پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

خصوصيات مہدى (ع) اہل سنّت كى كتابوں ميں

خصوصیات مہدى (ع) اہل سنّت کى کتابوں میں

معمولى ضیافت اور گفتگو کے بعد جلسہ کى کاروائی شروع ہوئی اور فہیمى صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

شیعوں کى احادیث میں مہدى موعود کا وجود مشخص اور واضح ہے جبکہ اہل سنت کى احادیث میں مجمل و مبہم انداز میں آپ کا تذکرہ ملتا ہے _ مثلاً غیبت مہدى کا واقعہ آپکى اکثر احادیث میں پایا جاتا ہے جبکہ آپکى مسلّم علامتیں اور خصوصیات کا ہمارى احادیث میں کہیں نام ونشان بھى نہیں ہے _ اس سلسلہ میں وہ بالکل خاموش ہیں _ آپ حضرات کى احادیث میں مہدى موعود کے دوسرے نام قائم اور صاحب الامر و غیرہ بھى مذکور ہیں لیکن ہمارى احادیث میں مہدى کے علاوہ اور کوئی نام بیان نہیں ہوا ہے ، خصوصاً قائم تو ہمارى احادیث میں ہے ہى نہیں کیا یہ بات آپ کے نقطہ نظر سے معمولى ہے ، قابل اعتراض نہیں ہے ؟

ہوشیار : ظاہراً قضیہ کى علت یہ ہے کہ بنى امیہ اور بنى عباس کے دور خلافت میں مہدویت کا موضوع مکمل طور پر سیاسى مسئلہ بن چکا تھا چنانچہ تمام مشخصات و علامتوں کے ساتھ مہدى موعود خصوصاً غیبت و قیام سے متعلق احادیث کے نقل کرنے کے لئے آزادى نہیں تھى ، خلفائے وقت احادیث کى تدوین خصوصاً مہدى کى غیبت اور قیام سے متعلق احادیث کے سلسلہ میں بہت حساس رہتے تھے بس اسى سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ غیبت ، قیام اور خروج کے الفاظ بھى برداشت نہیں کرتے تھے _ آپ بھى اگر تاریخ کا مطالعہ فرمائیں اور بنى امیہ و بنى عباس کى خلافت کے بحرانى حالات اور سیاسى کشمکش کا نقشہ کھینچے تو میرے خیال کى تائید فرمائیں گے _ ہم اس مختصروقت میں اس زمانہ کے اہم حوادث و واقعات کا تجزیہ نہیں کر سکتے لیکن اثبات مدعاکیلئے دو چیزوں کى طرف اشارہ کرنا ضرورى ہے _

1 _ داستان مہدویت میں چونکہ ایکہ دینى پہلو موجود تھا اور پیغمبر(ع) اکرم(ع) نے اسکى خبردى تھى کہ جس زمانہ میں کفرو بے دینى فروغ ہوگا اور ظلم و ستم چھا یا ہوگا اس وقت مہدى موعود انقلاب بر پا کریں گے اور دنیا کى آشفتہ حالى کى اصلاح کریں گے اسى لئے مسلمان اس موضوع کو ایک طاقتو رپناہ گاہ اور تسلّى بخش وقوعہ تصور کرتے تھے اور ہمیشہ اس کے وقوع پذیر ہونے کے منتظر رہتے تھے _ خصوصاً مذکور ہ عقیدہ اس وقت اور زیادہ مشہور اور زندہ ہوجاتا تھا جب لوگ ظلم و ستم کى طغیانیوں اور بحرانى حالات میں ہرجگہ سے مایوس ہوجاتے تھے چنانجہ کبھى اصلاح کے علمبردار اور ابن الوقت افراد بھى اس سے فائدہ اٹھا تے تھے _

عقیدہ محدویت سے سب سے پہلے جناب مختار نے فائدہ اٹھایا تھا _ کربلا کے المناک سانحہ کے بعد جناب مختار قاتلوں سے انتقام لینا اور ان کى حکومت کو بر باد کرنا چاہتے تھے لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ بنى ہاشم اور شیعہ حکومت پر قبضہ کرنے کے سلسلے میں مایوس ہوچکے ہیں تو انہوں نے عقیدہ مہدویت سے استفادہ کیا اور اس فکر کے احیاء سے قو م کى امید بندھائی _ چونکہ محمد بن حنفیہ رسول کے ہم نام و ہم کنیت تھے _ یعنى مہدى کى ایک علامت ان میں موجود تھى لہذا مختار نے وقت سے فائدہ اٹھا یا اور محمد بن حنفیہ کو مہدى موعود اور خود کو ان کے وزیر کے عنوان سے پیش کیا اور لوگوں سے کہا محمد بن حنفیہ اسلام کے مہدى موعود ہیں ، اس زمانہ میں ظلم و ستم اپنى انتہا کو پہنچ گیا ہے _ حسین بن على اوران کے اصحاب و جوان تشنہ لب کربلا میں شہید کردیئےئے ہیں ،محمد بن حنفیہ انقلاب لانے کا قصد رکھتے ہیں تا کہ قاتلوں سے انتقام لے سکیں اور دنیا کى اصلاح کرسکیں _ میں ان کا وزیر ہوں _ اس طرح مختار نے قیام کیااور کچھ قاتلوں کو تہ تیغ کیا در حقیقت اس عنوان سے برپاہونے والا یہ پہلا انقلاب اور خلافت کے مقابلہ میں اولین قیام تھا _

