پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

خود نمائي

خود نمائی

خود نمائی اور اپنى شخصیت کو نما یاں کرنے کا احساس ہر ایک میں تھوڑا بہت موجود ہے _

ہر انسان کى یہ خواہش ہوتى ہے کہ جاذب نظر اور اہم کام انجام دے کر اپنى شخصیت و اہمیت دوسروں پر ثابت کرسکے تا کہ دوسرے اسے سرا ہیں ، اس کى قدر پہچانیں اور اس کے وجود کو غنیمت شمار کریں _ تقریبا ایک سال کى عمر کے بعد اس فطرى خواہش کى علامتیں بچے میں ظاہر ہونے لگتى ہں _ بچہ کوشش کرتا ہے کہ محفل میں ایک سے دوسرى جگہ جاتا رہے اور اپنى حرکات سے دوسروں کى توجہ اپنى طرف ہبذول کروائے_جس کام سے اس کے ماں باپ اور دوسرے لوگ خوش ہوں اور وہ ہنسیں ان کا تکرار کرتا ہے ، انہیں دیکھ کر خوش ہو تا ہے اور اپنى کا میابى پر فخر کرتا ہے _ کبھى اشار ے اور کبھى تصریح کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ دیکھیں میں کتنا اہم کام انجام دے رہاہوں

خود نمائی کى خواہش فى نفسہ کوئی برى صفت نہیں ہے _ یہى درونى احساس انسان کو کوشش اور جدو جہد کے لیے ابھار تا ہے تا کہ وہ سبق پڑھ کر بہتریں نمبر حاصل کرے یا بہترین مقرربن جائے یا اچھا خطیب قرار پائے یا ماہر مصور ہو جائے یا ایک زبر دست شاعر بن جائے یا ایک اچھا مصنف بن جائے یا ایک اچھا صنّاع یا موجد ہو جا ئے _

اس صفت کا اصل وجود برانہیں لیکن اہم بات اس سے استفادہ ہے _ اگر اس خواہش کى درست راہنمائی کى جائے اسے صحیح طریقے سے سیراب کیا جائے تو یہ بہترین نتائج کى حاصل ہو تى ہے _ ابتدائی طور پر بچہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرسکتا _ ہر کام کى اچھائی یا برائی کا معیار اس کے لیے یہ ہے کہ اس کے والدین اسے پسند کرتے ہیں یا ناپسند _ ایک اچھا مربى کہ جس کى اس نکتے پر توجہ ہو وہ تحسین و تشویق کے ذریعے بچے کى خودنمائی کى خواہش کى تقویت کرتا ہے _ اس کے اچھے اور مفید کاموں پر اظہار مسرت کرتا ہے اور اس طرح سے اس میں اچھے اخلاق و آداب کى بنیاد رکھتا ہے اگر اس سے کوئی غلط اور خلاف ادب کام دیکھتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اظہار مسرت نہیں کرتا بلکہ اپنى ناراضى اور ناپسندیدگى کا اظہار بھى کرتا ہے اور اس طرح سے اس عمل کى برائی بچے کو سمجھتا ہے _ اس کى طرف سے تھین و تعریف سوچى سمجھى اور حقیقت کے مطابق ہوتے ہیں اور اس بارے میں وہ تھوڑى سى بھى سہل انگارى اور غفلت نہیں کرتا _ اور اس طریقے سے وہ بچے کو اچھائیوں کى طرف جذب کرتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے _

البتہ بعض نادان ماں باپ اس بارے میں افراط سے کام لیتے ہیں _ بچے کے ہر کام پر اگر چہ وہ غلط او ربے ادبى پر مبنى کیوں نہ ہو اظہار مسرت کرتے ہیں اور اس طرح سے اس میں ناپسندیدہ اخلاق و آداب کى بنیاد رکھتے ہیں _ اس کى خوبیوں کے بارے میں مبالغہ کرتے ہیں _ ہر جگہ او رہر کسى کے سامنے اس کى تعریف کرتے ہیں _ اس کى ہنر نمائیوں کو دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں _ ایسا بچہ ممکن ہے تکبر اور خود پسندى میں مبتلا ہوجائے اور پھر آہستہ آہستہ ایک خو د غرض اور جاہ طلب شخص بن جائے اور اپنے لیے ایک جھوٹى شخصیت گھڑے اور لوگوں سے خواہس کرے کہ اس کے ماں باپ کى طرح اس کى موہوم اور خیالى شخصیت کى تعریف و توصیف کریں اور اگر وہ اس بارے میں کامیاب نہ ہو ا تو ممکن ہے اس میں ایک نفسیاتى عقدہ پیدا ہوجائے اور وہ لوگوں کو قدر ناشناس سمجھنے لگ جائے _ یہاں تک ممکن ہے کہ اپنى خیالى شخصیت کے لیے اور لوگوں کى ناقدرى کا بداء لینے کے لیے وہ کوئی غلط یا خطرناک اقدام کرے _ وہ چاہے گا کہ اپنى شکست خوردہ خواہشات کو پورا کرے اور دوسروں کى توجہ اپنى شخصیت کى طرف مبذول کرے چاہے اس کے لیے کچھ بھى ہوجائے _

اس نکتے کى یاد دھانى بھى ضرورى ہے کہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کے اس احساس سے استفادہ کریں اور تدریجاً اس کى تربیت او رتکامل کى کوشش کریں اور اس کى ایک بلند اور بہتر راستے کى طرف راہنمائی کریں _ ماں باپ کى رضا اور خوشنودى کى جگہ آہستہ آہستہ اللہ کى رضا اور خوشنودى حاصل کرنے کى اس میں خوپیدا کریں _ آہستہ آہستہ اس طرح کے جملے کہنے کى بجائے کہ مجھے یہ کام پسند نہیں یا فلاں کام ابو کو پسند نہیں یہ کہیں کہ اللہ کو یہ کام پسند نہیں او روہ اس کام پر راضى نہیں _