نومولود اور اخلاقى تربیت
جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو بہت کمزور ہوتا ہے _ عقل بالقوت رکھتا ہے مگر کچھ چیز سمجھتا نہیں ، فکر اور سوچ بچار نہیں کرتا ، آنکھ سے دیکھتا ہے لیکن کسى چیز کو پہچانتا نہیں _ رنگوں اورشکلوں کو مشخص نہیں کر پاتا ، دورى اور نزدیکى ، بزرگى اور بچپن کو نہیں سمجھتا ، آوازیں سنتا ہے لیکن ان کے معانى اور خصوصیات اس کى سمجھ میں نہیں آتے اور یہى حالت اس کے تمام حواس کى ہے مگر وہ سمجھنے اور کمال تک پہنچنے کى وقت و استعداد رکھتا ہے تدریجا ً تجربوں سے گزرتا ہے اور چیزوں کو سمجھنے لگتا ہے _ اللہ قرآن میں فرماتا ہے :
واللہ اخرجکم من بطون امّہاتکم لا تعلمون شیئا و جعل لکم السّمع و الابصار و الافئدة لعلّکم تشکرون
اللہ نہ تمہیں تمہارى ماؤن کے پیٹوں سے اس عالم میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور تمہیں کان ، آنکھیں اور دل عطا کیا شاید کہ تم شکرگزار ہوجاؤ _(سورہ نحل _ آیہ 78)
بچے کى زیادہ تر مصروفیات یہ ہیں کہ وہ کھاتا ہے ، سوتا ہے _ ہاتھ پاؤں مارتا ہے روتا ہے اور پیشاب کرتا ہے _ چند ہفتوں تک وہ ان کاموں کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا _نومولود کے ابتدائی کام اگر چہ بہت سادہ سے اور چند ایک ہیں لیکن انہیں کے ذریعے سے بچہ دوسرے لوگوں سے ارتباط پیدا کرتا ہے ، تجربے کرتا ہے ، عادتیں اپناتا ہے اور علم حاصل کرتا ہے _ یہى رابطے اور تجربے ہیں کہ جن سے بچے کى آئندہ کى اخلاق اور معاشرتى خصیت کى بنیاد پڑتى ہے اور وہ تشکیل پاتى ہے _
حضرت على علیہ السلام نے فرمایا :
الا یام تو ضح السّرا ئرا لکا منہ
جوں جوں دن گزرتے ہیں بھید کھلتے ہیں (1)
بچہ ایک کمز رو معاشر تى فرد ہے کہ جو دوسروں کى مدد کے بغیر نہ زندہ رہ سکتا ہے اورنہ زندگى ، بسر کرسکتا ہے اگر دوسرے اس کى مدد کونہ لپکیں اور اس کى احتیاجات کوپویانے کریں تو وہ مر جائے گا _ نو مو لود کى جسمانى صحت اور پرورش جن کے ذمے ہوتى ہے اس کى اخلاق ، اجتماعى یہاں تک کہ دینى تربیت اور رشد بھى انہیں سے وابستہ ہے
سمجھدار اور احساس دمہ دارى کرنے والے ماں باپ اپنے صحیح اور سو چے سمجھے طرز عمل سے نو مولود کى ضروریات کوپورا کرسکتے ہیں اور اس کے جسم و روح کى پرورش کے لیے بہترین ماحول فراہم کرسکتے ہیں اور اس کى حساس اور بے آلائشے روح میں پاکیزہ اخلاق اور نیک عادات پیدا کرسکتے ہیں _ اسى طرح ایک نادان تربیت کرنے، والا اپنے غلط طرز عمل اور اشتباہ سے ایک نو مولود کے پاک اور بے آلائشے نفس میں برے اخلاق او رناپسندیدہ عادات پیدا کر سکتا ہے _