دوسرا ابومسلم خراسانى عقیدہ مہدویت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے_ ابومسلم نے خراسان میں ، امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب و انصار ، ہشام بن عبدالملک کے زمانہ خلافت میں ڈردناک و سنسى خیز انداز میں شہید ہونے والے زید بن على بن حسین (ع) اور ولید کے زمانہ خلافت میں شہید ہونے والے یحیى بن زید کے انتقام کے عنوان سے بنى امیہ کى خلافت کے خلاف قیام کیا تھا _ ایک جماعت بھى ابومسلم کو مہدى موعود خیال کرتى تھى اور ایک گروہ اسے ظہور مہدى کا مقدمہ تصور کرتا تھا اور مہدى کى علامتوں میں شمار کرتا تھا کہ وہ خراسان کى طرف سے سیاہ پرچموں کے ساتھ آئے گا _ اس جنگ میں علوییں ، بنى عباس اور سارے مسلمان ایک طرف تھے ، چنانچہ انہوں نے بھر پور اتحاد کے ساتھ بنى امیہ اور ان کارندوں کو اسلامى حکومت سے برطرف کردیا _

یہ تحریک اگر چہ رسول کے اہل بیت کے مغصوب حق کے عنوان سے شروع ہوئی تھى اور شاید انقلاب کے بعض چیمپئین افراد بھى خلافت علویین ہى کى تحویل میں دینا چاہتے تھے لیکن بنى عباس اور ان کے کارندوں نے نہایت ہى چال بازى سے انقلاب کو اس کے حقیقى راستہ سے ہٹادیا _ حکومت علویوں کى دہلینر تک پہنچ چکى تھى لیکن بنى عباس نے اپنے کو پیغمبر کے اہل بیت کے عنوان سے پیش کیا اور اسلامى خلافت کى مسند پر متمکن ہوئے _ اس عظیم تحریک میں ملت کامیاب ہوئی اور بنى امیہ کے ظالم خلفاء سے اسلامى خلافت چھین لی_ لوگوں کو بڑى خوشى تھى کہ انہوں نے ظالم خلفا کے شر سے نجات حاصل کرلى ہے اور اس کے علاوہ حق کو حق دار تک پہنچا دیا اور اسلامى خلافت کو خاندان پیغمبر(ص) میں پلٹادیا ہے _ علویین بھى کسى حد تک خوش تھے اگر چہ انھیں خلافت نہیں ملى تھى لیکن کم از کم بنى امیہ کے ظلم و ستم سے تو مطمئن ہوگئے تھے _ مسلمان اس کامیابى سے بہت خوش تھے اور ملک کے عام حالات کى اصلاح ، اسلام کى ترقى اور اپنى بہبودى کے سنہرے خواب دیکھ رہے تھے اور ایک دوسرے کو خوشخبرى دے رہے تھے _ لیکن کچھ ہى روز کے بعد وہ خواب سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ حالات میں کوئی تبدیلى نہیں آئی ہے اور بنى عباس و بنى امیہ کى حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے _ سب ریاست طلب اور خوش باش ہیں _ مسلمانوں کا بیت المال تباہ ہورہاہے _ عدل و انصاف ، اصلاحات اور احکام الہى کے نفاذ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے _ رفتہ رفتہ لوگوں کى آنکھیں کھلیں اور انہوں نے اپنے غلط فہمى اور بنى عباس کى نیرنگ کو سمجھ لیا _

