پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

تصوّر مہدى ...

تصوّر مہدى ...

احباب یکے بعد دیگرے فہیمى صاحب کے مکان پر جمع ہوئے جب سابق مختصرضیافت کے بعد 8 بجے جلسہ کى کاروائی شروع ہوئی _ انجینئر صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا :

انجینئر: مجھے یاد آتا ہے کہ کسى نے لکھا تھا کہ اسلامى معاشرہ میں مہدویت اور غیبى مصلح کا تصوّر یہود اور قدیم ایرانیوں سے سرایت کرآیا ہے _ ایرانیوں کا خیال تھا کہ زردتشت کى نسل سے '' سالوشیانت'' نام کا ایک شخص ظاہر ہوگا جو اہریمن کو قتل کرکے پورى دنیا کو برائیوں سے پاک کرے گا _ لیکن چونکہ یہودیوں کا ملک دوسروں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کى آزادى سلب ہوگئی تھى ، زنجیروں میں جکڑگئے تھے ، لہذا ان کے علماء میں سے ایک نے یہ خوش خبرى دى کہ مستقبل میں دنیا میں ایک بادشاہ ہوگا وہى زردشتیوں کو آزادى دلائے گا _

چونکہ مہدویت کى اصل یہود و زردشتیوں میں ملتى ہے _ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ان سے مسلمانوں میں آیا ہے ورنہ اس کى ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے _

ہوشیار : یہ بات صحیح ہے کہ دوسرى اقوام و ملل میں بھى یہ عقیدہ تھا اور ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عقیدہ خرافات میں سے ہے کیا یہ ضرورى ہے کہ اسلام کے تمام احکام و عقائد اسى وقت صحیح ہوسکتے ہیں جب وہ گزشتہ احکام وعقائد کے خلاف ہوں ؟ جو شخص اسلام کے موضوعات میں سے کسى موضوع کى تحقیق کرناچاہتا ہے تو اسے اس موضوع کے اصلى مدارک و ماخذ سے رجوع کرنا چاہئے تا کہ اس موضوع کا سقم و صحت واضح ہوجائے _ اصلى مدارک کى تحقیق اورگزشتہ لوگوں کے احکام و عقائدکى چھان بین کے بغیر یہ شور بر پا نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے اس باطل عقیدہ کى اصلى کا سراغ لگالیا ہے _

کیا یہ کہا جا سکتا ہے چونکہ زمانہ قدیم کے ایرانى یزدان کا عقیدہ رکھتے تھے اور حقیقت کو دوست رکھتے تھے _ لہذا خدا پرستى بھى ایک افسانہ ہے اور حقیقت و صداقت کبھى مستحسن نہیں ہے ؟

لہذا صرف یہ کہکر کہ دوسرے مذاہب و ملل بھى مصلح غیبى اور نجات دینے والے کے منتظر تھے _ مہدویت کے عقیدہ کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہى اتنى بات سے اس کى صحت ثابت کى جا سکتى ہے _


رجحان مہدویت کى پیدائشے کے اسباب

فہیمى : ایک صاحب قلم نے عقیدہ مہدویت کے وجود میں آنے کى بہترین توجیہ کى ہے ، اگر اجازت ہو تو میں اس کا لب لباب بیان کروں؟

حاضرین : بسم اللہ :

فہیمى : عقیدہ مہدویت شیعوں نے دوسرے مذاہب سے لیا اور اس میں کچھ چیزوں کااضافہ کردیا ہے چنانچہ آج مخصوص شکل میں آپ کے سامنے ہے _ اس عقیدہ کى ترقی اور وسعت کے دو اسباب ہیں:

الف: غیبى نجات دینے والے کا ظہور اوراس کا پیدائشے کا عقیدہ یہودیوں میں مشہور تھا اور ہے _ ان کا خیال تھا کہ جناب الیاس آسمان پرچلے گئے ہیں اور آخرى زمانہ میں بنى اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے زمین پر لوٹ آئیں گے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ملک صیدق'' اور فنحاس بن العاذار'' آج تک زندہ ہے _

