پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

احاديث كى تحقيق و تجزيہ

احادیث کى تحقیق و تجزیہ

ڈاکٹر : ہوشیار صاحب گزشتہ بحث ہى کو آگے بڑھایئے

ہوشیار: گزشتہ جلسہ میں ، میں نے مقدمہ کے عنوان سے ایک بحث شروع کى تھى اور چونکہ وہ کچھ طویل اور تھکا دینے والى تھى اس لئے معذرت خواہ ہوں اب ہم قیام و تحریک کى مخالف احادیث کى تحقیق کى بحث شروع کرتے ہیں _ سابقہ جلسہ میں ، ہم نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کى تھى کہ سیاسى و اجتماعى احکام اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں کہ جس کا تعلق دین کے متن سے ہے _ راہ خدا میں جہاد اسلام اور مسلمانوں سے دفاع ، ظلم و تعدى سے مبارزہ ، محروم و مستضعفین سے دفاع امر بالمعروف ، نہى عن المنکر اور کلى طور پر اقامہ دین مسلمانوں کے قطعى اور ضرورى فرائض میں سے ہے لیکن ممکن ہے بعض اشخاص چند احادیث کو ثبوت میں پیش کرکے اس عظیم فریضہ سے سبک دوش ہونا چاہیں اور و ئوء بعض مذہبى مراسم کو انجام دے کر خوش ہولیں _ اسى لئے ضرورى ہے کہ ہم احادیث کى مکمل طور پر تحقیق و تجزیہ کرائیں _ مذکورہ احادیث کو کلى طور پر چند حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے _(1)


جن روایات میں شیعوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم ہر اس قیام کرنے والے کى دعوت کو جو تمہیں مسلح ہو کر خروج کى دعوت دیتا ہے ، آنکھیں بند کرکے قبول نہ کرو بلکہ اس کى شخصیت اور اس کے مقصد کو پہنچا نو اور اس کى تحقیق کرو _ اگر اس میں قیادت کى شرائط مفقود ہوں یا باطل مقصد کیلئے اس نے قیام کیا ہو تو اس کى دعوت کو قبول نہ کرو اگر چہ وہ خاندان رسول ہى سے کیوں نہ ہو _ جیسے یہ حدیث ہے :

'' عیسى بن قاسم کہتے ہیں میں نے امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرما رہا تھے: تقوى اختیار کرو اور ہمیشہ اپنے نفسوں کى حفاظت کرو _ خدا کى قسم اگر کوئی شخص اپنى گوسفند چرانے کیلئے کسى چروا ہے کو منتخب کرتا ہے اور بعد میں اسے پہلے چروا ہے سے بہتر اور عاقل چرواہا مل جاتا ہے تو وہ پہلے کو معزول کردیتا ہے اور دوسرے سے کام لیتا ہے _ خدا کى قسم تمہارے پاس دو نفس ہوتے کہ پہلے سے تحقق تجربہ حاصل کرتے دوسرا تمہارے پاس باقى رہتا جو پہلے کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا تو کوئی حرج نہ تھا _ لیکن ایسا نہیں ہے ہر انسان کے پاس ایک ہى نفس ہے اگر وہ ہلاک ہوجائے تو پھر توبہ اور بازگشت کا امکان نہیں ہے _ اس بناپر تمہارے لئے ضرورى ہے کہ اچھى طرح غور و فکر کرو اور بہترین راستہ اختیار کرو پس اگر رسو ل کے خاندان سے شخص تمہیں قیام و خروج کى دعوت دیتا ہے تو تم اس کى تحقیق کرو کہ اس نے کس چیز کیلئے قیام کیا ہے اور یہ نہ کہو کہ اس سے قبل زید بن على نے بھى تو قیام کیا تھا کیونکہ زید دانشور اور سچے انسان تھے اور تمہیں اپنی امامت کى طرف نہیں بلا رہے تھے بلکہ اس انسان کى طرف دعوت دے رہے تھے جس سے اہل بیت (ع) خوش تھے _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوئے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے اور حکومت کو اس کہ اہل کے سپرد کردیتے _زید نے حکومت کے خلاف قیام کیا تا کہ اسے سرنگوں کرے _ لیکن جس ثخص نے اس زمانہ میں قیام کیا ہے وہ تمہیں کس چیز کى طرف بلا رہا ہے؟ کیا تمہیں اس آدمى کى طرف دعوت دیتا ہے جس پر اہل بیت کا اتفاق ہے ؟ نہیں ، ایسا نہیں ہے ، ہم تمہیں گواہ قرار دے کرکہتے ہیں کہ ہم اس قیام سے راضى نہیں ہیں _ اس کے ہاتھ میں ابھى حکومت نہیں آئی ہے اس کے باوجود وہ ہمارى مخالفت کرتا ہے تو جب اس کے ہاتھ میں حکومت آجائے گى اور پرچم لہرادے گا تو اس وقت تو بدرجہ اولى وہ ہمارى اطاعت نہیں کرے گا _ تم صرف اس شخص کى دعوت قبول کرو کہ جس کى قیادت پر سارے بنو فاطمہ کا اتفاق ہے وہى تمہارا امام و قائد ہے ، ماہ رجب میں تم خدا کى نصرت کى طرف بڑھو اور بہتر سمجھو تو شعبان تک تاخیر کرو اور اگر پسند ہو تو ماہ رمضان کا روزہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رکھو شاید یہ تمہارے لئے بہتر ہو _ اگر علامت چاہتے ہو تو سفیانى کا خروج تمہارے لئے کافى ہے _ (2)

اس حدیث کى سند صحیح ہے اور اس کے راوى ثقہ ہیں _


حدیث کا مفہوم

اس حدیث میں امام صادق (ع) یہ فرماتے ہیں : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہوانھیں عبث ہلاکت میں نہ ڈالو تم ہر قیام کرنے والے اور مدد طلب کرنے والے کى آواز پر لبیک نہ کہو _ اگر دعوت دینے والا اپنى امامت و قیادت کا دعویدار ہے جبکہ امت کے درمیان اس سے زیادہ با علم و با صلاحیت شخص موجود ہے ، تو اس کى دعوت کو قبول نہ کرو _ جیسا ائمہ معصومین علیہم السلام کى حیات میں ایسا ہى ہوتا تھا _ خود قیام کرنے والے کى شخصیت اور اس کے مقصد کى تحقیق کرو _ اگر وہ لائق اعتماد نہ ہو یا اس کا مقصد صحیح نہ ہو تو اس کى دعوت قبول نہ کرو اور اس شخص _ بظاہر محمد بن عبد اللہ بن حسن _ کے قیام کا زید بن على کے قیام سے موازنہ نہ کرو و اور یہ نہ کہو چونکہ زید نے قیام کیا تھا لہذا اس کا قیام بھى جائز ہے _ کیونکہ زید امامت کے دعویدار نہیں تھے اور نہ لوگوں کو اپنى طرف دعوت دے رہے تھے _ بلکہ ان کا مقصد باطل حکومت کو سرنگوں کرکے اس کے اہل تک پہنچانا تھا یعنى جس شخص کے سلسلے میں آل محمد کا اتفاق ہے ، اس تک پہنچانا مقصد تھا _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورکرتے _ زید عالم اور سچے آدم تھے ، قیادت و قیام کى صلاحیت کے حامل تھے _ لیکن جس شخص نے آج قیام کیا ہے وہ لوگوں کو اپنى طرف دعوت دے رہا ہے اور ابھى سے ہمارى مخالفت کررہا ہے جبکہ حکومت اس کے ہاتھ میں نہیں آئی ہے اگر وہ اس انقلاب میں کامیاب ہوگیا تو بدرجہ اولى ہمارى اطاعت نہیں کرے گا _ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتى ہے کہ اس زمانہ میں اس شخص نے قیام کیا جو اپنے کو منصب امامت کے لائق سمجھتا تھا اور اس منصب کو حاصل کرنے کیلئے لوگوں سے مددمانگتا تھا _ بظاہر یہ محمد بن عبداللہ بن حسن تھے کہ جنہوں نے مہدى موعود کے نام سے قیام کیا تھا _ ابوالفرج اصفہانى لکھتے ہیں کہ ، محمد کے اہل بیت انھیں مہدى کہتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدى ہیں _ (3)

 

اصفہانى ہى لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ کے مہدى موعود ہونے میں کسى کو شک نہیں تھا لوگوں میں یہ بات شہرت پاچکى تھى ، اسى لئے بنى ہاشم آل ابوطالب اور آل عباس میں سے بعض لوگوں نے ان کى بیعت کرلى تھى _ (4)

اصفہانى ہى لکھتے ہیں : محمد لوگوں سے کہتے تھے : تم مجھے مہدى موعود سمجھتے ہو اور حقیقت بھى یہى ہے _ (5)

محمد بن عبداللہ بن حسن نے امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں مہدى موعود کے عنوان سے قیام کیا تھا اور لوگوں کو اپنى طرف آنے کى دعوت دیتے تھے _ صرف اس موقع پر امام صادق (ع) نے عیسى بن قاسم اور تمام شیعوں سے فرمایا تھا کہ : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہو عبث ہلاکت میں نہ ڈالو اور اس شخص کے قیام کا زید کے قیام سے موازنہ نہ کرو _ کیونکہ زید امامت کے مدعى نہیں تھے بلکہ لوگوں کو اس شخص کى طرف بلا رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _

گزشتہ بیان سے یہ بات بخوبى واضح ہوگئی کہ امام جعفر صادق (ع) نے بطور مطلق قیام سے منع نہیں فرمایا ہے بلکہ قیام کو دو حصوں تقسیم کیا ہے _ ایک باطل انقلابات و قیام ہے جیسے محمد بن عبداللہ بن حسن کا قیام ہے _ چنانچہ مسلمانوں کوایسے لوگوں کى دعوت قبول نہیں کرنا چاہئے اور اپنے نفوس کو ہلاکت سے بچانا چاہئے _ دوسرے صحیح انقلابا ت و قیام ہے جو موازین عقل و شرع کے مطابق ہوتے ہیں جیسے زید بن علی بن حسین (ع) کا قیام کہان کا مقصد بھى صحیح تھا اور ان میں قیادت کى شرائط بھى موجود تھیں _ امام صادق (ع) نے نہ صرف ایسے قیام کى نفى نہیں کى ہے بظاہر ان کى تائید کى ہے _ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو قیام زید کے قیام کے مانند ہو ائمہ معصومین اس کى تائید فرماتے ہیں _ زید کى شخصیت ، ان کے مقاصد اور ان کے قیام کے محرکات کے بیان و تحقیق کیلئے طویل بحث درکار ہے ، جس کى اس مختصر میں گنجائشے نہیں لیکن ایک سرسرى جائزہ پیش کرتے ہیں _

