پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

جزيرہ خضراء

جزیرہ خضراء

مقررہ وقت پر ہوشیار صاحب کے گھر جلسہ کى کاروائی شروع ہوئی _

جلالى : گزشتہ جلسہ میں شاید فہیمى صاحب نے جزیرہ خضراء کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا تھا

فہیمی: میں نے سنا بلکہ امام زمانہ اور آپ کى اولاد جزیرہ خضراء میں زندگى بسر کرتے ہیں اس سلسلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟

ہوشیار: جزیرہ خضراء کى داستان کى حیثیت بھى افسانہ سے زیادہ نہیں ہے مرحوم مجلسى نے بحار الانوار میں اس داستان کو تفصیل سے نقل کیا ہے _ اجمال یہ ہے : میں نے نجف اشرف میں امیر المومنین (ع) کے کتب خانہ میں ،ایک رسالہ دیکھا تھا کہ نام جزیرہ خضراء کى داستان تھا _ اس قلمى رسالہ کے مؤلف فضل بن یحیى طبیبى ہیں _ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ جزیرہ خضراء کى داستان میں نے 15 / شعبان سنہ 699 ھ کو اباعبداللہ علیہ السلام کے حرم میں شیخ شمس الدین اور شیخ جلال الدین سے سنى تھى _ انہوں نے زین الدین على بن فاضل مازندرانى سے داستان نقل کى تھى _ مجھے شوق پیدا ہوا کہ خود ان سے داستان سنوں _

خوش قسمتى سے اسى سال شوال کے اوائل میں زین الدین شہر حلّہ تشریف لائے تو میں نے سید فخر الدین کے گھر ان سے ملاقات کى _ میں نے ان سے خواہش کى کہ جو داستا ن آپ نے شیخ شمس الدین و شیخ جلال الدین کو سنائی تھى وہ مجھے بھى سنا دیجئے انہوں نے فرمایا: میں دمشق میں شیخ عبد الرحیم حنفى اور شیخ زین الدین على اندلسی سے تعلیم حاصل کرتا تھا _ شیخ زین الدین خوش طبع شیعہ اور علمائے امامیہ کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا اوران کا احترام کرتا تھا_ ایک مدت تک میں نے ان سے علم حاصل کیا اتفاقاً وہ مصر تشریف لے جانے کیلئے تیار ہوئے چونکہ ہمیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ عقیدت و محبت تھى اس لئے انہوں نے مجھے بھى اپنى ہمراہ مصر لے جانے کا فیصلہ کیا _ ہم دونوں مصر پہنچے اور قاہرہ میں اقامت گزینى کا قصد کیا _ تقریباً نو ماہ تک ہم نے وہاں بہترین زندگى گزارى _ ایک روز انھیں ان کے والد کا خط موصول ہوا ، خط میں تحریر تھا: میں شدید بیمارہوں ، میرا دل چاہتا ہے کہ مرنے سے قبل تمہیں دیکھ لوں _ استا د خط پڑھ کر رونے لگے اور اندلس کے سفر کا ارادہ کرلیا _ میں بھى اس سفر میں ان کے ساتھ تھا _ جب ہم جزیرہ کے اولین قریہ میں پہنچے تو مجھے شدید بیمارى لا حق ہوگئی ، یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا _ میرى کیفیت سے استاد بھى رنجیدہ تھے ،انہوں نے مجھے اس قریہ کے پیش نماز کے سپرد کیا تا کہ میرى دیکھ بھال کرے اور خود اپنے وطن چلے گئے _ تین روز کى بیمارى کے بعد میرى حالت ٹھیک ہوگئی _ چنانچہ میں گھر سے نکل کر دیہات کى گلیوں میں ٹہلنے لگا _ وہاں میں نے کوہستان سے آئے ہوئے ایک قافلہ کو دیکھا جو کہ کچھ چیزیں لائے تھے _ میں نے ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں تو معلوم ہوا کہ یہ بربر کى سرزمین سے آئے ہیں جو کہ رافضیوں کے جزیرہ سے قریب ہے ، جب میں نے رافضیوں کے جزیرہ کا نام سنا تو اسے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ، انہوں نے بتایا کہ یہاں سے پچیس روز کے فاصلے پر واقع ہے _ جس میں دو روز کى مسافت میں کہیں آبادى اور پانى نہیں ہے _ اس دو دن کى مسافت کو طے کرنے کے لئے میں نے گدھا کرایہ پر لیا اور اپنے سفر کا آغاز کیا یہاں تک کہ رافضیوں کے جزیرہ تک پہنچ گیا ، جزیرہ کے چاروں طرف دیواریں تھیں اور محکم و بلند گنبد بنے ہوئے تھے مسجد میں داخل ہوا _ مسجد بہت بڑى تھی، موذن کى آواز سنى ، اس نے شیعون کى اذان دى اور اس کے بعد امام زمانہ کے تعجیل کیلئے دعا کى _ خوشى سے میرے آنسو جارى ہوگئے _ لوگ مسجد میں آئے _ شیعوں کے طریقہ سے وضو کیا اور فقہ شیعہ کے مطابق نماز جماعت قائم ہوئی _ نماز اور تعقیبات کے بعد لوگوں نے مزاج و احوال پرسى کى _ میں نے اپنى روداد سنائی اور بتایا کہ میں عراقى الاصل ہوں _ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں شیعہ ہوں تو میرا بہت احترام کیا اور میرے قیام کے لئے مسجد کا حجرہ معین کیا _ پیش نماز صاحب بھى میرا احترام کرتے تھے اور شب و روز میرے پاس رہتے تھے _ ایک دن میں نے ان سے پوچھا اہل شہر کى ضرورت کى چیزیں اور خوراک کہاں سے آتى ہیں؟ مجھے یہاں کاشتکارى کى زمین نظر نہیں آتى ہے _ اس نے کہا: ان کا کھانا جزیرہ سے آتا ہے ، یہ جزیرہ بحرا بیض کے بیچ واقع ہے _ ان کے کھانے کى اشیاء سال میں دو مرتبہ جزیرہ سے کشتیوں کے ذریعہ آتى ہیں _ میں نے پوچھا کشتى آنے میں کتنا وقت باقى ہے؟ اس نے کہا : چارماہ _ طویل مدت کى وجہ سے مجھے افسوس ہوا لیکن خوش قسمتى سے چالیس دن کے بدن کشتیاں آگئیں اور یکے بعد دیگرے سات کشتیاں وارد ہوئیں _ ایک کشتى سے ایک وجیہہ آدمى اترا ، مسجد میں آیا ، فقہ شیعہ کے مطابق وضو کیا اور نماز ظہر و عصر ادا کى _ نماز کے بعد میرى طرف متوجہ ہوا ، سلام کیا اور گفتگو کے دوران میرے اور میرے والدین کا نام لیا _ اس سے مجھے تعجب ہوا _ کیا آپ شام سے مصر اور مصر سے اندلس تک کے سفر میں میرے نام سے واقف ہوئے ہیں ؟ کہا: نہیں ، بلکہ تمہارا اور تمہارے والدین کے نام ، شکل و صورت اور صفات مجھ تک پہنچے ہیں _

