پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

غصّہ

غصّہ

غصّہ انسانى طبیعت کا حصّہ ہے اس کى بنیاد انسانى جہلت میں موجود ہے اس غیر معمولى نفسیاتى کیفیت کا آغاز انسان کے دل و دماغ سے ہوتا ہے ، پھر یہ کیفیت شعلہ آگ کے مانند پورے جسم پرچھا جاتى ہے _ آنکھیں اور چہرہ سرخ ہوجاتا ہے _ ہاتھ پاؤں کا نپنے لگتے ہیں _ منہ سے جھاگ لگتى ہے _ انسان کے اعصاب اس کے کنٹرول سے نکل جاتے ہیں _ غصیلے شخص کى عقل کام نہیں کرتى اوراس حالت میں اس میں اور کسى پاگل میں کوئی فرق نہیں ہوتا _ ایسے عالم میں ممکن ہے اس سے ایسى غلطیاں سرزد ہوں جن کى سزا اسے پورى عمر بھگتنا پڑے _

حضرت علیہ علیہ السلام فرماتے ہیں:

غصّے سے بچو کیونکہ اس کى ابتداء جنون سے ہوتى ہے اور انتہاء پشیمانى پر _(1)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

غصّہ تمام برائیوں اور جرائم کى کنجى ہے _(2)

غصّہ انسان کے دین اور ایمان کو بھى نقصان پہنچاتا ہے اور اس کے نیک اعمال کو بھى غارت کردیتا ہے _

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

غصّہ ایمان کو یوں ختم کردیتا ہے جیسے سر کہ شہد کو تباہ کردیتا ے (3)

غصّہ ایمان کے عالم میں انسان احمقانہ باتیں کرتا ہے اور اس سے ایسا غلط کام صادر ہوتے ہیں جو اس کے باطن کو آشکار کردیتے ہیں اور اسے دوسروں کى نظر میں رسوا کردیتے ہیں _

حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

غصہ ایک برا ساتھى ہے کہ جو انسان کى خامیوں کو آشکار کردیتاہے _ انسان کو برائی سے قریب اور نیکى سے دور کردیتاہے _ (4)

دائمى غصّہ انسان کے دل اور اعصاب پر برے اثرات مرتب کرتا ہے اور انہیں کمزور مضمحل کردیتا ہے _ لہذا جو شخص اپنى حیثیت ، صحت اور دین کا خیرخواہ ہے اسے چاہے کہ اس برى صفت کا سختى سے مقابلہ کرے اور اس امر کے لیے خبردار ہے کہ کہیں غصّہ اس کے اعصابى کنٹرول کو چھین لے اور اس کا دین و دنیا اور عزت و آبرو برباد کردے _

اس نکتے کى یاددھانى بھى ضرورى ہے کہ غصّہ ہر جگہ اور ہر حال میں برا، ناپسندیدہ اور نقصان وہ نہیں ہے بلکہ اگر اس سے صحیح موقع پر صحیح طریقے سے استفادہ کیا جائے تو یہ انسانى زندگى کے لیے بہت فائدہ مند ہے _ اسى جہلت سے انسان اپنى جان ، مال، اولاد ، دین ، وطن اور دیگر انسانوں کا دفاع کرتا ہے _ اس جہلت کى موجودگى کے بغیر انسان آبرو مندانہ زندگى نہیں گزارسکتا _ یہ جہلّت اگر عقل کے اختیار میں رہے تو نہ فقط نقصان وہ نیں ہے بلکہ مفید ہے _

راہ خدا میں جہاد، دین ووطن کا دفاع، امر بالمعروف و نہى عن المنکر عزت و ناموس کى حفاظت ، ظلم کے خلاف قیام ، مظلوموں کى حمایت ، کفر اور بے دینى سے مقابلہ اور ستم رسیدہ انسانوں کى حمایت _ یہ سب کام اسى قوّت کى برکت سے انجام پاتے ہیں _ ایک متدیّن اور ذمہ دار مسلمان زندگى کے تلخ و ناگوار حوادث کے سامنے ، ظلم اور حق کشى کے سامنے ، استبداد اور آمریت کے سامنے ، برائی اور گناہ کے سامنے ، لوگوں کے اموال پر تجاوز کے مقابلے میں ، سامرا حج اور استعمار کے مقابلے میں ، ملّتون کو غلامى کے طوق پہنانے کے مقابلے میں ، بے دینى اور مادہ پرستى کے مقابلہ میں خاموش اور لا تعلق رہے ، اسلام اس کى اجازت نہیں دیتا _ لیکن اس کے غصّے کو اس کى عقل پر بالادستى حاصل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حضرت على علیہ السلام فرماتے ہیں:

اگر تونے غصّے کى پیروى کى تو یہ تجھے ہلاکت تک جا پہنچائے گا _ (5)

یہ درست نہیں ہے کہ اس قوت کو بالکل ختم کردیا جائے اور انسان لا تعلق ، بے حسّ اور بے غیرت ہوجائے _ بلکہ افراط و تفریط سے اجتناب کرنا چاہیے اور اس قوت کو صحیح طریقے سے پران چڑھانا چاہیے _ تا کہ ضرورى مواقع پر اس سے استفادہ کیا جاسکے _ غصّہ دیگر صفات کى طرح بچپن ہى سے انسان میں نشوو نما حاصل کرتا ہے _ یہ تما م انسانوں کى سرشت کا حصّہ ہے لیکن ، اس کى کمى یا زیادتى کا تعلق تربیت ، ماحول اور ماں باپ سے ہے ماں باپ اپنے طرز عمل سے اس قوت کو حالت اعتدال میں بھى رکھ سکتے ہیں اور افراط یا تفریط کى طرف بھى لے جا سکتے ہیں _ اس امر کى طرف توجہ بھى ضرورى ہے کہ سب انسانوں کا مزاج ایک سا نہیں ہوتا کسى میں غصّہ زیادہ ہوتا ہے اور کسى میں پیدائشےى طور پر کم _ عقلمند اور باتدبیر ماں باپ بچے کے خاص مزاج کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس کى تربیت کرتے ہیں اور اس کى جبلّى قوتوں کو اعتدال پر لاتے ہں اور اسے افراط و تفریط کے عوامل سے بچاتے ہیں _

