پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

امام زمانہ اگر ظاہر ہوتے تو كيا حرج تھا ؟

امام زمانہ اگر ظاہر ہوتے تو کیا حرج تھا ؟

انجینئر : اگر امام زمانہ لوگوں کے درمیان آشکار طور پر رہتے ، دنیا کے کسى بھى شہر میں زندگى بسر کرتے ، مسلمانوں کى دینى قیادت کى زمام اپنے ہاتھوں میں رکھتے اور شمشیر کے ساتھ قیام اور کفر کاخاتمہ کرنے کیلئے حالات سازگار ہونے تک ایسے ہى زندگى گزارتے تو کیا حرج تھا؟

ہوشیار : اچھا مفروضہ ہے لیکن اس کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ اس سے کیا نتائج بر آمد ہوئے _ میں حسب عادت موضوع کى تشریح کرتا ہوں _

پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار نے بارہا یہ بات لوگوں کے گوش گزار کى تھى کہ ظلم وستم کى حکومتیں مہدى موعود کے ہاتھوں تباہ ہوں گى اور بیداد گرى کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے لوگوں کے دو گروہ ہمیشہ امام زمانہ کے وجود مقدس کے منتظر رہے _ ایک مظلوم و ستم رسیدہ لوگوں کا گروہ جو کہ ہمیشہ اکثریت میں رہا ہے _ وہ حمایت و دفاع کے قصد سے امام زمانہ کے پاس جمع ہوئے اور انقلاب و دفاع کا تقاضا کرتے تھے _ یہ ہمیشہ ہوتا تھا کہ ایک بڑا گر وہ آپ کا احاطہ کئے رہتا اور انقلاب کا تقاضا کرتا تھا _

دوسرا اگر وہ خونخوار ستمگروں کارہا ہے جس کا پسماندہ اور محروم قوموں پر تسلط رہا ہے یہ ذاتى مفاد کے حصول اور اپنے منصب کے تحفظ میں کسى بھى برے سے برے کام کو انجام دینے سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور پورى قوم کو اپنے مفاد پر قربان کرنے کیلئے تیار رہتا تھا_ یہ گروہ امام زمانہ کے وجودکو اپنے شوم مقاصد کى راہ میں مانع سمجھتا اور اپنى فرمان روائی کو خطرہ میں دیکھتا تھا تو آپ کا خاتمہ کرکے اس عظیم خطرہ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا _ اس منصوبہ میں وہ سب متحد ہوگئے تا کہ عدالت و دادخواہى کى جڑیں اس طرح کاٹ دیں کہ پھر سر سبز نہ ہو سکیں _


موت سے دڑ

جلالى : امام زمانہ اگر معاشرہ کى اصلاح ، دین کى ترویج اور مظلوموں سے دفاع کرتے ہوئے قتل ہوجاتے تو اس میں کیا حرج تھا؟ کیا ان خون ان کے آباء و اجداد کے خون سے زیادہ عزیز ہے ؟ موت سے کیوں دڑتے تھے؟

ہوشیار : دین و حق کى راہ میں قتل ہونے سے امام زمانہ اپنے آبا ء و اجداد کى طرح نہ ڈرتے تھے اور نہ ڈرتے ہیں _ لیکن ان کے قتل ہونے میں معاشرہ اور دین کى صلاح نہیں ہے _ کیونکہ ہر شہید ہونے والے امام کے بعد دوسرا امام اس کا جانشین ہوا ہے لیکن اگر امام زمانہ قتل ہوجائیں تو پھر کوئی جانشین نہیں ہے _ اور زمین حجّت خدا کے وجود سے خالى ہوجائے گى _ جبکہ یہ مقدر ہوچکا ہے کہ آخر کار حق باطل پر غالب ہوگا اور امام زمانہ کے ذریعہ دنیا کى زمام حق پرستوں کے ہاتھوں میں آئے گى _


کیا امام کى حفاظت کرنے پر خدا قادر نہیں ہے؟

جلالى : کیا خدا امام زمانہ کو دشمنوں کے شرسے بچانے اور ان کى حفاظت پر قادر نہیں ہے؟

