کام اور فرض کى ادائیگی
کام اور کوشش انسانى زندگى کى بنیاد ہیں _ کام کے ذریعے انسان روٹى کپڑا اور مکان مہیا کرتا ہے _ کام اور محنت کے ذریعے زمین آباد ہوتى ہے _ اور لوگوں کے لیے آرام و آسائشے کے اسباب فراہم ہوتے ہیں یہ اتنى صنعتیں او رحیران کن ایجادات انسانى کام او رمحنت کا نتیجہ ہیں _ یہ علم اور محنت ہے کہ جس نے موجودہ تمندن کو جود بخشا ہے اور انسان کویہ عظمت علا کى ہے _ ہر ملک کى ترقى اور پیش رفت اس ملک کے افراد کى محنت اور کوشش سے وابستہ ہے _ اگر کسى ملک کے افراد مختلف حیلوں بہانوں سے کام کرنے سے بچپں_ بالخصوص پیداوارى کاموں سے بچپں تو وہ ملک خوشحال نہیں ہوسکتا _ ایسى قوم پیدا کرنے والى نہیں صرف صرف کرنے والى ہوگیاور وہ استعمارى قوتوں کے ہاتھوں میں چلى جائے گى _ ہر فرد کى ترقى بھى اس کے علم ، کام اور کوشش سے وابستہ ہے _ دنیا کام اور محنت کا مقام ہے نہ کہ سستى اور تن پرورى کا _ اللہ تعالى قرآن میں فرماتا ہے _
'' وَاَن لیس للانسان الاّ ما سعی''
''انسان کے لیے جو کچھ بھى ہے وہ اس کى کوشش کا ماحصل ہے'' (1)
رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
"ملعون امن القی کله علی الناس"
''وہ جو اپنا بوجھ دوسروں پہ ڈالے رکھے وہ ملعون ہے'' (2)
پیغمبر اکرم صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ
''عبادت کے ستّر(70) حصے ہیں _ جن میں سب سے افضل رزق حلال کے حصول کى کوشش ہے '' (3)
حضرت صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
'' میرے دوستوں اور شیعوں کو میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا تقوى کو نہ چھوڑنا اور اپنى آخرت کے لیے تو شہ تیار کرنا _ خدا کى قسم میں صرف اس چیز کا تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جس پر خود عمل کرتا ہوں _ محنت او رکوشش کریں _ نماز صبح کے بعد جلد کام پر نکل جائیں اور رزق حلال حاصل کریں _ کام کریں ، خدا تمہیں رزق دے گا اور تمہارى مدد کرے گا '' _(4)
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
''جو شخص دنیاورى امور میں سست اور کاہل ہو وہ مجھے برا لگتا ہے _ جو شخص محنت و مشقت میں سست ہو وہ امور آخرت میں بھى سست ہوگا '' _(5)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
''جو شخص اپنے خاندان کی روزی کے یے زحمت ائهاتا هے اسے جهاد کا ثواب لمے گا '' _(6)
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
''کسان انسانوں کے لیے خدا کے خزانے ہیں ، وہ اچھا بیج بولتے ہیں اور خدا اس بیج کو اگاتا ہے قیامت میں کسانوں کا بہترین مقام ہے _ اور انہیں '' مبارکین'' کے نام سے پکاراجائے گا '' _(7)
