پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

كتاب كا مطالعہ

کتاب کا مطالعہ

کتا ب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کا ایک بہترین طریقہ ہے _ اچھى کتاب قارى کى روح پر بہت گہر اثر ڈالتى ہے _ اس کى روح اور نفس کو کمال عطا کرتى ہے اور اس کى انسانى حیثیت کربلند کردیتى ہے _ اس کے علم میں اضافہ کرتى ہے _ اس کى معلومات بڑھاتى ہے _ اخلاقى اور اجتماعى خرابیاں دور کرتى ہے _ خصوصاً دور حاضر کى مشینى زندگى میں کہ جب انسان کے پاس فرصت کم ہوگئی ہے اور علمى و دینى محافل میں شرکت مشکل ہوگئی ہے کتاب کا مطالعہ تعلیم و تریت کے لیے اور بھى اہمیت اختیار کرگیا ہے ممکن ہے کتاب کے مطالعے سے انسانى روح پر جو اثرات مترتب ہوں وہ دیگر حوالوں سے مترتب ہونے والے اثرات سے عمیق ترا ور زیادہ گہرے ہوں کبھى انسان کا مطالعہ اس کى شخصیت کو تبدیل کرکے دکھ دیتا ہے علاوہ ازیں مطالعہ کتاب بہترین مشغولیت بھى ہے اور صحیح تفریح بھى _ جو لوگ اپنى فراغت کے اوقات کتاب کے مطالعہ میں گزارتے ہیں وہ علمى اور اخلاقى استفادہ کے علاوہ اعصابى کمزورى اور روحانى پریشانى سے بھى محفوظ رہتے ہیں اور ان کى زندگى زیادہ آرام وہ ہوتى ہے _ کتاب ہر نظارے سے زیادہ خوبصورت اور ہر باغ اور ہر چمن سے زیادہ فرحت بخش ہے لیکن جو اہل ہو اس کے لیے _ کتاب دلوں کى پاکیزگى اور نورانیت عطا کرتى ہے اور غم بھلادیتى ہے اگر چہ وقتى طور پر ہى سہی_

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

جو شخص اپنے آپ کو کتابوں کے ساتھ مصروف رکھتا ہے اس کا آرام خاطر ضائع نہیں ہوتا _(1)

امیرالمومنین علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:

تازہ بہ تازہ علمى مطالب حاصل کرکے اپنے دلوں کى کسالت اور خستگى کو دور کروکیوں کہ دل بھى بدن کى طرح تھک جاتے ہیں _ (2)

ہر ملت کى ترقى اور تمدّن کا معیار ان کى کتابوں کى کیفیت ، تعداد اشاعت اور مطالعہ کرنے والوں کى تعداد کو قرار دیا جا سکتا ہے پڑھا لکھا ہونا ترقى کى علامت نہیں بلکہ مطالعہ اور تحقیق ملتوں کى ترقى کى علامت ہے _ہمارے پاس پڑھے لکھے بہت ہیں لیکن یہ بات باعث افسوس ہے کہ محقق اور کتاب دوست زیادہ نہیں _ زیادہ تر لڑکے لڑکیاں جب فارغ التحصیل ہوجاتے ہیں تو کتاب کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں وہ کاروبار اور زندگى کے دیگر امور میں مشغول ہوجاتے ہیں لہذا ن کى معلومات کا سلسلہ وہیں پر رک جاتا ہے _ گویا حصول تعلیم کا مقد بس حصول معاشر ہى تھا _ جب کہ حصول تعلیم کو انسان کے کمال اور علمى پیش رفت کے لیے مقدم ہونا چاہیے _ انسان ابتدائی تعلیم کے حصول سے مطالعہ اورتحقیق کى صلاحیّت پیدا کرتا ہے _ اس کے بعد اس کو چاہیے کہ وہ مطالعہ کرے _ تحقیق کرے اور کتاب پڑھے تا کہ اپنے آپ کى تکمیل کرسکے اور پھر ایک مرحلے پر انسانى علوم کى ترقى میں مددکرسکے اور یہ کام توانائی اور وسائل کے مطابق آخر عمر تک جارى رکھے _ دین مقدس اسلام نے بھى اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ بچپن سے لے کر موت کى دہلیز تک حصول علم کو ترک نہ کریں _

رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

حصول علم ہر مسلمان کا فریضہ ہے اور اللہ طالب علموں کو پسند کرتا ہے _(3)


حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

میرے اصحاب کو اگر تازیانے سے بھى حصول علم کے لیے آمادہ کیا جائے تومجھے یہ پسند ہے _ (4)

رسول اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

دو افراد کے علاوہ زندگى میں کسى کے لیے بھلائی نہیں پہلا وہ عالم کہ جس کى ابتاع کى جانے اور دوسرا کہ جو حصول علم میں مشغلو ہو _ (5)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

لوگ تین طرح کے ہیں:

1_ عالم ،

2_ طالب علم اور

3_ باقى کو ڑاکر کٹ کا ڈھیر _(6)

امام صادق علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:

حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: بیٹا اپنے شب و روز میں کچھ وقت مطالعہ اور حصول علم کے لیے مختص کرو کیونکہ اگر تم نے مطالعہ ترک کردیا تو تمہارا علم ضائع ہوجائے گا _ (7)

امام جعفر صادق علیہ السلام ہى نے ارشاد فرمایا:

حصول علم ہر حال میں واجب ہے _ (8)

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

طلب العم فریضة على کل مسلم و مسلمة

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے _ (9)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اگر لوگوں کو علم کا فائدے معلوم ہوتے تو اس کے حصول کے لیے کوشش کرتے اگر چہ اس کام میں ان کى جان خطرے میں پڑجاتى یا انہیں حصول علم کیلئے سمندر پار کا سفر کرنا پڑتا _ (10)

نبى کریم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

اگر میرا کوئی ایک دن ایسا گزرجائے کہ جس دن میرے علم میں کچھ بھى اضافہ نہ ہو تو ہ دن نا مبارک ہے _(11)

ماں باپ کى ابتدائی ذمہ دارى یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھنے لکھنے کے لیے اسکول بھیجیں اسلام نے اس سلسلے میں بھى بڑى تاکید کى ہے _

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

بچہ سات سال کھیلتا ہے سات سال پڑھتا ہے اور سات سال حلال و حرام کے متعلق جانتا ہے _ (12)

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

بیٹے کے باپ پر تین حق ہیں _

1_ اس کا اچھا سانام رکھے،

2_ اسے پڑھنا لکھنا سکھائے اور

3_ جب بڑا ہوجائے تو اس کى شادى کرے _ (13)

نبى اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جب بچے کو مدرسے لے جاتے ہیں اور استاد اسے بسم اللہ پڑھتا ہے تو خدا اس کے والدین کو جنہم کى آگ سے بچالیتا ہے _ (14)

پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

افسوس ہے دور آخر کے بچوں پر کہ جوان کے آباء کے ہاتھؤں ان چہ گزرے گى _ اگر چہ وہ مسلمان ہوں گے لیکن اپنى اولاد کو دینى فرائض سے آگاہ نہیں کریں گے _ (15)

ماں باپ کى دوسرى ذمہ دارى یہ ہے کہ وہ اپنى اولاد کى اس طریقے سے پرورش کریں کہ وہ علم و دانش حاصل کرنے، کتاب پڑھنے اور بحث و تحقیق کے شیدا بنیں_ ان کے گھر کا ماحول عملى ہونا چاہیے _ اور وہ اپنے بچوں کو قول و عمل سے مطالعہ کرنے کا شوق دلائیں _ بہتر یہ ہے کہ یہ طریقہ کاربچپن ہى سے شروع کردیا جائے _ اور بچے کے سکول جانے سے پہلے اسے اس طرز عمل کا عادى بنایا جائے _ پہلے آپ بچوں کو کتاب پڑھ کر سنائیں _ چھوٹے چھوٹے _ سادہ اور قابل فہم قصّوں اور کہانیوں کى کتابیں انہیں لاکردیں _ اگر یہ کتابیں تصویروں والى ہوں تو اور بھى بہتر ہے _ پھر ہر روز ماں باپ یا بڑى بہن یا بھائی اس کتاب کا کچھ حصہ چھوٹے بچے کو پڑھ کر سنائیں اور اگر اس کتاب میں تصویریں بھى ہوں تو کتاب کے مطالب کى ان تصویروں کے ساتھ تطبیق کرکے بچوں کو بتائیں _ پھر اس سے کہا جائے کہ اس کہانى کا خلاصہ بتائے _ اور اگر اس میں چھوٹے چھوٹے شعر بھى ہوں تو اسے وہ شعر یاد کرائے _

