پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

پيدائيش کي مشکلات

پیدائیش کی مشکلات

بچہ عموما رحم مادر میں نو ماہ اور دس دن درہتا ہے_ ولادت سے_ ولادت سے پہلے کى زندگى نہایت حساس اور پر خطر ہوتى ہے کیوں کہ بچہ کا مستقبل اسى سے وابستہ ہو تا ہے _ بچہ اس عرصے مین ایسے محیط میں زندگى گزار تاہے کہ جس کا نظم و ننسق اس کے اپنے ہاتےھ میں نہیں ہوتا اور وہ دسیوں قسم کے جسمانى اور روحانى خطروں میں گھرا ہو تا ہے اور خود انہیں دور کرنے کى اس میں طاقت نہیں ہوتى جب اس مرحلے سے جان سالم لے کر آجائے اور نو ماہ کى خط ناک مسافرت کو تمام کربیٹھے تو اب ناچار ہے کہ ایک اور دشوار مرحلے کا آغاز کرے اور یہ مرحلہ پیدائشے کا ہے _ بچے کى پیدائشے کا مرحلہ ایسا سادہ او رمعمولى سا نہیں بلکہ نہایت دشوار اور حساس ہے _

بچہ نو ماہ اتنا بڑا ہو جاتا ہے ، خاص طور پر دیگر اعضاء کى نسبت اس کا سر بڑ ا ہو چکا ہو تا ہے کہ اس اسے ناچار ایک نئے سخت مرحلے سے گزر ناہى ہوتا ہے _ اس تنگ مقام تولد سے باہر آنا انسان کى پورى زندگى میں انجام پانے والے کسى بھى سفر سے خطر ناک تر ہے _ ممکن ہے بچہ پس جائے یا اس کى کوئی ہڈى ٹوٹ جائے _ ممکن ہے اس کى نازک اور ظریف ہڈیاں کہ جو ابھى با ہم اچھى طرح ملى نہیں ہو تیں ، ان پر دباؤ پڑ جائے جس سے بچے کے اعصاب اور مغز کو نقصان پہنچے _

ایک ماہر لکھتے ہیں :

پیدائشے کا مرحلہ ممکن ہے کہ بچے میں دائمى لیکن غیر مرئی قسم کے نفسیاتى نقائص پیدا ہونے کا سب بنے _ نفسیاتى بیماریوں کے معالجین کے نزدیک پیدائشے کے عمل کو انسان کى پورى زندگى کیماہیت کے لیے ایک مؤثر عامل شمار ہوتا ہے ان ماہرین کى نظر میں پیدائشے ایک انقلابى تبدیلى کا نام ہے کہ جو بچے کے ماحول اور زندگى مین پیدا ہوتى ہے اور اچانک وہ خاص قسم کى آسودگى اور آرام جو جنین کى زندگى میں اسے حاصل ہوتا ہے و ہ ختم ہو جاتا ہے _ ان کى نظر میں پیدائشے کے موقع پر خوف ارو اضطراب انسان کى نفسیات کاحصہ بن جاتا ہے اور انسان کى آئندہ زندگى ہمیشہ نا معلوم یادوں کے آزار کے تحت گزرتى ہے _ زندگى کا ایک پر آرام دور جنین کا اور پھر مستقل زندگى کى طرف نہایت مشکل عالم میں ورود ( 1)

ڈاکٹر جلالی لکہتے هیں :

جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو عموما چند گھنٹے وہ ایک دباؤ کے تحت رہتا ہے اور سب سے زیادہ مشکل سے اس کا سر دو چار ہو تا ہے کہ جو اس کے بدن کے تمام تر اعضاء میں سے سب سے بڑا ہوتا ہغ اگر پیدائشے غیر معمولى طریقے سے ہو تو دنیا میں آنے کے مرحلے اور بھى سخت تر ہو جاتے ہیں اور بچہ عام حالات کى مشکلات برداشت کرنے کے علاوہ میکانیاتى آلات کى مصیبت بھى برداشت کرتا ہے اور زیادہ تر بچوں کا ضائع ہو جا نا یا پیدائشے کے تھوڑى ہى مدت بعدت ان کا مرجا نا ایسى ہى مصیبتوں اور مشکلوں کے باعث ہو تا ہے فالج اور دیوانگى و غیرہ جیسے ہدنى اور دہنى نقائص جو بچوں میں دکھائی دیتے ہیں عموما ایسى ہى مصیبتوں کا باعث ہوتے ہیں جو دنیا میں آتے وقت آن پروارد ہوتى ہیں (2)