ہوشیار : باوجودیکہ خدا کى قدرت لا محدود ہے لیکن اپنے امور کو وہ اسباب و عادات کے مطابق انجام دیتا ہے _ ایسا نہیں ہے کہ وہ انبیاء و ائمہ کى حفاظت اور دین کى ترویج میں عام اسباب و علل سے دست بردار ہوجائے اور عادت کے خلاف عمل کرے اور اگر ایسا کرے گا تو دنیا اختیار و امتحان کى جگہ نہ رہے گى _


ستمگران کے سامنے سراپا تسلیم ہوجاتے

جلالى : اگر امام زمانہ ظاہر ہوتے اور کفار و ستمگر آپ کو دیکھتے ، آپ کى برحق باتیں سنتے تو ممکن تھا کہ وہ آپ کو قتل نہ کرتے بلکہ آپ کے ہاتھوں پر ایمان لاتے اور اپنى روش بدل دیتے _

ہوشیار: ہر شخص حق کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء سے آج تک لوگوں کے درمیان ایک گروہ حق و صحت کا دشمن رہا ہے اور اسے پا مال کرنے کیلئے اپنى پورى طاقت صرف کى ہے _ کیا انبیاء و ائمہ اطہار حق نہیں کہتے تھے؟ کیا ان کى برحق باتیں اور معجزات ستمگروں کى دست رس میں نہیں تھے؟ اس کے باوجود انہوں نے چراغ ہدایت کو خاموش کرنے کے سلسلے میں کسى کام سے دریغ نہ کیا _ صاحب الامر بھى اگر خوف کے مارے غائب نہ ہوئے ہوتے تو ان کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے _


خاموش رہو تا کہ محفوظ رہو

ڈاکٹر : میرے نقطہ نظر سے اگر امام زمانہ کلى طور پر سیاست سے علیحدہ رہتے اور کفار و ستمگروں سے کوئی سروکار نہ رکھتے ، ان کے اعمال کے مقابل سکوت اختیار کرتے اور اپنى دینى و اخلاقى راہنمائی میں مشغول رہتے تو دشمنوں کے شر سے محفوظ رہتے _

ہوشیار : چونکہ ستمگروں نے یہ بات سن رکھى تھى کہ مہدى موعود ان کے دشمن ہیں اور ان کے ہاتھوں ظلم کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے وہ آپ کے سکوت پر اکتفا نہ کرتے _ اس کے علاوہ جب مومنین یہ دیکھتے کہ آپ ظلم و ستم کو خاموشى سے دیکھ رہے ہیں ، ایک دو سال سے نہیں بلکہ سیکڑوں سال سے اس کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ امام کسى رد عمل کا اظہار نہیں کرتے تو وہ بھى آہستہ آہستہ دنیا کى اصلاح اور حق کى کامیابى سے مایوس ہوجاتے اور پیغمبر اکرم و قرآن مجید کى بشارتوں میں شک کرنے لگتے _ ان تمام چیزوں کے علاوہ مظلوم لوگ آپ کو سکوت کى اجازت نہ دیتے _


عدم تعرض کا معاہدہ

انجینئر : وقت کے ستمگروں سے عدم تعرض کا معاہدہ کرنے کا امکان تھا وہ اس طرح کہ آ پ(ع) ان کے کسى کام میں مداخلت نہیں کریں گے اور چونکہ آپ کى امانت دارى و نیک منشى مشہور تھى اس لئے آپ کے معاہدے محترم اور اطمینان بخش ہوتے اور ستمگروں کو بھى آپ سے سروکار نہ ہوتا _

ہوشیار: مہدى موعود کا پروگرام تمام ائمہ اطہار کے پروگرام سے مختلف ہے _ ائمہ کو تا حد امکان ترویج دین اور امر بالمعروف و نہى از منکر کیلئے مامور کیا گیا تھا ، جنگ کے لئے نہیں _ لیکن ابتداء ہى سے یہ مقدر تھا کہ مہدى کى سیرت و رفتار ان سے مختلف ہوگى ، وہ ظلم اور باطل کے مقابلہ میں سکوت نہیں کریں گے اور جنگ و جہاد کے ذریعہ ظلم و جور کى بیخ کنى کریں گے اور ستمگروں کے خودسرى کى محلوں کو منہدم کریں گے _