1_ انقلاب کے قائد یعنى زید عالم و متقى ، صادق اور قیادت کى صلاحیت کے حامل تھے ان سے متعلق امام صادق فرماتے ہیں : میرے چچا زید ہمارى دنیا و آخرت کیلئے مفید تھے _ خدا کى قسم وہ راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں _ آپ کى مثال ان شہداء کى سى ہے جو رسول (ص) على (ع) ، حسن اور امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہوئے تھے _ (6)

حضرت على (ع) نے فرمایا ہے : کوفہ میںایک عظمت و جلال والا انسان قیام کرے گا جس کا نام زید ہوگا _ اولین و آخرین میں اس کى مثال نہیں ہے _ مگر یہ کہ کوئی اس کى سیرت و رفتار پر عمل پیرا ہوجائے _ زید اور ان کے اصحاب قیامت میں ایک صحیفہ کے ساتھ ظاہر ہوں گے _ فرشتے ان کے استقبال کو بڑھیں گے اور کہیں گے یہ بہترین باقى رہنے والے اور حق کى طرف دعوت دینے والے ہیں _ رسول خدا بھى ان کا استقبال کریں گے اور فرمائیں گے بیٹا تم نے اپنا فرض پورا کیا اور اب بغیر حساب کے جنت میں داخل _ ہوجاؤ (7)

 

رسول خدا نے امام حسین (ع) سے فرمایا : تمہارى نسل سے ایک فرزند ہوگا کہ جس کا نام زید ہوگا وہ اور ان کے اصحاب قیامت میں حسین و سفید چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے اور جنّت میں داخل ہوں گے _ (8)

2_ انقلاب میں زید کا مقصد صحیح تھا _ وہ امامت کے مدعى نہیں تھے بلکہ وہ طاغوت کى حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے اور اسے اس کے حق دار

کے سپرد کرنا چاہتے تھے یعنى اسے معصوم امام کے سپردکرنا چاہتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اور اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو اپنا وعدہ ضرور پورا کرتے ، امام صادق (ع) نے فرمایا ہے ، خدا میرے چچا زید پر رحم کرے اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے _ وہ لوگوں کو اس شخص کى طرف دعوت دے رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے ، وہ میں ہوں _ (9)

یحى بن زید کہتے ہیں : خدا میرے والد پر رحم کرے _ خدا کى قسم وہ بہت بڑے عابد تھے ، وہ راتوں کو عبادت میں اور دنوں کو روزہ کى حالت میں گزارتے تھے _ انہوں نے راہ خدا میں جہاد کیا ہے _ راوى کہتا ہے : میں نے یحیى سے پوچھا : فرزند رسول (ص) امام کو ایسا ہى ہونا چاہئے؟ یحیى نے کہا : میرے والد امام نہیں تھے _ بلکہ وہ بعظمت سادات اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں میں سے ایک تھے _ راوى نے کہا : فرزند رسول (ص) آپ کے والد بزرگوار امامت کے مدعى تھے اور راہ خدا میں جہاد کے لئے انہوں نے قیام کیا تھا با وجودیکہ رسول (ص) سے امامت کے جھوٹے دعویدار ہونے کے بارے میں حدیث وارد ہوئی ہے _ یحیى نے جواب دیا : خدا کے بند ے ایسى بات نہ کہو 0 بات میرے والد اس سے بلند تھے کہ وہ اس چیز کا دعوى کریں جوان کا حق نہیں ہے _ بلکہ میر ے والد لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کى طرف دعوت دیتا ہوں _ کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے اور ان کى مراد میرے چچا جعفر (ع) تھے _ راوى نے کہا پس جعفر بن محمد (ع) امام ہیں ؟

یحیى نے جى ہاں وہ بنى ہاشم کے فقیہ ترین فرد ہیں _(10)

جناب زید بھى امام جعفر صادق (ع) کے علم و تقوے کے معترف تھے _ ایک جگہ قرماتے ہیں : جو جہاد کرنا چاہتا ہے وہ میرے ساتھ آجائے اور جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے میرے بھتیجے جعفر کى خدمت میں جانا چا ہئے _ (11)

زید کے اصحاب و سپاہى بھى حضرت صادق کى امامت و افضلت کے معترف تھے _ عمار سا با طى کہتے ہیں ; ایک شخص نے سلیمان بن خالد ، کہ جس نے زید کى فوج کے ہمراہ خروج کیا تھا _ سے پو چھا : زید کے بارے میں تمہار ا کیا عقیدہ ہے ؟ زید افضل ہیں یا جعفر بن محمد ؟ سلیمان نے جواب دیا ، خدا کى قسم جعفر بن محمد کى ایک دن کى زندگى زید کى تمام عمر سے زیادہ قیمتى ہے ، اس وقت اس نے سر کو جھٹکا اور زید کے پاس سے اٹھ گیا اور یہ واقعہ ان سے نقل کیا _ عمار کہتے ہیں : میں بھى زید کے پاس گیا اور را نحصیں یہ کہتے ہوئے سنا جعفر بن محمد ہما ر ے حلال و حرام مسائل کے امام ہیں _(12 )

3_ زید کا انقلاب ایک جذ باتى اتفاقى اور منصو بہ سازى کے بغیر نہیں بر پا ہوا تھا بلکہ ہر طریقہ سے سو چا سمجھا تھا _ ان کے انقلاب کا محر ک امر بالمعروف ، نہى عن المنکر اور طا غوت کى حکومت سے مبارزہ تھا _ ان کا ارادہ تھا کہ مسلحانہ جنگ کے ذریعہ غاصبوں کى حکومت کو سرنگوں کردیں اور حکومت اس کے اہل ، یعنى اس شخص کے سپرد کردیں جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ اسى لئے بہت سے لوگوں نے ان کى دعوت کو قبول کیا اور جہاد کیلئے تیار ہوگئے 0 ابو الفرج اصفہانى لکھتے ہیں : کوفہ سے پندرہ ہزار لوگوں نے زید کى بیعت کى تھى _ اس کے علاوہ مدائن ، بصرہ ، واسطہ ، موصل ، خراسان اور گرگان کے اہالى نے دعوت قبول کى تھى _(13)

زید کا قیام اتنا ہى مستحسن اور ضرورى تھا کہ بہت سے اہل سنّت کے فقہا نے بھى انکى دعوت کو قبول کیا اور آپ کى مدد کى _ یہاں تک کہ اہل سنت کے سب سے بڑ ے امام ابوحنیفہ نے بھى زید کى تائید کى _ فضل ابن زبیر کہتے ہیں : ابو حنیفہ نے مجھ سے کہا : زید کى آواز پر کتنے لوگوں نے لبیک کہا ہے ؟ سلیمہ بن کہیل ، یزید بن ابى زیاد، ہارون بن سعد ، ہاشم بن برید ، ابو ہاشم سریانى ، حجاج بن دینار اور چند دو سرے لوگوں نے ان کى دعوت قبول کى ہے ابوحنیفہ نے مجھے کچھ پیسہ دیا اور کہا یہ پیسہ زیدکو دیدینا اور کہنا کہ اس پیسہ کا اسلحہ خرید یں اور مجاہد ین کے او پر خرچ کریں _ میں نے پیسہ لیا اور زید کى تحویل میں دیدیا _(14)

دلچسپ بات یہ ہے کہ زید نے اپنے انقلاب کے موضوع کو پہلے ہى امام صادق سے بیان کیا تھا اور امام نے فرمایا تھا : چچاجان اگر اس بات کوپسند کرتے ہیں کہ قتل کئے جائیں اور کوفہ کے کنا سہ میں آپ کے بدن کو دار پر چڑ ھا یا جا ئے تو اس راہ کو اختیار کریں (15) _ با د جو دیکہ زید نے امام سے یہ خبر سن لى تھى لیکن آپ کو اپنے فریضہ کى انجام دہى کا اتنا زیادہ احساس تھا کہ شہادت کى خبر بھى انھیں اس عظیم اقدام سے بازنہ ر کھ سکى _ راہ خدا میں جہاد کیا اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے _

ان کے بارے میں امام رضا فرما تے ہیں : زید علما ئے آل محمد میں سے ایک تھے _ وہ خدا کے لئے غضبناک ہوئے اور دشمنان خدا سے جنگ کى یہاں تک کہ شہادت پائی _(16)

امام جعفر صادق (ع) فرما تے ہیں :

خدا میرے چچا زید پر رحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کى طرف دعوت دتیے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اگر کا میاب ہو جا تے تو ضرور اپناہ وعدہ وفا کرتے _(17)

اب ہم اصل بحث کى طرف پلٹتے ہیں جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ عیسى بن قاسم کى روایت کو اسلامى تحریک اور انقلابات کى مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ اسے صحیح اسلامى تحریکوں مؤید قرار دیا جا سکتا ہے _ یہاں تک اس حدیث کے ذریعہ دوسرى ان احادیث کى توجیہ کى جاسکتى ہے جو ایسے انقلاب سے منع کرتى ہیں جنکے قائدہ ضرورى شرائط مفقود ہوں یا اسباب ومقدمات کى فراہمى سے قبل انقلاب کا آغاز کرتے ہیں یا غلط مقصد کیلئے قیام کرتے ہیں لیکن صحیح اسلامى اور زید بن على کے قیام کى مانند قیام سے نہ صرف منع نہیں کرتى ہے بلکہ ائمہ معصومیں نے اس کى تائید کى ہے اس بیان سے یہ بات بھى واضح ہو جاتى ہے کہ وسائل کے اسى بات کى گیار ہویں حدیث کو بھى انقلاب کى مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا _ وہ حدیث یہ ہے :