بچہ غصّے میں چیختا چلاّنا ہے ، اس کا بدن کا پنتا ہے ، چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے زمین پر پاؤں مارتا ہے اور لوٹتا ہے ایسے عالم میں وہ سخت سست جملے بولتا ہے کونسے میں جالگتا ہے لیکن اس کا مقصد شرارت نہیں ہوتا _ ضرورى ہے کہ بچے کے غصّے کى وجہ دریافت کى جائے اور اسے دور کیا جائے _

غصہ کلى طور پر کسى پریشانى اور ناراحتى سے پیدا ہوتا ہے _ شدید درد تھکاوٹ زیادہ بے خوابى ، بھوک ، شدید پیاس اور گرمى اور سردى کا غیر معمولى احساس نو مولود اور چھوٹى عمر کے بچوں کو بے آرام کردیتا ہے اور اس کے غصّے کو بڑھاتا ہے بچے کى توہین کرنا اور اسے اذیت دینا _ اس کى خواہشوں کے خلاف قیام کرنا، اس کى آزادى کو سب کرنا ، خواہ مخواہ اس پر پابندیاں عائد کرنا ، دوسرے کو ترجیح دیے جانے کا احساس اور ناانصافیاں ، اس امر کا احساس کہ مجھ سے پیار نہیں کیا جاتا ، اس پر زبردستى بات ٹھونسنا ، بچے کى خود اعتمادى کو نقصان پہنچانا ، ناتوانى کا احساس اور کامیاب نہ ہونے کا احساس ، مشکل اور طاقت فرسا احکامات ، سخت ڈانٹ ڈپٹ ان میں سے ہر امر بچے کا چین چھین لیتا ہے اور اس کے غصے کو بڑھاتا ہے اور اگر ایسى چیزوں کا تکرار ہوتا رہے تو بچے کے اندر غصّے کى سرشت کو تقویت ملتى ہے اور وہ ایک غصیلہ اور چر چڑا شخص بن جاتا ہے _ بعض ماں باپ عملاً بچوں کو غصّے کا سبق دیتے ہیں _ ان پر چیختے ہیں اور سختى کرتے ہیں _ ان کے غصّے کے مقابلے میں غصّے ہو جاتے ہیں _ اس طرح سے انہیں زیادہ غصیلہ بناتے ہیں _

اگر آپ کا بچہ غصّے میں آیا ہو تو آپ اس کے مقابلے میں غصّہ نہ کریں _ اس بات کا اطمینان رکھیں وہ کسى برائی کا ارادہ نہیں کرتا _ آپ اس امر کى کوشش کریں کہ اس کى ناراضگى کى وجہ معلوم کریں _ اگر اس در د ہے تو اس کا علاج کریں _

اگر بھوکا اور پیاسا ہے تو اسے کوئی چیز کھانے پینے کے لیے دیں _ اگر تھکا ہوا ہے تو اسے تو اسے سلادیں _ اگر آپ کے کاموں یا طرز عمل کى وجہ سے وہ غصّے میں ہے تو آپ تلافى اور اصلاح کریں _ اگر اس کا غصّہ خیال ادھر ادھر بھٹکنے کى وجہ سے پیدا ہوگیا ہے تو اس کے اشتباہ کو دور کریں _ اگر اسے روحانى طور پر تقویت کى ضرورت ہے تو آپ وہ مہیا کریں _ اگر اس کى کوئی جائز خواہش ہے اور آپ اسے پورا کرسکتے ہیں تو پورا کریں لیکن جب وہ معمول کى حالت پر آجائے تو کہیں کہ انسان کو جو چیز چاہیے تو اسے زبان سے مانگنا چاہیے نہ کے غصّے اور زور سے اس دفعہ تو میں نے تمہارى خواہش پورى کردى ہے لیکن آئندہ اگر تم نے غصّے اور زور سے کوئی بات منوانے کى کوشش کى تو پورى نہیں کى جائے گى _

حضرت علیہ علیہ اسلام فرماتے ہیں:

''غصّے سے بچو کہیں یہ تم پر مسلط ہى نہ ہوجائے اور ایک عادت ہى نہ بن جائے '' _(6)

چڑچڑ ے بچے زود رنج ہوتے ہیں اور چھوٹى سى بات پر غصّے میں آجاتے ہیں _ کیونکہ ان کى روح قوى نہیں ہوتى _ لہذا و ہ کوئی بھى ناپسندیدہ بات برداشت نہیں کرسکتے اور معمولى سى چیز پر بھى متاثر ہوجاتے ہیں اور غصّے میں آجاتے ہیں _

 


1_ مستدرک ، ج 2 ، ص 326
2_ اصول کافى ، ج 2 ، ص 303
3_ اصول کافى ، ج 2 ، ص 302
4_ مستدرک، ج 2 ، ص 326
5_ مستدرک، ج 2، ص 326
6_ غررالحکم ص 809