ہر انسان دوسروں کى محنت اور کام سے فائدہ اٹھاتا ہے _ وہ دوسروں کى محنت اور زحمت کے بغیر زندگى نہیں گزارسکتا اس کى بھى یہ ذمہ دارى ہے کہ اپنى طاقت کے مطابق کام اور محنت کرے اور دوسرے انسانوں کو بھى فائدہ پہنچائے _ مزدور بہترین اور شریف ترین انسان ہیں جو لوگ خود طاقت رکھتے ہیں لیکن کام نہیں کرتے اور دوسروں کى محنت پر پلتے ہیں وہ پروردگار عالم کى رحمت سے دور ہیں جن ماں باپ کو اپنى اولاد کى سعادت اور خوش بختى مطلوب ہے اور جنہیں اپنے ملک کى خوشحالى اور ترقى پسندہے وہ اپنے تربیت پروگرام میں بچوں کو محنت کرنا بھى سکھائیں _ اپنے بچوں کى اس طرح سے تریت کریں کہ وہ بچپن ہى سے کام کرنے کے شوقیں اور عادى ہوجائیں تا کہ بڑے ہوکرنہ صرف یہ کہ وہ کام کرنے کو ننگ و عار نہ سمجھیں بلکہ اس پر افتخار کریں _ بہت سے ماں باپ زندگى کے اس انتہائی اہم موضوع سے غفلت برتتےہیں اور اس طرف بالکل توجہ نہیں دیتے یہاں تک کہ ایک عرصے تک وہ بچوں کے کام خو انجام دیتے ہیں اور انھیں کوئی ذمہ دارى نہیں سونپتے وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ اپنى اولاد کى خدمت کررہے ہیں جب کہ یہ خدمت نہیں بلکہ بہت بڑى خیانت ہے بچے سے بھى ملک و قوم سے بھى ،کبھى وہ یہ بہانہ کرتے ہیں کہ کام کرنے میں جلدى نہیں کرنا چاہیے ، کام کرنے بچے کے لیے دشوار ہے _ بڑا ہوگا تو خود ہى کام کے پیچھے چل پڑے گا _ جب کہ ان کى یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ جو کام بچے کى عمر اور طاقت کے مطابق ہو وہ بچے کى طبیعت کے مخالف نہیں ہے جب کہ اس کى جبلّت اور ضرورت کے مطابق ہے_ اگر انسان کو بچپن ہى سے کام کر نے کى عادت نہ پڑے تو بڑا ہوکر کام کرنے میں دیر بھى لگے گى اور اس کے لیے دشوار بھى ہوگا _ اگر صحیح تربیت کى جائے تو کام کرنابچے کے لیے پسندیدہ بھى ہوگا اور لذّت بخش بھی ایسے ماں باپ کبھى کہتے ہیں اتنا حوصلہ کس میں ہے کہ انتظار کرے کہ بچہ اپنا کام خود انجام دے _ ہم اس کے لیے زیادہ جلد ہى کام کرکے فارغ ہوسکتے ہیں _ بڑا ہوگا تو خود کام کرتارہے گا _
ان نادان ماںباپ کو اگر واقعاً اپنى اولاد سے محبت ہو تو وہ ایسے بے جا بہانے کر اپنے آپ کو اولاد کى تربیت سے برى الذمہ قرار نہ دیں اور سست کاہل اور بے کار افراد معاشرے میں بطور یادگار نہ چھوڑیں _
فرض شناس اور سمجھدار ماں باپ بچے کى عمر ، جسمانى قوت اور اس کے فہم و شعور کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کوئی کا م اسے کے ذمّے لگاتے ہیں نیز اس کام کى انجام دہى میں اس کى مدد کرتے ہیں ، مثلاً تین سالہ بچے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنا جوتا اور جرابیں خو پہنو اور خود اتارو، اپنى نیکر خود پہنو نمک دانى ، چمچہ اور کانٹا لاؤ_ جب بچہ کچھ بڑا