چغل خوری
چغل خورى ایک انتہائی برى عادت ہے کہ جو بد قسمتى سے بہت سے افراد میں پائی جاتى ہے اگر کوئی شخص کسى کے بارے میں برى بات کرتو چغل خور اسے اگے پہنچاتا ہے اور کہتا ہے فلان نے تیرے بارمیں ایسا ویسا ہا ہے چغل خورى پست فکرى اور شیطنت کى صفات میں سے ہے _ اس سے ایک دوسرے کے درمیان کینہ اور دشمنى پیدا ہوجاتى ہے _ دوستوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیتى ہے _ بہت سے جرائم ، جھگڑے ، قتل ، لڑائیاں اسى چغل خورى کا نتیجہ ہوتى ہیں _ کتنے گھروں کو اس عادت نے خراب کردیا ہے میاں بیوى کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے والدین سے بچوں کو جدا کردیا ہے _ والدین سے بچوں کو جدا کردیا ہے _ چغل خور لوگوں کے راز فاش کرتا ہے _ جب کہ خدا اس امر پر راضى نہیں ہے _ چغل خور کى لوگوں میں کوئی حیثیت نہیں ہوتى _ اسے شیطان ، جاسوس اور بدذات سمجھا جاتا ہے ، زیادہ تر لوگ اس سے ہم نشینى اوردوستى سے گریز کرتے ہیں اور اس پر اور اس کے والدین پر لعنت بھیجتے ہیں _ بدترین چغل خورى ظالموں کے لیے جاسوسى کرنا اور ٹوہ لگانا ہے _ اگر کوئی شخص کسى ظالم کے لیے جاسوسى کرے اور کسى مسلمان کو مصیبت میں پھنسادے _ اور اس کى قید ، اذیت یا قتل کا سبب بنے تو و ہ ظالم کے ظلم میں شریک ہے _ روز قیامت اسے سزا ملے گى _ اگر چہ وہ ظلم اور قتل کے جرم میں ظاہراً شریک نہ ہو _
رسول اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
سب سے برا شخص وہ ہے جو اپنے مسلمان بھائی کى بادشاہ کے پاس چغلى کرے اور اس کى جاسوسى کرے _ یہ جاسوسى اس کے لیے بھى باعث ہلاکت ہے
اس کے بھائی کے لیے بھى اور بادشاہ کے لیے بھى _ (1)
اسلام کے دین مقدس نے جاسوسى اور چغل خورى کو حرام قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں بہت سى احادیث وارد ہوئی ہیں _
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
چغل خور پہ بہشت حرام کردى گئی ہے اور وہ اس میں داخل نہیں ہوسکتا _(2)
امیر المومین على علیہ السلام فرماتے ہیں:
تم میں سے شریر اور برے وہ ہیں کہ جو چغل خورى سے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دیتے ہیں اور پاکدامن افراد کى عیب جوئی کرتے ہیں _(3)
چغل خورى کى مختلف وجوہات ہوسکتى ہیں _ کبھى دشمنى اس کا باعث بنتى ہے _ چغل خور کو کسى ایک یا دونوں افراد سے دشمنى ہوتى ہے اس لیے ایک سے دوسرے کى بات بیان کرتا ہے تا کہ ان میں پھوٹ پڑجائے _ اور وہ آپس میں لڑ پڑیں _ کبھى کوئی شخص خودنمائی اور دوستى و خیرخواہى جتانے کے لیے چغلى کھاتا ہے _ اور کبھى اس کا مقصد فقط محفل آرائی ہوتا ہے _ بہر حال مقصد کچھ بھى ہوکام بہت برا ہے کہ ایک مسلمان کو جس سے بہر حال اجتناب کرنا چاہیے _ دین مقدس اسلام نے چغلى سننے تک کو حرام قرار دیا ہے _
پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:
چغل خورى نہ کرو اور نہ چغل خور کى بات پر کان لگاؤ_(4)
على علیہ السلام فرماتے ہیں:
ٹوہ لگانے والے اور چغل خور کى بات کى تکذیب کرو وہ غلط ہو یا صحیح _(5)
واضح ہے کہ اگر کوئی شخص چغل خور کى باتوں پر کان نہ دھرے گا تو وہ ناچار اس عادت سے دستبردار ہوجائے گا_ جو شخص کسى کى چغلى آپ کے سامنے کرتا ہے آپ اطمینان رکھیں کہ وہ آپ کا حقیقى دوست اور خیر خواہ نہیں ہے _ اگر وہ آپ کا دوست ہوتا تو کہنے والے کے سامنے تمہارا دفاع کرتا نہ کہ اس کى بات آکر تمہارے سامنے نقل کرتا _ تا کہ تم غصّے میں جلو اور پریشان ہو _ اور کبھى وہ تمہیں غلط کاموں پہ ابھارتا ہے ، مسلمان کو چاہیے کہ وہ راز دار ہو اور اپنى زبان پر کنڑول کرے اور جاسوسى اور چغل خورى سے پرہیز کرے _ بہت سے لوگ یہ ناپاک عادت بچپن ہى میں ماں باپ کے ہاں سے حاصل کرتے ہیں _ لہذا ماں باپ کى بھى اس سلسلے میں ذمہ دارى ہے _ اپنى اولاد کو اس برى عادت سے بچانے کے لیے پہلے ماں باپ کو چاہیے کہ وہ کسى کى چغلى نہ کھائیں ماں کو نہیں چاہیے کہ وہ پھوپھى ، باجى ، خالہ اور ہمسائیوں کى شکایتیں اپنے شوہر سے کرے _ اور شوہر بھى بیوى سے دوسروں کى چغلى نہ کھائے کیونکہ اگر ماں باپ کو چغل خورى کى عادت ہوگى تو ان کى اولاد بھى ان کى تقلید کرے گى _ اور اس برى عادت کو ان سے سیکھے کى _ کبھى کوئی بچہ اپنى امی، بہن یا بھائی کى شکایت ابو سے کرتا ہے اور چغلى کھاتا ہے _ اس موقع پر باپ کى ذمہ دارى ہے کہ فوراً بچے کو روکے اور اس سے کہیں کہ چغلى کھانا برا کام ہے _ کیوں امّى امّى کى بات میرے سامنے بیان کرتے ہو؟ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم دوسروں کى باتیں مجھ سے بیان کرو _ پھر میں نہ دیکھوں کہ تو چغلى کھاتاہے _ علاوہ ازیں اس کى چغلیوں پر رد عمل بھى بالکل ظاہر نہ کریں اور انہیں بالکل نظر انداز کردیں _ بچوں کو یہ برى عادت نہ پڑے اس لیے
پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:
''چغل خورى کى چغلیوں پہ کان نہ دھرو''
1_ بحار، ج 75، ص 266
2_ اصول کافی، ج 2 ص 369
3_ اصول کافى ، ج 2 ، ص 379
4_ مجمع الزوائد ، ج 8، ص 91
5_ غررالحکم ، ص 125