پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

كيا امام حسن عسكرى (ع) كے يہاں كوئي بيٹا تھا؟

کیا امام حسن عسکرى (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کى رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالى صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالى : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکرى کے یہاں کوئی بیٹا ہى نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکرى (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والى احادیث میں اس بات کى تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن على محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانى غیبت کے بعد لوگوں کى اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدى حسین (ع) کى نویں پشت میں ہیں ، مہدى حضرت صادق کى چھٹى اولاد ہیں ، مہدى موسى کاظم (ع) کى پانچویں اولاد ہیں ، مہدى امام رضا (ع) کى چوتھى اولاد ہیں مہدى امام محمد تقى کى تیسرى اولاد ہیں _

ب _ بہت سى احادیث میں اس بات کى تصریح ہوئی ہے کہ مہدى موعود گیارہویں امام حسن عسکرى کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

صقر کہتے ہیں : میں نے على بن محمد سے سنا کہ آپ (ع) نے فرمایا:

'' میرے بعد میرے بیٹے حسن ( عسکری) امام ہیں اور ان کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ زمین کو اسى طرح عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھى چکى ہوگى '' _ (1)

ج: اما م حسن عسکرى (ع) نے متعدد احادیث میں اس بات کى خبر دى ہے کہ قائم و مہدى میرا بیٹا ہے اور امام و پیغمبر جھوٹ و خطا سے منزہ ہیں ان احادیث میں سے بعض یہ ہیں :

محمد بن عثمان نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے:

'' میں امام حسن عسکرى کى خدمت میں تھا کہ آپ (ع) سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا گیا جو کہ کہ ان کے آباء و اجداد سے نقل ہوئی ہے کہ تا قیامت زمین حجت خدا سے خالى نہیں رہے گى اور جو شخص اپنے زمانہ کے امام کى معرفت کے بغیر مرجائے ، وہ جہالت کى موت مرتا ہے _ امام (ع) نے جواب دیا : '' یہ بات تو روز روشن کى طرح واضح اور حق ہے'' _ عرض کیا گیا : اے فرزند رسول (ص) آپ (ع) کے بعد امام و حجت کوں ہے ؟ فرمایا: '' میرے بیٹے محمد حجّت و امام ہیں اور جوان کے معرفت کے بغیر مرے گا وہ جہالت کى موت مرے گا _ آگاہ ہوجاؤ میرا بیٹا غیبت میں رہے گا ، اس زمانہ میں دنیا والے سرگردان ہوں گے ، باطل پرست ہلا ک ہوں گے اور جو شخص ان کے ظہور کے وقت کو معیّن کرتا ہے وہ جھوٹا ہے وہ اپنى غیبت کا زمانہ ختم ہوجانے کے بعد قیام کریں گے گویا میں سفید پرچم نجف میں ان کے سر پر لہراتا ہوا دیکھ رہا ہوں _ (2)

د_ امام حسن عسکرى (ع) نے اپنے بیٹے کى ولادت کى چند اشخاص کو خوشخبرى دى ہے ازباب مثال ملا حظہ فرمائیں :

1_ فضل بن شاذان جن کا انتقال حضرت حجت کى ولادت کے بعد اور امام حسن عسکرى کى شہادت سے قبل ہوا تھا ،انہوں نے اپنى کتاب غیبت میں محمد بن على بن حمزہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے امام حسن عسکرى سے سنا کہ آپ(ع) فرمارہے تھے :

''15 شعبان (255) کى شب میں طلوع فجر کے وقت حجت خدا اور میرا جانشین مختون پیدا ہوا ہے '' _(3)

2_ احمد بن اسحاق کہتے ہیں : میں نے اما م حسن عسکرى (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرما رہے تھے :

''حمد ہے اس خدا کى جس نے میرے مرنے سے قبل ہى مجھے میرا جانشین دکھا دیا ، اخلاق و خلق میں وہ سب سے زیادہ رسول(ص) سے مشابہ ہے ،ایک مدت تک خدا انھیں پردہ غیب میں رکھے گا اس کے بعد انھیں ظاہر کرے گا تا کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں '' _(4)

3_ احمد بن حسن بن اسحاق قمى نے روایت کیہے کہ جب خلف صالح پیدا ہوئے اس وقت امام حسن (ع) کاخط احمد بن اسحاق کے بدست میرے پاس پہنچا اس میں آپ نے اپنے دست مبارک سے تحریر کیا تھا کہ:

''ہمارے یہاں بیٹے کى ولادت ہوئی ہے ، اس بات کو مخفى رکھنا کیونکہ میں بھى سوائے اپنے دوستوں کے اور کسى سے بیان نہیں کروں گا ''_ (5)

4_ اسحاق بن احمد کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکرى (ع) کى خدمت میں شرفیاب ہوا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''احمد جس چیز کے بارے میں لوگ شک میں مبتلا ہیں اس کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں نے عرض کى : ہمارے زن و مرد اور بوڑھے جوان پر تو حق اس وقت آشکار ہوگیا تھا جب آپ (ع) نے خط کے ذریعہ بیٹے کى ولادت کى خوشبخرى دى تھى چنانچہ ہم ان کے معتقد ہوگئے ہیں '' _(6)

5_ ابوجعفر عمرى نے روایت کى ہے کہ جب صاحب الامر پیدا ہوئے اس وقت امام حسن عسکرى (ع) نے فرمایا:

'' ابو عمر کو بلاؤ'' ، جب میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا: دس ہزار طل (7) نان اور دس ہزار رطل گوشت خرید کر لاؤ اور بنى ہاشم میں تقسیم کردو اور خلال گوسفند سے میرے بیٹے کا عقیقہ کرو _(8)

احادیث و اخبار کے اس مجموعہ سے یہ اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ امام حسن عسکرى کے یہاں بیٹا تھا_

 

 

1_ اثبات الہداة ج 6 ص 275_
2_ بحار الانوار ج51 ص 160_
3_ منتخب الاثر طبع اول ص 320_
4_ بحار الانوار ج 51 ص 161_
5_ اثبات الہداة ج 6 ص 432_
6_ منتخب الاثر طبع اول ص 345_
7_ یعنى آدھا سیر
8_ اثبات الہداة ج 6 ص 430_