ہوجائے تو تدریجاً بڑے کام اس کے ذمّے لگائے جا سکتے ہیں _مثلاً اپنا بستر خود بچھائے اور خود ہى نہ کرے کوڑا کر کٹ کابرتن خالى کرکے لائے، کھانا پکائے ، دستر خوان لگائے اور اٹھائے ، برتن دھوئے ، کمروں میں جھارو دے، مخصوص اوقات میں اپنے چھوٹے بہن بھائیں کى حفاظت کرے باغیچے میں پھلوں اور درختوں کو پانى دے ، پالتو جانوروں کو پانى اور کھانا دے ، روٹی، سبزی، دودھ، دہی، سرف ، صابن ، ٹوتھ، پیسٹ خرید کر لائے، کھیل کا سامان صاف کرے اور سلیقے سے رکھے، ایسے کام بچے آرام سے انجام بھى دے سکتے ہیں اور انہیں اپنے ذمہ بھى نے سکتے ہیں _
جب بچے کچھ اور بڑے ہوجائیں تو کچھ مشکل تر کام ان کے ذمّے لگائے جا سکتے ہیں _
اس سلسلے میں ماں باپ کے لیے چند باتیں ضرورى ہیں:
1_ بچے کى عمر اور بدنى قوت کو مدّ نظر رکھتے ، جب بھى وہ دیکھیں کہ بچہ کسى کام کى استعداد رکھتا ہے تو وہ کام اسے کے ذمّے لگادیں _ بالخصوص جب چہ خود کوئی کام کرنے کى خواہش کرے _ خاص طور پر وہ کام جو خود بچے کى ذات سے مربوط ہیں تا کہ
و ہ بچپن ہى سے کام کرنے کا عادى ہوجائے اور سست اور آرام طلب فرد نہ بن جائے _
2_ بچے کى قوت اور حوصلے کو پیش نظر رکھا جانا چاہیے اور مشکل کو اور زیادہ سخت کام اس کے ذمے نہ لگایاجائے _ کیوں کہ ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے وہ کام سے بیزار ہو جائے اور آئندہ کام سے جى چرائے _ اگر کام تھکادینے والا ہو تو ہوسکتا ہے بچہ سرکشى کا مظاہر ہ کرے_
3_ کوشش کریں کہ کام بچے کے سپرد کرتے وقت افہام و تفہیم سے کام لیں _ اسے سمجھائیں کہ گھر کے کام خودبخود انجام نہیں پاتے _ باپ محنت و مشقت کرکے گھر کا خرچ چلاتا ہے ،ماں بھى گھریلو کام انجام دیتى ہے ، تم بھى اسى خاندان کے ایک فرد ہو ، گھر کے کام چلانے کے لیے ہمت کرو اور اپنى طاقت کےمطابق ان کاموں میں کمک کرو_ ایسے مواقع پر حتى المقدور زور اورو جبر سے پرہیز کرنا چاہیے _ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ غلط اور اندھى اطاعت کا عادى ہوجائے _
4_ اگر ممکن ہو تو کسى ذمہ دارى کو قبول کرنے کے لیے حق انتخاب بچے کو دیں مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں اگر تو چاہے تو برتن دھولے چاہے تو کمرہ صاف کرلے _
5_کام کى حدود اور مقدار بچوں پہ بالکل واضح کریں تا کہ وہ اپنى ذمہ دارى کو سمجھیں اور اس میں شک و شبہ میں نہ پڑیں _
6_ جن بچوں میں صلاحیّت ہو ان کے لیے مستقل کام معیّن کردیں _ اس طرح سے کہ وہ متوجہ رہیں اور ان میں احساس ذمہ دارى پیدا ہو _ مثلاً کسى ایک بچے سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے دستر خوان پہ ہمیشہ سلادہونا چاہیے _ سلاد خریدنا تیرے ذمے ہے _ سرف ، صابن اور ٹوتھ پیسٹ خریدنا بھى تیرے ذمہ ہے _ ہمیشہ توجہ رکھنا کہ گھر صرف ، صابن اور ٹوتھ پیسٹ سے خالى نہ ہو _
