پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

امام غائب كا كيا فائدہ ؟

امام غائب کا کیا فائدہ ؟

انجینئر : اگرامام لوگوں کے پیشوا ہیں ، تو انھیں ظاہر ہونا چا ہئے _ غائب امام کے وجود سے کیا فائدہ ہے ؟ جو امام سیکڑوں سال غائب رہے _ دین کى ترویج نہ کرے ، معاشر ے کى مشکوں کو حل نہ کر ے ، مخالفوں کے جواب نہ دے _ امر بالمعروف اور نہى عن المنکر نہ کرے ، مظلوموں کى حمایت نہ کرے ، خدا کے احکام وحدود کو نا فذ نہ کرے ایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟

ہوشیار :غیبت کے زمانہ میں لوگ آپ کے بیان کردہ فوائد سے اپنے اعمال کى بنا پر محروم ہیں لیکن وجود امام کے فوائد ان ہى میں منحصر نہیں ہیںبلکہ اور بہى فوائد ہین جو کہ غیبت کے زمانہ میں مترتب ہو تے ہیں منجملہ ان کے ذیل کے دو فوائد تہى ہیں:

اول : گزشتہ بحث ، علما کى کتابوںمیں نقل ہونے والى دلیلوں اور موضوع امامت کے سلسلہ میں وارد ہونے والى احادیث کے مطابق امام کا مقدس وجود نوع انسان کى غایت ، انسانیت کا فرد کامل اور عالم مادى وعالم ربویت کے در میان رابطہ ہے_اگرروئے زمین پر امام کا وجود نہ ہو گا تو نوع انسان تباہ ہو جائے گى _ اگر امام نہ ہوں گے توصحیح معنوں میں خدا کى معرفت وعبادت نہ ہوگى _ اگر امام نہ ہوں گے تو عالم مادى اور منبع تخلیق کے در میان رابطہ منقطع ہو جائے گا_ امام کے قلب مقدس کى مثال ایک ٹرانسفار مر کى سى ہے جو کار خانہ کے ہزاروں بلبوں کو بجلى فراہم کرتاہے_ عوالم غیبى کے اشراقات وافاضات پہلے امام کے پاکیزہ قلب پر اور ان کے وسیلہ سے تمام لوگوں کے دلوں پر نازل ہوتے ہیں _ امام عالم وجود کا قلب اور نوع انسانى کے رہبر و مربى ّہیں اور یہ واضح ہے کہ ان فوائد کے ترتیب میں آپ کى غیبت وحضور میں کوئی فرق نہیں ہے _ کیا اس کے با وجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟ میں سمجھتاہوں کہ آپ نے یہ اعتراض اس کى زبان سے کیا ہے جس نے امامت و ولایت کے معنى کى تحقیق نہیں کى ہے اور امام کو صرف مسئلہ بیان کرنے والا تصور کرلیا ہے نہ کہ حدود جارى کرنے والا جبکہ عہدہ امامت وولایت اس سے کہیںبلند وبالاہے_

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''ہم مسلمانوںکے امام ، دنیا پر حجت ،مؤمنین کے سردار، نیکوکاروں کے رہبر اور مسلمانوں کے مولاہیں ہم زمین والوں کے لئے امان ہیں جیسا کہ آسمان والوں کے لئے ستارے امان ہیں _ ہمارى وجہ سے آمان اپنى جگہ ٹھراہواہے جب خدا چاہتا ہے ہمارے واسطہ سے باران رحمت نازل کر تا اور زمین سے برکتیں ظاہر کرتاہے _اگر ہم روئے زمین پر نہ ہو تے تو اہل زمین دھنس گئے ہوتے''پھر فرمایا : '' جس دن سے خدا نے حضرت آدم کو پیدا کیا ہے_ اس دن سے آج تک زمین کبھى حجت خدا سے خالى نہیں رہى ہے لیکن حجت خدا کا وجود کبھى ظاہر وآشکار اور کبھى غائب و مخفى رہا ہے_ قیامت تک زمین حجت خدا سے خالى نہ ہوگی_ اگر امام نہ ہو گا تو خدا کى عبادت نہ ہوگی_ سلیمان کہتے ہیں : میں نے عرض کى امام غائب کے وجود سے لوگوں کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے ؟ جیسے ابر میں چھیے ہوئے سورج پہنچتا ہے (1)_