احمد بن یحیى المکتب عن محمد بن یحیى الصولى عن محمد بن زید انحوى عن ابن ابى عبدون عن ابیہ عن الرضا علیہ السلام (فى حدیث) انہ قال للمامون : لا تقس اخى زیدا الى زید بن على فانہ کان من علماء آل محمد صلى اللہ علیہ و آلہ _ غضب للہ فجاھد اعدائیہ حتى قتل فى سبیلہ و لقد حدثنى ابو موسى بن جعفر انہ سمع اباہ جعفر بن محمد یقول : رحم اللہ عمى زیدا انہ دعا الى ال ضا من آل محمد و لو ظفر لو فى بماد عا الیہ _ لقد استشار نى فى خروجہ فقلت ان رضیت ان تکون المقتول المطوب بالکنا سہ فشانک (الى ان قال) فقال الر ضا علیہ السلام ان زید بن على لم یدع ما لیس لہ بحق و انہ کان تقى للہ من ذالک _ انہ قال : ادعوکم الى الر ضا من آل محمد _( وسائل الشیعہ ج 11 ص 39)

امام رضا (ع) نے مامون سے فرمایا : میرے بھائی زید کا زید بن على سے موازنہ نہ کرو _ زید بن على علمائے آل محمد میں سے تھے _ وہ خدا کیلئے غضبناک ہوئے اور خدا کے دشمنوں سے لڑے یہاں تک راہ خدا میں شہادت پائی _ میرے والد موسى بن جعفر (ع) نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے سنا کہ انہوں نے فرمایا : خدا میرے چچا زید پررحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کى طرف دعوت دیتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا _ اگر کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ وفا کرتے _ نیز فرماتے تھے : زید نے اپنے انقلاب کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا تھا میں نے اس سے کہا تھا : اگر قتل ہونے اور اپنے بدن کو کناسہ کوفہ میں دار پر چڑھائے جانے پر راضى ہیں تو اقدام کریں _ اس کے بعد امام رضا (ع) نے فرمایا: زید بن على اس چیز کے مدعى نہ تھے جوان کا حق نہ تھا _ وہ اس سے کہیں بلند تھے کہ ناحق کسى چیز کا دعوى کریں بلکہ آپ لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کى طرف دعوت دیتا ہوں کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ ''

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے رجال کى کتابوں میں اس کے راویوں کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اس لحاظسے اس کے مفہوم کو بھى قیام کے مخالف احادیث میں شما رنہیں کیا جا سکتا _ کیونکہ اس میں زید بن على جیسے قیام کى تائید کى گئی لیکن زید بن موسى پر تنقید کى گئی ہے _ زید بن موسى نے بصرہ میں خروج کیا تھا اور لوگوں کو اپنى طرف دعوت دیتا اور لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دیتا تھا ، لوگوں کا مال زبردستى لوٹ لیتا تھا ، آخر کار اس کى فوج نے شکست کھائی خود بھى گرفتار ہوا ، مامون نے اسے معاف کردیا اور امام رضا (ع) کى خدمت میں بھیجدیا _ امام نے اسے آزاد کرنے کا حکم دیدیا لیکن یہ قسم کھائی کہ کبھى اس سے کلام نہیں کروں گا _ (18)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: اس حدیث میں زید بن موسى کے قیام و انقلاب پر تنقید کى گئی ہے لیکن ہر قیام و تحریک سے ممانعت نہیں کى گئی ہے بلکہ زید بن على جیسے قیام کى تائید کى گئی ہے _


دوسرا حصّہ

جن احادیث کى اس بات پردلالت ہے کہ جو انقلاب و قیام بھى امام مہدى کے انقلاب سے قبل رونما ہوجائے ، اسے کچل دیا جائے گا _


حدیث اول :

على بن ابراہیم عن ابیہ عن حماد بن عیسى عن ربعى رفعہ عن على بن الحسین علیہ السلام قال: واللہ لا یخرج احد منّا قبل الخروج القائم ا لا کان مثلہ کمل فرخ طار من وکرہ قبل ان یستوى جناحاہ فاخذہ الصبیان فعبثوبہ _ (19)

 

امام زین العابدین نے فرمایا: خدا کى قسم انقلاب مہدى سے قبل ہم میں سے جوبھى قیام کرے گا وہ اس پرندہ کى مانند ہے جو بال و پر نکلے سے پہلے ہى آشیانہ سے نکل پڑتا ہے جسے بچے پکڑلیتے ہیں اور کھلونا بنا لیتے ہیں'' _

مذکورہ حدیث کو اہل حدیث کى اصطلاح میں مرفوع کہتے ہیں _ اس میں چند راویوں کو حذف کردیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھے_ بہر حال یہ قابل قبول نہیں ہے _


حدیث دوم:

جابر عن ابى جعفر محمد بن على علیہ السلام قال: مثل خروج القائم منّا کخروج رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آل و مثل من خرج منّا اہل البیت قبل قیام القائم مثل فرخ طار من وکرہ فتلاعب بہ الصبیان _ (مستدرک الوسائل ج 2 ص 348)

امام محمد باقر نے فرمایا: انقلاب مہدى ، رسول (ص) کے قیام کى مانند ہوگا اور ہم اہل بیت میں انقلاب مہدى سے قبل خروج کرنے والوں کى مثال پرندے کے اس بچہ کى سى ہے جو آشیانہ سے نکل کر بچوں کا کھلونہ بن جاتا ہے ''


حدیث سوم:

ابوالجارود قال سمعت ابا جعفر علیہ السلام یقول : لیس منّا اہل البیت احدید فع ضبما ولا یدعوا ا لى حق الاّصرعتہ البلیة حتى تقوم عصابة شہدت بدراً ، لا یوارى قتیلہا و لا یداوى جریحہا ، قلت ، من عنى ابوجعفر علیہ السلام؟قال : الملائکة (مستدرک السوائل ج 2 ص 248)

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا : ہم اہل بیت میں سے جو بھى ظلم کو مٹائے اور احقاق حق کیلئے قیام کرے گا وہ مشکلوں میں گرفتار اور شکست سے دوچار ہوگا _ اوریہ اس وقت تک ہوگا جب تک ایسے افراد قیام نہ کریں گے جیسے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور مجاہدوں کى مدد کے لئے دوڑ پڑے ، ان میں سے کوئی شہید نہیں ہوا کہ دفن کیا جاتا ، کوئی مجرو ح نہیں ہوا جس کا علاج کیا جاتا ، راوى کہتا ہے : اما م کى مراد کون لوگ ہیں ؟ فرمایا: وہ ملائگہ ہیں جو جنگ بدر میں اسلامى لشکر کى مدد کیلئے نازل ہوئے تھے''_


حدیث چہارم:

ابوالجارود عن ابى جعفر علیہ السلام قال قلت لہ اوصنى فقال اوصیک بتقوى اللہ و ان تلزم بیت و تقعد فى دہمک ہؤلاء الناس وایّاک و الخوارج منّا فانہم لیسوا على شیئی (الى ان قال) و اعلم انہ لا تقوم عصابة تدفع ضیماً او تعزّدینا الاّ صرعتہم البلیة حتى تقوم عصابة شہدوا بدراً مع رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ لا یوارى قتیلہم و لا یرفع صریعہم و لا یداوى جریحہم ، فقلت : من ہم ؟ قال : الملائکة _(مستدرک ج 2 ص 248)

ابوجارود کہتے ہیں : میں نے امام صادق کى خدمت میں عرض کى : مجھے کچھ وصیت فرمایئے فرمایا : میں تمہیں خدا کا تقوى اختیار کرنے اوراپنے گھر میں بیٹھے رہنے کى وصیت کرتا ہوں اور خفیہ طریقے سے ان ہى لوگوں میں زندگى گزارو اور ہم میں سے قیام کرنے والوں سے اجتناب کرو _ کیونکہ وہ حق پر نہیں ہیں اور ان کا مقصد صحیح نہیں ہے ( یہاں تک کہ فرمایا:) جان لو جو گروہ بھى ظلم مٹانے اور اسلام کى سربلندى اور اقتدار کیلئے قیام کرے گا اسى کو بلائیں اور مصیبتیں گھر لیں گى ، یہاں تک وہ لوگ قیام کریں گے جو کہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے _ ان میں سے کوئی بھى قتل نہیں ہوا تھاکہ دفن کیا جاتا ، زمین پر نہیں گرا تھا کہ اٹھایا جاتا ، مجروح نہیں ہوا تھا کہ علاج کیاجاتا ، راوى نے عرض کى یہ کون لوگ ہیں ؟فرمایا : ملائکہ '' _


سند حدیث

مذکور ہ تینوں حدیثیں سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہیں کیونکہ ان کا راوى ابوالجارود ہے جو کہ زید ى المسلک تھا اور خود فرقہ جارودیہ کا بانى ہے _ رجال کى کتابوں میں اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے _


احادیث کا مفہوم

ان احادیث میں امام نے ان شیعوں کو ایک خارجى حقیقت سے خبردار کیا ہے جو کہ قیام کرنے کا اصرار کرتے تھے _ آپ نے فرمایا ہے ہم ائمہ میں سے جو بھى مہدى موعود کے قیام سے پہلے قیام کرے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا اور شہید کردیا جائے گا او راس کى شکست اسلام کے حق میں نہیں ہے _ ہم اہل بیت میں سے صرف انقلاب مہدى کامیاب ہوگا کہ جن کى مدد کیلئے خدا کے فرشتے نازل ہوں گے _ یہ احادیث ائمہ کے قیام کى خبر دے رہى ہیں اور ان کے قیام نہ کرنے