صدر اسلام میں ''مادى فوائد کے حصول'' اور اسلام کى بنیادوں کو کھوکھلا بنانے کى غرض سے یہودیوں کى ایک جماعت نے اسلام کا لباس پہن لیاتھا اور اپنے مخصوص حیلہ و فریب سے مسلمانوں کے درمیان حیثیت پیدا کرلى تھى اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازى ، اپنے عقائد کى اشاعت اور استحصال کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ، ان ہى میں سے ایک عبداللہ ابن سبا ہے جس کو ان کى نمایان فرد تصور کرنا چاہئے _

ب: رسول(ص) کى وفات کے بعد آپ (ص) کے اہل بیت (ع) وقر ابتدار منجملہ على بن ابیطالب خود کو سب سے زیادہ خلافت کا حق دار سمجھتے تھے _ چند اصحاب بھى ان کے ہم خیال تھے _ لیکن ان کى توقع کے برخلاف حکومت خاندان رسالت سے چھن گئی ، جس سے انھیں بہت رنج وصدمہ پہنچا _ یہاں تک کہ جب حضرت على (ع) کے ہاتھوں میں زمام خلافت آئی تو وہ مسرور ہوئے اوریہ سمجھنے لگے کہ اب خلافت اس خاندان سے باہر نہ جائے گى _ لیکن على (ع) داخلى جنگوں کى وجہ سے اسے کوئی ترقى نہ دے سکے نتیجہ میں ابن ملجم نے شہید کردیا پھر ان کے فرزند حسن (ع) بھى کامیاب نہ ہوسکے ، آخر کار خلافت بنى امیہ کے سپردکردى _ رسول (ص) خدا کے دو فرزند حسن و حسین خانہ نشینى کى زندگى بسر کرتے تھے اور اسلام کى حکومت و اقتدا ر دوسروں کے ہاتھ میں تھا رسول(ص) کے اہل بیت اور ان کے ہمنوا فقر و تنگ دستى کى زندگى گزار تے اور مال غنیمت ، مسلمانوں کا بیت المال بنى امیہ اور بنى عباس کى ہوس رانى پر خرچ ہوتا تھا _ ان تمام چیزوں کى وجہ سے روز بروز اہل بیت کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا گیا اور گوشہ و کنار سے اعتراضات اٹھائے جانے لگے دوسرى طرف عہد داروں نے دل جوئی اور مصالحت کى جگہ سختى سے کام لیا اور انھیں دار پر چڑھایا ، کسى کو جلا وطن کیا اور باقى قید خانوں میں ڈالدیا _

مختصر یہ کہ رسول(ص) کى وفات کے بعد آپ کے اہل بیت اور ان کے طرفداروں کو بڑى مصیبتیں اٹھنا پریں ، فاطمہ زہرا کو باپ کى میراث سے محروم کردیا گیا _ على (ع) کو خلافت سے دور رکھا گیا ، حسن بن على (ع) کو زہر کے ذریعہ شہید کردیا گیا _ حسین بن على (ع) کو اولاد و اصحاب سمیت کربلا میں شہید کردیا گیا اور ان کے ناموس کو قیدى بنالیا گیا ، مسلم بن عقیل اور ہانى کو امان کے بعد قتل کرڈالا ، ابوذر کو ربذہ میں جلا وطن کردیا گیا اور حجر بن عدى ، عمروبن حمق ، میثم تمار، سعید بن جبیر ،کمیل بن زیاد اور ایسے ہى سیکڑوں افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا _ یزید کے حکم سے مدینہ کو تاراج کیا گیا ایسے ہى اور بہت سے ننگین واقعات کے وجود میں آئے کہ جن سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں _ ایسے تلخ زمانہ کو بھى شیعیان اہل بیت نے استقامت کے ساتھ گزارا اور مہدى کے منتظر رہے _ کبھى غاصبوں سے حق لینے اور ان سے مبارزہ کیلئے علویوں میں سے کسى نے قیام کیا _ لیکن کامیابى نہ مل سکى اور قتل کردیا گیا _ ان ناگوار حوادث سے اہل بیت کے قلیل ہمنوا ہر طرف سے مایوس ہوگئے اور اپنى کامیابى کا انھیں کوئی راستہ نظر نہ آیا ، تو وہ ایک امید دلانے والا منصوبہ بنانے کے لئے تیار ہوئے _ ظاہر ہے کہ مذکورہ حالات و حوادث نے ایک غیبى نجات دینے والے اور مہدویت کے عقیدہ کو قبول کرنے کیلئے مکمل طور پر زمین ہموار کردى تھى _