اس اور دیگر حدیثوں میں صاحب الامر کے مقدس وجود اور ان کے ذریعہ لوگوں کو پہنچنے والے فائدہ کو سورج سے تشبیہ دى گئی ہے جو کہ بادل میں چھپ کربھى لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے _ وجہ تشبیہ یہ ہے : طبیعى اور فلکیات کے علوم سے یہ بات ثابت ہوچکى ہے کہ سورج شمسى نظام کامر کز ہے _ اس کى قوت جاذبہ زمین کى محافظ اور اسے گرنے سے بچاتى ہے ، زمین کو اپنے چاروں طرف گردش دیتى ہے ، دن ، رات اور مختلف فصلوں کو وجود میں لاتى ہے _ اس کى حرارت حیوانات ، نباتات اور انسانوں کى زندگى کا باعث ہے _ اس کا نور زمین کو روشنى بخشتاہے _ ان فوائد کے مترتب ہونے میں سورج کے ظاہر یابادل میں پوشیدہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے یعنى اس کى قوت جاذبہ حرارت اور نور دونوں صورتوں میں رہتا ہے _ ہاں کم و بیش کا فرق ہوتا ہے _

جب سیاہ گھٹاؤں میں سورج چھپ جاتا ہے یارات ہوجاتى ہے تو جاہل یہ خیال کرتے ہیں کہ اب موجودات سورج کى حرارت اور نور میسر نہ ہو تو برف بن کر ہلاک ہوجا ئیں ، سورج ہى کى برکت سے سیاہ گھٹا ئیں چھٹتى ہیں اور اس کا حقیقى چہرہ ظاہر ہوتا ہے _

امام کا مقدس وجود بھى عالم انسانیت کا قلب اور سورج اور اس کا تکوینى مربی وہادى ہے ، اور ان فوائد کے ترتب میں آپ کى غیبت و حضور میں اثر انداز نہیں ہے _ حاضرین سے گزارش ہے _ کہ نبوت عامہ اور امامت کے بارے میں ہونے والى بحث کو مد نظر رکھیں اور نہایت سنجیدگى سے ایک مرتبہ اسے دھرالیں ، تا کہ ولایت کے حقیقى معنى تک پہنچ جائیں _ اور امام کے وجود کے، اہم فائدہ کو سمجھ جائیں اور اس بات کو سمجھ لیں کہ اب بھى نوع انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ امام غائب کى برکت کا اثر ہے _

لیکن آپ نے جو دوسرے فوائد بیان کئے ہیں اگر چہ غیبت کے زمانہ میں عام لوگ ان سے محروم ہیں لیکن خداوند عالم اور خود امام فیض میں مانع نہیں ہیںبلکہ اس میںخود لوگوں کى تقصیر ہے _ اگر وہ ظہور میں مانع چیزوں کو بر طرف کر دیتے اور توحید و عدالت کى حکومت کے اسباب فراہم کر لیتے _ دنیا کے اذہان و افکار کو ہموار کر لیتے تو امام کا ظہور ہوجاتا اور آپ انسانى معاشرہ کو بے پناہ فوائد سے مالا مال کرد یتے_

ممکن ہے آپ یہ کہیں : جب عام حالات امام زمانہ کے ظہور کے لئے سازگار نہیں ہیں تو اس پر خطر کام کى کوشش کرنا بے فائدہ ہے ؟ لیکن واضح رہے مسلمانوں کى طاقت وہمت کو ذاتى منافع کے حصول میں منحصر نہیں ہونا چاہئے ، تمام مسلمانوں بلکہ سارى دنیا کے اجتماعى امور کى اصلاح میں کوشش کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ، رفاہ عام میں تندہى اور ظلم و بیدادگرى سے مبارزہ بہت بڑى عبادت ہے _

ممکن ہے مزید آپ کہیں : ایک یا چند افرادکى کوشش سے کچھ نہیں ہوتا _ اور پھر میرا کیا گناہ ہے کہ امام کے دیدار سے محروم ہوں ؟ جواب : اگر ہم نے عام افکار کے رشد ، دنیا والوں کو اسلامى حقائق سے متعارف کرانے اور اسلام کے مقدس مقصد سے قریب لانے کى کوشش کى اوز اپنا فریضہ انجام دید یا ، تو اس کا ہمیں اجر ملے گا ، اگر چہ ہم نے معاشرہ بشریت کو مقصد سے ایک ہى قدم قریب کیا ہوگا اور اس کام کى اہمیت علماء پر مخفى نہیں ہے اسى لئے بہت سى روایات میں وارد ہوا ہے کہ انتظار فرج سب سے بڑى عبادت ہے _ (2) _

