بچّون کا احترام
بچہ بھى ایک انسان ہوتا ہے اور ہر انسان کو اپنے آپ سے محبت ہوتى ہے _ اس کى خواہش ہوتى ہے کہ دوسرے اس کى قدر جانین اور اس کا احترام کریں _ دوسرے جب اس کا احترام کرتے ہیں تو وہ اسے اپنى بڑائی سمجھتا ہے اور اسے ایک طرح کى قدردانى سمجھتا ہے _ جن ماں باپ کو اپنى اولاد سے محبت سے انہیں چاہیے کہ ہمیشہ ان کا احترام ملحوظ رکھیں اور ان کے وجود کو اہمیت دیں _ بچے کى تربیت میں اس کا احترام اہم عوامل میں سے شمار کیا جاتا ہے _ جس بچے کو عزت و احترام میسّر ہو وہ بزرگوار، شریف اور باوقار بنتا ہے _ اور اپنے مقام کى حفاظت کے لیے برے کاموں سے بچتا ہے _ وہ کوشش کرتا ہے کہ اچھے اچھے کام کرکے دوسروں کى نظر میں اپنے مقام کو اور بھى بڑھائے تا کہ اس کى زیادہ سے زیادہ عزت کى جائے _ جس بچے کا ماں باپ احترام کرتے ہوں وہ اپنے عمل میں ان کى تقلید کرتا ہے اور ماں باپ کا اور دوسرے لوگوں کا احترام کرتا ہے _ بچہ ایک چھوٹا سا انسان ہے اسے اپنى شخصیت سے پورى محبّت ہے _ توہین اور تحقیر سے آزردہ خاطر ہوجاتا ہے _ ماں باپ جس بچے کى توہین و تحقیر کرتے ہوں اس کے دل میں ان کے بارے میں کینہ پیداہوجاتا ہے اور جلد یا بدیر و ہ سرکش اور نافرمان بن جاتا ہے اور ان سے انتقام لیتا ہے _ نادان ماں باپ کہ بدقسمتى سے جن کى تعداد کم نہیں سمجھتے ہیں کہ بچون کا احترام ان کى تربیت کے منافى ہے _ ماں باپ کے شایان شان نہیں ہے _ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے بچے کا احترام کیا تو وہ بگڑجائے گا _ اور پھر ہمارا احترام نہیں کرے گا _ وہ بچوں سے بے اعتنائی
اور ان کى بى احترامى کو ان کى تربیت کا ذریعہ شمار کرتے ہیں اس طرح وہ ان کى شخصیت کو کچل دیتے ہیں اور ان کے دل میں احساس کرمترى پیدا کردیتے ہیں _ جب کہ یہ روش تربیت کے حوالے سے بہت بڑا اشتباہ ہے اگر ماں باپ بچے کا احترام کریں تو اس سے نہ صرف یہ کہ ان کا مقام بچے کى نظر میں کم نہ ہوگا بلکہ اس طرح سے اس کے اندر بھى بزرگوارى اور وقار کى روح پر وان چڑھے گى _ بچہ اسى بچپن سے سمجھنے لگتا ہے کہ ماں با پ اسے ایک انسان سمجھتے ہیں اور اس کى اہمیت کے قائل ہیں _ اس طرح سے جو کام معاشرے میں اچھے نہیں سمجھتے جاتے وہ ان سے بچتا ہے _ وہ اچھے کام کرتا ہے تا کہ اپنے مقام کو محفوظ رکھے _ یہ بات باعث افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کا جس طرح سے احترام ہونا چاہیے نہیں کیا جاتا اور انہیں خاندان کا ایک باقاعدہ جزوشمار نہیں کیا جاتا _ یہاں تک کہ دعوتوں میں بچے ماں باپ کے طفلى ہوتے ہیں انہیں باقاعدہ دعوت نہیں دى جاتى _ اور انہیں کسى نچلى جگہ پر یا کمرے کے دروازے کے ساتھ جگہ ملتى ہے اور ان کے لیے باقاعدہ پلیٹ، چمچہ و غیرہ پیش نہیں کیا جاتا _ آتے وقت اور جاتے وقت کوئی ان کا احترام نہیں کرتا _ گاڑى میں ان کے لیے مخصوص نشست نہیں ہوتى _ یا تووہ کھڑے ہوں یا ماں باپ کى گود میں بیٹھے ہوں _ محفل میں انہیں بات کرنے کاحق نہیں ہوتا اگر وہ بات کریں بھى تو کوئی ان کى سنتا نہیں بے احترامى سے بلایا جاتا ہے ، میل ملاقات اور بات چیت میں ان سے مؤدبانہ سلوک نہیں کیا جاتا _ ان کے لیے سلام خوش آمدید ، خداحافظ اور شکریہ نہیں ہوتا_ ان کى خواہش کى طرف کوئی توجہ نہیں کرتا _ گھریلو امو رمیں ان سے مشورہ نہیں لیا جاتا _ گھٹیا اور توہین آمیز کام کرنے کے لیے ان سے کہا جاتا ہے _