کى علت بیان کررہى ہیں ، دیگر انقلابات سے ان کا تعلق نہیں ہے _ اگر حدیث میں وارد لفظ ''منّا'' سے امام کى مراد علوى سادات ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جو انقلاب بھى علویوں میں سے کسى کى قیادت میں آئے گا وہ پامال ہوگا اور قائد قتل ہوگا تو بھى اس کى دلالت قیام و انقلاب سے ممانعت پر نہیں ہے بالفرض اگر یہى حقیقت ہے _ تو احادیث ایک خارجى حقیقت کو بیان کررہى ہیں اور وہ یہ کہ انقلاب مہدى سے پہلے جو انقلاب رونما ہوں گے وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوں گے اور اس کا سردار قتل ہوگا لیکن یہ احادیث راہ خدا میں جہاد جیسے قطعى و مسلم فریضہ ، اسلام اور مسلمانوں سے دفاع امر بالمعروف اور نہى عن المنکر اور ظلم و بیدادگرى اور استکبار سے مبارزہ کو ساقط نہیں کرتى ہیں _ قتل ہوجانے کى خبر اور شیء ہے اور فرض کرنا دوسرى چیز ہے _ امام حسین (ع) کو بھى اپنى شہادت کا علم تھا لیکن اس کے باوجود نظام اسلام سے دفاع کى خاطر یزید کى طاغوتى حککومت کے خلاف قیام کیا _ اپنا فرض پورا کیا اور جام شہادت نوش فرمایا _ اسى طرح زیدبن على بن الحسین اگر چہ اپنى شہادت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سن چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے شرعى فریضہ پر عمل کیا اور اسلام و قرآن سے دفاع کیلئے قیام کیا اور شہادت سے ہمکنار ہوئے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ راہ خدا میں جہاد ، امر بالمعروف نہى عن المنکر اور محروم و مستضعفین سے دفاع کریں خواہ اس سلسلے میں ان کے بہت سے آدمى شہید ہوجائیں _ کیونکہ شہید ہونا شکست کے مترادف نہیں ہے _ حق تو یہ ہے کہ اسلام نے جو کچھ دنیا میں ترقى کى ہے اور باقى رہا ہے تو یہ امام حسین اور آپ کے اصحاب اور زید بن على یحیى بن زید و حسین شہید فتح ایسے فداکار انسانوں کى قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جنہوں نے قطعى طور پر اپنى جان کى پروا نہیں کى تھى _ اس بنا پر مذکورہ احادیث مسلمانوں سے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف اور نہى عن المنکر کے شرعى فریضہ کو ساقط نہیں کر سکتى ہیں _

اس پر جلسہ کا اختتام ہوا اور آئندہ شنبہ کى شب میں فہیمى صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

فہیمى : ہوشیار صاحب اپنى بحث کى تکمیل کیجئے _

ہوشیار: تیسرا حصّہ

جو احادیث ظہور امام مہدى کى علامتوں کے ظاہر ہونے سے قبل کسى بھى قیام و انقلاب سے اجتناب کا حکم دیتى ہیں _
حدیث اوّل :

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عثمان بن عیسى عن بکر بن محمد عن سدیر قال ، قال ابوعبداللہ علیہ السلام : یا سدیر الزم بیتک و کن حلساً من احلاسہ و اسکن ما سکن اللیل و النہار فاذا بلغک ان السفیانى قدخرج فارحل الینا و لو على رجلک(وسائل الشیعہ ج 11 ص 36)

امام صادق (ع) نے سدیر سے فرمایا: اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور جب تک شب و روز ساکن ہیں تم بھى جنبش نہ کرو جب یہ سنو کہ سفیانى نے خروج کیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آنا خواہ پیادہ ہى آنا پڑے _


سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے قطعى قابل اعتماد نہیں ہے _ کیونکہ سند میں عثمان بن سعید بھى ہیں جو کہ واقفى ہیں _ امام موسى بن جعفر کى حیات میں آپ (ص) کے وکیل تھے لیکن آپ کى وفات کے بعد واقفى ہوگئے تھے اورامام رضا (ع) کے پاس سہم امام نہیں بھیجتے تھے اسى وجہ سے امام رضا (ع) ان سے ناراض ہوگئے تھے _ اگر چہ بعد میں توبہ کرلى اور امام کى خدمت مین اموال بیھیجنے لگے تھے _ اسى طرح سدیر بن حکیم صیرفى کا ثقہ ہونا بھى مسلم نہیں ہے _


حدیث دوم

احمد عن على بن الحکم عن ابى ایوب الخزاز عن عمر بن حنظلہ قال سمعت ابا عبداللہ علیہ السلام یقول: خمس علامات قبل القیام القائم : الصیحة والسفیانى و الخسف و قتل النفس الزکیة و الیمانى ، فقلت جعلت فداک ان خرج احد من اہل بیتک قبل ہذاہ العلامات انخرج معہ؟ قال : لا_(وسائل الشیعہ ج 11 ص 37)

''امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں _ قائم کے انقلاب و قیام سے قبل پانچ علامتیں ظاہر ہوں گے 1_ آسمانى چیخ 2_ خروج سفیانى 3_ زمین کے ایک حصہ کا دھنس جانا 4_ نفس زکیہ کا قتل 5_ یمانى کا خروج راوى نے عرض کى فرزند رسول (ع) اگر آپ حضرات میں سے کوئی علائم ظہور سے قبل قیام کرے تو ہم بھى اس کے ساتھ خروج کریں ؟ فرمایا نہیں _


سند حدیث

مذکورہ حدیث قطعہ قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ عمر بن حنظلہ کى توثیق ثابت نہیں ہے _

حدیث سوم :

محمد بن الحسن عن الفضل بن شاذان عن الحسن بن محبوب عن عمرو بن ابى المقدام عن جابر عن ابى جعفر علیہ السلام قال : الزم الارض و لا تحرک یداً ولا رجلاً حتى ترى علامات اذکرہا لک وما اراک تدرکہا : اختلاف بنى فلان و منا دینادى من السماء و یجیئکم الصوت من ناحیة دمشق(وسائل الشیعہ ج 11 ص 41)

جابر کہتے ہیں کہ : حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: زمین نہ چھوڑو ، اپنے ہاتھ اور پیر کو حرکت نہ دو یہاں تک وہ علامت ظاہر ہوجائے جو میں تمہیں بتاتا ہوں شائد تم درک نہیں کروگے : فلان خاندان _ شائد بنى عباس _ کا اختلاف آسمانى منادى کى ندا اور شام کى طرف سے آنے والى آواز ہے _


سند حدیث

مذکورہ حدیث بھى قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ عمر بن ابى المقدام مجہول ہے _ شیخ الطائف نے فضل بن شاذان سے دو طریقوں سے روایت کى ہے اور دونوں کو ضعیف قرار دیا ہے _


حدیث چہارم :

الحسن بن محمد الطوسى عن ابیہ عن المفید عن احمد بن محمد العلوى عن حیدر بن محمد بن نعیم عن محمد بن عمرالکشى عن حمدویہ عن محمد بن عیسى عن الحسین بن خالد قال: قلت لابى الحسن الرضا علیہ السلام ان عبداللہ بن بکر یروى حدیثاً و انا احبّ ان اعرضہ علیک فقال : ماذا لک الحدیث ؟ قلت : قال ابن بکیر : حدثنى عبید بن زرارة قال : کنت عند ابى عبداللہ علیہ السلام ایام خرج محمد ( ابراہیم ) بن عبداللہ بن الحسن اذ دخل علیہ رجل من اصحابنا فقال لہ : جعلت فداک ان محمد بن عبداللہ قد خرج فما تقول فى الخروج معہ ؟ فقال : اسکنوا ما سکنت السماء والارض ، فما من قائم و ما من خروج ؟ فقال ابو الحسن علیہ السلام : صدق ابو عبداللہ علیہ السلام و لیس الامر على ما تأوّلہ ابن بکیر _ انما عنى ابو عبداللہ علیہ السلام اسکنوا ما سکنت السماء من النداء و الارض من الخسف بالجیش _ (وسائل الشیعہ ج 11 ص 39)

حسین بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا (ع) کى خدمت میں عرض کى : عبداللہ بن بیکر نے مجھے ایک حدیث سنائی ہے _ میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ سے نقل کروں فرمایا : سناؤ کیا ہے ؟ میں نے عرض کى ابن بکیر نے عبید بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا تھا، اس وقت میں امام صادق کى خدمت میں تھا کہ اى صحابى آیا اور عرض کى : قربان جاؤں محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا ہے ان کے خروج کے متعلق آپ کى کیا رائے ہے ؟ فرمایا : جب تک رات دن کى گردش یکسال ہے اس وقت تک تم بھى ساکن و ساکت رہو _ اس میں نہ کوئی قیام کرے اور نہ خروج _ امام رضا نے فرمایا : امام صادق نے صحیح فرمایا ہے ، لیکن حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے جو ابن بکیر نے سمجھا ہے بلکہ امام کا مقصد ہے کہ جب تک آس5مان سے ندا نہ آئے اور زمین فوج کہ نہ دھنسائے اس وقت تک تم خاموش رہو'' _


سند حدیث

مذکورہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ رجال کى کتابوں میں احمد بن محمد علوى کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اسى طرح حسین بن خالد نام کے دو اشخاص ہیں _ ایک ابوالعلاء دوسرے صیرفى اور ان دونوں کو موثق نہیں قرار دیا گیا _


حدیث پنجم :

محمد بن ہمام قال حدثنا جعفر بن مالک الفزارى قال حدثنى محمد بن احمد عن على بن اسباط عن بعض اصحابہ عن ابى عبداللہ علیہ السلام انہ قال : کفّوا السنتکم و الزموا بیوتکم فانہ لا یصیبکم امر تخصّون بہ و لا یصیب العامة و لایزال الزیدیة و قاء لکم ''( مستدرک الوسائل ج 2 ص 248)

یعنى امام صادق نے فرمایا : اپنى زبان بندرکھو، اور اپنے گھروں میں بیھٹے رہو کیونکہ تمہیں وہ چیز نہیں ملے گى جو عام لوگوں کو نہیں َلتى اور زیدیہ ہمیشہ تمہارى لاوں کى سپر رہیں گے _