علوى سادات نے بھى یہ بات محسوس کى کہ اسلام ، مسلمانوں اور خود ان سے بنى عباس کو جو سلوک ہے وہ بنى امیہ کى روش سے مختلف نہیں ہے اور جہاد کى ابتداء اور بنى عباس سے جنگ کے آغاز کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا _ تحریک چلانے کے لئے بہتر افراد جو ممکن تھے وہ على و فاطمہ(ع) کى اولاد تھے کیونکہ اول تو ان میں شائستہ پاکدامن ، فداکار اور دانش ور پیدا ہوتے تھے جو کہ خلافت کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھے _ دوسرے پیغمبر کى حقیقى اولاد تھے اور آپ سے نسبت کى بناپر محبوب تھے _ تیسرے : مظلوم تھے ، ان کا شرعى حق پامال ہوچکا تھا _ لوگ بتدریج اہل بیت (ع) رسول کى طرف آئے _ خلفائے بنى عباس کے جیسے جیسے ظلم و ستم اور دکیٹڑ شپ بڑھتى جاتى تھى اسى کے مطابق لوگوں کے درمیان اہل بیت کى محبوبیت بڑھتى جاتى تھى اور ان میں ظلم کے خلاف شورش کا جذبہ پیدا ہوتا تھا _ قوم کى تحریک اور علویوں کا قیام شروع ہوا ، کبھى کبھى ان میں سے کسى کو پکڑتے اور شوروہنگامہ بپاکرتے تھے کبھى اس میں صلاح سمجھتے تھے کہ عقیدہ مہدویت پیغمبر (ص) کے زمانہ سے ابھى تک باقى ہے _ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہے ، اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور قائد انقلاب کو مہدى موعود کے نام سے پہنچنوایا جائے _ یہاں بنى عباس کے خلفاء کا سخت ، دلیر، دانشور اور قوم میں محبوب رقیبوں سے مقابلہ تھا _ خلفائے بنى عباس علوى سادات کو بخوبى پہچانتے تھے، ان کى ذاتى لیاقت ، فداکارى ، قومى عزت اور خاندانى شرافت سے واقف تھے ، اس کے علاوہ مہدى موعود کے بارے میں پیغمبر(ص) کى دى ہوئی بشارتوں سے بھى باخبر تھے _ پیغمبر کى احادیث کے مطابق انھیں معلوم تھا کہ مہدى موعود اولاد فاطمہ (ص) سے ہونگے جو قیام کرکے ستمگروں سے مبارزہ کریں گے اور ان کى کامیابى کو یقینى سمجھتے تھے وہ داستان مہدى اور لوگوں میں اس عقیدہ کے معنوى اثر سے بھى کسى حد تک واقف تھے _ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنى عباس کى خلافت کو سب سے بڑا خطرہ علوى سادات سے تھا _ انہوں نے ان کى اور ان کے کارندوں کى نیند حرام کردى تھى _ البتہ خلفانے بھى لوگوں کو علویوں کے پاس جمع نہ ہونے دیا اور ہر قسم کى تحریک و انقلاب کى پیش بندى میں بڑى تندى سے کام لیا _ خصوصاً علویوں کے سربرآوردہ افراد پر سخت نظر رکھتے تھے یعقوبى لکھتے ہیں _ موسى ہادى طالبین کو گرفتار کرنے کى بہت کوشش کرتا تھا _ انھیں خوف زدہ و ہراسان رکھتا تھا تمام شہروں میں یہ حکم نامہ بھیجدیا تھا کہ جہاں بھى طالبین کا کوئی آدمى ملے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیجدو _ (1)

ابوالفرج لکھتے ہیں :

''جب منصور تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس نے سارى کوشش محمد بن عبداللہ بن حسن (ع) کو گرفتار کرنے اور ان کے مقصد سے آگہى حاصل کرنے میں صرف کى _'' (2)


غیبت علویین

اس زمانہ کا ایک بہت ہى نازک اور مرکز توجہ مسئلہ بعض علوى سادات کى غیبت تھا _ ان میں سے جس میں بھى ذاتى شرافت و شائستگى اور قیادت کى صلاحیت پائی جاتى تھى _ قوم اسى کى طرف جھکتى اور ان کے دل اس کى طرف مائل ہوتے تھے خصوصاً یہ رجحان اس وقت اور زیادہ ہوجاتا تھا جب اس میں مہدى موعود کى کوئی علامت بھى ہوتى تھى _ دوسرى طرف خلافت کى مشنرى جیسے ہى قوم کو کسى ایسے آدمى کى طرف بڑھتى دیکھتى تھى تو اس کے خوف و ہراس میں اضافہ ہوجاتا تھا اور اس کے خفیہ و ظاہرى کارندے اس شخص کى نگرانى میں مشغول ہوجاتے تھے_ لہذا وہ اپنى جان بچانے کیلئے خلافت کى مشنرى سے روپوش ہوجاتا تھا ، یعنى غیبت و پوشیدگى کى زندگى بسر کرتا تھا ، علوى سادات کا ایک گروہ ایک زمانہ تک غیبت کى زندگى گزارتا تھا _ مثال کے طور پر ہم چند نمونے ، ابوالفرج اصفہانى کى کتاب'' مقاتل الطالبین '' سے نقل کرتے ہیں :

منصور عباسى کے زمانہ خلافت میں محمد بن عبداللہ بن حسن اور ان کے بھائی ابراہیم غیبت کى زندگى بسر کرتے تھے، منصور بھى انھیں گرفتار کرنے کى بہت کوشش کرتا تھا _ چنانچہ اس مقصد میں کامیابى کے لئے اس نے بنى ہاشم کے بہت سے افراد کو گرفتار کیا اور ان سے کہا : محمد کو حاضر کرو ان ان بے گناہوں کو قید خانہ میں لرزہ بر اندام سزائیں دیں '' (3)_

