داستان غیبت کى ابتدا کب ہوئی ؟
ڈاکٹر : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکرى دنیا سے لا ولد ا ٹھے ہیں لیکن عثمان بن سعید جیسے فائدہ اٹھا نے والوں نے اپنى عزت و بزرگى باقى رکھنے کى عرض سے مہدى کى غیبت کى داستان گھڑ لى اور خوب اس کى نشر و اشاعت کى _
ہوشیار : پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے غیبت مہدى کے بارے میں اس سے پہلے پیشیں گوئی کى تھى اور لوگوں کو اس کى خبر دیدى تھى چند نمونے ملا حظہ فرمائیں _
پیغمبر اکرم نے فرمایا :
قسم اس خدا کى جس نے مجھے بشارت دینے کے لئے مبعوث کیا ہے قائم میرا بیٹا ہے اور وہ اس عہد کے مطابق غیبت اختیار کرے گا جو اس تک پہنچےے گا غیبت اتنى طو لانى ہوگى کہ لوگ یہاں تک کہنے لگیں گے کہ خدا کو آل محمد کى کوئی ضرورت نہیں ہے _ کچھ لوگ اس کى ولادت ہى میں شک کریں گے _ پس جو بھى غیبت کا زمانہ درک کرے اسے اپنے دین کى حفاظت کرناچاہئے اور شک کے راستہ سے شیطان کو اپنے اندر راہ نہیں دینا چا ہئے ، کہیں ایسانہ ہو کہ اسے وہ دین و ملت سے خارج کردے _ جیسا کہ اس سے پہلے تمہارے ماں ، باپ ( آدم و ہواء ) کو جنت سے نکال دیا تھا بے شک خدا شیطان کو کافروں کافرما نروا اور دوست قرار دیتا ہے (1)
اصبغ بن نباتہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت على نے حضرت قائم کا ذکر کیااور فرمایا : جان لو ان کى غیبت ایسى ہوگى کہ جاہل کہے گا : خدا آل محمد کا محتاج نہیں ہے ))(2)
امام صادق فرماتے ہیں :
اگر تم امام کى غیبت کى خبر سنو تو انکار نہ کرنا _(3) 88 حدیثیں اور ہیں ان احادیث کى بنا پر مسلمان قائم کے لئے غیبت ضرورى سمجھتے ہیں اور ان کے خصائص میں شمار کرتے ہیں یہاں تک کہ جس کو وہ مہدى سمجھتے تھے اسے بھى غیبت کى ترغیب د لا تے تھے _ ابو الفرج اصفہانى لکھتے میں :
عیسى بن عبداللہ نے نقل کیا ہے کہ محمد بن عبد اللہ بن حسن(ع)(4) بچین ہى ہے غیبت کى زندگى بسر کرتے تھے اور مہدى کر لقب سے یاد کئے جاتے تھے
سید محمد حمیرى کہتے ہیں :
میں محمد بن حنیفہ کے بارے میں غلو کرتا تھا اور میرا عقیدہ تھا کہ وہ غائب ہیں ایک زمانہ تک اسى عقیدہ کا معتقد ر ہا بہاں بک کہ خدانے مجھ پر احسان کیا اور جعفر بن محمد امام صادق کے ذریعہ مجھے آتش ( جہنّم ) سے نجات عطا کى اور سید ھے راستہ کى ہدایت کى _ واقعہ یہ تھا کہ جب جعفر بن محمد(ص) کى امامت دلیل و برہان سے ثابت ہوگئی ، تو ایک روز میں نے آپ سے عرض کى : فرزند رسول غیبت کے سلسلہ میں آپ کے آبا واجداد سے کچھ حدیثیں ہم تک پہنچى ، ہیں کہ جن میں غیبت کے و قوع پذیر ہو نے کو یقینى قرار دیا گیا ہے _ میرى خواہش ہے کہ آپ مجھے اس سے خبردار فرمائیں کہ کون غیبت اختیار کریگا ؟ امام صادق نے جواب دیا : میرا چھٹا بیٹا غیبت اختیار کرے گا اور وہ رسول کے بعد ہونے والے ائمہ میں سے بار ہواں ہے کہ ان میں سے پہلے على اور آخرى قائم برحق ، بقیہ اللہ اور صاحب الزمان ہیں قسم خدا کى اگر وہ نوح کى عمر کے برابر بھى غیبت میں رہیں گے تو بھى دنیا سے نہ جائیں گے یہاں تک ظاہر ہو کر دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _
سید حمیرى کہتے ہیں : جب میں نے اپنے مولا جعفر بن محمد سے یہ سنا تو حق مجھ پر آشکار ہوگیا اور پہلے عقیدہ سے تو بہ کى اور اس سلسلہ میں کچھ اشعار بھى کہے (5)
غبیت مہدى کى داستان عثمان بن سعید نے نہیں گھڑى ہے بلکہ خدا نے ان کے لئے غیبت مقرر کى اور رسول خدا و ائمہ اطہار علیہم السلام نے آپکى ولادت سے قبل لوگوں کو اس کى خبردى ہے _
طبرسى لکھتے ہیں :
ولى عصر کى غیبت کے بارے میں آپ اور آپ کے والد کى ولادت سے پہلے حدیثیں صادر ہوئی ہیں اور شیعہ محمد ثین نے انھیں اصول اور ان کتا بوں میں قلم بند کیا ہے جو کہ امام محمد باقر کے زمانہ میں تا لیف ہوئی ہیں ، منجملہ ثقہ محمد ثین میں سے ایک حسن بن محبوب ہیں ، انہوں نے غیبت سے تقریبا سو سال قبل کتاب (( مشیخہ )) تاَلیف کى اور اس میں غیبت سے متعلق احادیث جمع کیں _ اس میں ایک حدیث یہ ہے کہ :
ابو بصیر کہتا ہے : ہیں نے امام نے امام جعفر صادق کى خدمت میں عرض کى : حضرت ابوجعفر ( امام باقر ) فرماتے تھے : قائم آل محمد کى دو غیبتین ہوں گى یک غیبت صغرى دوسرى غیبت کبرى _ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ملا حظہ فرما یئےہ امام حسن عسکرى کے بیٹے کے لئے دو غیبتوں کا پیش آنا اس طرح ثابت ہوا ))(6)
غیبت صغرى کے زمانہ کى عمر اسى سال سے زیادہ گز ر چکى تھى وہ اپنى مذکورہ کتاب کے صفحہ 6 پر لکھتے ہیں : ائمہ نے امام زمانہ کى غیبت کى پہلے ہى خبر دیدى تھى ، اگر امام کى غیبت واقع نہ ہوتى تویہ امامیہ کے عقیدہ کے باطل ہونے کا ثبوت ہوتا _ لیکن خدا نے آپ(ع) کو غیبت میں بلا کر ائمہ کى احادیث کى صحت کى آشکار کردیا
امام زمانہ کى ولادت سے پہلے غیبت سے متعلق کتابیں
بارہویں امام حضرت مہدى موعود کى غیبت کو پیغمبر اکرم ، على بن ابیطالب اور دیگر ائمہ نے مسلمانوں کے گوش گزار کیا ہے اور بات صدر اسلام ہى سے مسلمانوں کے در میان مشہور تھى کہ علماء ، روات احادیث ، ائمہ کے اصحاب نے آپ اور آپ کے باپ داداکى ولادت سے قبل مخصوص غیبت کے موضوع پر کتا بیں تالیف کى ہیں اوران میں مہدى موعود اور آپ کى غیبت سے متعلق احادیث جمع کى ہیں رجال کى کتابوں میں آپ ان مؤلفیں کے نام تلاش کرسکتے ہیں _ از باب نمونہ ملاحظہ فرمائیں :
ا_ موسى بن جعفر کے صحابى ، على بن حسن بن محمد طائی طاطرى نے غیبت کے موضوع پرا یک کتاب تالیف کى ہے یہ فقیہ اور معتمد تھے (7)