دین مقدس اسلام نے بچوں کى طرف پورى توجہ دى ہے اس نے بچوں کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے _
رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
اپنى اولاد کى عزّت کرو اور ان کى اچھى تربیت کرو تا کہ اللہ تمہیں بخش دے _
حضرت على علیہ السلام نے فرمایا:
سب سے گھٹیا انسان وہ ہے جو دوسروں کى توہین کرے _ (1)
رسول اللہ ہمیشہ اور ہر جگہ بچوں سے محبت اور شفقت سے پیش آتے _ جب وہ سفر سے واپس آتے تو بچے ان کے استقبال کے لیے دوڑتے _ رسول اللہ ان سے پیار کرتے ، محبت کرتے اور ان میں سے بعض کو اپنے ساتھ سوار کرلیتے اور اپنے اصحاب سے بھى وہ کہتے کہ دوسروں کو وہ سوار کرلیں _ اور اس حال میں شہر کے اندر لوٹتے _
بچوں سے یہاں تک شیرخوار بچوں کى توہین سے بھى سختى سے پرہیز کرنا چاہیے _ ام الفضل کہتى ہیں _ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حسین علیہ السلام کو جب کہ وہ شیرخوار تھے مجھ سے لے لیا _ اور سینہ سے لگایا _ حسین علیہ السلام نے رسول (ع) کے کپڑوں پر پیشاب کردیا میں نے حسین (ع) کو رسول اللہ (ص) سے زبردستى لے لیا _ اس طرح سے کہ وہ رونے لگے رسول اللہ (ص) نے مجھ سے فرمایا _ ام الفضل آرام سے اس پیشاب کو پانى پاک کردے گا لیکن حسین علیہ السلام کے دل سے ناراضى اور ناراحتى کون دور کرے گا ؟ (3)
ایک صاحب لکھتے ہیں :
ماں باپ کى نظر میں میرى کوئی اہمیّت نہ تھى _ نہ صرف وہ میرا احترام نہ کرتے تھے بلکہ اکثر میرى توہین اور سرزنش کرتے رہتے کاموں میں مجھے شریک نہ کرتے اور اگر میں کوئی کام انجام دیتا تو اس میں سے کپڑے نکالتے _ دوستوں کے سامنے یہاں تک کہ میرے دوستوں کے سامنے میرى بے عزتى کر دیتے _ مجھے دوسروں کے سامنے بولنے کى اجازت نہ دیتے _ اس وجہ سے ہمیشہ میرے دل میں اپنے بارے میں احساس ذلت و حقارت رہتا _ میں اپنے تئیں ایک فضول اور اضافى چیز سمجھتا _ اب جب کہ میں بڑا ہوگیا ہوں اب بھى میرى وہى کیفیت باقى ہے _ بڑے کام سامنے آجائیں تو میں اپنے آپ کو کمزور سمجھنے لگتا ہوں _ کاموں کى انجام وہى میں فیصلہ نہیں کرپاتا _ میں اپنے تئیں کہتا ہوں میرى رائے چونکہ درست نہیں ہے اس لیے دوسروں کو میرے بارے میں اظہار رائے کرنا چاہیے _ اپنے تئیں حقیر و ناچیز سمجھتا ہوں سمجھے اپنے آپ پر اعتماد نہیں ہے یہاں تک کہ دوستوں کى موجودگى میں مجھ میں بات کرنے کى ہمت نہیں ہوتى اور اگر کچھ کہہ بیٹھیوں تو کئی گھنٹے سوچتا رہتا ہوں کہ کیا میرى بات درست تھى اور صحیح موقع پر تھى _
1_ بحار ، ج 104، ص 25
2_ غرر الحکم ، ص 189
3_ ہدیة الاحباب ، ص 176