دوسرا فائدہ : مہدى ، انتظار فرج اور امام زمانہ کے ظہور پر ایمان رکھنے سے مسلمانوں کے دلوں کو سکون ملتا اور امید نبدھتى ہے اور امیدوار رہنا مقصد کى کا میابى کا سبب ہے _ جس گروہ نے اپنے خانہ دل کو یاس و نا اُمیدى سے تاریک کرلیا اور اس میں امید کى کرن کا گزرنہ ہوتووہ ہرگز کا میاب نہ ہوگا _

ہاں دنیا کے آشفتہ حالات ، مادیت کا تبا ہ کن سیلاب ، علوم و معارف کى سرد بازارى پسماندہ طبقہ کى روز افزوں محرومیت ، استعمار کے فنون کى وسعت ، سردو گرم جنگیں ، اور مشرق و مغرب کا اسلحہ کى دوڑ میں مقابلہ نے روشن فکر اور بشر کے خیرخواہوں کو مضطرب کردیا ہے ، یہاں تک کہ وہ کبھى بشرکى اصلى طاقت ہى کى تردید کردیتے ہیں _

بشرکى امید کا صرف ایک جھرو کا کھولا ہوا ہے اور اس دنیا ئے تاریک میں جو امید کى چمکنے والى کرن انتظار فرج اور حکومت توحید کا درخشاں زمانہ اور قوانین الہى کا نفاذ ہے _ انتظار فرج ہى مایوس اور لرزتے دلوں کو آرام بخشتا اور پسماندہ طبقے کے زخمى دلوں پر مرہم رکھتا ہے _ حکومت توحید کى مسرت بخش خوش خبریوں نے ہى مومنین کے عقائد کى حفاظت کى اور دین میں اسے پائیدار کیا ہے _ حق کے غلبہ اور کا میابى نے ہى بشر کے خیر خواہون کو فعالیت و کوشش پر ابھاراہے _اسى غیبى طاقت سے استمداد انسانیت کو یاس و نا امیدى کے ہولنا ک غار میں گرنے سے بچاتى ہے اور امیدو آرزوؤں کى شاہ راہوں کو منور کرتى ہے _ پیغمبر اکرم(ع) توحید کى عالمى حکومت اور عالمى اصلاحات کے رہبر کے تعین و تعارف سے دنیا ئے اسلام سے یاس و نا اُمیدى کے دیوکو نکال دیا ہے _ شکست و نا اُمیدى کے راستوں کو مسدود کردیا ہے _ اس بات کى تو قع کى جاتى ہے کہ اسلام کے اس گراں بہا منصوبہ پر عمل پیرا ہوکر مسلمان دنیا کى پراگندہ قوموں کو اپنى طرف متوجہ کریں گے اور حکومت توحید کى تشکیل کے لئے ان سے اتحاد کرلیں گے _

امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں :

'' انتظار فرج خود عظیم فرج و گشائشے ہے '' (3)

مختصر یہ کہ محدى موعود پر ایمان نے شیعوَ کے مستقبل کو تا بناک بنادیا ہے اور اس دن کى امید میں خوش رہتے ہیں _ شکست و یاس کو ان سے سلب کرکے انھیں مقصد کى راہ ، تہذیب اخلاق اور معارف سے دلچپى لینے پر ابھارا ہے _ شیعہ ، مادیت ، شہوت رانى ، ظلم وستم ، کفرو بے دینى اور جنگ و استعمار کے تاریک دور میں حکومت توحید عقل انسانیت کى تکمیل ، ظلم و ستم کى تباہى ، حقیقى صلح برقرارى اور علوم و معارف کى گرم بازارى کو اپنى آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں _ اور اس کے اسباب و مقاصد فراہم کردہے ہیں _ اس لئے اہل بیت(ع) کى احادیث میں انتظار فرج کو بہترین عبارت اور راہ حق میں شہادت قرار دیاگیا ہے _ (4) _

 

اسلام سے دفاع

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتى ہے کہ ولى عصر (ع) زمانہ غیبت میں بھى اسلام کى عظمت و ارتقاء اور مسلمانوں کے امور کے حل و فصل میں ممکنہ حدتک کوشش فرماتے ہیں _