جائیں _ البتہ اس سلسلے میں جلدى کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے _ یا بچے کى استعداد اور خواہش کے مطابق اسے کہانیاں پڑھ کر سنائی جائیں نہ کہ اس کى استعداد سے زیادہ _ کیوں کہ اگر اس کى استعداد اور فہم سے زیادہ اس پر ٹھونسنے کى کوشش کى گئی تو وہ شروع ہى سے کتاب پڑھنے سے بیزار ہوجائے گا _

یہ سلسلہ اس وقت تک جارى رکھیں جب تک بچہ خود پڑھنا اور لکھنا سیکھ نہیں جاتا _ اس کے بعد کتاب پڑھنے کى ذمہ دارى خود بچے پر ڈال دى جائے _ کبھى کبھى کتاب کے متعلق اس کى رائے معلوم کى جائے _ کتاب کے مطالب کے بارے میں اس گفتگو کى جائے _ یہ سلسلہ اس وقت تک جارى رکھیں جب بچہ خود بخود کتاب پڑھنے کا عادى ہوجائے _

یہاں پر والدین کى خدمت میں چند نکات کى یاددہانى ضرورى ہے _

1_ بچے کہانیاں پسند کرتے ہیں _ اور ان کے مطالب کو اچھى طرح سمجھتے ہیں _ البتہ کلى مطالب کو وہ اچھى طرح نہیں سمجھتے _ اس لحاظ سے بچوں کى کتابیں حتى المقدور کہانیوں کى صورت میں ہونى چاہیے _

2_ ہر بچہ ایک الگ شخصیت کا مالک ہے _ تمام افراد کى استعداد اور ذ وق برابر نہیں ہوتے _ مختلف عمروں میں ان میں تبدیلى آتى رہتى ہے _ لہذا ماں باپ پہلے اپنے بچے کى استعداد اور ذوق کو سمجھیں اور پھر اسى کے مطابق اس کے لیے کتابیں لائیں _ مشکل اور بوریت سے بھر پور مطالب اس پر ٹھونسنے سے پرہیز کریں _ کیوں کہ ممکن ہے ایسا کرنا اسے کتابیں پڑھنے سے بیزار کردے _

3_ چونکہ بچے کى شخصیت کى تعمیر ہو رہى ہوتى ہے _ اور کتاب اس پر گہرا اور عمیق اپر چھوڑتى ہے _ لہذا اسے ہر طرح کى کتاب نہیںدى جاسکتى _ ماں باپ پہلے خود خود وہ کتاب پڑھیں ، اس کے مطالب پر مطمئن ہونے کے بعد وہ بچے کے سپردکریں _ اگر بچے نے کوئی گندى کتاب پڑھى تو یہ اس کى روح پر برا اثر ڈالے گى _ جب کہ اس کى دوبارہ تربیت کرنا اور اسے سدھارنا بہت مشکل کا م ثابت ہوگا _

4_ بچے جرائم کى کتابیں جن میں پولیس ، قتل، اور چورى ڈاکہ کى باتیں ہوں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں _ لیکن اس طرح کى کتابیں نہ فقط یہ کہ بچوں کے لیے سودمند نہیں ہیں بلکہ انہیں قتل ، جرم اور چورى و غیرہ کے طریقے سکھاتى ہیں _ جس سے ان کى سلامتى ، اور روحانى و نفسیاتى سکون تباہ و برباد ہوجاتا ہے _ اور اسى طرح جنسى قوت کو تحریک دینے والى کتابیں بھى بچوں کے لیے نقصان وہ ہیں _ کیوں کہ ممکن ہے ان کتابوں سے ان کى جنسى قوت وقت سے پہلے بیدا ر ہوجائے اور انہیں تباہى و بربادى کى وادى میں دھکیل دے _

ایک صاحب اپنى یادداشتوں میں لکھتے ہیں:

... ... میرى دادى اماں تھیں جو مجھ سے بہت محبت کر تى تھیں _ رات کو میں ان کے پاس ہوتا اور ان سے کہانى سنانے کى ضد کرتا _ وہ مجھے سلانے کے لیے ہر رات ایک کہانى سناتیں _ وہ مجھے جن بابا کى کہانى سناتیں اور اسى طرح دوسرى ڈراؤنى کہانیاں _ ان کہانیوں نے میرى روح اور نفسیات پر اپنا اثر چھوڑا _ میں اسى پریشانى کن حالت میں سوجاتا _ اور خواب میں بھى یہ افکار مجھے پریشان کرتے رہتے میں ان تحریک آمیز اور فرضى کہانیوں اور افسانوں کو بہت پسند کرتا انہوں نے میرى روح کو بہت حساس اور پریشان کردیا _ میں بزدل اور ڈرپوک بن گیا _ تنہائی سے مجھے خوف آتا _ میں غصیّلہ اور زود رنج ہوگیا _ یہ کیفیت ابھى بھى مجھ میں باقى ہے _ کاش والدین اس طرح کى جھوٹى اور تحریک آمیز کہانیاں اپنے بچوں کو نہ سنائیں _ میں نے یہ پکاارادہ کیا ہوا ہے کہ اپنے بچوں کو اس طرح کى کہانیاں نہیں سناؤں گا _ میں عموماً انہیں قرآنى قصے اور دیگر سچى کہانیاں سناتا ہوں _