بنا بریں پیدائشے کا مر حلہ ایک معمولى اور غیر اہم مرحلہ نہیں بلکہ ایک دشوار اور قابل تو جہ عمل ہے کیونکہ ز چہ اور بچہ کى سلامتى اس سے البستہ ہوتى ہے _ ٹھوڑى سے غفات یا سہل انگارى ماں یا بچے کے لیے نا قابل تلافى نقصان کا باعث بن سکتى ہے _ یہاں تک کہ ممکن ہے اس مرحلے میں ان کى جان چلى جائی لیکن آج کل کى حالت میں جب مرا کز پیدائشے ، ڈاکٹر اور دواز یادہ تر لوگوں کى دسترس میں ہے تو احتمالى خطرات سے بچا جا سکتا ہے _

لہذا حاملہ خواتین کو نصیحت کى جاتى ہے کہ اگر وہ ڈاکٹر یا مرکز پیدائشے تک دسترس رکھتى ہیں تو وقت سے پہلے ان کى طرف رجوع کریں اور بچے کى پیدائشے کے وقت کے بارے میں معلومات حاصل کریں او رجب ضرورى ہو تو فورا مرکز پیدائشے کى طرف رجوغ کریں چونکہ یہ مراکز گھر سے ہر لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں _ کیونکہ اورلا تو و ہاں ڈاکٹر ، دوا اور نرس موجود ہیں اور ضرورى موقع پر وہ و چہ کى فورى مار دکر سکتے ہیں اور اگر پیدائشے میں کوئی غیر معمولى مسئلہ پیش آجائے تو ہر لحاظ سے وسائل موجود ہوتے ہیں اور جلدى سے اس کى مد د کى جاسکتى ہے _ لیکن اگر وہ گھر میں ہو اور پیدائشے میں کوئی غیر معمولى مسئلہ پیش آجائے تو اسے ڈاکٹر یا مرکز پیدائشے تک لے جانے میں ممکن ہے کہ زچہ اور بچہ کى جان خطر ے میں پڑ جائے _

دوسرا یہ کہ مرکز پیدائشے کے کمر ے صحت و سلامتى کے نقطہ نظر سے گھر کے کمروں سے بہتر ہوتے ہیں اور عورت و ہاں زیادہ آرام کرسکتى ہے _

تیسرا یہ کہ وہاں پر رشتے داروں اور ہمسایہ عورتوں کا پیدائشےى عمل میں دخل نہیں ہوتا اور نہ ہى ان کى مختلف قسم کى آراء ہوتى ہیں جب کہ ان کى وکالت عموماً علم و آگہى کى بناء نہیں ہوتى لہذا ضرررساں ہوسکتى ہے _

مرد کى بھى اص ضمن میں بھارى ذمہ دارى ہوتى ہے _ شرعاً اور عقلاً اس کافریضہ ہے کہ ان حسّاس اور خطرناک لمحات میں اپنى بیوى کى مدد کرے اور احتمالى خطرات سے اسے اور بچے کو بچانے کى کوشش کرے _ اگر اس کى غفلت یا سستى کى وجہ سے بیوى یا بچہ تلف ہوجائے یا پھر انہیں جسمانى یا روحانى لحاظ سے نقصان پہنچے تو ایسا بے انصاف شوہر شریعت اور ضمیر کى عدالت میں مجرم قرار پائے گا اور روز قیامت اس سے بازپرس کى جائے گى _ علاوہ ازیں اس جہاں میں بھى وہ اپنے کام کا نتیجہ بھگتے گا اور اگر آج سہل انگارى یا کنجوسى یا کسى اور بہانے سے بیچارى بیوى کى مدد نہیں کرے گا تو بعد میں مجبور ہوگا کہ اس کے مقابلے میں سوگنا خرچ کرے لیکن پھر بھى زندگى کا پہلا سکون واپس نہیں لایا جا سکے البتہ اگر ڈاکٹر اور پیدائشے گا ہ تک رسائی نہ ہو تو پھر گھر میں ہى یہ کام ان دائیوں کے ذریعے انجام پانا چاہیے کہ جو اس کام میں مہارت رکھتى ہیں_

 