میں تمھیں اپنے ساتھ جزیرہ خضراء لے جاؤنگا _ ایک ہفتہ انہوں نے وہیں قیام کیا اور ضرورى امور کى انجام دہى کے بعد سفر کا آغاز کیا _ سولہ دن سمندر کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے بحرا بیض نظر آیا _ اس شیخ نے کہ جس کا نام محمد تھا ، مجھ سے پوچھا کس چیز کا نظارہ کررہے ہو؟ اس علاقہ کے پانى کا دوسرا رنگ ہے _ اس نے کہا: یہ بحرا بیض ہے اور یہ جزیرہ خضراء ہے ، پانى نے اسے دیواروں کى طرح چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور خدا کى حکمت ہے کہ جب ہمارے دشمنوں کى کشتیاں ادھر آنا چاہتى ہیں تو وہ صاحب الزمان کى برکت سے غرق ہوجاتى ہیں _ اس علاقہ کہ میں نے تھوڑا ساپانى پیا ، فرات کے پانى کى طرح شیرین و خوشگوارتھا _ بحرا بیض کا کچھ سفر طے کرنے کے بعد جزیرہ خضراء پہنچے کشتى سے اتر کر شہر میں داخل ہوئے _شہر بارونق تھا ، اس میں میوہ سے لدے ہوئے درخت اور چیزوں سے بھرے ہوئے بازار بہت زیادہ تھے اور اہل شہر بہترین زندگى گزار رہے تھے _ اس پر کیف منظر سے میرا دل باغ باغ ہوگیا _ میرا دوست محمد اپنے گھر لے گیا _ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جامع مسجد گئے _ مسجد میں بہت سى جماعتیں تھیں اور ان کے درمیان ایک شخص تھا کہ جس کے جلال و عظمت کو میں بیان نہیں کرسکتا _ اس کا نام سید شمس الدین محمد تھا _ وہ لوگوں کو عربى ، قرآن ، فقہ اوراصول دین کى تعلیم دیتا تھا _ میں ان کى خدمت میں پہنچا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا: اپنے پاس بٹھایا ، مزاج پرستى کى اور کہا میں نے شیخ محمد کو تمہارے پاس بھیجا تھا _ اس کے بعد انہوں نے میرے قیام کے لئے مسجد کا ایک کمرہ معین کرنے کا حکم دیا _ ہم آرام کرتے اور شمس الدین اور ان کے اصحاب کے ساتھ کھانا کھاتے تھے _ اسى طرح اٹھارہ روز گزر گئے جب میں وہاں پہلے جمعہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ سید شمس الدین نے نماز جمعہ واجب کى نیت سے ادا کى _ میں نے کہا : کیا امام زمانہ حاضر ہیں کہ واجب کى نیت سے نماز پڑھى ؟ کہا : امام حاضر نہیں ہیں لیکن میں ان کا خاص نائب ہوں ، میں نے کہا : کیا کبھى آپ نے امام زمانہ کو دیکھا ہے ؟ نہیں ، لیکن والد صاحب کہتے تھے کہ وہ امام کى آواز سنتے تھے مگر دیکھتے نہیں تھے ، ہاں دادا آواز بھى سنتے تھے اور دیکھتے بھى تھے_ میں نے کہا: میرے سید و سردار : کیا وجہ ہے کہ امام (ع) کو بعض لوگ دیکھتے ہیں اور بعض نہیں ؟ فرمایا: یہ بعض بندوں پر خدا کا لطف ہے _

