدم بودگروم من جوانى
زمان پیریت قدرم بدانی
زمان پیریت غم خوار باشم
بہر کارى برایت یادباشم
من اینک روح پاکم در جنان است
مکانم در جوار حوریان است
کنون کن توبہ ،استغفار ، شاید
خداى مہربان رحمت نماید
تمنّا دارد و افسر از توانی

پیامم را بہ مادر ہا رسانى (4)

نظم کا ترجمہ :

چھوٹا سا سقط شدہ بچہ میرے خواب میں آیا اور بولا میرى ماں کو دیکھو تو اس سے کہو

امّى تو نے میرى کیا خطا دیکھى تھى کہ بے جرم ہى تو نے میرا خون بہادیا _

میں تو بچپن میں آرام سے رہتا تھا میرے قتل کا حکم کیسے سرزد ہوگیا _

میرے خون پر تونے اپنے پنجے اور دانت تیز کئے _ اور اپنے دامن کو میرے خون سے آلودہ کرلیا _

میں ابھى تیرے پاس تازہ مہمان آیا تھا اور مجھ سے ابھى آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا _ چاہیے کہ آنے والے مہمان کى مہمان نوازى کى جائے نہ کے بے رحمى سے اس کا کام تمام کردیا جائے _

تجھے میرے بارے میں خرچ کى فکر میں تھى لہذا تو نے میرے ننھے سے جسم سے جان نکال دى _

ماں میں تو اپنى روزى ساتھ لے کر آیا تھا لیکن افسوس کہ تجھے اس کا یقین نہ آیا _

تو نے گھومنے پھر نے کو مجھ پر ترجیح دى او ردنیا میں ظلم کى بنیاد ڈالى _

بچوں کى امید توماں ہى ہوتى ہے _ اور جب ماں کے پاس ہو تو وہ سکھ چین سے ہوتے ہیں _مجھے تمنا تھى کہ میں تیرے چہرے کو دیکھوں اور میں بھى تیرے گلشن حسن سے ایک پھول چنوں _

میرا دل چاہتا تھا کہ میںتیرے پستان سے دودھ پیوں اور یوں تیرے دل کا غم دور کروں _ میر ى آرزو تھى کہ تیرا دودھ پیوں اور تیرى آواز میرے کانوں میں پڑے _

آرزو تھى کہ تو مجھے مدر بھیجتى ، مجھے تعلیم دیتى اور حق پرستى کا درس پڑھاتى _

میں گھر آتا اور تجھے خوش کرتا اور بچوں والے گیت تجھے سناتا _

خیا ل تھا کہ جب میں جوان ہوجاؤں گا تو پھر تجھے اپنے بڑھاپے میںمیرى قدر معلوم ہوتى _

تیرے بڑھاپے میں میں تیرا غم خوار ہوتے اور ہر کام میں تیرا مددگار بنتا _

میں کہ ایک پاک روح بن کر اب جنت میں ہوں اور میرا مقام یہاں حوروں کے جوار میں ہے اب تو توبہ اور استغفار کر کہ شاید خدائے مہربان اپنى رحمت کرے _

اے افسر سیرى تجھ سے یہ تمنا ہے کہ تو میرا یہ پیغام تمام ماؤں تک پہنچادے _

 

1_ وسائل الشیعہ ، ج 19، ص 15
2_ مکتب اسلام سال 13 ، شمارہ 8
3_ وسائل الشیعہ ج 19 ص 169
4_ مجلہ مکتب اسلام سال 16_شمارہ 12