حضرت على (ع) ارشاد فرماتے ہیں :

وہ لوگ راہ حق سے منحرف ہوکر ، دائیں بائیں چلے گئے اور ضلالت کى راہ

پر گامزن ہوئے ، ہدابت کے راستہ

کوچھوڑدیا ، پس جو ہونے والاہے

اس کیلئے جلد نہ کرو ، انتظار کرو اور جو چیز بہت جلد واقع ہونے والى ہے اسے ددرنہ سمجھو کتنے لوگوں نے کسى چیز کے بارے میں جلد بازى سے کام لیا لیکن جب اسے پالیا تو کہا : اے کاش میں نے اس کا ادراک نہ کیا ہوتا ، مستقبل کى بشار تیں کتنى قریب ہیں اب و عدوں کے پورا ہونے اور ان چیزوں کے ظاہر ہونے کا وقت ہے جنھیں تم پہچانتے آگاہ ہو جاؤ ہم اہل بیت میں سے جو اس زمانہ کو درک کرے گا _ وہ امام زمانہ ہے _ وہ روشن چراغ کے ساتھ قدم اٹھائے گا اور صالحین کا طریقہ اختیار کرے گا _ یہاں تک کہ اس زمانہ کے لوگوں کى مشکلکشائی کرے گا اور اسیروں کو آزاد کرے کا باطل و نقصان دہ طاقتوں کو پراگندہ کرے گا _ مفید لوگوں کو جمع کرے گا _ ان تمام کاموں کو خفیہ طور پرانجام دے گا کہ قیافہ شناس بھى غور وتامل کے بعد کچھ نہ سمجھ سکیں گے _ امام زمانہ کے وجود کى برکت سے _ دین سے دفاع کیلئے لوگوں کى ایک جماعت کو اس طرح تیز کیا جائے گا جیسے لوہا ر تلوار کى باڑ تیز کرتا ہے ، قرآن سے ان کے باطن کى آنکھوں میں جلا پیدا کى جائیگى اس کے معانى و تفاسیر ان کے گوش گزار جاتى رہیں گى اور علوم و حکمت کے چھلکتے ہوئے ساغر انھیں صبح و شام پلائے جائیں گے _(5)

اس خطبہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت على بن ابى طالب کے زمانہ میں بھى لوگ ان حوادث کے واقع ہونے کے منتظر تھے جن کى خبر انہوں نے رسول(ص) سے سنى تھى ، ممکن ہے وہ غیبت کے زمانہ میں نہایت خفیہ طور پر زندگى بسر کریں گے لیکن کامل بصیرت سے مسلمانوں کے ضرورى مسائل کو حل اور اسلام کے مرکز سے دفاع میں کوشش کریں گے مسلمانوں کى مشکلکشائی کریں گے ، گرفتارى بندوں کو آزادى دلائیں گے _ اور جو لوگ اسلام کى مسخ کنى کے لئے جمع ہوگئے تھے ان کو متفرق کریں گے اور ہر نقصان وہ تشکیل کو درہم کریں گے ، ضرورى اور مفید انجمنوں کى تشکیل کے مقدمات فراہم کریں گے _ امام زمانہ کى برکت سے لوگوں کا ایک گروہ دین سے دفاع کے لئے تیار ہوگا اور اپنے امور میں قرآن کے علوم و معارف سے مددلے گا _

فہیمی: میں چاہتا تھا کہ آپ یہ ثابت کریں کہ ہم اہل سنُت کى احادیث میں وجود مہدى کو _ خصوصا آپ کے دیگر اسما جیسے قائم و صاحب الامر _ اس طرح کیوں بیاں نہیں کیا گیا ہے _ لیکن وقت چونکہ ختم ہونے والا ہے ، اس لئے آئندہ جلسہ میں اس موضوع پر بحث کى جائے تو بہتر ہے _

سب نے اس بات کى تائید کى اور یہ طے پایا کے آئندہ جلسہ ڈاکٹر صاحب کے گھر منعقد ہوگا _

 

 

1_ ینابیع المودة ج 2 ص 217
2_ بحارالانوار ج 52 ص 122_150
3_ بحارالانوار ج 52 ص 122
4 _ بحارالانوار ج 52 ص 122 تا 150
5_ نہج البلاغہ ج 2 خطبہ 146_