انتظار فرج
جلالی: امام زمانہ کى غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا فریضہ کیا ہے؟
ہوشیار: دانشوروں نے کچھ فرائض معین کرکے کتابوں میں رقم کئے ہیں _ جیسے امام زمانہ کیلئے دعا کرنا ، آپ(ع) کى طرف سے صدقہ دینا ، آپ(ع) کى طرف سے حج کرنا یا کرانا ، آپ سے استعانت و استغاثہ کرنا _ یہ چیزیں سب نیک کام ہیں اور ان میں بحث کى ضرورت نہیں ہے لیکن روایات میں جو اہم ترین فریضہ بیان ہواہے اور جس کى وضاحت کى ضروت ہے ، وہ انتظار فرج کى فضیلت کے بارے میں ائمہ اطہار کى بہت زیادہ احادیث حدیث کى کتابوں میں موجود ہیں مثلاً:
حضرت امام جعفر صاق کا ارشاد ہے :
''جو شخص ہم اہل بیت کى محبت پر مرتا ہے جبکہ وہ منتظر فرج بھى ہو تو ایسا ہى ہے جیسے حضرت قائم کے خیمہ میں ہو''_(1)
حضرت امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے واسطہ سے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:
''میرى امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے '' (2)
حضرت على بن ابى طالب کا ارشاد ہے :
''جو شخص ہمارى حکومت کا انتظار کرتا ہے اس کى مثال راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہونے والے کى ہے '' (3)_
حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں :
''صبر اور انتظار فرج کتنے بہترین چیز ہے؟ کیا لوگوں نے نہیں سنا ہے کہ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے : تم انتظار کرو میں بھى منتظر ہوں پس صبر کرو کیونکہ ناامیدى کے بعد فرج نصیب ہوگا _ تم سے پہلے والے زیادہ بردبار تھے'' (4)
ایسى احادیث بہت زیادہ ہیں ، ائمہ اطہار (ع) نے شیعوں کو انتظار فرج کے سلسلہ میں تاکید کى ہے _ فرماتے تھے: انتظار بجائے خود ایک فرج و خوشحالى ہے ، جو شخص فرج کا منتظر رہے گا اس کى مثال اس شخص کى سى ہے جو میدان جنگ میں کفار سے جہاد کرے اور اپنے خون میں غلطان ہوجائے _ اس اعتبار سے زمانہ غیبت میں انتظار فرج بھى مسلمانوں کا عظیم فریضہ ہے _ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظار فرج کے معنى کیا ہیں؟ اور انسان فرج کا منتظر کیسے ہوسکتا ہے کہ جس سے مذکورہ ثواب حاصل ہوسکے ؟ کیا انتظار فرج کیلئے اتنا ہى کافى ہے کہ انسان زبان سے یہ کہدے کہ میں امام زمانہ کے ظہور کامنتظر ہوں ؟ یا کبھى کبھى فریاد و آہ کے ساتھ یہ بھى کہے :
اے اللہ امام زمانہ کے فرج میں تعجیل فرمایا یا نماز پنجگانہ کے بعد اور متبرک مقامات پر ظہور تعجیل کى دعا کرے یا ذکر و صلوات کے بعد اللہم عجل فرجہ الشریف
کہے : یا جمعہ ، جمعہ با گریہ وز ارى دعائے ندبہ پڑھے؟
اگر چہ یہ تمام چیزیں بجائے خود بہت اچھى ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انسان ایسے امور کى انجام وہى سے حقیقى فج کے منتظر کا مصداق نہیں بن سکے گا کیونکہ ائمہ کى زبانى اسکى اتنى زیادہ فضیلیتیں بیان ہوئی ہیں _ انتظار فرج کرنے والے کو میدان جہاد میں اپنے خون میں غلطان انسان کے برابر قرار دیا ہے _
جو لوگ ہر قسم کى اجتماعى ذمہ داریوں اور امر بالمعروف و نہى عن المنکز کے فریضہ سے پہلو تہى کرتے ہیں ، فساد و بیدادگرى پر خاموش بیٹھے رہتے ہیں ،ظلم و ستم و کفر و الحاد اور فساد کو تماش بینوں کى طرح دیکھتے ہیں اور ان حوادث پر صرف اتناہى کہتے ہیں : خدا فرج امام زمانہ میں تعجیل فرماتا کہ ان مفاسد کو ختم کریں _ میرے خیال میں آپ کا ضمیر اتنى سى باتوں سے مطمئن نہیں ہوگا اور انھیں آپ ان لوگوں کى صف میں کھڑا نہیں کریں گے جنہوں نے دین سے دفاع کى خاطر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت سے ہاتھ دھولیئےیں اور میدان جہاد میں اپنى جان کو سپر قرار دیکر جام شہادت نوش کیا ہے _