7_ کوشش کریں کہ حتى المقدور بچے کے ذمّے ایسا کام کریں جو اس کى طبیعت اور پسند کے مطابق ہوتا کہ وہ اپنا کام خوشى خوشى انجام دے _ البتہ بعض استثنائی مواقع
پر اسے طبیعت کے خلاف کام بھى کرنا چاہیے _ اور چاہیے کہ وہ ایسے کام بھى ناک منہ چڑھائے بغیر انجام دے _
حضر ت على علیہ السلام فرماتے ہیں :
''گھر میں سب کام کرنے والوں کے لیے ایک کام معین کردو اور ہر کسى کى ذمہ دارى اس کے سرڈال دو جب وہ اپنى ذمہ دارى سمجھ لیں گے تو پھر یہ نہیں سوچیں گے کہ یہ کام کسى دوسرے کو کرنا ہے '' (8)
8_ اگر آپ کے گھر میں متعدد بچے ہوں تو تقسیم کار میں عدالت کو محلوظ رکھیں تا کہ لڑائی جھگڑا نہ ہو اور وہ خوشى خوشى اپنا کام انجام دیں _
9_ بچوں کو کام کرنے پر مائل کرنے کے لیے آپ ان کے ساتھ مل جل کر کام کرسکتے ہیں کیونکہ بچوں کو یہ بات اچھى لگتى ہے کہ وہ بڑوں سے ساتھ مل کر کام کریں _
10_ اگر ماں باپ کے درمیان گھر کا نظام چلانے میں ہم آہنگى اور تعاون ہو تو وہ اپنى اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور اس طرح سے وہ بچوں میں ذمہ دارى قبول کرنے کا شوق پیدا کرسکتے ہیں _
11_ جب بچے بڑے ہوجائیں اور وہ کوئی ایسا کام کرسکیں جو مادى اعتبار سے مفید ہو تو چھٹیوں کے دنوں میں ان کے لیے کوئی کام اور ممکن ہو تو کوئی پیدا وار کام ان کے لیے مہیا کریں اور اس کى انجام دہى میں انھیں تشویش کریں _ اس طرح سے انہیں کام کرنے کى عادت بھى پڑے گى اور گھر کے خرچ میں وہ مدد کرسکیں گے او راس کے ساتھ ساتھ وہ قوم و ملک کى خدمت بھى کر سکیں گے _ انہیں سمجھائیں کہ کام کرنے میں کوئی عار نہیں بلکہ یہ باعث افتخار و شرف ہے _ البتہ ان پر زیادہ دباؤ بھى نہ ڈالیں _ انہیں تفریح اور کھیل کا بھى موقع دیں یہ درست نہیں کہ ماں باپ کہیں ہم مالى اعتبار سے خوش حال ہیں اور اپنے بچوں سے کام لینے کى ہمیں کوئی ضرورت نہیں _ کیونکہ اس صورت میں
تو وہ آوارہ گرد اور مفت خور بن جائیں گے _
آخر میں ہم ایک بار پھر یاددلادیں کہ کام کرے کے شوق اور محبت کى بنیاد بچپن میں رکھى جانا چاہیے تا کہ یہ بات بچے کى طبیعت میں رچ بس جائے اور وہ اس کا عادى ہوجائے ورنہ بعد میں یہ کام دشوار ہوجائے گا _ فرض شناس ماں باپ کو چاہیے کہ اس اہم فرض سے غفلت نہ کریں _
ایک عورت اپنى یادداشتوں میں لکھتى ہے _
