پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

بيٹى يا بيٹا

بیٹى یا بیٹا

جو نہى عورت حاملہ ہوتى ہے وہ اس مسئلہ میں مضطرب رہتى ہے کہ بیٹا ہوگیا یا بیٹى ، دعا کرتى ہے نذر مانتى ہے نیاز دیتى ہے کہ بیٹا ہو _ جب اس کے عزیز رشتے دار ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تمہارے چہرے کے رنگ سے لگتا ہے کہ بیٹا پیدا ہوگا _ جب کہ اس کے برخلاف اس کے دشمن کہتے ہیں کہ تمہارى آنکھوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹى پیدا ہوگى _ شوہر بھى بیگم سے پیچھے نہیں ہوتا اس کے بھى دل میں بیٹے کى خواہش چٹکیاں لیتى رہتى ہے _ موقع بے موقع وہ اس بارے میں بات کرتا ہے اور ادھر ادھر کے وعدے کرتا رہتا ہے _ پیدائشے کے وقت سب حاضرین کى توجہ اس مسلئے کى طرف رہتى ہے کہ بیٹا ہے یا بیٹى _ اگر بیٹى ہو تو ایک دفعہ کمرہ پیدائشے میں سرتا پا سکوت ہوجاتا ہے اور چہرے اتر جاتے ہیں لیکن اگر بیٹا ہو تو خوشى کا شوروشین بلند ہوجاتا ہے _ ماشاء اللہ سے آواز گونج اٹھتى ہے _ جب بچے کى پیدائشے کى خبر باپ تک پہنچتى ہے تو اگر بیٹا ہو تو خوش ہوجاتا ہے ، ادھر ادھر دوڑتا ہے ، مٹھائیاں اور پھل لاتاہے ،ڈاکٹر اور دوا کا بندوبست کرتا ہے _ کہتا پھرتا ہے بچے کا دھیان رکھنا اسے کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے _ بیگم کے بارے میں احتیاط کرنا کہ کہیں ہلے چلے نہ _ دائیہ اور نرسوں کو انعام دیتا ہے _ لیکن اگر بیٹى جنم لے تو اس کا چہرہ ہى اترجاتا ہے _ کونسے میں جا بیٹھتا ہے اپنى بدبختى پر روتا ہے اور اپنى زندگى کو تلخ بنالیتا ہے _ بیمار بیوى کى طرف اعتنا نہیں کرتا اس کى احوال پرسى اور عیادت نہیں کرتا _ یہاں تک کہ بعض اوقات اسے ایسا غصہ آتا ہے کہ طلاق کى دھمکى دینے لگتا ہے _ ہمارے انحطاط پذیر اور بے تربیت معاشرے کى اکثریت میں ایسے ہى غلط افکار اور برى عادت موجود ہے _ البتہ سب ایسے نہیں ہیں _ روشنفکر لوگ بھى موجود ہیں کہ جن کى نظر میں بیٹا اور بیٹى برابر ہے لیکن وہ اقلیت میں ہیں _

والد عزیز اور والدہ گرامی

بیٹا ہو یا بیٹى ان میں کیا فرق ہے _ کیا بیٹى میں انسانت کم ہوتى ہے ؟ کیا اس میں ترقى اور پیش رفت کى صلاحیت نہیں ہوتى ؟ کیا وہ ایک مفید اور قیمتى انسان نہیں بن سکتى ؟ کیا بیٹى تمہارى اولاد نہیں ہے ؟ آخر بیٹوں کا ماں باپ کے لیے کون سا ایسا فائدہ ہے جو بیٹى کا نہیں ؟ اگر بیٹى کى کى کوئی اہمیت نہ ہوتى تو اللہ اپنے رسول (ص) کى نسل کو فاطمہ (ع) کے ذریعے کیسے برقرار رکھتا _ اگر بیٹى کى آپ اچھى پرورش کریں تو وہ بیٹے سے پیچھے نہیں رہے گى تاریخ کے اوراق پلٹ کردیکھیں آپ کو ایسى خواتین نظر آئیں گى جن میں سے ایک ایک ہزاروں مردوں پر بھارى ہے _ یہ کیسى غلط افکار کے خلاف جہاد کیجئے بیٹے اور بیٹى میں غلط قسم کے فرق کو اپنے ذہن سے نکال دیجئے _ ذمہ دار اور مفید انسانوں کى تعمیر کے بارے میں سوچیے _ سودمند اور قیمتى انسان بیٹى بھى ہوسکتى اور بیٹا بھى _ جس وقت تمہیں بچے کى پیدائشے کى خبر ملے اگر وہ صحیح و سالم ہو تو خدا کا شکر کرو کہ وہ پروردگار عالم کا عطیہ ہے اور تمہارے وجود کى یادگارى ہے کہ جو زندگى کے حساس اور خطرناک مرحلے سے صحیح و سالم گزر آیاہے اور اس نے زمین پر قدم رکھا ہے _

پیغمبر اکرم اورائمہ اطہار علیہم السلام کى یہى روش تھى _

جس وقت اما م سجاد علیہ السلام کو نو مولود کى خبر دى جاتى تو بیٹى کے بارے میں ہرگز سوال نہ کرتے _ لیکن جب ان کو بتایا جاتا کہ صحیح و سالم ہے تو خدا کا شکر ادا کرتے _ (1)

رسول اکرم (ص) اپنے دوستوں کے ساتھ محو گفتگو تھے اسى اثنا میں ایک شخص محفل میں داخل ہوا اورحضور کو خبرى دى کہ اللہ نے آپ کو بیٹى علا کى ہے _ رسول اللہ اس خبر پرخوش ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا آپ (ص) نے جب اپنے اصحاب کى طرف نظر کى تو ان کے چہروں پر ناراحتى کے آثار ہویدا تھے _ آپ (ص) نے برا مانتے ہوئے فرمایا:
مالکم ؟ ریحانة اشمہا و رزقہا على اللہ عزوجل

کیا ہوگیا تمہیں ؟ اللہ نے مجھے پھول عطا کیا ہے جس کى مہک میں سونگھتا ہوں اول اللہ نے اس کا رزق دیا ہے _ (2)

اللہ تعالى نے اس برى عادت کى مذمت کى ہے اور قرآن میں فرمایا ہے _

و اذا بشّر احدہم بالانثى ظلّ وجہہ مسودًا و ہو کظیم _ یتوارى من القوم من سوء ما بشّر بہ _(سورہ نحل ، آیہ 58 _59)

جب ان میں سے کسى کو بیٹى کى بشارت دى جاتى ہے تو شرم کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے ، غصہ اس پر چھاجاتا ہے _ اس برى خبر کے باعث وہ لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا ہے _

 

1_ وسائل _ ج 15 _ص 143
2_ وسائل الشیعہ _ ج 15_ ص 102