سند حدیث

سند کے اعتبار سے مذکورہ حدیث قابل اعتما دنہیں ہے ، کیونکہ على بن اسباط نے بعض ایسے اصحاب سے حدیث نقل کى ہے جو مجہول ہیں _ اس کے علاوہ طریق حدیث میں جعفر بن (محمد بن ) مالک ہیں کہ جنھیں علماء رجال کى ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے _
حدیث ششم :

على بن احمد عن عبیداللہ بن موسى العلوى عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن منخل بن جمیل عن جابر بن یزید عن ابى جعفر الباقرعلیہ السلام انہ قال : اسکنوا ما سکنت السموات و لا تخرجوا على احد فانّ امرکم لیسبہ خفاء الا انّہا آیة من اللہ عزّ و جل لیست من الناس( مستدرک السوائل ج 2 ص 248)

یعنى امام محمد باقر (ع) نے فرمایا : جب تک آسمان ساکن ہے اس وقت تک تم بھى سال رہو اور کسى کے خلاف خروج نہ کرو _ بے شک تمہارا امر مخفى نہیں ہے مگر خدا کى طرف سے ایک نشان ہے او راس کا اختیار لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ''_


سند حدیث

یہ حدیث بھى سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہے کیونکہ علم رجال کى کتابوں میں منخل بن جمیل کو ضعیف و فاسد الروایت قرار دیا گیا ہے _


احادیث کا مفہوم

مذکورہ احادیث کا مفہوم کے تجزیہ سے قبل آپ کى توجہ ایک نکتہ کى طرف مبذول کرادینا ضرورى ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اور ائمہ اطہار کے اصحاب ہمیشہ انقلاب مہدى موعود اور قائم آل محمد کے قیام کے منتظر رہے ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) سے سنا تھا کہ جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گى عدل گستر مہدى ظہور فرمائیں گے اور ظلم و کفر کا قلع و قمع کریں گے _ دنیا میں اسلام کا بول با لاکریں گے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے _ شیعوں نے سنا تھا کہ ایسے انسان کا انقلاب کامیاب ہوگا اور تائید الہى اس کے شامل حال ہوگى _ اسى ل ے صدر اسلام کے بحرانى حالت میں قیام و قائم شیعوں کے درمیان گفتگو کا موضوع تھا _ وہ ائمہ اطہار سے کہتے تھے _ ہر جگہ ظلم و جور کى حکمرانى ہے _ آپ کیوں قیام نہیں کرتے _ کبھى دریافت کرتے تھے _ قائم آل محمد کیسا قیام کریں گے ؟ کبھى قائم آل محمد کے ظہور کى علامت کے بارے میں پوچھتے تھے _ ایسے حالات میں بعض علوى سادات موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور مہدى موعود قائم آل محمد کے نام سے انقلاب بپاکرتے تھے اور طاغوت کى حکومت کو برباد کرنے کے لئے جنگ کرتے تھے لیکن قلیل مدت میں شکست کھاجاتے تھے _

مذکورہ احادیث اسى زمانہ میں صادر ہوئی تھیں _ پس اگر امام اپنے اصحاب میں کسى ایک یا چند اشخاص سے یہ فرماتے ہیں کہ خاموش رہو _ شورش نہ کرو، خروج سفیانى اور آسمانى چیخ کے منتظر رہو، ان چیزوں کا مقصد اس بات کو سمجھانا تھا کہ جس شخص نے اس وقت قیام کیا ہے وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدى موعود نہیں ہیں ، مجھے قائم موعود تصور نہ کرو _ قائم آل محمد کے ظہور تک صبر کرو ، اور ان کے قیام و انقلاب کى کچھ مخصوص علامات ہیں _ پس جو شخص بھى قیام و شورش کرے اور تم سے مدد مانگے تو پہلغ تم ان مخصوص علامتوں کو ان کى دعوت میں ملا حظہ کرلو اس کے بعد قبول کرلو اگر وہ علامتیں اس کى دعوت میں آشکار نہیں ہیں تو اس کے فریب میں نہ آو _ اسکى آواز پر لبیک نہ کہو اور سمجھ لو کہ وہ مہدى موعود نہیں ہے _ مذکورہ احادیث در حقیقت علوى سادات کى حقیقت کو واضح کرتى ہیں جو کہ مہدى موعود اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرتے تھے _ اور اس بات کى وضاحت کرتى ہیں کہ مہدویت کے دعویدار مہدى موعود نہیں ہیں _ ان کے فریب میں نہ آجانا _ یہ احادیث مسلمانوں کے حتمى و ضرورى فرائض جیسے وجوب جہاد، اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، امر بالمعروف و نہى عن المنکر ، ظلم و بیدادگرى سے مبارزہ اور محرومین و مستضعفین سے دفاع کو منع نہیں کرتى ہیں _ یہ نہیں کہتى ہیں کہ ظلم و ستم ، فحشا و منکرات ، کفر و الحاد یہاں تک کہ اسلام کو نابود کرنے کے سلسلے میں جو سازشیں کى گئی ہیں ، ان پر خاموشى اختیا رکرو اور امام مہدى کے ظہور کا انتظارکرو کہ وہى دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ ایسى رکیک بات کو ائمہ معصومین کى طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا _ اگر سکوت واجب تھا تو حضرت على نے اسلام کے دشمنوں سے کیوں جنگ کى ؟ اور اما م حسین نے یزید کے خلاف کیوں قیام کیا ؟ اور زید کے خونین انقلاب کى ائمہ نے کیون تائید کى ؟ اس بناپر مذکورہ احادیث کو قیام و انقلاب کے مخالف نہیں قرارد یا جاسکتا _


چوتھا حصہ

جو احادیث اس بات سے منع کرتى ہیں کہ انقلاب و تحریک میں عجلت سے کام نہ لو _


حدیث اول

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد عن محمدبن على عن حفص بن عاصم عن سیف التمار عن ابى المرہف عن ابى جعفر علیہ السلام قال : الغبرة على من اثارہا ، ہلک المحاضیر قلت : جلعت فداک ، و ماالمحاضیر؟ قال المستعجلون اما انہم لن یریدوا الاّ من یعرض علیہم ( الى ان قال) یا ابا المرہف اترى قوماً جسو انفسہم على اللہ لا یجعف اللہ لہم فرجاً؟ بلى واللہ لیجعلن اللہ لہم فرجاً _ ( وسائل الشیعہ ج 11 ص 36)

امام محمد باقر نے فرمایا: گردو غبار اس کى آنکھوں میں پڑتا ہے جواڑاتا ہے _ جلد باز ہلاک ہوتے ہیں حکومتیں ان لوگوں کو کچلتى ہیں جوان سے ٹکراتے ہیں _ اے ابو مرہف کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جو لوگ راہ خدا میں اپنى حفاظت کرتے ہیں _ خدا انھیں فراخى نہیںعطا کرے گا ؟ کیوں خدا کى قسم خدا انھیں ضرور کشائشے عطا کرے گا _


سند حدیث

سند کے اعتبار سے حدیث صحیح نہیں ہے کیون کہ محمد بن على کوفى ( محمد بن على بن ابراہیم ) کو رجال کى کتابوں میں ضعیف شمار کیا گیا ہے جبکہ ابومرہف بھى مجہول ہے _


مفہوم حدیث

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ اس زمانہ میں ایک گروہ نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا تھا اور اس کى شورش کو کچل دیا گیا تھا _ اسى لئی راوی حدیث بھى خوف زدہ اور پریشان تھا کہ کہیں شیعوں پر بھى حرف نہ آئے _ اسى لئے اما م نے اسے تسلى دى کہ تم نہ ڈرو ان لوگوں کى چھان بین کى جائے گى جنہوں نے خروج کیا تھا _ تم پر آنچ نہیں آئے گى _ تم ظہور کے وقت تک خاموش رہو _ اس حدیث کو بھى قیام کے مخالف نہیں کیا جا سکتا _


حدیث دوم

'' الحسن بن محمد الطوسى عن ابیہ عن المفید عن ابن قولویہ عن ابیہ عن احمد بن على بن اسباط عن عمّہ یعقوب بن سالم عن ابى الحسن العبیدى عن الصادق علیہ السلام قال : ما کان عبد لیحبس نفسہ على اللہ الا دخلہ الجنة '' _( وسائل الشیعہ ج 11 ص 29)

اما م صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے : جو شخص بھى خدا کیلئے صبر و پائیدارى سے کام لیتا ہے خدا اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے گا _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _


مفہوم حدیث

اس حدیث میں امام صادق نے نفس پر قابو رکھنے اور پائیدارى سے کام لینے کا حکم دیا ہے _ لیکن سکوت و صبر کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قیام نہ کیا جائے قیام کے ساتھ صبر و پائیدارى زیادہ مناسب ہے _

حدیث سوم :

قال امیر المؤمین علیہ السلام : الزموا الارض واصبروا على البلاء و لا تحرکوا بایدیکم و سیوفکم فى ہوى السنتکم ولا تستعجلوا بما لم یعجل اللہ لکم فانہ من مات منکم على فراشہ و ہو على معرفة حق ربّہ و حق رسولہ و اہل بیتہ مات شہیدا ووقع اجرہ على اللہ و استوجب ثواب ما نوى من صالح عملہ وقامت النیة مقام اصلاتہ بسیفہ فان لکل شیئی مدة واجلا(وسائل الشیعہ ج 11 ص 40)

حضرت امیر المومنین کا ارشاد ہے : زمین پکڑ کر بیٹھے رہو ، بلاؤں پر صبر کرو اور اپنى زبان کى بناپر تلوار اور ہاتھوں کو حرکت نہ دو ، جس کام میں خدا نے عجلت نہین کى ہے تم بھى اس میںتعجیل نہ کرو، بے شک جو بھى تم میں سے اس حال میں اپنے بستر پر مرے گا کہ خدا و رسول اور اہل بیت کى معرفت سے اس کا قلب سرشار ہو تو وہ شہید کى موت مرے گا اور اس کا اجر خدا پرہے _ او راسے اس نیت عمل کا بھى ثواب ملے گا _ جس کى نیت کى تھى تلوار چلانے کى نیت کا بھى ثواب ملیگا _ بے شک ہر چیز کا ایک مخصوص وقت ہے _