''منصور کے زمانہ خلافت میں عیسى بن زید و روپوش تھے منصور نے انھیں گرفتار کرنے کى لاکھ کوشش کى لیکن کامیاب نہ ہوسکا _ منصور اور اس کے لڑکے نے بھى کوشش کى لیکن ناکام رہے '' (4)

''معتصم اور واثق کے زمانہ خلافت میں محمد بن قاسم علوى خلافت کى مشنرى سے روپوش تھے _ متوکل کے زمانہ میں گرفتارہوئے اور قید خانہ میں وفات پائی '' (5)

''ر شید کے زمانہ خلافت میں یحیى بن عبداللہ بن حسن غائب تھے ، لیکن رشید کے جاسوسوں نے انھیں تلاش کرلیا _ ابتداء میں امان دى لیکن بعد میں گرفتار کرکے قید خانہ میں ڈالدیا ، اسى قید خانہ میں بھوک اور اذیتوں کى تاب نہ لا کر دم توڑدیا'' (6)

'' ماموں کے زمانہ خلافت میں عبداللہ بن موسى غائب تھے اور اس سے مامون بہت خوف زدہ تھا _ (7)

موسى ہادى نے عمر بن خطاب کى اولاد سے عبد العزیز کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا ، عبدالعزیز طالبین سے بہت برے طریق اور سختى سے پیش آتا اور ان کے اعمال و حرکات پر سخت نظر رکھتا تھا _ ایک روز ان سے کہا : تم ہر روز میرے پاس حاضرى دیا کرو تا کہ تمہارے روپوش و غائب نہ ہونے کا مجھے علم رہے _ ان سے عہد و پیمان لیا اور ایک کو دوسرے کا ضامن بنادیا _ مثلاً حسین بن على اور یحى بن عبداللہ کو ، حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن کا ضامن بنایا_ ایک مرتبہ جمعہ کے دن علویین اس کے پاس گئے انھیں واپس لوٹنے کى اجازت نہ دى یہاں تک کہ جب نماز کا وقت آگیا ، تو انھیں وضو کرنے اور نماز میں حاضر کا حکم دیا _ نماز کے بعد اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ ان سب کو قد کرلو_ عصر کے وقت سب کى حاضرى لى تو معلوم ہوا کہ حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن نہیں ہیں _ پس ان کے ضامن حسین بن على اور یحیى سے کہا : اگر حسن بن محمد تین دن تک میرى خدمت میں شرف یاب نہ ہوئے یا انھوں نے خروج کیا یا غائب ہوگئے تو میں تمہیں قید خانے میں ڈال دوں گا یحیى نے جواب دیا کہ : یقیناً انھیں کوئی ضرورى کام پیش آگیا ہوگا ، اسى لئی نہیں آسکے ہم بھى انھیں حاضر کرنے سے قاصر ہیں _ انصاف سے کام لو _ تم جس طرح ہمارى حاضرى لیتے ہو اسى طرح عمر بن خطاب کے خاندان والوں کو بھى بلاؤ اس کے بعد ان کى حاضرى لو اگر ان کے افراد ہم سے زیادہ غائب ہوئے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا پھر ہمارے بارے میں جو چا ہے فیصلہ کرنا _ لیکن حاکم ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوا اور قسم کھا کرکہا: اگر چو بیس 24 گنٹے کے اندر تم نے حسن کو حاضر نہ کیا تو تمہارے گھروں کو منہدم کرادو نگا ، آگ لگوادوں گااور حسین بن على کو ایک ہزار تا زیانے لگاؤں گا_''(8)

اس قسم کے حوادث سے یہ بات بخوبى سمجھ میں آتى ہے کہ خلفا ئے بنى عباس کے زمانہ میں بعض علوى سادات غیبت وروپوشى کى زندگى گزارتے تھے اور یہ چیز اس زمانہ میں مرسوم تھى _ چنانچہ جب ان میں سے کو ئی غائب ہوتا تھا تو فریقین کى توجہ اسى کى طرف مبذول ہو جاتى تھى _ ایک طرف قوم کى نگاہیں اس پر مر کوز ہوتى تھیں خصوصاََاس وقت جب غائب ہونے والے میں کوئی مہدى کى علامت ہوتى ، اور وہ غیبت تھی_دوسرى طرف خلافت کى مشنرى اسے خوف زدہ ، مضطرب اور حساس ہوجاتى خصوصااس میں مہدى کى کوئی علامت دیکھتے اوریہ محسوس کرتے کہ لوگ اس کو احتمالى طور پر مہدى سمجھ رہے ہیں _ ممکن ہے اس کى وجہ سے ایسا انقلاب وشورش بر پاہوجائے کہ جس کے کچلنے میں خلافت کى مشنرى کو بہت بڑ انقصان اٹھا نا پڑ ے _

