پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

عرض ناشر

بسم اللہ الرحمن الحیم


عرض ناشر

دور حاضرمیں جہاں حضرت انسان نے مادیت میں اس قدر ترقس کى ہے اب وہ خلائی سفر کامیابى سے انجام دیتے ہوئے مظام شمسى میں دیگر سیّارگان پر کمندین ڈال رہا ہے ، وہاں وہ اقدار انسانى میں مسلسل الخطاط کے مسئلہ سے بھى شدّت کے ساتھ دو چار ہے _ ظاہر ہے کہ یہ مادّى ترقى مادى تعلیم کے حصول کامنطقى نتیجہ ہے لیکن اقدار حیات کى ترقّى میں ایک اور چیز بھى ناگزیر ہے حبس کو تربیّت کہتے ہیں _ یہ انسان کى ایسى ضرورت ہے جو مہد یعنى ماں کى گود سے شروع ہوتى ہے اور یہ وہ کیفیّت ہے جبس کى عدم مو جود گى مادّى تعلیم کے با وجود انسان کو اس سطح پر لے آئی ہے جہاں ترقّى علوم مادّى کا عملى مقصد مخالفین کى حیات کو صفحہ ء ہستى سے یکمرمٹا دنیا ہے _ دنیا کى بڑى طاقتوں کے وہ منصوبے اس بات کى دلیل ہیں جو بتدریج سائنسى تجربات کى شکل میں سامنے آرہے ہیں ان کے ذریعے کوشش کى جادہى ہے کہ ایسے ہتھیار ایجاد کریں ، جن کا استعمال کم سے کم وقت میں زیاد ہ سے زیادہ انسانوں کو نیست و نابود کردے _

ان تمام حالات کے پیش نظر تربیّت انسان کى ضرورت ون بدن زیادہ محسوس ہوتى جارہى ہے _ کتا ب ہذا آئین تربیّت ایران کے فاضل مصنّف جناب ابراہیم امینى نجف آبادى کى ایک نہایت عمدہ سعى ہے حبس میں تر بیّت انسان کے موضوع پر اسوہ ء معصومین علیہم السلام کى روشنى میں بجث کى گئی ہے _ جیسا کہ ہم نے سطور بالا میں عرض کیا ہے ، تربیّت کا پہلا مدرسہ آغوش مادر ہے _ اس سلسلہ مسن شاعر مشرق علاّمہ محمّد اقبال رحمة اللہ علیہ قرماتے ہیں _
سیرت فرزند ہا از امہات
جو ہر صدق وصفا از امہات

کتاب ہذا میں مندرجہ ذیل امور پر خصوصیّت کے ساتھ روشنى ڈالى گئی ہے جو ضروریات تربیّت میں شامل ہیں :

1 : جسمانى اور نفسانى دونوں میں تربیّت کنندہ کى امور تربیّت سے کما حقّہ ، واقفیّت

2: ہدف تربیّت سے واقفیّت _

3: تربیّت کے لیے جن اقدار و اوضاع کى ضرورت ہوتى ہے ، ان سے کما حقّہ واقفیّت _

فاضل مؤلّف نے یہ سب کچھ سیرت معصومین کى روشنى میں پیش کیا ہے _ ہم ان کى اس کاوش کو اردو زبان میں بطور ترجمہ پیش کرنے کى سعادت حاصل کرر ہے ہیں _ امید و اثق ہے کہ یہ کتاب والدین اور اساتذہ کے لیے تربیّت او لاد و شاگردان میں ایسى معاون ثابت ہو گى حبس سے دور مادیّت میں قوم کو با اقدار انسان مل سکیں گے _

قارئین کرام سے استداعا ہے کہ کتاب ہذا کے مطالعہ کے بعد اپنى قیمتى آراء سے ادارہ مصباح الہدى پبلیکیشنز کو ضرور مطلع فرمائیں

طلبگارى تعاون

ڈائر یکڑ مصباح الہدى پبلیکیشنز

لاہور

انتساب

حضرت على و فاطمہ سلام اللہ علیہما _ گى خدمت میں _ کہ جو اسلام کے مثالى ماں باپ ہیں _ جنہوں نے _ امام حسن ، امام حسین ، زینب اور ام کلشوم جیسى لائق اولاد کى تربیّت کى _