اس بناپر انتظار فرج کے دقیق اور بلند معنى ہونا چاہئیں_ اس مدعا کى مزید وضاحت کیلئے پہلے میں دو موضوعوں کو مقدمہ کے عنوان سے پیش کرتا ہوں _ اس کے بعد اصل مقصد کا اثبات کروں _
مقدمہ اول : احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ امام زمانہ کے امور کا منصوبہ بہت وسیع اور دشوار ہے _ کیونکہ آپ کو پورى دنیا کى اصلاح کرنى ہے _ ظلم و ستم کا نام و نشان مٹانا ہے ، کفر و الحاد اور بے دینى کے نشانات کو محو کرنا ہے _ سارے انسانوں کو خداپرست بنانا ہے _ دین اسلام کو دنیا والوں کیلئے سرکارى دین قرار دینا ہے _ روئے زمین پر عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہے _ موہومى سرحدوں کو انسان کے ذہن سے نکالنا ہے تا کہ وہ سب صلح و صفائی کے ساتھ پرچم توحید کے سایہ میں زندگى بسر کریں _ نوع انسان کى تمام اقوام و ملل اور نسلوں کو توحید کے علم کے سایہ میں لانا ہے اور اسلام کى عالمى حکومت کى تشکیل کرنا ہے _ محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایسے قوانین کا نفاذ بہت مشکل کام ہے اور اتنا ہى دشوار ہے کہ ایک گروہ اسے ناممکن سمجھتا ہے _ اس بناپر یہ کام اسى صورت میں ممکن ہے کہ جب بشریت کا مزاج ایسے پروگرام کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوجائے اور عام افکار اتنى ترقى کرلیں کہ ایسے خدائی دستور العمل کى خواہش کرنے لگیں اور امام زمانہ آفتاب عدالت کے انقلاب کے اسباب ہر طرح سے فراہم ہوجائیں _
دوسرا مقدمہ :
اہل بیت کى احادیث سے یہ بات بھى سمجھ میں آتى ہے کہ امام زمانہ اور آپ کے اصحاب وانصار جنگ و جہاد کے ذریعہ کفر و الحاد پر کامیاب ہوں گے اور جنگى توانائی سے دشمن کى فوج اور ظلم و ستم و بے دینى کے طرف داروں کو مغلوب کریں گے _ اس سلسلہ کى احادیث میں سے چند یہ ہیں :
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
''مہدى اپنے جد محمد (ص) سے اس لحاظ سے مشابہ ہیں کہ شمشیر کے ساتھ قیام کریں گے اور خدا و رسول (ص) کے دشمنوں ، ستمگروں اور گمراہ کرنے والوں کو نہ تیغ کریں گے تلوار کے ذریعہ کامیاب ہوں گے آپ کے لشکر میں سے کسى کو بھى ہزیمت نہیں ہوگى _ (5)
بشیر کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کى خدمت میں عرض کى : لوگ کہتے ہیں کہ جب مہدى قیام کریں گے تو اس وقت ان کے امور طبیعى طور پر روبرو و ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر بھى خونریزى نہیں ہوگى ؟ آپ (ع) نے فرمایا :
'' خدا کى قسم حقیقت یہ نہیں ہے _ اگر یہ چیز ممکن ہوتى تو رسول خدا کیلئے ہوتى _
میدان جنگ میں آپ کے دانت شہید ہوئے اور پیشانى اقدس زخمى ہوئی _ خدا کى قسم صاحب الامر کا انقلاب اس وقت تک برباد نہ ہوگا _ جب تک میدان جنگ میں خونریزى نہیں ہوگى _ اس کے بعد آپ نے پیشانى مبارک پر ہاتھ ملا _ '' (6)
ایسى احادیث سے یہ بات واضح ہوتى ہے کہ مہدى موعود کو صرف الہى تائید اور غیبى مدد کے ذریہ کامیابى نہیں ہوگى اور یہ طے نہیں ہے کہ ظاہرى طاقت سے مدد لئے بغیرہ معجزہ کے طور پر اپنے اصلاحى منصوبوں کو عملى جامہ پہنائیں ، بلکہ تائید الہى کے علاوہ آپ(ص) جنگى اسلحہ اور فوج کو استعمال کریں گے _ علوم و صنعت اور خوفناک جنگى اسلحہ کى اختراع کو بھى مد نظر رکھیں گے _