2_موسى بن جعفر کے صحابى على بن عمراعرج کوفى نے غیبت سے متعلق ایک کتاب تالیف کى ہے_(8)
3 _ موسى بن جعفر کے صحابى ابراہیم بن صالح انماطى نے غیبت کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کى ہے ( 9 )
4 _ امام رضا(ع) کے ہمعصر حسن بن على بن ابى حمزہ نے غیبت کے سلسلہ میں ایک کتاب لکھى ہے (10)
5 _ امام رضا کے جلیل القدر اور مؤثق صحابى عباس بن ہشام ناشرى رسدى متوفى 220 ھ نے غیبت پر ایک کتاب تحریر کى ہے ( 11 )
6 _ امام على نقى اور امام حسن عسکرى کے صحابى ، عالم و ثقہ انسان على بن حسن بن فضال نے غیبت سے متعلق ایک کتاب لکھى ہے ( 12 )
7 _ امام على نقى اور امام حسن عسکرى کے صحابى فقیہ و متکلم ، فضل بن شاذان نیشا پورى متوفى 260 ھ نے قائم آل محمد اور آپ کى غیبت کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کى ہے _( 13 )
اگر آپ گزشتہ مطالب پر توجہ فرمائیں گے تویہ بات واضح ہوجائے گى کہ امام زمانہ کى داستان غیبت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا ایک دینى عمیق سلسلہ ہے جو کہ رسول کے زمانہ سے آج تک موضوع بحث بنا ہوا ہے اس بنا پر یہ احتمال دینا کہ مہدى کى غیبت کى داستان کو عثمان بن سعید نے گھڑى ہو گى ، بے بنیاد ہے اور یہ بات مغرض انسان ہى کہہ سکتے ہیں _
اس کے علاوہ اگر ہم تیں مطالب کو ایک دوسرے سے ضمیمہ کر دیں تو غیبت امام زمانہ قطعى ہو جائے گى :
الف : عقلى دلیل اور ائمہ سے صادر ہونے والى بے پناہ احادیث کے مطابق نوع انسان کى بقا کے لئے امام اور حجت کا وجود ضرورى ہے اور کوئی زمانہ اس مقدس وجود سے خالى نہ رہے گا _
ب : بہت سى احادیث کے مطابق امام صرف بارہ ہوں گے زیادہ نہیں _
ج : احادیث اور تاریخ کى گواہى کا متقتضایہ ہے کہ ان میں سے گیارہ دار فانى کو و داع کہہ چکے ہیں _
ان تین مطالب کے انضمام سے حضرت مہدى کى بقا یقینى طور پر ثابت ہوجاتى ہے اور چونکہ ظاہر نہیں ہیں اى لئے یہ کہنا چا ہئے کہ پردہ غیبت میں ہیں _
1_ اثبات الھداة ج ، ص 386
2 _ اثبات الھداة ج 6 ص 393
3 _ اثبات الھداة ج 6 ص 350
4 _ مقاتل الطالبین ص 165
5_ کمال الدین مؤلفہ شیخ صدوق طبع 1378 ھ ج 1 ص 112 تا ص 115
6_ اعلام الورى مولفہ طبرسى طبع تہران ص 416
7_ رجال نجاشى ص 193 ، رجال شیخ طوسى ص 357 ، فہرست طوسى ص 118
8 _ رجال نجاشى ص 194
9 _ رجال نجاشى ص 28 ، فہرست شیخ طوسى ص 75
10_ رجائی نجاشى ص 28 ، فہرست شیخ طوسى ص 75
11_ رجائی نجاشى ص 215 رجائی شیخ طوسى ص 384 ، فہرست شیخ طوسى ص 147
12 _ رجائی نجاشى ص 195 رجائی نجاشى طوسى ص 419
13 _ رجائی نجاشى ص 335 رجائی نجاشى طوسى ص 420 و ص 434 ، فہرست شیخ طوسى ص 150