ان لائق احترام ماں باپ _ کى خدمت میں _ جن کے دامن میں اما م خمینى روحى فدا جیسے با بصیرت اور مضبوط مو قف کے حامل رہبر کے سے فداکار اور آبرومند بیٹے پر وان چڑھے _

ان ماں باپ _ کى خدمت میں _ جو اپنے تربیت یافتہ مجاہد اور جانباز فرزندوں کى جدائی کا داغ سینے پر لگا ئے ہوئے ہیں _ وہى فرزند کہ جنہوں نے اسلام کے لیے شہادت نوش کیا اور اپنے عزیز خون کو نثار کر کے انقلاب اسلامى ایران کے چہر ے کو گل رنگ کردیا اور شجر اسلام کى آبیارى کى _

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کچھ تر جمے کے بار ے میں

ترجمہ کیا ہو ؟ اس کى شرائط کیا ہیں؟ اس پر بہت کچھ کہا گیا ہے ، کہا جاتار ہے گا اور کہا جا تار ہنا چا ہیے _

معمولا دو طریقے ترجمے کے لیے رائج ہیں :

1_ لفظى ترجمہ

2_ آزاد اور مفہومى ترجمہ

ان دونوں کى اپنى خو بیاں ہیں ، دونوں کے حامیوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں او ردونوں کے لیے موجود وزنى دلائل کى اپنے اپنے مقام پر اہمیّت سے انکار بھى نہیں کیا جا سکتا _

ہمیں یہاں صرف _ زیر نظر ترجمے کے بار ے میں کچھ عرض کرنا ہے _

آئین تربیت کے خاص اسلوب نگارش اور ترجمے کے قارئین پر نظر نے ہم سے ایک جدا گانہ سے طرز ترجمہ کا تقاظا کیا ہو ہو نے ;

بعض مقامات پر لفظى ترجمہ ضرورى سمجھا اور بعض عبارتوں کو فقط اردو کا لباس پہنا کر آپ تک پنچا دیا ہے _

بعض _ بلکہ بہت سے مقامات پر آزاد ترجمے کى روش اپنائی ہے اور مفہوم عبارت منتقل کرنے کى کوشش کى ہے

بعض مقامات پران دونون صورتوں سے کام نہیں لیا بلکہ مقصود پہنچانے کى کوشش کى ہے کیونکہ دہاں ترجمے کى صورت مین مقصود مضمحل ہو جاتا اور مطلوب و مقصود کو بہر حال لفظ اور مفہوم پر فوقیت حاصل ہے _

جیسے اردو پر یورپى زبانوں کیے اثرات بے پناہ ہیں اسى طرح فارسى جیسى وسیع زبان بھى اپناد امن اس سے بچا نہیں سکى _ بہت سے انگیریزى لفظ اور اصطلاحات فرسى لہجے کا رنگ اختیار کر کے فارسى میں داخل ہو گئے ہیں یا یوں کہا جا ئے کہ فا رسیا لیے گئے ہیں _ اسى طرح فارسى کى اپنى اصطلاحات ہیں اور ہمارے ہاں اپنى اصطلاحات _ ان پہلوؤں کو ترجمہ کرتے ہو ئے ملحوظ رکھا گیا ہے _ متبادل اصطلاحات لکھى گئی ہیں جہاں جہاں ضرورى محسوس ہو ا متبادل انگیزى اصطلاحات بھى لکھ دى گئی ہیں _

اصل کتاب میں قرآنى آیات اور روایات کى عربى عبارات نہایت ہى کم درج کى گئی ہیں ترجمہ کر تے ہو ئے خاص طور پر قرآنى آیات اپنے اصل متن کے ساتھ درج کردى گئی ہیں اور بہت سے مقامات پر روایات کى عربى عبارات بھى اصل متن کودیکھ کر لکھ دى کئی ہیں _