سند حدیث

مذکورہ حدیث نہج البلاغہ سے منقول ہے ، معتبر ہے _


حدیث چہارم :

محمد بن یحیى عن محمد بن الحسین عن عبدالرحمن بن ابى ہاشم عن الفضل الکاتب قال کنت عند ابى عبداللہ علیہ السلام فاتاہ کتاب ابى مسلم فقال : لیس لکتابک و جواب اخرج عنا ( الى ان قال ) قلت : فما العلامة فیما بیننا و بین جعلت فداک؟ قال لا تبرح الارضہ یا ف ضیل حتى یخرج السفیانى ، فاذا خرج السفیانى فاجیبوا الینا ، یقولہا ثلاثاً ، و ہو من المحتوم '' _(وسائل الشیعہ ج 11 ص 37)

فضل کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کى خدمت میں تھا کہ ابو مسلم خراسانى کا خط آپ (ع) کے پاس پہنچا _ اما م نے حامل رقعہ سے فرمایا: تمہارا خط اس لائق نہیں ہے کہ اس کا جواب دیا جائے ، جاؤ ، خدا بندوں کى جلد بازى سے تعجیل نہیں کرتا ہے _ بے شک پہاڑ کو اپنى جگہ سے اکھاڑکر پھینکنا آسان ہے لیکن اس حکومت کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جس کا وقت نہ آیا ہو _ راوى نے عرض کى : پس ہمارے اور آپ (ع) کے درمیان کیا علامت ہے ؟ فرمایا : سفیانى کے خروج تک اپنى جگہ سے حرکت نہ کرو ، اس وقت ہمارے پاس آنا ، اس بات کو آپ (ع) نے تین مرتبہ دھرایا چنانچہ سفیانى کا خروج حتمى علامت ہے _


سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _


حدیث پنجم :

محمد بن على بن الحسین باسنادہ عن حماد بن عمرو و انس بن محمد عن ابیہ عن جعفر بن محمد عن آبا ئ ہ علیہم السلام ( فى وصیة النى صلى اللہ علیہ و آلہ لعى علیہ السلام ) قال : یا على ازالة الجبال الرواسى اہون من ازالة ملک لم تنقض ایامہ '' ( وسائل الشیعہ ج11 ص 38)

رسو ل خدا نے حضرت على سے فرمایا : پہاڑوں کو اکھاڑنا آسان ہے لیکن ان حکومتوں کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جن کا وقت نہ آیا ہو _
سند حدیث

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حماد بن عمرو مجہول ہے چنانچہ انس بن محمد مہمل ہے اور اس کے والد محمد کو رجال کى کتابوں میں اہمیت نہیں دى گئی ہے _


حدیث ششم

حمید بن زیاد عن عبید اللہ بن احمد الدہقان عن على بن الحسن الطاہرى عن محمد بن زیاد عن ابان عن صباح بن سیّابنہ ع المعلى بن خنیس قال ذہبت بکتاب عبد السلام بن نعیم و سدیر و کتب غیر واحد الى ابیعبدللہ علیہ السلام حین ظہر المسودة قبل ان یظہر ولد العباس : انّا قدّرنا ان یؤل ہذا الامر الیک فما ترى ؟ قال : فضرب بالکتب الارض ، قال : اف اف ما انا لہؤلاء بامام ، اما یعلمون انہ انما یقتل السفیانى '' _( وسائل الشیعہ ج 11 ص 37)

معلّى کہتے ہیں : میں عبد السلام سدیر اور دوسرے چند افراد کے خطوط لیکر امام صادق کى خدمت میں حاضر ہوا ، بنى عباس کے آشکار ہونے سے قبل کالے لباس والے ظاہر ہوئے _ خطوط کا مضمون یہ تھا _ ہم نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ حکومت و قیادت آپ کى دست اختیا ر میں دى جائے آپ (ع) کیا فرماتے ہیں ؟ امام (ع) نے خطوط کو زمین پر دے مارا اور فرمایا : افسوس ، افسوس ، میں ان کاامام نہیں ہوں _ کیا انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ مہدى موعود وہ ہے جو سفیانى کو قتل کریں گے _


سند حدیث

سند کے اعتبار سے اس حدیث پر بھى اعتماد نہین کیا جا سکتا کیونکہ صباح بن سیّابہ مجہول ہے _


مفہوم حدیث

احادیث کے مفہوم کے تجزیہ سے قبل درج ذیل نکات کو مد نظر رکھئے :

1_ ائمہ کے زمانہ میں شیعہ ہمیشہ حضرت مہدى کے ظہور و انقلاب کے منتظر رہتے تھے کہ اس کى خبر انہوں نے رسول سے سنى تھى _

2_ اس زمانہ میں شیعہ بڑى مشکلوں میں مبتلا تھے ، خلفائے جور کى ان پر سخت نگاہ رہتى تھى _ قید میں ڈال دیئےاتے ، جلا وطن کردیئےاتے یا قتل کردیئےاتے تھے _

3_ ہر چند علوى سادات میں سے ہر ایک ظالم حکومتوں کے خلافت قیام کرتا تھا اور وہ لوگ بھى ان کى مدد کرتے تھے جو زندگى سے عاجز آجاتے اور قیام کرنے والے کو مہدى موعود اور منجى بشریت سمجھتے تھے لیکن زیادن دن نہیں گزرتے تھے کہ قتل ہوجاتے تھے _

4_ خلفائے وقت انقلاب اور قائم کے سلسلہ میں بہت زیادہ حساس تھے ، وہ ہمیشہ خوف و ہارس میں مبتلا اور حالات کے سلسلے میں پریشان رہتے تھے ، وہ علوى سادات خصوصاً ان کے سربرآوردہ افراد پر نظر رکھتے تھے _ مذکورہ احادیث ایسے ہى حالات میں صادر ہوئی ہیں _ جو شیعہ مختلف قسم کى بلاؤں میںمبتلا تھے وہ ائمہ سے قیام کرنے اور مسلمانوں کو غاصب حکومتوں سے نجات دلانے کے سلسلہ میں اصرار کرتے تھے یا علوى سادات میں سے ان لوگوں کى مدد کرنے کى اجازت مانگتے تھے جو مہدى موعود کے نام سے خروج کرتے تھے _ ائمہ اطہار (ع) فرماتے تھے : مہدى موعود کے قیام کے سلسلے میں عجلت نہ کرو کہ ابھى اس کاوقت نہیں آیا ہے _ خروج کرنے والوں نے مہدى موعود اور قائم آل محمد کے نام سے خروج کیا ہے جب کہ وہ مہدى موعود ہیں ہیں _ مہدى موعود کے ظہور و قیام کى مخصوص علامات ہیں جو کہ ابھى تک آشکار نہیں ہوئی ہیں _ پھر قیام کرنے والوں نے ہمارى امامت کے استحکام کیلئے قیام نہیں کیا ہے _ ان کا انقلاب بھى کامیاب ہونے والا نہیں ہے _ کیونکہ غاصب حکومتوں کى تباہى کے اسباب فراہم نہیں ہوئے ہیں _ حکومت کا تختہ پلٹنا بہت دشوار ہے _ فرماتے تھے : کشائشے حاصل ہونے تک صبر کرو_ اور قیام مہدى کے سلسلہ میں جلد نہ کرو کہ ہلاک ہوجاؤگے _ اور چونکہ تمہارى نیت اصلاح و قیام کى ہے اور اس کے مقدمات فراہم کرنا چاہئے ہو اس لئے تمہیں اس کا ثواب ملیگا _ بہر حال مذکورہ احادیث تعجیل کرنے اور کمزور تحریک سے منع کرتى ہیں _ یہ نہیں کہتى ہیں کہ مکمل تحریک کے مقدمات فراہم کرنے کیلئے ظلم و ستم اور کفر و بے دینى سے مبارزہ نہ کرو ان احادیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ جہاد، دفاع امر بالمعروف ، نہى عن المنکر کا فریضہ امام زمانہ کى غیبت میں ساقط ہے _ اس زمانہ میں لوگوں کو فساد کا تماشہ دیکھنا چاہئے صرف تعجیل ظہور امام زمانہ کیلئے دعا کریں _ چنانچہ ان احادیث کو انقلاب و تحریک کے مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا ہے _


پانچواں حصّہ

جو روایات حضرت قائم قائم کے ظہور سے قبل ہر پرچم کے بلند کرنے والے کو طاغوت قراردیتى ہیں _


حدیث اول :

محمد بن یحیى عن احمد بن محمد عن الحسین بن سعید عن حماد بن عیسى عن الحسین بن المختار عن ابى بصیر عن ابیعبداللہ علیہ السلام قال : کل رایة ترفع قبل قیام القائم فصابحہا طاغوت یعبد من دون اللہ _( وسائل الشیعہ ج ... ص 37)

امام صادق (ع) کا ارشادہے : جو پرچم بھى قائم کے قیام سے قبل بلند کیا جائے گا اس کابلند کرنے والا شیطان ہے ، جو کہ خدا کے علاوہ اپنى عبادت کراتا ہے _


سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _ اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

 

حدیث دوم :

محمد بن ابراہیم النعمانى عن عبد الواحد بن عبداللہ قال حدثنا احمد بن محمد بن ریاح الزہرى قال حدثنا محمد بن العباس عن عیسى الحسینى عن الحسن بن على بن ابى حمزة عن ابیہ عن مالک بن اعین الجہنى عن ابى جعفر علیہ السام انہ قال کل رایة ترفع قبل رایة القائم فصاحبہا طاغوت( مستدر ک الوسائل ج 2 ص 248)

امام محمد باقر علیہ السام کا ارشاد ہے : جو پرچم بھى مہدى کے پرچم سے پہلے بلند کیا جائے گا ، اس کا بلند کرنے والا شیطان ہے _