''میں بہت سست، بے حوصلہ اور ضدى عورت ہوں _ بچے چین او رڈرى ڈرى رہتى ہوں _ میرے معدے میں ورم ہے _ کچھ کام کرنے کو میرا جى نہیں چاہتا _ کام کرنا تو میرے لیے بہت مشکل ہے _ گھر کانظام سنبھالنے اور کھانا پکانے سے عاجز ہوں _ اسیوجہ سے شوہر اور ساس سے ہمیشہ میرى جنگ رہتى ہے _ اور ان سب بدبختیوں کا سبب میر ى ماں ہے _ وہ بہت مہربان، باصبر ، اور باحوصلہ عورت تھیں _ میں ایکم گھریلو لڑکى تھى _ لیکن امّى کوئی کام میرے سپرد نہیں کرتى تھى _ گھر کے سب کام خود انجام دیتى تھى انہوں نے مجھے کام کرنا اور گھر کا نظام چلانا نہ سکھایا _ کوئی ذمہ دارى مجھ پر نہ ڈالى کہ مجھے بھى کوئی ذمہ دارى نبھانے کى عادت پڑتى _ وہ نہیں چاہتى تھیں کہ میں تھک جاؤں اور اپنے تئیں وہ میرے بارے میں اچھا سوچتى تھیں _ لیکن اس بات کى طرف ان کى توجہ نہ تھى کہ مجھے آئندہ زندگى بھى گزارنا ہے اور مجھے بھى ایک گھر کا نظام چلاناہے _
ایک صاحبہ اپنے ایک خط میں لکھتى ہیں:
... ... ... میں گھر کى سب سے بڑى بیٹى ہوں _ اپنى زندگى سے پورى طرح مطمئن ہوں اور کسى قسم کى کمى محسوس نہیں کرتى _ بخیل اور حاسد نہیں ہوں _ دوسروں کے لیے مہربان اور ہمدرد ہوں _ دنیا کے زور و زیور کى میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں _ سب کچھ کرنا جانتى ہوں _ زندگى کے معاملات احسن طریقے سے نبھاتى ہوں _ مجھے کسى قسم کا کوئی غم نہیں ہے _ ایک صاف ستھرى ، پر سکون اور آرام دہ زندگى بسر کررہى ہوں _ میں اپنے ماں باپ کى شکرگزار ہوں کیوں کہ یہ انہى کى عاقلانہ تربیت کا نتیجہ ہے _
جب میرے ابو گھر میں داخل ہوتے تو مجھے پکارتے جو کچھ لاتے مجھے تھمادیتے _ زیادہ پیسے لاتے تو میرے سپردکردیتے کہ سیف میں رکھ دوں _ اگر ان کا بٹن توٹ گیا ہوتا یا ان کے لباس کو استرى یا سلائی کى ضرورت ہوتى تومجھے دے دیتے تا کہ میں یہ کام انجام دوں _ جب میں وہ کام کردیتى تو مجھے شاباش دیتے _
ایک روز میں نے ان کا لباس خوب اچھا طریقے سے سیا وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے : میں تمہارے لیے ایک سلائی مشین لاؤںگا _
چندى ہى روز بعد انہوں نے اپنا وعدہ کو پورا کردیا اور میرے لیے سلائی مشین لے آئے _ اس دن سے سلائی کا کام میرے ذمّے ہوگیا _ میرى امّى قیمتى کپڑا مجھے دیتى اور کہتیں : جاؤ اسے سیو، اگر خراب ہوجائے توکوئی حرج نہیں ٹھیک ہوجائے گا _
1_ سورہ نجم ، آیہ 39
2_ کافی، ج 5، ص 72
3_ کافى ، ج 5، ص 78
4_ کافی،ج 5، ص 78
5_ کافی، ج 5، ص85
6_ کافی، ج 5،ص 88
7_کافى ، ج 5، ص 261_
8_ غرر الحکم ، ص 124
میرى امّى چونکہ مجھے اطمینان دلاتى تھى لہذا مجھ میں خود اعتمادى بڑھ گئی _ میں کوشش کرتى کہ کام اچھے طریقے سے انجام دوں _ مجھے نہیں یادکہ میں نے کبھى کوئی کپڑا خراب کیا ہو _
خلاصہ یہ کہ میں اپنے ماں باپ کى توجہ او ر تشویق کى وجہ سے تمام کام کرنا سیکھ گئی _کام کرنے اور ذمہ دارى نبھانے کى عادى ہوگئی -
میرا ارادہ ہے کہ میں اپنى اولاد کى بھى اسى طرح تربیت کروں گى _