پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

گھر كى آمدنى اور خرچ

گھر کى آمدنى اور خرچ

کسى گھر کے انتظامى امور میں سے اہم ترین اس کا معاشى پہلو ہے اور گھر کى آمدن اور خرچ کا حساب ہے اور با سمجھ خاندان آمد و خرچ کے حساب کو پیش نظر رکھتے ہیں _ اور آمدنى کے مطابق خرچ کرتے ہیں _ ہر خاندان کو جاننا چاہیے کہ پیسہ کس راستے پر خرچ کرے سمجھدار خاندان قرض سے ہمیشہ بچنے کى کوشش کرتے ہیں _ اور پریشانیوں میں گرفتار نہیں ہوتے اور زندگى آرام سے اور دردرسر کے بغیر گزارتے ہیں _ ان کے اقتصادى حالات خراب بھى ہوں تو تدریجاً انہیں بہتر بناتے ہیں _ اور زندگى کو فقر و بے سروسامانى سے نکال لیتے ہیں _

اس کے برعکس جس خاندان کا معاشى اعتبار سے ، اور آمدن و خرچ کے اعتبار سے نظام درست نہ ہو اور اس کے افراد بغیر کسى حساب کے خرچ کرتے ہوں تو ایسا خاندان عموماً دوسروں کا مقروض اور مرہون رہتا ہے _ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایسا خاندان ناچار سودى قرض لیتا ہے_ یا قرض پر مہنگى چیزیں خریدتا ہے _یعنى دوسروں کے لیے زخمت اٹھاتا ہے _ ایسے خاندان کى زندگى زیادہ تر خوش نہیں گزرتى اور یہ بھى ہوسکتا ہے کہ زندگى کى ابتدائی ضروریات سے محروم رہے اور ان کى زندگى کى حالت مناسب نہ ہو، اگر چہ اس کى آمدنى اچھى ہى کیوں نہ ہو لیکن چونکہ ان کے گھر میں کوئی عقل و تدبیر نہیں ہوتى اورایسے گھر کے لوگ ہوس اور بلند پروازى کا شکار ہوتے ہیں لہذا زیادہ تر گرفتار بلاہى رہتے ہیں _ کسى خاندان کى خوش حالى اور آسائشے صرف کمال کرلانے پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس سے بھى اہم عقل و تدبیر اور کسى منظم معاشى پروگرام کے مطابق اس کو خرچ کرنا ہے _ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہی:

''جب اللہ کسى خاندان کے لیے بھلائی اور سعادت چاہتا ہے تو انہیں زندگى میں تدبیر اور سلیقہ عطا کردیتا ہے '' _(1)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''تمام کمالات تین چیزوں میں جمع ہیں

ان میں سے ایک زندگى میں فہم و تدبیر (سے) اور معاشى امور میں عقل (سے کام لینا)ہے _(2)

حضرت صادق علیہ السلام ہى فرماتے ہیں:

''فضول خرچى غربت و نادارى کا باعث بنتى ہے اور زندگى میں اعتدال اور میانہ روى بے نیازى اور استغناء کا باعث بنتے ہیں'' _(3)

حضرت على علیہ اسلام فرمایا:

اعتدال سے آدھى ضروریات پورى کى جا سکتى ہیں _(4)

امیر المومنین على علیہ السلام فرماتے ہیں:

فضول خرچ کى تین نشانیاں ہیں:

1_ جو چیز اس کے پاس نہیں ہوتى وہ کھاتا ہے

2_ جس چیز کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے وہ خرید تاہے اور

3_ جس لباس کى قیمت ادا نہیں کرسکتا اسے پہنتا ہے _(5)

گھر کے مالى امور کو منظم کرنے کے لیے ضرورى ہے کہ سب سے پہلے میاں بیوى کے درمیان ہم آہنگى پائی جائے اگر میاں یا بیوى گھر کى آمدنى کو مد نظر نہ رکھیں اور بغیر کسى حساب کتاب کے خرچ کریں تو ان کے گھر کاکام نہیں چل سکتا _

دوسرے درجے پربچوں میں بھى باہمى تعاون اور ہم آہنگى کى ضرورت ہوتى ہے _ گھر کے بچے بھى اگر آمدنى کو پیش نظر نہ رکھیں اور بغیر کسى حساب کتاب کے خرچ کریں تو بھى خاندان مشکلات اور مصائب کا شکار ہوجائے گا _