ایسى سیرت و رفتار مہدى کى علامتیں اور خصوصیات شمار کى جاتى تھیں_ ہر امام سے کہا جاتاتھا کہ ستمگروں کے خلاف قیام کیوں نہیں کرتے؟ فرماتے تھے : مہدى تلوار سے جنگ کریں گے ، قیام کریں گے جبکہ میرے اندر یہ خصوصیات نہیں ہیں اور ان کى طاقت بةى نہیں ہے _ بعض سے دریافت کیا جاتا تھا: کیا آپ(ع) ہى قائم ہیں؟ فرماتے تھے : میں قائم بر حق ہوں لیکن و ہ قائم نہیں ہوں جو زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کریں گے _ بعض کى خدمت عرض کیا جاتا تھا: ہمیں امید ہے کہ آپ ہى قائم ہیں _فرماتے تھے: میں قائم ہوں لیکن جو قائم زمیں کو کفر و ظلم سے پاک کریں گے وہ اور ہیں _ دنیا کى پریشان حالى ، ابترى ، ظالموں کى ڈکٹیڑى اور مومنین کى محرومیت کى شکایت کى جاتى تھى تو فرماتے تھے: مہدى کا انقلاب مسلّم ہے _ اسى وقت دنیا کى اصلاح ہوگى اور ظالموں سے انتقام لیا جائے گا _ مومنین کى قلّت اور کافروں کى کثرت و طاقت کى اعتنا کى جاتى تو ائمہ شیعوں کى ڈھارس بندھاتے اور فرماتے تھے: آل محمد کى حکومت حتمى اور حق پرستى کى کامیابى یقینى ہے _ صبر کرو اور فرج آل محمد (ص) کے منتظر رہو اور دعا کرو، مومنین اور شیعہ ان خوش خبریوں سے مسرور ہوتے اور ہر قسم کے رنج و غم کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہوجاتے تھے ''_

اب آپ ہى فیصلہ فرمائیں کہ مومنین بلکہ بشریت کو جو مہدى سے توقعات ہیں ان کے باوجود آپ وقت کے ستمگروں سے پیمان مودت و دوستى باندھ سکتے تھے؟ اگر آپ ایسا کرتے تو کیا مومنین پر یاس و ناامیدى غالب نہ آجاتى _ کیا وہ آپ پر یہ تہمت نہ لگاتے کہ آپ نے ظالموں سے ساز باز کرلى ہے اور آپ کا مقصد اصلاح نہیں ہے ؟

میرے نقطہ نظر سے تو اس کا امکان ہى نہیں تھا او راگر ایسا ہوگیا ہوتا تو مومنین کى قلیل تعداد مایوس و بد ظن ہوکر دین سے خارج اور طریقہ کفر پر گامزن ہوجاتى _

اس کے علاوہ اگر آپ ستمگروں سے عدم تعرّض اور دوستى کا معاہدہ کرلیتے تو مجبوراً اپنے عہد کى پابندى کرنے ، نتیجہ میں کبھى جنگ کا اقدام نہ کرتے ، کیونکہ اسلام نے عہدو پیمان کو محترم قرار دیا ہے اور اس پر عمل کو ضرورى جانا ہے _ (1)

اس وجہ سے احادیث میں تصریح ہوتى ہے ک صاحب الامر کى ولادت کے مخفى رکھنے اور غیبت کا ایک راز یہ ہے کہ ظالموں سے بیعت نہ کر سکیں تا کہ جب چاہیں قیام کریں اور کسى کى بیعت میں نہ ہوں _ چند نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' صاحب الامر کى ولادت کو مخفى رکھا جائے گا تا کہ ظہور کے وقت آپ کسى پیمان کے پابند نہ ہوں ، خدا ایک رات میں ان کے لئے زمین ہموار کریگا '' (2)_