کوشش کى گئی ہے کہ عبادت رواں ، ساوہ او رعام فہم ہو لیکن پھر بھى یہ ترجمہ ہى ہے _ تالیف یا تضعیف نہیں لہذا کہیں کہیں بو جھل پن کا احساس ہو تو قارئین معاف فرمائیں _

کتاب چو نکہ تربیتى ہے لہذا بہت سے مطالب تکرارى ہیں اور یہ تربیت کا تقاضا بھى ہے اور خاصہ بھى _ ترجمہ کرتے ہوئے اس حو الے سے تصرف سے دامن بچا نے کى کوشش کى گئی ہے _

مذکورہ امور میں سے بینادى امور پر خود صاحب کتاب یعنى حضرت آیت ا... ابراہیم امینى سے تبادلہ خیال کے بعد ہم آہنگى پاکر ہمین کچھ اور بھى اطمینان ہے _

تنقید اور آراء کے لیے بہر حال ہم خندہ پیشانى سے منتظر ہیں _ کیوں کہ کمال کا راستہ انہى وادیوں سے ہو کرگزرتا ہے

مترجمین

پیشگفتار

تعلیم اور تربیت میں فرق ہے تعلیم کا معنى ہے آموزشی، سکھا نا یا کسى کو کوئی مطلب یاد کرانا_جب کہ تربیت کہ مطلب ہے شخصیّت کى تعمیر اور پرورش _ تربیت کے ذریعے سے اپنے پسند کے مطابق افراد ڈھالے اور تیارکیے جا سکتے ہیں او رنتیجتا معاشر ے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے _

ضرورى ہے کہ تربیت ایک سو چے سمجھے اور دقیق پروگرام کے تحت انجام پا ئے تا کہ کا میابى کے ساتھ نتیجہ ثابت ہو _ تربیت ہیں صرف و عظ و نصیحت اور ڈرانا رھمکانا ہى کافى نہیں بلکہ پا ہیے کہ تمام حالت اور شرائط مقصد کے مطابق فراہم ہوں _ تا کہ مقصود حاصل ہو سکے _ تربیت کے لیے چند چیزیں ضرورى ہیں _

1_ چاہیے کہ مربّى اس شخص کو اچھى طرح پہنچا نتا ہو کہ جس کى اسے تربیت کرنا ہے _ اس کى خوصیات اور اس کے جسمانى اور نفسیاتى رموز سے آگاہ ہو _

2_ مربّى کى نگاہ میں تربیت کا کوئی ہدف ہو نا چا ہیے _ یعنى اس کى نظر میں یہ ہونا چا سیے کہ وہ کیسا انسان بنا نا چاہتا ہے _

3_ تربیت کے لیے مربّى کے پاس کوئی پروگرام ہو نا چا ہیے _ یعنى اسے جاننا چاہیے کہ جیسى شخصیت و ہ پروان چڑھانا چاہتا ہے اس کے لیے کن حالات اور شرائط کى ضرورت ہے لہذا ان سب کو اسے فراہم کرنا چاہیے اور پورے غورو خوض سے کام لینا چاہیے _ پھر یہ ممکن ہو سکتا ہے کسى مثبت نتیجہ کا انتظار کرے _

تربیت کے لئے بہترین زمانہ بچین کا ہے کیونکہ بچے نے ابھى پورى شکل اختیار نہیں کى ہوتى اور ہر طرح کى تربیت کے لئے آمادہ ہوتا ہے _ یہ حساس اور اہم ذم دارى پہلے مرحلہ پرماں باپ کے ذمے ہے _ لیکن تربیت ایک سہل اور سادہ سا کام نہیں ہے _بلکہ ایک انتہائی ظریف و حساس فن ہے کہ جس کے لیے کام کى شناخت ، کافى اطاعات ، تجربہ ، برد بارى اور حوصلہ و عزم کى ضرورت ہے _ یہ بات باعث افسوس ہے کہ اکثرماں باپ فن تربیت سے آشنا نہیں _ یہى و جہ ہے کہ زیادہ تر بچوں کى کسى حساب شدہ اور منظم پروگرام کے تحت پرورش نہیں ہوتى بلکہ وہ گویا خود رو پودوں کى طرح پروان چڑ ھتے ہیں _

