زندگى کا حساس ترین دور
زندگى کا حساس اور اہم ترین دور بچپن کا زمانہ ہے _ ہر فرد کى آئندہ شخصیت کى بنیاد اسى زمانے میں پڑتى ہے اور ایک خاص شکل و صورت اختیار کرتى ہے کوئی چھوٹا سا انحراف یا سہل انگارى ممکن ہے بچے کى آئندہ کى شخصیت کو ناقابل تلافى نقصان پہنچادے _ بالخصوص زندگى کے ابتدائی تین سالوں میں کہ جو بہت ہى حساس اور اہم دورہوتا ہے _ شاید سب لوگ یا اکثر لوگ بچے کى شیر خوارگى کے زمانے سے بالکل غافل ہوتے ہیں اور اس کى اہمیّت کے بالکل قائل نہیں ہوتے کہتے ہیں:
بچے خصوصاً نو مولود کى سمجھ میں کوئی بات نہیں آتى _ نہ کوئی بات کرسکتا ہے اور نہ ہى سمجھ سکتا ہے اتنا بے بس ہوتا ہے کہ اپنے پیشاب پاخانے پر اس کا بس نہیں چلتا _ اس میں تعلیم و تربیت کى کیا قابلیت ہوگى _
یہ سمجھ کر بچپن کا زمانہ بالکل بے توجہى کے سپرد کردیا جاتا ہے جس مسئلہ کے بارے میں بہت بڑا اشتباہ کیا جاتا ہے وہ یہى بچے کى ابتدائی زندگى ہے کہ جو اس کا انتہائی اہم اور احساس زمانہ ہوتا ہے _ اسى بظاہر سادہ سے زمانے میں بچہ شکل اختیار کرتا ہے اور اس کى اخلاقى ، معاشرتى اور دینى شخصیت کى بنیاد پڑتى ہے _
اس ابتدائی تین سال کے عرصے میں بچہ سینکڑوں الفاظ یادکرتا ہے ان کے معانى سے آشنا ہوتا ہے _ اچھائی برائی ، دوستى دشمنی، محبت نفرت ، خوبصورتى و بد صورتى چھوٹے ، بڑے، مختلف رنگوں ، مختلف ذائقوں اور اس طرح کى بہت سى چیزوں کو خوب سمجھنے لگتا ہے _ دیکھنے، سننے اور بلونے کا انداز سیکھتا ہے ، سوچنے کے انداز سے آشنا ہوتا ہے گھٹنوں کے بل چلنے ، بیٹھنے، چلنے پھرنے، رونے ہنسنے جیسے دسیوں کام یادکرتا ہے ، چیزوں اور لوگوں کو پہچاننے لگتا ہے اور ان میں فرق کرنے لگتا ہے _ دسیوں نئی نئی چیزیں سیکھتا ہے اور ان کا عادى ہوتا چلا جاتا ہے_ ان تین سال کى مدت میں ہزاروں اچھے برے واقعات بچے کى حساس اور لطیف رو ح پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کى آئندہ کى روش کا تعیّن کرتے ہیں _
اس سب کے باوجود بہت ہى کم کوئی ایسا شخص ہوتا ہے کہ جسے اپنى زندگى کے ابتدائی تین سالوں میں سے کچھ یا دہو اس دوران کے تمام واقعات پر فراموشى اور نسیان کا پردہ چھا جاتا ہے لیکن بچے کى طبیعت پر اثر باقى رہ جاتا ہے اور اس کى آئندہ کى زندگى ایک حد تک واضح ہوجاتى ہے _ بہت سارى نفسیاتى بیماریاں ، خوف ، اضطراب، غصّہ اور ناامیدیاں اسى زمانے کے واقعات سے جنم لیتى ہیں _
ایک ماہر نفسیات سکھتے ہیں :