ان تمام چیزوں کے علاوہ جب خودخواہ ستمگر و زمامدار اپنے مفاد و منافع کیلئے خطرہ محسوس کرتے تو وہ اس پیمان سے مطمئن نہ ہوتے اور آپ کے قتل کا منصوبہ بتاتے اور زمین کو حجت خدا کے وجود سے خالى کردیتے _

 

مخصوص نواب کیوں معین نہ کئے ؟

جلالی: ہم اصل لزوم غیبت کو قبول کرتے ہیں لیکن غیبت کبرى میں آپ نے اپنے شعیوں کے لئے غیبت صغرى کى مانند نواب کیوں معین نہیں کئے شیعہ ان کے ذریعہ آپ سے رابطہ قائم کر تے اور اپنے مشکلات حل کرتے ؟

ہوشیار : دشمنوں نے نواب حضرت کو بھى اذ یتیں پہنچائی ہیں '، شکنجے دیئےیں تا کہ وہ امام کى قیام گاہ کاپتہ بتادیں انھیں آزاد نہیں چھوڑ اگیا تھا _ _

جلالى : یہ بھى ممکن تھا کہ معین اشخاص کو وکیل منصوب کرتے _ خود کبھى کبھى بعض مومنین کے پاس تشریف لاتے اور شعیوں کے لئے انھیں احکام و پیغام دیتے _

ہوشیار : اس میں بھى صلاح نہیں تھى بلکہ ممکن نہیں تھا کیونکہ وہى لوگ دشمنوں کو امام کے مکان کا پتہ بتاد یتے اور آپ کى اسیرى و قتل کے اسباب فراہم کردیتے _

جلالى : خطرہ کا احتمال اس صورت میں تھا کہ جب آپ مجہول الحال شخص کے لئے ظاہر ہوتے لیکن اگر آپ صرف علما اور موثق و معتمد مومنین کے لیے ظہور فرماتے تو خطرہ کا با لکل احتمال نہ ہوتا _

ہوشیار : اس مفروضہ کے بھى کئی جواب دیئےاسکتے میں :

ا_ جس شخص کے لئے بھى ظہور فرماتے اس سے اپنا تعارف کرانے اور اپنے دعوے کے ثبوت میں ناچار معجزہ دکھا ناپڑ تا بلکہ ان لوگون کے لئے تو کئی معجزے دکھا نے پڑتے جو آسانى سے کسى بات کو قبول نہیں کرتے _ اسى اثناء میں فریب کار اور جادو گر بھى پیدا ہوجاتے جو کہ لوگوں کو فریب دیتے ، امامت کا دعوى کرتے اور سحر و جادو دکھا کر عوام کو گمراہ کرتے اور معجزہ و جادو میں فرق کرنا ہر ایک کے قبضہ کى بات نہیں ہے ، اس قضسہ سے بھى لوگوں کے لئے بہت سے مفاسد و اشکالات پیدا ہوجا تے _

2 _ فریب کار بھى اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ، جاہل لوگوں کے در میان جاکر امام سے ملاقات کا دعوى کرتے اور اپنے مقصد تک پہنچا نے کیلئے آپ کى طرف خلافت شرع احکام کى نسبت دیتے ، جو چاہتا خلاف شرع عمل کرتا اور اپنے کام کى ترقى تصیح کے لئے کہتا _ میں امام زمانہ کى خدمت میں حاضر ہواتھا _ کل رات غریب خانہ ہى پر تشریف لائے تھے مجھ سے فرمایا ہے _ فلاں کام انجام دو ، فلاں کام کیلئے میرى تائید کى سے ، اس میں جو خر ابى اور مفاسد میں وہ کسى پر پوشیدہ نہیں ہیں _

3 _ اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام زمانہ کسى بھى شخص ، یہاں تک صالح لوگوں بھى ملاقات نہیں کرتے بلکہ ممکن ہے کہ بہت سے صالحین و اولیاء خدا آپ کى خدمت میں شرفیاب ہوتے ہوں لیکن انہیں یہ بات بیان کرنے کى اجازات نہ ہو ، ہر شخص اپنى ہى کیفیت سے واقف ہے اسے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے _

 


1_ مائدہ /1 و اسراء / 34 و مومنوں/8
2_ بحار الانوار ج 52 ص 96