اب آپ بنى عباس کے انقلابى اور بحرانى حالات یعنى نقل احادیث اور کتابوں کى تالیف کے زمانہ کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں اور یہ انصاف کر سکتے ہیں کہ مولفین ، علماء اور احادیث کے روات آزاد نہیں تھے کہ مہدى موعود سے متعلق خوصا مہدى کے قیام و غیبت سے مربوط احادیث کو اپنى کتابوں میں تحریر کرتے _ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ مہدویت کے مقابلہ میں ، جو کہ اس زمانہ میں سیاسى مسئلہ بن چکا تھا ، نے کوئی مداخلت نہیں کى ہوگى اور احادیث کے روات کو آزاد چھوڑ یا ہوگا کہ وہ مہدى منتظر اور ان کے قیام و غیبت سے مربوط احادیث کو ، جو کہ سراسراکے ضرر میں تھیں ، کتابوں میں در ج کریں ؟

ممکن ہے آپ یہ خیال کریں کہ : خلفائے بنى عباس کم از کم اتناتو جانتے ہى تھے کہ دانشوروں کو محدود رکھتے اور ان کے امور میں مداخلت کرنے میں معاشرہ کى بھلائی نہیں ہے _ روایت احادیث اور علماء کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے تا کہ وہ حقائق لکھیں اور بیان کریں اور لوگوں کو بیدار کریں _ اس لئے میں خلفائے بنى عباس بلکہ ان سے پہلے خلفاء کى بے جامد اخلت کے چند نمونے پیش کرنے کیلئے مجبور ہوں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے:


خلفا کے زمانہ میں سلب آزادی

ابن عسا کرنے عبدالرحمان بن عوق سے روایت کى ہے کہ عمر بن خطاب نے اصحاب رسول (ع) ، جیسے عبد اللہ بن خدیفہ ، ابو دردا ، ابوذر غفارى اور عقبہ بن عامر کو اسلامى شہروں سے طلب کیا اور سرزنش کرتے ہوئے کہا :

"پیغمبر (ع) سے تم لوگ کیا کیا حدیثیں نقل کرتے اور لوگوں میں پھیلاتے ہو؟ اصحاب نے جواب دیا یقینا آپ ہمیں حدیثیں بیان کرنے سے منع کرنا چاہتے ہیں ؟

عمر نے کہا : تم لوگ مدینہ سے با ہر نہیں جاسکتے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھ سے دور نہیں ہوسکتے میں بہتر جانتا ہوں کہ کس حدیث کو قبول کرنا اور کس کو رد کرناہے _ اصحاب رسول (ع) عمرکى حیات تک ان کے پاس رہنے پر مجبور ہو گئے _(9)

معاویہ نے اپنے فرمانداروں کو حکم دیا کہ جو شخص بھى على بن ابیطالب اور انکى اولاد کے فضائل کے بارے میں کوئی حدیث نقل کرتا ہے _ اس کے لئے امان نہیں ہے _(10)

محمد بن سعد اور ابن عسا کرنے محمود بن عبید سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

میں نے عثمان بن عفان سے سنا کہ انہوں نے منبر کے اور پر سے کہا : کسى شخص کو ایسى حدیث نقل کرنے کا حق نہیں ہے جو کہ ابوبکر و عمر کہ زمانہ میں نقل نہ ہوئی ہو (11)_

معاویہ نے اپنے فرمانداروں کو لکھا : لوگوں کو صحابہ اور خلفا کے فضائل میں حدیثیں نقل کرنے کا حکم دو اور انھیں اس بات پرتیار کرو کہ جو احادیث حضرت على بن ابیطالب کے فضائل کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ایسى ہى احادیث کو صحابہ کے بارے میں بیان کریں _(12)

مامون نے 218 ہ میں عراق اور دوسرے شہروں کے علماو فقہا کو جمع کیا اور ان کے عقائد کے بارے میں بازپرس کى اور پوچھا کہ قرآن کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ اسے قدیم سمجھتے ہو یا حادث ؟ پس جو لوگ قرآن کو قدیم مانتے تھے انھیں کافر قرار دیا اور شہروں میں لکھ کر بھیجدیا کہ ان کى شہادت قبول نہ کى جائے _ اس لئے تمام علما قرآن کے بارے میں مامون کے عقیدہ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن چند افراد نے قبول نہیں کیا _ (13)

حجاز کے بڑے فقیہ مالک بن انس نے مدینہ کے گورنر جعفر بن سلیمان کے مزاج کے خلاف ایک فتوى دیدیا_ حاکم نے انھیں بہت ہى رسوائی کے ساتھ طلب کیا اور ستر تازیانے لگانے کا حکم دیاجس سے وہ ایک مدت تک بستر سے نہ اٹھ سکے _