سند حدیث

روایت کے معنى پرچم کے ہیں اور پرچم بلند کرنا کنایہ ہے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے اور صاحب پرچم عبارت ہے ہراس تحریک کے قائد سے جو کہ موجودہ حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے لوگوں سے مدد مانگتا ہے _ طاغوت یعنى ظالم و جابر شخص جو حریم الہى پر تجاوز کرے اور خدا کى حاکمیت کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنى حاکمیت قبول کرنے پر مجبور کرے _ جملہ یعبد من دون اللہ اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ صاحب پرچم حکومت خدا کے مقابلہ میں ایک حکومت بنانا چاہتا ہے اور دینى تمنّا پورى کرنا چاہتا ہے ایسے پرچم کے حامل کو طاغوت و شیطان کہا گیا ہے _ اس بناپر گزشتہ احادیث کے معنى یہ ہوں گے کہ جو پرچم بھى قیام مہدى سے قبل بلند کیا جائیگا اور اس کا حامل لوگوں کو اپنى طرف بلائے گا تو ایسے پرچم کا حامل شیطان ہے کہ جس نے حریم الہى پر تجاوز کیا ہے اور لوگوں کو اپنى اطاعت کى دعوت دى ہے _ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ غیر اسلامى تحریکیں قابل قبول نہیں ہیں _ لیکن اگر کوئی تحریک دین حاکمیت اور قرآن کے قوانین سے دفاع کے عنوان سے وجود میں آتى ہے تو وہ قابل قبول ہے _ کیونکہ یہاں پرچم دین کے مقابلہ میں علم بلند نہیں کیا گیا ہے چنانچہ ایسى تحریک کا قائد بھى طاغوت نہیں ہے بلکہ وہ طاغوت کا مخالف ہے _ ایسا قائد ورہبر لوگوں کو اپنى اطاعت کى دعوت نہیں دیتا ہے بلکہ رب العالمین کى عبادت کى دعوت دیتا ہے _ ایسا پرچم قائم آل محمد کےعلم کے مقابلہ میں بلند ہیں کیا جاتا ہے بلکہ امام زمانہ کى عالمى حکومت کیلئے زمین ہموار کرے گا _ کیا یہ بات کہى جا سکتى ہے کہ ظہور امام زمانہ سے قبل ہر بلند کئے جانے والے پرچم کا حامل شیطان ہے ؟ کیا معاویہ کى طاغوتى حکومت کے خلاف على (ع) نے قیام نہیں کیا تھا؟ کیا امام حسن (ع) نے معاویہ سے اعلان جنگ نہیں کیا تھا ؟ کیا امام حسین (ع) نے اسلام سے دفاع کى خاطر یزید (لعن) سے جنگ نہیں کى تھى ؟ کیا زید بن على (ع) بن حسین نے قرآن سے دفاع کیلئے ظلم و ستم کے خلاف انقلاب برپا نہیں کیا تھا؟


خلاصہ

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس حصہ کى اکثر احادیث ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ان سے تمسک نہیں کیا جا سکتا _ مذکورہ احادیث کا لب لباب یہ ہے _

1_ جو شخص بھى قیام کرے اور تم سے مدد طلب کرے تو تم سوچے سمجھے بغیر اس کى آواز پر لبیک نہ کہو بلکہ آواز دینے والے اور اس کے مقصد کى تحقیق کرو _ اگر اس نے مہدى موعود کے عنوان سے قیام کیا ہے یا اس کا مقصد باطل ہے تو اس کى آواز پر لبیک نہ کہو _ کیونکہ امام زمانہ کے ظہور اور قیام کا وقت نہیں آیا ہے _

2_ یہ احادیث ان شیعوں کو جو کہ ائمہ سے قیام کرنے کااصرار کرتے تھے ، اس خارجى حقیقت کى خبر دیتى ہے کہ قائم آل محمد کے قیام سے قبل ہم ائمہ میں سے جو بھى قیام کرے گا اس کا قیام ناکام ہوگا اور شہید کردیا جائے گا _ کیونکہ حضرت مہدى کے عالمى انقلاب کے مقدمات فراہم نہیں ہوئے ہیں _

3_ حضرت مہدى کے ظہور کے مخصوص علامات ہیں چنانچہ ان علائم کے ظاہر ہونے سے قبل جو شخص بھى مہدى موعود کے عنوان سے قیام کرے اس کى دعوت قبول نہ کرو _

4_ کسى بھى حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے اسباب و مقدمات کى فراہمى کى ضرورت ہوتى ہے مقدمات و اسباب کى فراہمى سے قبل تحریک و انقلاب میں عجلت سے کام نہ لو ورنہ ناکام ہوگا _

5_ قائم آل محمد کے قیام سے قبل حاکمیت خدا کے مقابلہ میں جو پرچم بلند ہوگا اس کا حاکم شیطان ہے کہ جس نے عظمت خدا کو چینج کیا ہے لہذا اس کى آواز پر لبیک نہین کہنا چاہئے _

مذکورہ احادیث صرف ان انقلابات کى تردید کرتى ہیں کہ جن کا رہبر مہدویت کا مدعى ہو اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرے یا باطل اس کا مقصدہو یا ضرورى اسباب کے فراہم ہونے سے قبل قیام کرے _ لیکن اگر انقلاب کا رہبر مہدویت کے عنوان سے قیام نہ کرے ، اور حاکمیت خدا کے مقابلہ میں حکومت کى تشکیل کیلئے انقلاب برپا نہ کرے بلکہ اس کا مقصد اسلام و قرآ ن سے دفاع، ظلم و استکبار سے جنگ ، حکومت الہى کى تشکیل اور آسمانى قوانین کا نفاذ ہو اور اس کے اسباب فراہم کر لیئےوں اور ان تمام چیزوں کے بعد وہ لوگوں سے مدد طلب کرلے تو مذکورہ روایات ایسے انقلاب و قیام کى مخالفت نہیں کرتى ہیں _ ایسى تحریک کا پرچم شیطان کا پرچم نہیں ہے بلکہ یہ علم طاغوت کے خلاف ہے _ ایسى حکومت کى تشکیل خدا کى حکومت کے مقابلہ میں نہیں ہے بلکہ یہ تو حاکمیت خدا اور امام مہدى کى عالمى حکومت کیلئے زمین ساز ہے _ اس بناپر مذکورہ احادیث ایسے انقلاب و تحریک کى مخالفت نہیں کرتى ہیں _
نتیجہ بحث

چونکہ ہمارى بحث بہت طویل ہوگئی ہے اس لئے دو حصوں کے خلاصہ کو بھى اشارتاً بیان کرنا ضرورى ہے _ اس کے بعد نتیجہ بیان کریں گے _ پہلے حصہ میں درج ذیل مطالب کا اثبات ہوا ہے :

1_ قوانین اور سیاسى و اجتماعى منصوبے اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں جیسے ، جہاد ، دفاع ، ظلم و بیدادگرى سے جنگ ، عدل و انصاف کى ترویج ،جزاء و سزا کے قوانین ، شہرى حقوق ، امر بالمعروف ، نہى عن المنکر اور مسلمانوں کے آپسى و کفار سے روابط و غیرہ _

2_ اسلام کے احکام و قوانین نفاذ و اجراء کیلئے آئے نہ کہ پڑھنے اور لکھنے کے لئے _

3_ اسلام کے قوانین کامکمل اجراء حکومت کى تأسیس اور ادارى تشکیلات کا محتاج ہے مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ ایسے افراد کا وجود ضرورى ہے کہ جو آسمانى قوانین کے اجراء کى ذمہ دارى قبول کریں اور اس طرح مسلمانوں کے معاشر ہ کو چلائیں _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں شامل ہے اور اس کے بغیر کامل طور پر اسلام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

4_ مسلمانوں کے امور کى زمام اور قوانین اسلام کے اجراء کى ذمہ دارى عملى طور پر پیغمبر اسلام کے دست مبارک میں تھى _

5_ اسلام کے سیاسى و اجتماعى قوانین کا مکمل اجراء رسول خدا کے زمانہ ہى میں واجب نہیں تھا بلکہ تا قیامت واجب رہے گا _

6_ جب پیغمبر اکرم بقید حیات ہوں یا مسلمانوں کى معصوم امام تک رسائی ہو تو اس زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ حکومت کى تأسیس اور پیغمبر یا امام کى طاقت کے استحکام کى کوشش کریں اور اس کے فرمان کى اطاعت کى اطاعت کریں _ اوراگر مسلمانوں کے درمیان میں ایسا کوئی معصوم نہ ہو تو بھى مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ پرہیزگار فقیہ کو اپنا مدار الہام بنائیں اور اس کى ولایت و حکومت کے استحکام کى کوشش کریں اور اس کے فرمان کى اطاعت کریں _ یعنى ایسی حکومت تشکیل دیں جو اسلام کے پروگراموں کو نافذ کرسکے اور اسلامى حکومت کے یہى معنى ہیں _

اس بحث کے دوسرے حصہ میں آپ نے مخالف احادیث اور ان کے مفہوم کو ملاحظہ فرمایا ہے _

اب آپ ہى فیصلہ فرمائیں کہ مذکورہ احادیث اپنى سند و دلالت کے باوجود مسلمانوں سے ایسى قطعى و حتمى فریضہ ، یعنى قوانین اسلام کے نفاذ ، کو ساقط کرسکتى ہیں؟

کیا ان احادیث کو ان آیات و روایات کے مقابل میں لایاجا سکتاہے جو کہ جہاد دفاع امر بالمعروف ، نہى عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ اور مستضعفین سے دفاع کو واجب قرار دیتى ہیں ؟ کیا غیبت امام زمانہ میں اس فرضہ کو مسلمانوں سے ساقط کیاجا سکتا ہے ؟ کیا ایسى احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شارع اسلا م نے اس زمانہ میں اپنے سیاسى و اجتماعى احکام سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور ان کے اجراء کو امام مہدى کے زمانہ پر موقوف کردیا ہے ؟ کیا ایسى احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام سے دفاع کرنا واجب نہیں ہے حتى اس کى اساس ہى کیوں نہ خطرہ میں ہو ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں پر خاموش رہنا واجب ہے خواہ کفار و مشرکین ان کى تمام چیزوں پر قابض ہوجائیں ، ان کے جان و مال اور ناموس پر مسلط ہوجائیں ، انھیں ظہور امام تک صبر کرنا چاہئے ؟ کیا مذکورہ احادیث اس سند و مفہوم کے باوجود درج ذیل آیات کے مقابل میں آسکتى ہیں؟

