پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

نتيجہ

نتیجہ

ہوشیار: مذکورہ مطالب سے چند چیز یں سمجھ میں آتى ہیں:

1_ انسا ن کى عمر کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوزنا ممکن ہو _ کسى بھى سائنسدان نے ابھى تک یہ نہیں کہا ہے کہ انسان کى عمر کا فلاں سال اس کے کاردان حیات کى آخرى منزل ہے اس پر قدم رکھتے ہى موت آجائے گى _ بلکہ مشرق و مغرب کے جدى و قدیم سائنسدانوں کے ایک گروہ نے تصریح کى ہے کہ انسا ن کى عمر کى کوئی حد نہیں ہے _ ممکن ہے انسان آئندہ موت پر قابو پالے یا اسے کافى حد تک پیچھے ہٹادے کہ جس سے طولانے عمر پائے _ اس علمى امید کى کامیابى نے سائنسدانوں کو شب و روز کى کوشش اور تحقیق و تجربہ پر مجبور کیا ہے چنانچہ ابھى تک اس سلسلہ میں جو تجربات ہوئے ہیں وہ کامیاب رہے ہیں _

ان تجربات نے یہ ثابت کردیا کے موت بھى تمام بیماریوں کى طرح کچھ طبیعى علل و عوامل کا نتیجہ ہے اگر ان عوامل کو پہنچان لیا جائے اور ان کے اثرات کو روک دیا جائے تو موت کو پیچھے ہٹا یا جا سکتا ہے اور انسان کو اس خوفناک ہیولے سے نجات دلائی جا سکتى ہے _ جس طرح علم نے آج تک بہت سى بیماریوں کے علل و عوامل کو کشف کرلیا ہے اوراس کى تاثیر کا سد باب کردیا ہے _ اسى طرح مستقبل قریب میں موت کے اسباب و علل کو پہچاننے اور اس کے اثرات کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائے گا _

2_ نباتات ، حیوانات اور انسانوں کے درمیان ایسے افراد موجود ہیں کو جو اپنى نوع کے دیگر افراد سے ممتاز ہیں اور ان سے زیادہ طویل عمر پائی ہے _ ایسے استثنائی افراد کا وجود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نوع کے افراد کى عمر کى ایسى کوئی حد نہیں ہے کہ جس سے آگے بڑھنا محال ہو _ یہ صحیح ہے کہ اکثر انسان سو سال کى عمر سے پہلے ہى مرجاتے ہیں لیکن عمر کى اس مقدار سے مانوس ہونا اس بات کى دلیل نہیں ہے کہ سوسال سے زیادہ عمر کا امکان ہى نہیں ہے _ کیونکہ ایسے بہت سے افراد گزرے ہیں جنہوں نے سو سال سے زیادہ عمر بسر کى ہے _ ایک سو پچاس سالہ ، ایک سو اسى سالہ اور دو سو پچاس سالہ انسان کاوجود اس بات کى واضح دلیل ہے کہ عمر انسان کى کوئی حد معین نہیں ہے _ دو سو پچاس سال اور دو ہزار سال زندگى گزارنے میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں غیر مانوس ہیں _

3_ ضعیفى کوئی ایسا عارضہ نہیں ہے کہ جس کا کوئی علاج نہ ہو بلکہ یہ قابل علاج بیمارى ہے جیسا کہ علم طب نے آج تک بہت سى بیماریوں کے علل و اسباب کشف کرلئے ہیں اور انسان کو ان کے علاج کا طریقہ بتادیا ہے اسى طرح مستقبل میں ضعیفى و بڑھاپے کے عوامل کشف کرنے میں بھى کامیاب ہوجائے گا اور ان کا علاج انسان کے اختیار میں دیدے گا _ سائنسدانوں کا ایک گروہ اکسیر جوانى کى تلاش میں ہے اور انتھک کوشش و تحقیق اور تجربات میں مشغول ہے ، ان کے تجربات کامیاب رہے ہیں کہ جن کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں انسان ضعیفى اور فرسودگى کے عوامل پر قابو پالیگا اور ان عام بیماریوں کے علاج کا طریقہ تلاش کرے گا _ اس صورت میں انسان عرصہ دراز تک اپنى جوانى و شادابى کو ملحوظ رکھے گا _