مذکورہ دونوں مقدموں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ مہدى موعود کے ظہور کے شرائط کیا ہیں؟ آپ(ع) کے انقلاب و تحریک کے سلسلہ میں مسلمانوں کاکیا فریضہ ہے اور کس صورت میں کہا جا سکتاہے کہ مسلمان آپ(ع) کے عالمى اور دشوار قیام کے لئے تیار ہیں اور خدا کى قوى حکومت کى تشکیل اور ظہور کے انتظار میں دن گن رہے ہیں؟
اہل بیت کى احادیث سے میرى سمجھ میں یہ بات آتى ہے کہ غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ پہلے وہ سنجیدگى اور کوشش سے اپنے نفسوں کى اصلاح کریں ، اسلام کے نیک اخلاق آراستہ ہوں ، اپنے فردى فرائض کو انجام دیں قرآن کے احکام پر عمل کریں ، دوسرے اسلام کے اجتماعى پروگرام کا استخراج کریں اورمکمل طور سے اپنے درمیان نافذ کریں اور اسلام کے اقتصادى پروگرام سے اپنى اقتصادى مشکلوں کو حل کریں ، فقر و نادارى اور ناجائز طریقوں سے مال جمع کرنے والوں سے جنگ کریں اوراسلام کے نورانى قوانین پر عمل پیرا ہو کر ظلم و ستم کا سد باب کریں _ مختصر یہ کہ سیاسى اجتماعى ، اقتصادى ، قانونى اور اسلام کے عبادى پروگراموں کو مکمل طور پر اپنے درمیان جارى کریں اوردنیا والوں کے سامنے اس کے عملى نتائج پیش کریں _
تحصیل علم و صنعت میں سنجیدگى سے کوشش کریں اور اپنى گزشتہ غفلت و سستى اور پسماندگى کى تلافى کریں _ بشرى تمدن کے کاروان تک یہنچنا کافى نہیں ہے بلکہ ہر طریقہ سے دنیا والوں سے باز جیت لینا ضرورى ہے _ دنیا والوں کو عملى طریقے سے یہ بتائیں کہ اسلام کے نورانى احکام و قوانین ہى ان کى مشکلوں کو حل کر سکتے ہیں اور انکى دو جہان کى کامیابى کى ضمانت لے سکتے ہیں _ اسلام کے واضح اور روشن قوانین پر عمل کرکے ایک قوى اور مقتدر حکومت کى تشکیل کریں اور روئے زمین پر ایک طاقت ور و متمدن اور مستقل اسلامى ملت کے عنوان سے ابھر یں _
مشرق و مغرب کى سینہ زور یوں کوروکیں اور دنیا والوں کى قیادت کى زمام خو سنبھالیں _ جہاں تک ہو سکے دفاعى طاقت کو مضبوط اور نظامى طاقت کو محکم بنائیں اور جنگى اسلحہ کى فراہمى کے لئے کوشش کریں _ تیسرے :اسلام کے اجتماعى ، اقتصادی اور سیاسى منصوبوں کا استخراج کریں اور دنیا والوں کے گوش گزار کردیں _ خدائی منصوبوں کى قدر و قیمت سے لوگوں کو آگاہ کریں _ قوانین الہى کو قبول کرنے کیلئے دنیا والوں کے افکار کو آمادہ کریں _ اسلام کى عالمى حکومت اور ظلم و بیدادگرى سے جنگ کے مقدمات و اسباب فراہم کریں _
جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں اور امام زمانہ کے مقصد کى تکمیل او رآپ کے انقلاب کیلئے اسباب فراہم کرتے ہیں ، انہى کو فرج کا منتظر کہا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود کو امام زمانہ کے قیام کیلئے تیارکررہے ہیں _ ایسے فداکار اور کوشاں افراد کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ انکى مثال ان لوگوں کى سى ہے جو میدان جنگ میں اپنے خون میں غلطان ہوتے ہیں _