ماں باپ کو چاہیے کہ مالى امور میں اپنے بچوں کے ساتھ ہم فکرى پیدا کریں اور انہیں گھر کى آمدنى اور خرچ سے آگاہ کریں _ بچوں کو تدریجاً یہ بات سمجھنا چاہیے کہ پیسے آسانى او رایسے ہى ہاتھ نہیں آجاتے بلکہ اس کے لیے محنت صرف ہوتى ہے _ انہیں جاننا چاہیے کہ باپ زحمت اٹھاتا ہے اور ہرروز کام پر جاتا ہے تا کہ پیسے کماکرلائے اور گھر کے اخراجات پورے کرے _ اور اگر ماں بھى کہیں کام یا ملازمت کرتى ہو تو یہ بات بھى بچوں کو سمجھنا چاہیے اور اگر ماں خانہ دار ہو تو بچوں کو یہ بھى جاننا چاہیے کہ گھر کا نظام آسانى سے نہیں چلتا بلکہ اس کى ماں شب و روز محنت کرتى ہے _

چاہیے کہ بچے آہستہ آہستہ ماں باپ کے کام اور گھر کى آمدنى کى مقدار کو جانیں انہیں یہ سمجھنا چہیے کہ ماں باپ کى آمدنى ہى سے گھر کسے سارے اخراجات پور ے ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے لیے کوئی اور راستہ نہیں اور انہیں سمجھناچاہیے کہ گھر کے تمام اخراجات کو ان پیسوں کے اندر پورا ہونا چاہیے اور سارے اخراجات ایک ہى سطح کے نہیں ہوتے بلکہ بعض اخراجات کو ترجیح دینا پڑتى ہے مثلاً مکان کا خرچ یا مکان کا کرایہ ، پانى اور بجلى کابل، روٹى اور کپڑے کے پیسے ، گھر میں روزمرّہ کى ضروریات کاسامان اور ڈاکٹر کى فیس دیگر ضروریات پر مقدم ہیں _ پہلے مرحلے میں زندگى کى ضروریات پورى کرناچاہئیں باقى چیزیں بعد میں آتى ہیں _ باقى چیزیں بھى ایک سطح کى نہیں ةوتیں بچوں کو یہ بات سمجھنى چاہیے اور ماں باپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے _

بچوں کو ابتدائی زندگى ہى سے اس امر کا عادى بنایا جانا چاہیے کہ ان کى خواہشات اور توقعات کو گھر کى آمدنى سے ہم آہنگ ہونا چاہیے_ انہیں بے جا خواہشات اور بڑھ چڑھ کر خرچ کرنے سے بچنا چاہیے _ انہیں چاہیے کہ اپنے آپ کو گھر کا ایک باقاعدہ فرد سمجھیں اور گھر کا خرچ چلانے میں اپنے آپ کو شریک سمجھیں _ وہ یہ نہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہم کوئی بلند مرتبہ لوگ ہیں اور ماں باپ کى ذمہ دارى ہے کہ ہمارے خرچے پورے کریں _ بچوں کو صرف اپنى خواہشات کو پیش نظر رکھ کر گھر کى باقى ضروریات کو نظر انداز نہیں کردینا چاہیے _ بچے کو اوائل عمر ہى سے اپنى خواہشات سے چشم پوشى کرکے گھر کى ضروریات کو ترجیح دینے کى عادت پڑنى چاہیے _

انہیں بچوں نے آئندہ بڑے ہو کر نظام چلانا ہے _ لہذاانہیں ابھى سے فضول خرچ نہیں ہونا چاہیے گھر کى مالى حالت خوب اچھى ہى کیوں نہ ہو پھر بھى ماں باپ کو نہیں چاہیے کہ وہ بچوں کو اجازت دیں کہ وہ بے حدو حساب خرچ کرتے ہیں _ انہیں چاہیے کہ بچوں کو سمجھائیں کہ سب لوگ ایک خاندان کے فروہیں اور امیر وں کو چاہیے کہ غریبوں کى مدد کریں اور اگر کوئی کم آمدنى والا خاندان ہے اور مشکل سے روزانہ کے اخراجات پورے ہوتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنى روزانہ کى آمدن کے مطابق اخراجات کریں البتہ انہیں نہیں چاہیے کہ اپنى مشکلات کى شکایت اپنے بچوں سے کریں بلکہ انہیں صبر و استقامت کا درس دیں اور انہیں آئندہ زندگى کو بہتر کرنے کے لیے آمادہ کریں_ جب بچے میں کام کرنے کى صلاحیت پیدا ہوجائے تو اسے کام کرنے پر ابھاریں بچے سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر تم بھى کام کروگے تو اس سے آمدنى ہوگى اور پھر ہمارے گھر کے حالات بھى بہتر ہوجائیں گے _ بچے کو یہ عادت ڈالیں کہ وہ اپنى آمدنى کاکچھ حصّہ گھر میں دے دے کیونکہ وہ اسى خاندان کے ساتھ کررہتا ہے بچے میں مفت خورى کى عادت نہیں پیدا ہونى چاہیے _ بچوں کا جیب خرچ بھى گھر کى آمدنى کے مطابق ہونا چاہیے _


1_ کافى ، ج 5، ص 88
2_ کافى ، ج 5، ص 87
3_ وسائل ، ج 12 ، ص 41
4_ مستدرک ، ج 2 ، ص 424
5_ وسائل، ج 21، ص 41