اگر بچے کى شخصیت زندگى کى ابتدائی سالوں میں مضبوط نہ ہو سکى تو اس میں آئندہ کى ذمہ داریوں کا مقابلہ کرنے کى طاقت نہیں ہوگى اور وہ مختلف نفسیاتى خرابیوں کا شکار ہوجائے گا _ اسى وجہ سے عموماً یہ بات دیکھنے میں آتى ہے کہ بہت سى بنیادى نفسیاتى پریشانیوں کا سرچشمہ زندگى کے ابتدائی تین چار سال ہى ہوتے ہیں ... جب بھى کوئی ماہر نفسیاتى کسى اعصابى بیمارى کے نفساتى اسباب کا تجزیہ و تحلیل کرتا ہے تو یہ بات سمجھتا ہے کہ اس شخص کى ابتدائی زندگى میں ایسے عوامل موجود تھے جواب مشکلات سے اس کے فرار کرنے میں غیر معمولى طور پر مؤثر ہیں _(1)
ڈاکٹر جلالى لکھتے ہیں :
بچے کے معاشرتى چال چلن کى بنیاد زندگى کہ پہلے سالہى میں پڑجاتى ہے _
... کى طرف میلان یا عدم میلان اسى زمانے میں ظاہر ہوجاتا ہے _ (2)
اس بناپر ذمہ دار اور سمجھدار ماں باپ اس حساس اوراہم دور کو عدم توجہى کا شکار نہیں ہونے دیتے اور بچے کى تربیت کو بعد کے زمانے پر ملتوى نہیں کردیتے بلکہ تعلیم و تربیت آغاز ولادت ہى سے کردیتے ہیں _
بعض دانشور کہتے ہیں:
بچے کى تربیت ولادت ہى سے شروع ہوجاتى ہے بڑے یا بچے ان سے جو برتاؤ کرتے ہیں اور جیسى توجہ انہیں دیتے ہیں وہى ان کى پہلى تربیت قرار پاتى ہے _ اسى طرح وہ مناظر جنہیں بچہ دیکھتا ہے اور وہ آواز یں جنہیں وہ سنتا ہے ، یونہى تما م وہ تاثیرات جو حواس کے ذریعے سے اس کے اعصاب اور ذہن پر مرتب ہوتى ہیں اس کى طرز تربیت پر اثر انداز ہوتى ہیں _ بہت سى معلومات اور تجربات جو بچے کى عادات کى تشکیل اور اس کے مستقبل کے اخلاق کى تعمیر میں اثر انداز ہوتے ہیں وہ ابتدائی زندگى ہى سے متعلق ہوتے ہیں _ ابتدائے ولادت سے بڑے جو سلوک بچوں کے ساتھ روارکھتے ہیں یہ ان کى معلومات اور تجربات میں حتمى طور پر مؤثر ہوتا ہے اور تربیت و تعلیم کے عوامل میں سے شمار ہوتا ہے _ (3)
رسل رقم طراز ہے :
تربیت اخلاق کے لیے صحیح اور مناسب موقع لحظہ تولّد ہے کیونکہ یہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ جب مایوسى کے بغیر تربیت کا عمل شروع کیا جا سکتاہے _ اگر تربیت اس دور کے بعد شروع کى گئی تو پھر مخالف عادات کے ساتھ بھى نبرد(4)
حضرت على علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام سے فرمایا:
انما قلب الحدیث کالارض الخالیة ما القى فیہا من شیء قبلتہ ، فبادرتک بالقلب ان یقسو قلبک و یشتغل لبّک_
بچے کا دل خالى زمین کى مانند ہوتا ہے جو چیز بھى اس میں ڈالى جائے اسے قبول کرلیتا ہے _ اسى لیے اس سے پہلے کہ تمہارا دل سخت اور مشغول ہوجائے میں نے تمہیں مؤدب بنانے کے لیے قدم اٹھایا_ (5)
1_ روان شناس کودک و بالغ ، ص 106
2_ رواں شناسى کودک ، ص 302
3_ علم النفس التربوى ج 1، ص 19
4_ در تربیت ، ص 79
5_ وسائل الشیعہ ج 15 ص 157