اس کے بعد سید نے میرا ہاتھ پکڑا اور شہر سے باہر لے گئے _ وہاں میں نے ایسے باغات ، چمن زاروں ، نہروں اور بہت سے درختوں کا مشاہدہ کیا کہ جن کى نظیر عراق میں نہیں تھى _ واپسى کى وقت ایک حسین و جمیل آدمى سے ہمارى ملاقات ہوئی _ میں نے سید سے پوچھا کہ یہ شخص کو ن تھا ؟ کہا: کیا اس بلند پہاڑ کو دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: جى ہاں ، کہا: اس پہاڑ کے درمیاں ایک خوبصورت جگہ ہے اور درختوں کے نیچے ایک خوشگوار پانى کا سرچشمہ ہے وہاں اینٹوں کا بنا ہوا ایک گنبد ہے یہ شخص اس قبہ کا نگہبان و خدمت گار ہے _ میں ہر جمعہ کى صبح کو وہاں جاتا ہوں اور امام زمانہ کى زیارت کرتاہوں اور دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد ایک کاغذ ملتا ہے کہ جس میں میرى ضرورت کے تمام مسائل مرقوم ہوتے ہیں _ تمہارے لئے بھى ضرورى ہے وہاں جاؤ اور اس قبہ میں امام زمانہ کى زیارت کرو _

میں اس پہاڑ کى جانب روانہ ہوا _ قبہ کو میں نے ایسا ہى پایا جیسا کہ مجھے بتایا گیا تھا _ وہاں وہ خادم بھى ملا _ میں نے ان سے امام زمانہ سے ملاقات کى خواہش کى انہوں نے کہا: ناممکن ہے اور ہمیں اس کى اجازت نہیں ہے _ میں نے کہامیرے لئے دعا کرو، انہوں نے میرے لئے دعا کى ، اس کے بعد میں پہاڑ سے اتر آیا اور سید شمس الدین کے گھر کى طرف روانہ ہوا ان سے راستہ میں کہیں ملاقات نہ ہوئی _ میں اپنى کشتى کے ساتھ شیخ محمد کے گھر پہنچا اور پہاڑ کا ماجرا انھیں سنایا اور بتایا کہ ان خادموں نے مجھے ملاقات کى اجازت نہیں دى ہے _ شیخ محمد نے بتایا کہ وہاں سید شمس الدین کے علاوہ کسى کو جانے کى اجازت نہیں ہے _ وہ امام زمانہ کى اولاد سے ہیں _ ان کے اور امام زمانہ کے درمیان پانچ پشتیں ہیں وہ امام زمانہ کے خاص نائب ہیں _