نو مولود کو بھوک لگتى ہے اور اسے غذا کى ضرورت ہوتى ہے وہ اپنى ضرورت کا احساس کرتا ہے اور وہ ایک بڑى قوت کى طرف تو جہ کرتا ہے کہ جواس کى ضروریات کو بر طرف کرسکتى ہو اسى لیے وہ رو تا ہے ، شور مچاتا ہے کہ اس کى فریاد کو پہنچا جائے اور اس کى ضرورتوں کو پورا کیا جائے اگر بچے کى داخلى خواہشات کى طرف پورى تو جہ کى جائے اور ایک صحیح پرو گرام تربیت و یا جائے اسے معین مواقع پرا و ضرورى مقدا میں دودھ یا جائے تو وہ آرام محسوس کرتا ہے مطمئن ہو کے سوتا ہے اور معین اوقات پر جب اسے بھوک لگتى ہے تو بیدا ر ہوتا ہے پھر دود ھ پیتا ہے اور پھر سو جاتال ہے ایسے بچے کے اعصاب آرام و راحت سے رہتے ہیں _ اسے اضطراب اور بے چینى نہیں ہوتى ، اسے زندگى میں اچھے اخلاق، صبر اور نظم و ضبط کى عادت پڑ جاتى ہے اس کى حساس روح میں دوسروں پر اعتماد اور حسن ظن کى بنیاد پڑ جاتى ہے _ نومولود زندگى کے اس مرحلے میں کہ جب وہ کسى کونہیں پہچانتا فطرى طور پر دو امور کى طرف تو جہ رکھتا ہے _ ایک اپنى ناتوانى اور نیازمندى کا اسے پورا احساس ہو تا ہے اور دوسرى طرف ایک بڑى اور مطلق قوت کى طرف تو جہ رکھتا ہے کہ جو تمام احتیاجات کے لئے ملجاو پناہ گاہ ہے اسى سبب سے روتا ہے اور اس بر تر قوت کو مدد کے لیے پکار تا ہے کہ جسے و ہ پہچانتا نہیں اور وہ غیبى قوت سب اہل جہان کو پیدا کرنے والى ہے بچہ اپنے ضعف و ناتوانى کى وجہ سے اپنے آپ کو ایک بے نیاز طاقت سے وابستہ اور متعلق سمجھتاہے _ اگر یہ احساس تعلق آرام کے ساتھ بخوبى بندھآ رہے تو بچے کے دل میں ایمان اور روحانى سکون کى بنیاد پڑ جاتى ہے _پیغمبر اکر م صلى اللہ علیہ وآلہ و سلم نے فرمایا ہے _
(( رونے پر بچوں کونہ مارنا بلکہ ان کى ضروریات کو پورا کرنا کیوں کہ چار ماہ تکح بچے کا رونا پروردگار عالم کے وجود اور اس کى وحدانیت پر گواہى ہو تا ہے (2)
چار ماہ پورے ہونے سے پہلے نومولود ابھى ایک معاشرتى و جود نہیں بنا ہوتا _ کسى کو نہیں پہچانتا _ جتى اپنى ماں اور دوسروں میں فرق نہیں کرپاتا اور ماؤں کے بقول وہ دورى نہیں کرتا یہى چار ماہ ہیں کہ بچہ بس ایک ہى ذات کى طرف متوجہ ہو تا ہے لیکن جو بچہ ماں کى غفلت اور سستى کى وجہ سے صحیح اور منظم توجہ اورغذا سے محروم ہو جاتا ہے ناچار گاہ بگاہ روتا ہے اور شور کرتا ہے تا کہ کوئی اس کى مدد کو پہنچے _ ایسے بچے کے اعصاب اورذھن ہمیشہ مضطرب اور دگرگوں رہتے ہیں اور اسے آرام نہیں ملتا _ آہستہ آہستہ وہ چڑ چڑ اور تند خو ہو جاتا ہے _ اس کے اندر بے اعتمادى اور پریشانى کى حس پیدا ہو جاتى ہے اور وہ ایک نامنظم اور ڈہیٹ و جود بن جاتا ہے _
1_ غرر الحکم ص 47
2_ بحارالانوار جلد 104 ص 103