فقاتلوا ائمة الکفر انہم لا ایمان لہم ( توبہ/ 12)

کفر کے سر غناؤ سے جنگ کرو کہ ان کى کسى قسم کا اعتبا رنہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة (توبہ / 36)

اور مشرکین سے تم سب ہى جنگ کرو جیسا کہ وہ تم سے جنگ کرتے ہیں _

و قاتلوہم حتى لا تکون فتنة و یکون الدین کلہ للہ ( انفال/ 29)

اور ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا ہى باقى رہے

و ما لکم لا تقاتلون فى سبیل اللہ والمستضعین ( نسائ/ 75)

اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ راہ خدا اور مستضعفین کى نجات کیلئے جہاد نہیں کرتے؟

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کا ن ضعیفا ( نساء / 75)

پس شیطان کااتباع کرنے والوں سے جنگ کرو بے شک شیطان کا مکر بہت ہى کمزور ہے _

و جاہد فى اللہ حق جہادہ ( حج / 78)

اور راہ خدا میں اس طرح جہاد کرو جو اس کاحق ہے _

و قاتلوا فى سبیل اللہ الذین یقاتلونکم و لاتعتدوا ( بقرہ / 190)

اور راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں پس حد سے نہ گزر جاؤ _ و لتکن منکم امة یدعون الى الخیر و یأمرون بالمعروف و ینہون عن المنکر _ (آل عمران / 104)

اور تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے جو نیکیوں کى طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف اور نہى عن المنکر کریں _

یا ایہا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء للہ ( نسائ/ 135)

ایمان لانے والو عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کیلئے گواہ بنو_

واعدّوا لہم مااستعطتم من قوة و من رباط الخیل ترہبون بہ عدواللہ و عدوکم ( انفال / 60)

او ر تم جہاں تک ہوسکے طاقت اور گھوڑوں کى صف بندى کا انتظام کرو کہ جس سے تم اپنے دشمن اور اللہ کے دشمنوں کو ڈرا سکو _

ایسى ہى دسیوں آیت اور سیکڑوں احادیث ہیں _ مذکورہ احادیث ہرگز مسلمانوں سے اسلام کے قطعى و حتمى فریضہ کو ساقط نہیں کرسکتى ہیں بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ دین کى اشاعت ، اسلام ومسلمانوں سے دفاع اور قرآن کے حیات بخش پروگراموں کے اجراء میں کوشش کریں خواہ اس سلسلہ میں سب کو جہاد کرنا پڑے _

اس اہم امر کو انجام دینے کے سلسلہ میں فقہائے اسلام اور علمائے دین کى سخت ذمہ ارى ہے _ کیونکہ وہ انبیاء کے وارث ، دین کے نگہبان اور لوگوں کى پناہ گاہ ہیں _ کیا علما و فقہا کو یہ حق حا صل ہے کہ وہ انکفار مستکبرین اور طاغوت کے مقابلہ میں خاموش رہیں کہ جنہوں نے ملت اسلامیہ کو بدبخت بنا دیا ہے ؟ اور مستضعفین و محرومین کو ایک عظیم انقلاب کى تشویق نہ دلائیں ؟ کیا حضرت امیر المؤمنین (ع) نے نہیں فرمایا؟

'' قسم اس خدا کى جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور انسانوں کو پیدا کیا ، اگر میرى بیعت کیلئے اتنا مجمع نہ آتا اور اس طرح مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتى اگر خدا نے على سے یہ عہد نہ لیا ہو تا کہ وہ ظالم کى شکم پرى اور مظلوم کى گرسنگى پر خاموش نہیں بیٹھیں گے تو میں شنر خلافت کى رسى کو اس کى پشت پر ڈالدیتا کہ وہ جہاں چاہے چلا جائے ''_ (20)

کیا امام حسین (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) سے یہ نقل نہیں کیا ہے ؟:

من را ى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم ناکثاً لعہد اللہ مخالفاًلسنة رسول اللہ صلى اللہ علیہ و آلہ یعمل فى عباداللہ بالاثم و العدوان فلم یغیّر علیہ بفعل و لا قول کان حقاً على اللہ ان یدخلہ مدخلہ '' (21)

'' جو شخص ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے حرام خدا کو حلال کردیا ہے اور حدود خدا کو توڑدیا ہے ، پیغمبر (ص) کى سنت کو پامال کررہا اور خدا کے بندوں کے درمیان گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اس کے باوجود (دیکھنے والا) اپنے قول و عمل سے اس کى مخالفت نہ کرے تو خدا کو حق ہے کہ اسے ظالم کے ساتھ جہنّم میں ڈالد ے '' _

 

دوسرى جگہ امام حسین (ع) فرماتے ہیں :

ذالک بان مجارى الامور والاحکام على ایدى العلماء باللہ الامناء على حلالہ و حرامہ ، فانتم المسلموبوت تلک المنزلة و ما سلبتم ذالک الاّ بتفرقکم ع الحق و اختلافکم فى السنة بعد البیّنة الواضعة و لو صبرتم على الاذى و تحملتم المؤونة فى ذات اللہ کانت امور اللہ علیکم تردو عنکم تصدر والیکم ترجع و لکنکم مکنتم الظلمة من منزلتکم و استسلمتم امور اللہ فى ایدیہم یعمولن بالشبہات و یسیرون فى الشہوات سلّطہم على ذالک فرارکم من الموت و اعجابکم بالحیاة التى ہى مفارقتکم فاسلمتم الضعفاء فى ایدیہم فمن بین مستعبد مقہور و بین مستضعف على معیشتہم مغلوب ، یتقلبون فى الملک بآرائہم و یستشعرون الخز ى باہوائہم اقتداء ً بالاشرار و جراة على الجبار _ (22)

یہ اس لئے ہے کہ امور و احکام علماء کے ہاتھ میں ہیں وہ خدا کے حلال و حرام میں اس کے امین ہیں اور تم نے اس عظمت و منزلت کو گنوادیا ہے اور یہ عظمت تم سے اس لئے سلب ہوئی ہے کہ تم نے حق کے سلسلہ میںافتراق کیا اور واضح دلیلوں کے باوجود سنت پیغمبر کے بارے میں اختلاف کیا _ اگر تم نے صبر کیا ہوتا اور راہ خدا میں سختیاں برداشت کى ہوتیں تو امور خدا تم پر وارد ہوتے اور تم ہى سے صادر ہوتے اور تم ہى سے رجوع کیا جاتا لیکن تم نے اپنے فریضہ کى انجام وہى میں کوتاہى کرکے اپنى جگہ پر دشمن کو بٹھادیا ہے اور امور خدا کو اس کے سپردکردیا تا کہ وہ جیسا چاہیں کریں _ تمہارے موت سے فرار کرنے اور دنیا سے دل لگانے کى وجہ سے وہ تم پر مسلط ہوگئے کمزور و محروم لوگوں کو تم ہى نے ظالموں کے ہاتھ میں دیا ہ تا کہ وہ ان میں سے بعض کو غلام بنالیں اور بعض کونان شبینہ کا محتاج بنادیں اور ظلم اپنى خواہش کے مطابق حکومت کریں اور اپنى ملت کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کریں اور اس میں وہ اشرار کى پیروى کریں اور خدا کى مخالفت میں جرى ہوجائیں _

علماء و فقہا پر اسلام میں اتنى ہى سنگین ذمہ دارى ہے _ اگر وہ اس اہم ذمہ دارى کى ادائیگى میں کوتاہى کریں گے تو قیامت میں ان سے بازپرس ہوگى _ صرف درس دینا بحث و مباحثہ ، تقریرات نویسى ، نماز پڑھنا اور مسائل بیان کرنا ہى نہیں ہے بکلہ ان کا سب سے بڑا فریضہ دین اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، کفر و الحاد سے جنگ اور اسلام کے احکام و قوانین کے اجراء میں کوشش کرنا ہے _ اگر اس سلسلے میں کوتاہى کریں گے تو خدا کے سامنے وہ کوئی عذر پیش نہیں کر سکیں گے اوراس اہم ذمہ دارى کو چند ضعیف حدیثوں سے تمسک کرکے وہ سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں _

کیا خدا و رسول (ص) ہمیں اس بات کى اجازت دیتے ہیں کہ ہم دشمنوں کى خطرناک سازشوں اور اسلامى ممالک سے ان کى افسوس ناک رقابت پر خاموش رہیں اور ماضى کى طرح بحث و مباحث اور اقامہ نماز پر اکتفا کریں؟ ہرگز نہیں _

 

 

 

1_ ان احادیث کو وسائل الشیعہ ج 1 ص 35 تا 41 اور بحار الانوار ج 52 میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے _
2_ وسائل الشیعہ ج 11 ص 35 ، بحارالانوار ج 52 ص 301_
3_ مقاتل الطالبین / 157_
4_ مقاتل الطالبین / 158
5_ مقاتل الطالبین / 163
6_ عیون الاخبار باب 25_
7_ مقاتل الطالبین ص 88_
8_ مقاتل الطالبین / ص 88
9_ بحارالانوار ج 46 ص 199
10 _ بحارالانوار ج 6 4 ص 199
11_ بحارالانوار ج 6 4 ص 199
12 _ بحار الانوار ج 6 4 ص 196
13 _ مقاتل الطالبین ص 91
14 _ مقاتل الطالبین ص 99
15_بحارالانوار ج 46 ص 174
16_ بحار الانوار ج 46 ص 174
17_ بحارالانوار ج 46 ص 174
18_ بحارالانوار ج48ص315
19- مستدرک الوسائل ج 2 ص 248.
20_ نہج البلاغہ خطبہ /2_
21_ الکامل فى التاریخ ج 4 ص 48 چھاپ بیروت _
22_ تحف العقول ص 242_