اس کے بعد میں نے سید شمس الدین سے خواہس کى کہ میں اپنى بعض دینى مشکلیں آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے سامنے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے صحیح قرائت بتادیں _ فرمایا: کوئی حرج نہیں _ پہلے میں نے قرآن شروع کیا _ تلاوت کے درمیان قاریوں کا اختلاف بیان کیا تو سید نے کہا : ہم ان قرائتوں کو نہیں جانتے ہمارى قرائت تو حضرت على بن ابى طالب علیہ السلام کے قرآن کے مطابق ہے _ اس وقت انہوں نے حضرت على (ع) کے جمع کردہ قرآن کا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ ابوبکر نے اسے قبول نہیں کیا تھا _ بعد میں ابوبکر کے حکم سے قرآن جمع کیا گیا اور اس سے بعض چیزیں حذف کردى گئی ہیں _ چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آیت کے قبل و بعد میں ربط نہیں ہے _ سید کى اجازت کے بعد تقریباً میں نے نوے مسائل ان سے نقل کئے خاص کے علاوہ کسى کو ان کے نقل کى اجازت نہیں دیتا ہوں _

اس کے بعد اپنى مشاہدہ کردہ دوسرى داستان نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میں نے سید سے عرض کى : امام زمانہ سے ہمارے پاس کچھ احادیث پہنچى ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص زمانہ غیبت میں رویت کا دعوى کرے وہ جھوٹا ہے _ جبکہ آپ کہتے ہیں ہم سے بعض کى امام سے ملاقات ہوتى ہے ، اس حدیث اور آپ کے بیان میں کیسے توافق ہوسکتا ہے ؟ فرمایا: یہ احادیث صحیح ہیں ، لیکن اس وقت کے لئے تھیں جب بنى عباس میں سے آپ(ع) کے بہت سے دشمن تھے _ مگر اس زمانہ میں دشمن آپ سے مایوس ہوچکے ہیں اور ہمارے شہر بھى ان سے دور ہیں کسى کى دست رسى اس میں نہیں ہے ، لہذا اب ملاقات میں کوئی خطرہ نہیں ہے _

میں نے کہا: سید شیعہ امام سے کچھ احادیث نقل کرتے ہیں کہ خمس آپ نے شیعوں کے لئے مباح کیاہے _ کیا آپ نے اما م سے یہ حدیث سنى ہے کہ امام نے خمس کو شیعوں کیلئے مباح کیا ہے _ اس کے بعد وہ سید سے کچھ اور مسائل نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: تم نے بھى ابھى تک امام کو دو مرتبہ دیکھا ہے لیکن پہچان نہیں سکے _

خاتمہ میں کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: مغربى ممالک میں قیام نہ کرو، جتنى جلد ہوسکے عراق پلٹ جاؤ_ چنانچہ میں نے ان کے حکم کے مطابق عمل کیا _

ہوشیار: جزیرہ خضراء کى داستان ایسى ہى ہے جیسا کہ میں نے اس کا خلاصہ آپ کے سامنے بیان کیا ہے _ آخر میں اس بات کى وضاحت کردینا ضرورى ہے کہ مذکورہ داستان کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ افسانہ کى حیثیت ہے کیونکہ :

اولاً: اس کى سند معتبر و قابل اعتماد نہیں ہے _ یہ داستان ایک مجہول قلمى نسخے سے نقل کى گئی ہے چنانچہ اس کے متعلق خود مجلسی لکھتے ہیں : چونکہ مجھے یہ داستان معتبر کتابوں میں نہیں ملى ہے اس لئے میں نے اس کو الگ باب میں نقل کیا ہے ( تا کہ کتاب کے مطالب سے مخلوط نہ ہوجائے )

ثانیاً: داستان کے مطالب کے درمیان تناقض پایاجاتا ہے جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: سید شمس الدین ایک جگہ داستان کے راوى سے کہتے ہیں : '' میں امام زمانہ کا خاص نائب ہوں اور ابھى تک امام زمانہ کو نہیں دیکھا ہے _ میرے والد نے بھى نہیں دیکھا تھا لیکن ان کى آواز سنتے تھے جبکہ میرے دادا دیکھتے اور آواز سنتے تھے '' _ لیکن یہى سید شمس الدین دوسرى جگہ داستان کے راوى سے کہتے ہیں :'' میں ہر جمعہ کى صبح کو امام کى زیارت کے لئے جاتا ہوں ، بہتر ہے تم بھى جاؤ'' ، داستان کے راوى سے شیخ محمد نے بھى یہى کہا تھا کہ صرف سید شمس الدین اور انہى جیسے لوگ امام کى خدمت میں مشرف ہو سکتے ہیں _ ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ فرما رہے ہیں کہ ان مطالب میں کتنا تناقض ہے _ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سید شمس الدین جانتے تھے کہ اپنے علاوہ کسى کو زیارت کے لئے نہیں لے جاتے تو پھر داستان کے راوى سے یہ تجویز کیسے پیش کى کہ ملاقات کے لئے پہاڑ پر جاؤ_