مشرق و مغرب کے ترقى یافتہ کہلا نے والے ممالک میں تربیت کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے _ انہوں نے اس سلسلے میں بہت تحقیقات کى ہیں ، بہت سى سودمند کتا بیں لکھى ہیں اوران کے ہاں فن کے بہت سے ماہرین موجود ہین _ لیکن ہمارے ملک میں زندگى کے اس اہم مسئلہ کى طرف کوئی تو جہ نہیں کى گئی _ البتہ چند ایک ماہرین موجود ، ہیں اور تھوڑى بہت کتا بیں بھى ہیں لیکن اتنا کچھ کفایت نہیں کرنا _ دوسرى زبانوں سے اس ضمن میں بہت سى کتابوں کافارسى میں ترجمہ ہوا ہے جو سب کى دسترس میں ہیں _ لیکن ان مشترقى اور مغربى کتابوں میں دوبڑے نقص موجود ہیں _

پہلا عیب یہ ہے کہ ان میں انسان کو فقط جسمانى حوالے اور اس کى دینا دى زندگى کے حوالے سے دیکھا گیا ہے اور بحث و تحقیق کى گئی ہے _

اور وحانى سعادت و بد بختى اور اخروى زندگى سے یا غفلت برقى گئی ہے یااعراض کیا گیا ہے _

مغرب میں تربیت کے لیے اس کے علاوہ کوئی ہدف نہیں کہ بچے کى جسمانى طاقت اس کى حیوائی قوتوں ، اعصاب اور مغز کو صحیح طریقے سے پروان چڑ ھا یا جائے تا کہ جس و قت وہ بڑا ہو آرام سے زندگى گزارسکے اور مادى فوائد اور حیوانى لذتوں سے بہرہ مند ہو سکے اور ان کتابوں ہیں اگر اخلاق کے بارے مین گفتگو ہوتى بھى ہے تو وہ بھى اى دنیا وى زندگى اور مادى مفادات کے حصول سے مربوط ہے _ ان کتایوں میں روحانى کمالات یا نقائص کاذکر نہیں _ اخروى خوشبختى یا بد بختى کا تذکرہ نہیں اور مجموعى طور پر یہ کہا جاسکتا ہے ان مین اخلاقى اور روحانى زندگى کے بارے مین کچھ نییں _

دوسراعیب یہ ہے کہ مغرب والوں کے نزدیک تربیتى مسائل کا انحصار تجربات اور شماریات پر ہے _ دذین کا ان پرکوئی رنگ نہیں _ لہذار یہ مابیں مسلمانوں کے نزدیک مفید ، جامغ اور کامل نہیں ہو سکتیں کیوں کہ ایک مسلمان کى نظر مین انسان کے دو پہلو میں _ ایک جسم اور دوسرا روح _ لیک دنیا دى زندگى اور دوسرى اخروى زندگى _ لہذا قم نے فیصلہ کیا کہ اس سلسلے اس مین مطالعہ اور تحقیق کى جائے اور پھرا پنے نتیجہ کو تحریر کى صورت مین طالبین کى خدمت میں پیش کیا جائے _ اس کتاب کى تحریر کے لیے را قم کا اصلى ماخذ قآن اور کمتب حدیث و اخلاق ہیں _ البتہ بچے کى تربیت سے متعلق اور فضیات سے متعلق دسیلوں کتابیں جو فارسى اور عربى زبان مین ترجمہ ہو چکى مین او رحفظان صحت سے متعلق کتب سے بھى استفادہ کیا گیا ہے _ ایرانى علماء نے بچے کى تربیت کے متعلق جو کتابیں لکھى ہیں ان سے بھى استفادہ کیا گیا ہے _ البتہ اس سلسلے مین را قم کے اپنے بھى کچھ تجربات ہیں _ امید ہے کہ یہ نا چیز پیش کش تربیت کرنے والوں کے مفید ثابت ہو گى اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے سودمند قرار پائے گى _
ابراہیم امینى نجف آبادی

حوزہ علمیہ قم

بہمن ماہ1358 ھ

جنورى سنہ 1980ئ