لیکن جو لوگ اپنى مشکلوں کو انسان کے وضع کردہ قوانین سے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کے اجتماعى و سیاسى قوانین کواہمیت نہیں دیتے ، احکام اسلام کو صرف مسجدوں اور عبادت گاہوں میں محدود سمجھتے ہیں ، جن کے بازار اور معاشروں میں اسلام کا نشان نہیں ہے ، جو فساد و بیدادگرى کا مشاہدہ کرتے ہیں اور صر ف یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ اے اللہ فرج امام زمانہ میں تعجیل فرما _ علوم و فنون میں دوسرے آگے ہیں ، ہمارے درمیان اختلافات و پراکندگى کى حکمرانى ہے _ غیروں سے روابط ہیں ، اپنوں سے دشمنى ہے ایسى قوم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ فرج آل محمد اور انقلاب مہدى کى منتظر ہے _ ایسے افراد اسلام کى عالمى حکومت کے لئے تیار نہیں ہیں اگر چہ وہ دن میں سیکڑوں بار اللہم عجل فرجہ الشریف کہتے ہوں _
اہل بیت (ع) کى احادیث سے میں اس بات کو اچھى طرح سمجھتا ہوں _ اس کے علاوہ دوسری روایات میں بھى اس موضوع کى طراف اشارہ ہوا ہے مثلاً: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: '' ہمارے قائم ک ے ظہور اور انقلاب کیلئے تم خود کو آمادہ کرو اگر چہ ایک تیر ہى ذخیرہ کرو'' (7) عبد الحمید واسطى کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کى خدمت میں عرض کى : ہم نے اس امر کے انتظار میں خرید و فروخت بھى چھوڑدى ہے فرمایا:
'' اے عبد الحمید کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ جس نے اپنے جان راہ خدا میں وقف کردى ہے _ خدا اس کى فراخى کیلئے کوئی انتظام نہیں کرے گا ؟ خدا کى قسم اس کے لئے راستے کھل جائیں گے اور امور آسان ہوجائیں گے خدا رحم کرے اس شخص پر جو ہمارے امر کو اہمیت دیتا ہے '' _ عبدالحمید نے کہا: اگر انقلاب قائم سے پہلے مجھے موت آگئی تو کیا ہوگا؟ فرمایا: '' تم میں سے جو شخص بھى یہ کہتا ہے کہ اگر قائم آل محمد کا میرى حیات میں ظہور ہوگا تو میں آپ کى مدد کروں گا _ اس کى مثال اس شخص کى ہے جسن نے امام زمانہ کى رکاب میں تلوار سے جہاد کیا ہے بلکہ آپ (ع) کى مدد کرتے ہوئے شہادت پائی ہو '' (8)_
ابوبصیر کہتے ہیں : ایک روز امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
'' کیا میں تمہیں وہ چیز بتاؤں کہ جس کے بغیر خدا بندوں کے اعمال قبول نہیں کرتا ہے ؟'' ابوبصیر نے عرض کى : (مولا) ضرور بتایئے فرمایا:'' وہ ایک خدا اور محمد (ص) کى نبوت کى گواہى دینا ، خدا کے دستوارت کااعتراف کرنا ، ہمارى محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزارى اختیار کرنا ، ائمہ کے سامنے سراپا تسلیم ہونا ، پرہیزگارى ، جد و جہد اور قائم کا منتظر رہنا ہے _
اس کے بعد فرمایا: ہمارى حکومت مسلّم ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گى جو شخص ہمارے قائم کے اصحا ب و انصار میں شامل ہونا چاہتا ہے _ اسے چاہئے کہ انتظار فرج میں زندگى بسر کرے _ پرہیزگارى کو اپنا شعار بنائے ، اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو اور اسى طرح ہمارے قائم کے انتظار میں زندگى بسر کرتا رہے اگر وہ اسى حال میں رہا اور ظہور قائم آل محمد سے پہلے موت آگئی ، تو اسے اتنا ہى اجر و ثواب ملے گا کہ جتنا امام زمانہ کے ساتھ رہنے والے کو ملیگا _
شیعہ کوشش کرو اور امام مہدى کے منتظر رہو _ اے خدا کى رحمت و لطف کے مستحقو کامیابى مبارک ہو _(9)
1_ کمال الدین ج 2 ص 357_
2_ کمال الدین ج 2 ص 357_
3_ کمال الدین ج 2 ص 388_
4_ کمال الدین ج 2 ص 358_
5_ بحار الانوار ج 51 ص 218
6_ بحار الانوار ج 52 ص 358_
7_ بحارالانوار ج 52 ص 366_
8_ کمال الدین ج 2 ص 357_
9_ غیبت نعمانى ص 106_