ثالثاً : مذکورہ داستان میں تحریف قرآن کى تصریح ہوئی ہے جو کہ قابل قبول نہیں ہے اور علمائے اسلام شدت کے ساتھ اس کا انکار کرتے ہیں _

رابعاً: خمس کے مباح ہونے والا موضوع بھى کہ جس کى تائید کى گئی ہے فقہا کى نظر میں صحیح نہیں ہے _

بہر حال داستان رومانٹک انداز میں بنائی گئی ہے ، لہذا بہت ہى عجیب و غریب معلوم ہوتى ہے _ زین الدین نامى ایک شخص عراق سے تحصیل علم کے لئے شام جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہى کے ہمراہ اندلس جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہى کے ہمراہ اندلس جاتاہے ، طویل سفر طے کرتا ہے _ وہاں بیمار پڑتا ہے _ اس کا استاد اسے چھوڑدیتا ہے _ افاقہ کے بعد ، رافضیوں کے جزیرہ کا نام سن کر اس جزیرہ کو دیکھنے کا ایسا اشتیاق پیدا ہوتا ہے کہ اپنے استاد کو بھول جاتا ہے _ خطرناک اور طویل سفر طے کرکے رافضیوں کے جزیرہ پہنچتا ہے _ جزیرہ میں زراعت نہیں ہوتى لہذا پوچھتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کى غذ ا کہاں سے آتى ہے ؟ جواب ملتا ہے کہ ان کى غذا جزیرہ خضراء سے آتى ہے ، باوجودیکہ لوگوں نے بتا یا تھا کہ چار ماہ کے بعد کشتیاں آئیں گى لیکن اچانک چالیس ہى دن کے بعد آجاتى ہیں ، ساحل پر لنگر انداز ہوتى ہیں اور ایک ہفتہ کے بعد اسے (راوى کو) اپنے ساتھ لے جاتے ہیں _ بحر ابیض کے وسط میں سفید پانى دیکھتا ہے جو کہ شیرین و گوارا بھى ہے اس کے بعد ناقابل عبور جگہ سے گزر کر جزیرہ خضراء میں داخل ہوتا ہے ...

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک عراقى طویل سفر طے کرنے کے بعد مختلف ممالک کے لوگوں سے گفتگو کرتا ہے اور ان سب کى زبان جانتا ہے ، کیا اندلس کے باشندے بھى عربى بولتے تھے؟

دوسرى قابل توجہ بات بحر ابیض کى داستان ہے _ آپ جانتے ہیں کہ بحر ابیض روس کى جمہوریاؤں کے شمال میں واقع ہے _ وہاں یہ واقعہ نہیں پیش آسکتا تھا _ البتہ بحر متوسط کو بھى بحر ابیض کہتے ہیں _ ممکن ہے یہ داستان وہاں کى ہو لیکن اس پورے سمندر کو بحر ابیض کہا جا تا ہے نہ کہ اس مخصوص علاقہ کو جسے داستان کے راوى نے سفید محسوس کیا تھا _ اگر کوئی مذکورہ داستان میں مزید غور کرے گا تو اس کا جعلى ہونا واضح ہوجائے گا _

خاتمہ پر اس بات کا ذکر کردینا ضرورى ہے _ جیسا کہ اس سے قبل آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں _ ہمارى احادیث میں بیان ہوا ہے کہ امام زمانہ اجنبى کى طرح لوگوں کے درمیاں رہتے ہیں _ عام مجموع اور حج میں شرکت کرتے ہیں اور بعض مشکلات کے حل میں لوگوں کى مدد کرتے ہیں _

اس مطلب کے پیش نظر امام زمانہ ، مستضعفین اور حاجت مندوں کى امید کا دور افتادہ علاقہ ، سمندر کے بیچ میں اقامت گزیں ہونا نہایت ہى نا انصافى ہے _ آخر میں معذرت خواہ ہوں کہ ایسى غیر معتبر داستان کى تشریح کیلئے آپ کا قیمتى وقت لیا _

جلالى : امام زمانہ کى اولا ہیں یا نہیں ؟

ہوشیار: ایسى کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو شادى اور اولاد کا قطعى و یقینى طور پر اثبات و نفى کرتى ہو _ البتہ ممکن ہے خفیہ طور پر شادى کى ہو اور ایسے ہى اولا د کا بھى کسى کو علم نہ ہو اور جیسے مناسب سمجھتے ہوں عمل کرتے ہوں اگر چہ بعض دعاؤں کى دلالت اس بات پر ہے کہ امام زمانہ کى اولاد ہے یااس کے بعد پیدا ہوگى _ (1)


1_ بحار الانوار ج 52 ص 317_