5_ کتاب پڑھنے کا مقصد صرف وقت گزارى نہیں ہے _ بلکہ اس کا اصل مقصد اس کے مطالب کو سمجھنا او ر ان سے استفادہ کرناہے _ یہ بات اہم نہیں ہے کہ بچہ کتنى کتاب پڑھتا ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ اس نے یہ کتاب کس طریقے سے پڑھى ہے _ کیا سرسرى طور پر پڑھ کرگزرکیا ہے یا غور فکر سے اور سمجھ کر اس نے پڑھى ہے ماں باپ کو اس سلسلے میں پورى توجہ رکھنى چاہیے _ بچے سے کبھى کبھى کتاب کے مطالب کے متعلق سوال کرتے رہنا چاہیے _ اور ان مطالب کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں بھى اس کى رائے معلوم کرتے رہنا چاہیئے نیز چاہیئے کہ اس سے دریفات کیا جائے اس سے اس نے کیا نتیجہ حاصل کیا ہے _

6 _ بچوں کو انسانوں اور جھوٹ پر مشتمل حیر ت انگیز کتابیں بھى بہت اچھى لگتى ہیں بچوں کى ایسى کتابوں سے محبت کى ہى بعض دانشور تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس طرح کى کتابیں بچے کے وسعت تخیّل کے لیے بہت مفید ہیں _ لیکن راقم کى رائے یہ ہے کہ غیر حقیقى اور افسانوں کى کہانیاں بچوں کو جھوٹ کا عادى بنادیتى ہیں اور اس کے دماغ میں جھوٹے اور غیر حقیقى افکار جاگزیں ہوجاتے ہیں جب وہ بڑا ہوجائے گا تو اپنى خواہشات کى تکمیل کے لیے بھى غیر حقیقى راستے تلاش کرے گا _

7_ یہ صحیح ہے کہ بچہ کہانیوں کو باقى سب چیزوں کى نسبت زیادہ پسند کرتا ہے _ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ فقط کہانیوں پڑھنے کا عادى ہوجائے _ بلکہ کبھى کبھى علمى ، اخلاقى اور اجتماعى امور پر مشتمل فائدہ بخش کتب بھى اسے دى جائیں تا کہ وہ آہستہ آہستہ گہرے اور دقیق علمى مطالب سمجھنے کے لیے آمادگى پیدا کرے اور بعد میں فقط علمى کتابیں پڑھنے کا عادى ہوجائے _

8_ ایسا نہیں ہے کہ بچہ فقط افسانوى اور جھوٹى کتابوں کو پسند کرتاہو بلکہ بڑى شخصیات اور حقیقى تاریخ ساز انسانوں کى زندگى پر مشتمل کتابیں بڑے شوق سے پڑھتا ہے اور اس طرح کى کتابیں پڑھنے سے کسى شخصیت کو اپنا ائیڈیل اور نمونہ عمل قرار دیتا ہے اس طرح کى کتابیں بچے کے لیے دلچسپ بھى ہیں اور مفید بھى ہیں _

 

1_ غرر الحکم ، ص 636
2_ اصو ل کافى ، ج 1 ، ص48
3_ اصول کافى ، ج 1 ، ص 30
4_ اصول کافى ، ج 1 ، ص 31
5_ اصول کافى ، ج 1 ، ص 33
6_ اصول کافى ، ج 1 ، ص 34
7_بحار، ج 1 ، ص 169
8_ بحار، ج 1 ، ص 172
9_ بحار، ج 1، ص 177
10_ بحار، ج 1 ، ص 177
11_ مجمع الزوائد، ج1، ص 137
12_ مستدرک ، ج 2، ص 625
13_ مستدرک، ج 2، ص 625
14_ مستدرک، ج 2 ، ص 625
15_ مستدرک، ج 2، ص 625