بعد میں منصور نے مالک کو طلب کیا ابتدائے گفتگو میں جعفر بن سلیمان کے تازیانہ لگانے پر اظہار افسوس کیا اور معذرت چاہى اس کے بعد کہا : فقہ و حدیث کے موضوع پر آپ ایک کتاب تالیف کیجئے لیکن اس میں عبد اللہ بن عمر کى دشوار ، عبداللہ بن عباس کى سہل و آسان اور ابن مسعود کى شاذ حدیثیں جمع نہ کیجئے _ صرف ان مطالب کو جمع کیجئے جن پر صحابہ کا اتفاق ہے _ جلد لکھئے تا کہ ہم اسے تمام شہروں میں بھیجدیں اور لوگوں کے لئے اس پر عمل کرنے کو لازم قرار دیدیں _ مالک کہتے ہیں فقہ و علوم کے سلسلے میں عراقیوں کا دوسرا عقیدہ ہے وہ ہمارى باتوں کو قبول نہیں کریں گے ، منصور نے کہا: آپ کتاب لکھئے ہم اس پر عراق کے لوگوں سے بھى عمل کرائیں گے اور گر وہ روگردانى کریں گے تو ہ ان کى گردن ماردیں گے اور تازیانوں سے بد ن کو سیاہ کردیں گے _ کتاب کى تالیف میں جلد کیجئے ، سال آئندہ میں اپنے بیٹے مہدى کو کتاب لینے کے لئے آپ کے پاس بھیجوں گا _ (14)

معتصم عباس نے احمد بن حنبل کو بلایا اور قرآن کے مخلوق ہونے کے سلسلے میں ان کا امتحان لیا اور ا--سى کوڑے لگانے کا حکم دیا _(15) منصور نے ابوحنیفہ کو بغداد بلا کر زہر دیا _(16)

ہاروں رشید نے عباد بن عوام کے گھر کو ویران کردیا اور احادیث نقل کرنے سے منع کردیا _(17)

خالد بن احمد ''بخارا'' کے گورنر نے محمد بن اسماعیل بخارى ، ایسے عظیم محدث سے کہا : اپنى کتاب مجھ پر ھکر سناؤ_ بخارى نے اس سے انکار کیا اور کہا :اگر یہى بات ہے تو مجھے نقل احادیث سے منع کردو تا کہ خدا کے نزدیک معذور ہوجاؤں _ اس بناپر بخارى ایسے عالم کو جلا وطن کردیا _ وہ سمرقند کے دیہات خزننگ چلے گئے اور آخرى عمر تک وہیں اقامت گزیں رہے _ راوى کہتا ہے کہ میں نے بخارى سے سنا کہ وہ نماز تہجد کے بعد خدا سے مناجات کرتے اور کہتے تھے: اے اللہ اگر زمین میرے لئے تنگ ہوگئی ہے تو مجھے موت دیدے چنانچہ اسى مہینے میں ان کا انتقال ہوگیا _(18)

جب نسائی نے حضر ت على بن ابیطالب کے فضائل جمع کرکے اپنى کتاب خصائص تالیف کى تو لوگوں نے انھیں دمشق بلایا اور کہا: ایسى ہى ایک کتاب معاویہ کے فضائل کے سلسلے میں تالیف کرو، نسائی نے کہا: مجھے معاویہ کى کسى فضیلت کا علم نہیں ہے ، صرف اتنا جانتا ہوں کے پیغمبر (ص) نے اس کے بارے میںفرمایا ہے کہ: خدا کبھى معاویہ کو شکم سیر نہ کرے _ یہ سنکر لوگوں نے اس عالم کو جوتوں سے مارا اور ان کے خصیوں کو اتنا دبایا کہ مرگئے _(19)


فیصلہ

خلفا کے بحرانى اور انقلابى حالا ت ، مسئلہ مہدویت خصوصاً موضوع غیبت و قیام، جو کہ مکمل طور پر سیاسى بن گیا تھا اور عام لوگ اس کى طرف متوجہ تھے ، اس سے فائدہ اٹھایا جارہا تھا ، روات احادیث اور صاحبان قلم پر پابندیاں عائد تھیں _ ان تما م چیزوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیجئے : کیا صاحبان قلم ، روات احادیث مہدى موعود ، آپ کے علائم و آثار اور غیبت و قیام سے متعلق احادیث نقل کر سکتے تھے؟ کیا خلفائے وقت نے لکھنے والوں کو اتنى آزادى دے رکھى تھى کہ انہوں نے جو کچھ سنا یا پڑھاہے اس کى روایت کریں اور اپنى کتابوں میں لکھیں؟ یہاں تک ان احادیث کو بھى قلم بند کریں جو خلافت کے لئے خطرہ کا باعث اور سیاسى رنگ میں رنگى ہوں

کیا مالک بن انس اور ابو حنیفہ اپنى ان کتابوں میں جو کو منصور عباسى کے حکم سے تألیف ہوئی تھیں مہدویت اور علویین کى غیبت سے متعلق احادیث نقل کر سکتے تھے؟ جبکہ اسى زمانہ میں محمد بن عبداللہ بن حسن اور ان کے بھائی ابراہیم غائب تھے اور بہت سے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ محمد ہى مہدى موعود ہیں جو کہ قیام کریں گے ، ظلم و طتم کا قلع و قمع کریں گے او ردنیا کى اصلاح کریں گے : با وجودیکہ غیبت اور محمد کے قیام سے منصور بھى خوف زدہ تھا اور انھیں گرفتار کرنے کے لئے علویوں کے ایک بے گناہ گروہ کو قیدى بنا رکھا تھا _ کیا اسى منصور نے ابوحنیفہ کو زہر نہیں دیا تھا؟ کیا اس کے گور نر جعفر بن سلیمان نے مالک بن انس کو کوڑے نہیں لگوائے تھے؟