اس موقع سے نو مسلم یہودیوں اور ابن الوقت قسم کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے عقیدہ کى ترویج کى یعنى غیبى نجات دینے والے کے معتقد ہوگئے _ ہرجگہ سے مایوس شیعوں نے اسے اپنے درددل کى تسکین اور ظاہرى شکست کى تلافى کے لئے مناسب سمجھا اور دل و جان سے قبول کرلیا لیکن اس میں کچھ رد وبدل کرکے کہنے لگے : وہ عالمى مصلح یقینا اہل بیت سے ہوگا _ رفتہ رفتہ لوگ اس کى طرف مائل ہوئے اور اس عقیدہ نے موجودہ صورت اختیا رکرلى _ (1)


توجیہہ کى ضرورت نہیں ہے

ہوشیار: اہل بیت (ع) اور ان شیعوں سے متعلق آپ نے جو مشکلیں اور مصیبتیں بیان کى ہیں وہ بالکل صحیح ہیں لیکن تحلیل و توضیح کى ضرورت اس وقت پیش آتى جب ہمیں مہدویت کے اصلى سرچشمہ کا علم نہ ہوتا _ لیکن جیسا کہ آپ کو یا دہے _ ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ خود پیغمبر اکرم(ص) نے اس عقیدہ کو مسلمانوں میں رواج دیا اور ایسے مصلح کى پیدائشے کى بشارت دى ہے چنانچہ اس سلسلے میں آپ (ص) کى احادیث کو شیعوں ہى نے نہیں ، بلکہ اہل سنّت نے بھى اپنى صحاح میںدرج کیا ہے _ اس مطلب کے اثبات کے لئے کسى توجیہہ کى ضرورت نہیں ہے _

اپنى تقریر کى ابتداء میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ عقیدہ یہودیوں کے درمیان مشہور تھا _ یہ بھى صحیح ہے لیکن آ پ کى یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اس عقیدہ کو ابن سبا جیسے یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان فروغ دیا ہے کیونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ عالمى مصلح کى پیدائشے کى بشارت دینے والے خود نبى اکرم (ص) ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ مسلمان ہونے والے یہودیوں نے بھى اس کى تصدیق کى ہو _


عبداللہ بن سبا

اس بات کى وضاحت کردینا بھى ضرورى سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن سبا تاریخ کے مسلّمات میں سے نہیں ہے _ بعض علماء نے اس کے وجود کو شیعوں کے دشمنوں کى ایجاد قراردیا ہے اور اگر واقعى ایسا کوئی شخص تھا تو ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے جن کو اسکى طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ کوئی عقلمند اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک نو مسلم یہودى نے ایسى غیر معمولى صلاحیت و سیاست پیدا کرلى تھى کہ وہ اس گھٹن کے زمانہ میں بھى کہ جب کوئی فضائل اہل بیت کے سلسلے میں ایک بات بھى کہنے کى جرات نہیں کرتا تھا اس وقت ابن سبا نے ایسے بنیادى اقدامات کئی اور مستقل تبلیغات اور وسائل کى فراہمى سے لوگوں کو اہل بیت کى طرف دعوت دى اور خلیفہ کے خلاف شورش کرنے اور ایسا ہنگامہ برپاکرنے پر آمادہ کیا کہ لوگ خلیفہ کو قتل کردیں اور خلیفہ کے کارندوں اور جاسوسوں کو اس کى کانوں کان خبر نہ ہو _ آپ کے کہنے کے مطابق ایک مسلم یہودى نے ان کے عقیدہ کى بنیادیں اکھاڑدیں اور کسى شخص میں ہمت دم زدن نہیں ہوئی ایسے کارناموں کے حامل انسان کا وجود صرف تصورات کى دنیا میں تو ممکن ہے _ (2)

 

1_ المہدیہ فى الاسلام ص 48_68
2_ محققین '' نقش وعاظ در اسلام '' مولفہ ڈاکٹر على الوردى ترجمہ خلیلیان ص 111_137_ عبداللہ بن سبا مولفہ سید مرتضى عسکرى اور '' على و فرزندانش '' مولفہ ڈاکٹر طہ حسین ترجمہ خلیلى ص 139 _143 سے رجوع فرمائیں _