مذکورہ مطالب اور سائنسدانوں کى تصدیق کى مدنظر رکھتے ہوئے آپ ہى فیصلہ کیجئے کہ اگر کوئی انسان جسمانى ساخت و ترکیب کے لحاظ سے نہایت ہى معتدل ہو ، اس کے اعضاء رئیسہ ، قلب ، اعصاب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور معدہ سب قوى اور سالم ہوں _ وہ حفظان صحت کے تمام اصولوں سے واقف ہو اور ان پر کاربند ہو _ مشروبات و ماکولات کے خواص و فوائد جانتا ہو ، ان میں سے مفید کو استعمال اور مضر سے پرہیز کرتا ہو ، جراثیم اور ان کى پیدا دار کے عوامل کو پہچانتا ہو ، امراض اور خصوصاً ضعیفى کے علاج سے آگاہ ہو _ زہر و مہلکات سے باخبر ہو ، ان سے اجتناب کرتا ہو ، بدن کى ضرورى احتیاج کو غذا اور وٹامن و غیرہ سے پورا کرتا ہو ، والدین اور اجداد سے کوئی بیمارى میراث میں نہ پائی ہو ، برے اخلاق ، پریشان خیالى ، جو کہ اعصاب و مغز کى فرسودگى اور دیگر بیماریوں کا باعث ہوتى ہے ، سے محفوظ ہو ، اس میں ایسے تمام نیک اخلاق موجود ہوں جو روح و جسم کے سکون کا باعث ہیں اور ان تمام چیزوں کے علاوہ اس کے جسم کا حاکم و مدیر انسانى کمال کے اعلى درجہ پر ہو تو ایسے انسان میں ہزاروں سال زندگى گزارنے کى صلاحیت ہوگى _ ایسى طویل عمر کو عمل و دانش نہ صرف یہ محال قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے امکان کا اثبات کرتے ہیں _

اس بناپر امام زمانہ کى طویل عمر کو محال اور لا ینحل مشکل نہیں قراردینا چاہئے _ کہ علم بہت طویل عمر کو جوانى و شادابى کى طاقت کى حفاظت کے ساتھ ممکن قراردیتا ہے _ اگر کسى شخص کا وجود عالم کیلئے ضرورى ہو اور طویل عمر در کار ہو تو قادر مطلق خدا دنیا کے علل و معلولات اور خلقت کى مشینرى کو اس طرح منظم کرے گا کہ جو ایسا کامل انسان پیدا کرے گى جو ضرورى علم و اطلاعات کاحامل ہوگا _

ڈاکٹر:مذکورہ مطالب صرف ایسے ممتاز انسان کے وجود کو ثابت کرتے ہیں لیکن یہ بات کہاں سے ثابت ہوئی کہ ایسا انسان موجود بھى ہے؟

ہوشیار: عقلى و نقلى دلیلوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نوع کى بقا کیلئے امام کا وجود ضرورى ہے اور بہت سى احادیث کا اقتضا ہے کہ امام صرف بارہ ہوں گے اور یہ بھى ثابت ہوچکا ہے کہ بارہویں امام ،امام حسن عسکرى کے بلا فصل فرزند مہدى موعود ہیں جو کہ پیدا ہوچکے ہیں اور اب پردہ غیب میں ہیں _ اس سلسلہ میں سیکڑوں حدیثیں نقل ہوئی ہیں _ مذکورہ مطالب اور دانشوروں کى تائید کے بعد ہم نے ایسے غیرمتعارف عمر کے امکان کو ثابت کیا ہے _