کیا اسى منصور نے جب مالک بن انس کو کتاب تالیف کرنے کا حکم دیا تھا تو ان کے کام میں مداخلت نہیں کى تھى اور صریح طور پر یہ نہیں کہا تھا کہ اس کتاب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابن مسعود کى حدیثیں نقل نہ کرنا؟ اور جب مالک نے یہ کہا: عراق والوں کے پاس بھى علوم و احادیث ہیں ممکن ہے وہ ہمارى احادیث کو قبول نہ کریں ، منصور نے کہا: ہم آپ کى کتاب پر نیزوں کى انى اور تازیانوں کے زور سے عمل کرائیں گے ؟ کیا منصور سے کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ لوگوں کے دینى امور مى تمہیں مداخلت کا کیا 3حق ہے ؟ تمہیں کیسے معلوم کہ عراق والوں کے علوم و احادیث باطل ہیں ؟ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر اور ابن مسعود کا کیا جرم ہے جو تم ان کى احادیث قبول نہیں کرتے؟

تدوین احادیث کے سلسلہ میں منصور جیسے لوگوں نے جو بے جا مداخلت کى ہے میں اس کا صحیح محل تلاش نہیں کر سکتا _ بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر اور ابن مسعود کى احادیث خلاف کى مشنرى کے موافق نہیں تھیں اس لئے ان کے نقل کرنے میں قدغن تھی_ مالک کے بارے میں لکھتے ہیں ایک لاکھ احادیث سنى تھیں لیکن'' موطا'' میں پانچ سوسے زیادہ نہیں ہیں _(20)

کیامعتصم سے کوڑے کھانے والے احمد بن حنبل ، جلا وطن ہونے والے بخارى اور زدکوب میں جان دینے والے نسائی اپنى کتابوں میں ایسى احادیث لکھ سکے ہیں جو علویوں کے موافق اور دربار خلافت کے مخالف تھیں ؟
نتیجہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے ، چونکہ احادیث مہدویت خصوصاً غیبت و قیام سے متعلق احادیث سیاسى صورت حال اختیار کر چکى تھیں اور خلافت کى مشنرى کے ضرر اور اس کے مخالف یعنى علویوں کے حق میں تھیں _ اس لئے علمائے اہل سنّت پابندى کى وجہ سے انھیں اپنى کتابوں میں ڈرج نہیں کر سکے اور اگر لکھى ہوں گى تو انھیں ظالم سیاستمداروں نے محو کردیا ہے _ شاید ابہام و اجمال کى صورت میں وجود مہدى اس لئے حوادث کى دست برد سے محفوظ رہ گیا کہ حکومت کو اس سے کوئی ضرر نہیں تھا _ لیکن مہدى موعود کے مکمل آثار و علائم اور احادیث کو اہل بیت رسول (ص) اور ائمہ اطہار نے ، جو کہ علوم پیغمبر(ص) کے محافظ تھے ، محفوظ رکھا اور وہ آج تک شیعوں کے درمیاں باقى ہیں _

اس کے باوجود اہل سنّت کى کتابیں غیبت کے موضو ع سے خالى نہیں ہیں _ مثلاً ایک روز حذیفہ کے سامنے کہا گیا : مہدى نے خروج کیا ہے _ حذیفہ نے کہا : اگر مہدى نے ظہور کیا ہے تو یہ تمہارے لئے بڑى خوش قسمتى کى بات ہے جبکہ ابھى اصحاب پیغمبر(ص) زندہ ہیں لیکن ایسا نہیںمہدى اس وقت تک خروج نہیں کریں گے جب تک لوگوں کے نزدیک مہدى سے زیادہ کوئی غائب محبوب نہ ہو _ (21)

یہاں حذیف نے موضوع غیبت کى طرف اشارہ کیا ہے _ حذیفہ حوادث زمانہ اور اسرار پیغمبر(ص) سے واقف و آگاہ ہیں _ و ہ خود کہتے ہیں : میں مستقبل کے حوادث اور فتنوں کو تمام لوگوں سے بہتر جانتا ہوں _ اگر چہ ان چیزوں کو رسول (ص) نے ایک مجلس میں بیان کیا تھا _

لیکن حاضرین میں سے اب میرے سوا کوئی باقى نہیں ہے _ (22)

جلالى : امام غائب کتنے سال زندہ رہیں گے؟

ہوشیار : آپ (ع) کى زندگى اور عمر کى مقدار معین نہیں ہوئی ہے _ لیکن اہل بیت کى احادیث طویل العمر قرار دیتى ہیں مثلاً امام حسن عسکرى (ع) نے فرمایا:

''میرے بعد میرا بیٹا قائم ہے اس میں پیغمبروں کى دو خصوصیتیں یہ بھى ہوں گى کہ وہ عمر دراز ہوں گے اور غیبت اختیار کریں گے _ ان کى طولانى غیبت سے دل تاریک اور سخت ہوجائیں گے ، آپ(ع) کے عقیدہ وہى لوگ باقى و قائم رہیں گے کہ خدا جن کے دلوں میں ایمان استوار رکھے گا اور غیبى روح کے ذریعہ ان کے مدد کرے گا _ (23) اس سلسلہ میں 46 حدیثیں اور ہیں _

ڈاکٹر: امام زمانہ سے متعلق ابھى تک آپ نے جو باتین بیان فرمائی ہیں وہ سب مستدل اور قابل توجہ ہیں _ لیکن ایک اہم اعتراض ، کہ جس نے میرے اور تمام احباب کے ذہن کو ماؤف کررکھا ہے اور ابھى تک اما م غائب کے وجود کے سلسلے میں متردد ہیں وہ طول عمر ہے _ علما اور تعلیم یافتہ طبقہ ایسى غیر طبیعى عمر کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ بدن کے خلیوں کى عمر محدود ہے _ بدن کے اعضاء رئیسہ ''قلب'' ''مغز'' پھیپھڑ ے اور ''جگر''

 

کام کرنے کیلئے معین استعداد کے حامل ہیں _ میں اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک طبیعى انسان کا قلب ہزار سال سے زیادہ کام کرسکتا ہے _ صریح طور پر عرض کروں : ایسے موضوعات اس علمى زمانہ میں کہ جس مین فضا کو مسخر کرلیا گیا ہے ،دنیا والوں کے سامنے پیش نہیں کى جا سکتا _

ہوشیار : ڈاکٹر صاحب مجھے بھى اس بات کا اعتراف ہے کہ حضرت ولیعصر کى طولعمر کا مسئلہ مشکل مسائل مى ایک ہے _ میں بھى علم طل و علم الحیات سے نا واقف ہوں لیکن حق با ت قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ، حضور ہى طول عمر سے متعلق اپنى قیمتى معلومات سے نوازیں _

ڈاکٹر: مجھے بھى اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ میرى علمى اطلاعات بھى اتنى نہیں ہیں جو کہ ہمارى بنیادى مشکل کو حل کر سکیں _ اس بناپر ہمیں کسى سائنسد اں کى معلومات استفادہ کرنا چاہئے _ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام اصفہان کى میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر نفیسى کے ذمہ کیا جائے اور ان کے علم سے استفادہ کیا جائے ، کیونکہ موصوف کلاسیکى تعلیم کے علاوہ محقق بھى ہیں اور ایسے مطالب سے دل چسپى بھى رکھتے ہیں _

ہوشیار : کوئی حرج نہیں ہے _ میں اس سلسلے میں کچھ سوالات لکھتا ہوں اور بذریعہ خط ڈاکٹر نفیسى صاحب کى خدمت میں ارسال کرتا ہوں اور جواب کا تقاضا کرتا ہوں _ بہتر ہے کہ جلسہ کو ملتوى کردیا جائے ہو سکتا ہے اس مدت میں طول عمر کے موضوع پر ہم تحقیق کرلیں اور کامل بصیرت کے ساتھ بحث میں وارد ہوں ڈاکٹر نفیسى کا جواب موصول ہونے کے بعد جلالى صاحب آپ کا فون کے ذریعہ اطلاع دیں گے _

 

 

1_ تاریخ یعقوبى ج 3 ص 142 طبع نجف سنہ 1384 ھ
2_ مقاتل الطالبین ص 143
3_ مقاتل الطالبین ص 143 تا ص 154_
4_ مقاتل الطالبین ص 278_
5_ مقاتل الطالبین ص 392_
6_ مقاتل الطالبین ص 308_
7_ مقاتل الطالبین ص 415 _ 418_
8_ مقاتل الطالبین ص 294 _296
9_ اضواء على السنة الحمدیہ ص 29
10_ نصائح الکافیہ مولفہ سید محمد بن عقیل طبع سوم ص 87_
11_ اضواء على السنة المحمدیہ ص 30_
12_ نصائح الکافیہ ص 88_
13_ تاریخ یعقوبى ج 3 ص 202_
14_ الامامہ و السیاسة ج 2 ص 177 و 180_
15_ تاریخ یعقوبى ج3 ص 206_
16_ مقاتل ص 244_
17_ مقاتل ص 241_
18_ تاریخ بغداد ج 2 ص 33_
19_ نصائح الکافیہ ص 109_
20_ اضواء ص 271
21_ الحادى للفتاوى ج 2 ص 159_
22_ تاریخ ابن عساکر ج 4 ص 9_
23_ بحار الانوار ج 51 ص 224_