اس ضمن میں مندرجہ ذیل ہدایات کى طرف توجہ کرنى چاہیے _

1_ پیدائشے کے کمرے کا درجہ حرارت معتدل اور طبیعى ہونا چاہیے اور سرد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ زبردست دباؤ، درد اور کئی گھنٹوں کى زحمت کى وجہ سے عورت کى طبیعت عام حالات سے مختلف ہوجاتى ہے اسے پسینے آتے ہیں اور بچے کے لیے بھى ٹھنڈلگنے اور بیمارى کا خطرہ ہوتا ہے ، جب بچے کى پیدائشے کا دشوار گزار مرحلہ گزر جائے تو اگر کمرے کى ہوا کا درجہ حرارت سرد ہو تو احتمال قوى ہے کہ زچہ کو ٹھنڈلگ جائے اور اس کى وجہ سے کئی بیماریاں پیدا ہوجائیں _ علاوہ ازیں ٹھنڈى ہوا نو مولود کے لیے بھى نہایت خطرناک ہے کیونکہ پچہ رحم مادر میں طبیعى حرارت کے ماحول میں رہا ہوتا ہے کہ جس کا درجہ حرارت تقریباً3765 سینٹى گریڈہوتا ہے _ لیکن جب وہ دنیا میں آتا ہے تو کمرے کا درجہ حرارت عموماً اتنا نہیں ہوتا اس وجہ سے نومولود کو جو بہت ناتوان ہوتا ہے اوراس میں یہ طاقت نہیں ہوتى کہ اپنے بدن کے لیے درکار حرارت اور توانائی مہیا کرسکے، اسے ٹھنڈ لگ جانے کا اور بیمارى میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور ان نومولود گان کامعالجہ بھى نہایت مشکل ہوتا ہے _ اس طرح بیمار ہونے والے زیادہ تر بچے مرجاتے ہیں _

2_ محتاط رہنے کى ضرورت ہے کہ کمرے کى ہوا مٹى کے تیل یا کوئلے کے جلنے کى وجہ سے دھوئیں سے مسموم اور آلودہ نہ ہوجائے کیونکہ ایسى مسموم ہوا میں سانس لینا زچہ اور بچہ ہر دو کے لئے ضرر رساں ہے _

3_ بہتر ہے کہ پیدائشے کے کمرے میں حتى المقدور خلوت ہو _ غیر متعلق عورتوں کو کمرے سے باہر کردیں کیونکہ ایسى خواتین علاوہ اس کے کہ ان کى ضرورت نہیں ہوتى وہ زچہ کے لیے ناراضى اور شرمندگى کا باعث بنتى ہیں _ کمرے کى ہوا کو کثیف کرتى ہیں علاوہ ازیں پیدائشے کے وقت زچہ کى شرم گاہ کى طرف دیگر عورتوں کا دیکھنا حرام ہے اوروہ اس عالم میں اپنى سترپوشى نہیں کرسکتى _

امام سجاد علیہ السلام نے ایک موقع پر جب کہ ایک حاملہ عورت کاوضع حمل ہونے والا تھا تو فرمایا عورتوں کو باہر نکال دیں کہ کہیں زچہ کى شرم گاہ کى طرف نہ دیکھیں _(3)

حاملہ عورت اگر اپنى ذمہ دارى پر عمل کرے تو اسے چاہیے کہ پورى احتیاط کے ساتھ اپنے حمل کے زمانے کو اختتام تک پہنچائے اور ایک سالم اور بے عیب بچہ معاشرے کو سونپے اس نے ایک بہت ہى قیمتى کا م انجام دیا _ ایک صحیح اور بے نقص انسان کو وجود بخشا ہے کہ جو ہمیشہ اپنى ماں کا مرہون حق رہے گا _ اس کے علاوہ اس نے انسانى معاشرے کى بھى خدمت انجام دى ہے کہ اسے ایک بے نقص اور قیمتى انسان عطا کیا ہے ممکن ہے اس کا وجود معاشرے کے لیے خیرات و برکات کا موجب قرار پانے اور یہ عظیم خدمت کے نزدیک بھى بے اجر نہیں رہے گى _ ایک روز پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم جہاد کى فضیلت کے بارے میں گفتگو فرما رہے تھے _ ایک عورت نے عرض کى یا رسول اللہ کیا عورتیں جہاد کى فضیلت سے محروم ہیں _ پیغمبر (ص) نے فرمایا: نہیں عورت بھى جہاد کا ثواب حاصل کر سکتى ہے _ جس وقت عورت حاملہ ہوتى ہے اور اس کے بعد اس کا وضع حمل ہوتا ہے اور جب بچے کو دودھ دیتى ہے یہاں تک کہ بچہ دودھ پینا چھوڑ دیتا ہے تو اس سارى مدّت میں عورت اس مرد کى طرح ہے جو میدان کارزار میں جہاد کررہا ہو _ اگر اس عرصے میں عورت فوت ہوجائے تو بالکل ایک شہید کے مقام پر ہے _(4)

 


1_ بیو گرافى پیش از تولد ص 160
2_ روانشناسى کودک ص 193
3_ وسائل الشیعہ _ جلد 10 ص 119
4_ مکارم الاخلاق _ج 1 ، ص 268