غیبت صغرى وکبری
جلالى : غیبت صغرى و کبرى کے کیا معنى ہیں ؟
ہوشیار : بارہویں امام دو مرتبہ لوگوں کى آنکھوں سے پوشیدہ ہوئے ہیں _پہلى مرتبہ اپنى پیدا ئشے کے سال 255 یا 256 یا اپنے والد کے انتقال کے سال سے 329 ھ تک اس زمانہ ہیں آ پ اگر چہ عام لوگوں کى نگاہوں سے پوشیدہ تھے لیکن رابطہ با لکل منقظع نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کے نا ئب آپ کى خدمت میں پہنچتے اور لوگوں کى ضرور توں کو پورا کرتے تھے غیبت کے اس 69 یا 74 سالہ زمانہ کو غیبت صغرى کہتے ہیں _
دوسرى غیبت 329 ھ سے شروع ہوئی اس میں نواب کا سلسلہ بھى ختم ہوگیا اور ظہور تک جارى رہے گى _ اس کو غیبت کبرى کہتے ہیں پیغمبر اکرم اور ائمہ پہلے ہى دونوں غیبتوں کى خبر دے چکے تھے ، مثلا :
اسحاق بن عمار کہتے ہیں : میں نے امام جعفرى صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا :
'' قائم کى دو غیبتیں ہوں گى ، ایک طولانى دوسرى چھوٹى غیبت صغرى میں خاص شیعوں کو ان کى قیام گاہ کا علم ہوگا _ لیکن دوسرى میں آپکے مخصوص دینى دوستوں کے علاوہ آپ کى قیام گاہ کا کسى کو پتہ نہیں ہوگا (1)
آپ ہى کا ارشاد ہے :
صاحب الامر کى دوغیبتیں ہیں : ایک ان میں سے اتنى طویل ہوگى کہ ایک گروہ کہے گا : مر گئے ہیں ، دوسر ا کہے گا : قتل کرد یئےئے ،تیسرا کہے گا : چلے گئے _ معدود افراد ایسے ہوں گے جو آپ کے وجود کے معتقد رہیں گے اور انہى کا ایمان ثابت و استوار ہے _ اس زمانہ میں آپ کى قیام گاہ کا کسى کو پتہ نہ ہوگا ، ہاں ان کے مخصوص خدمت گار جانتے ہوں گے _ (2) آ ئھ حدیثیں اور ہیں
غیبت صغرى اور شیعوں کا ارتباط
فہیمى: میں نے سنا ہے کہ : غیبت صغرى کے شروع ہونے کے بعد بعض فریب کاروں نے سادہ لوح لوگوں سے غلط فائدہ اٹھا یا اور یہ دعوى کر کے کہ ہم امام غائب کے نائب ہیں لوگوں کو فریب دیا اور اس طرح اپنى حیثیت بنالى اور لوگوں کے مال سے اپنے گھر بھر لئے _ جناب عالى اس بات کى وضاحت فرمائیں یہ نواب کون تھے ؟ اور امام زمانہ سے لوگوں کے رابطہ کا وسیلہ کیا تها ؟
هوشیار : غیبت صغری کے زمانہ میں عام لوگ صاحب الامر کى ملاقات سے محروم تھے _ لیکن رابط با لکل منقطع نہیں ہوا تھا _ چنانچہ وہ ان افراد کے ذریعہ جنھیں نائب ، وکیل اور باب کہا جاتا تھا امام سھ رابطہ قائم کرتے ، اپنى دینى مشکلوں کوحل کرتے اور دیگر ضرور توں کو پورا کرتے تھے ، اپنے اموال سے سہم امام نکال کرانھیں کے ذریعہ بھیج دتیے تھے _ کبھى آپ سے مادى مدد ما نگتے تھے _ کبھى حج اور دوسرے سفر کے لئے اجازت لیتے تھے کبھى مریض کى شفا اور بیٹے کى پیدائشے کیلئے دعا کراتے تھے امام ہى کى طرف سے بعض لوگوں کیلئے پیسہ ، لباس اور کفن بھیجا جاتا تھا_ ان امور میں مخصوص و معین افراد و اسطہ تھے _ حاجتیں خطوط کے ذریعہ ارسال کى جاتى تھیں چنانچہ آپ بھى خط ہى کى صورت میں جواب ارسال فرماتے تھے _ اصطلاح میں آپ کے خطوط کو تو قیع کہتے ہیں _
کیا توقیعات خود امام کى تحریر تھیں ؟
جلالى : توقیعات کو خود امام تحریر فرما تے تھے یا کوئی اور ؟
ہوشیار : ہم کہہ چکے ہیں کہ توقیعات کے کاتب خود امام ہیں _ یہاں تک خواص او رعلمائے وقت کے در میان آپ کا خط ( تحریر ) مشہور تھا چنانچہ وہ اسے اچھى طرح پہچا نتے تھے _ اس کے ثبوت بھى موجود ہیں _
محمد بن عثمان عمرى کہتے ہیں : امام کى طرف سے صادر ہونے والى توقیع کو میں ببخوبى پہچا نتا تھا (3)
اسحاق بن یعقوب کہتے ہیں : محمد بن عثمان کے ذریعہ میں نے اپنے مشکل مسائل امام کى خدمت میں ارسال کئے اور جواب امام زمانہ کے دستخط کے ساتھ موصول ہوا _ (4)
شیخ ابو عمرعامرى کہتے ہیں : شیعوں کى ایک جماعت سے ابو غانم قزوینى نے ایک موضوع کے بارے میں اختلاف و نزاع کى _ شیعوں نے جھگڑا ختم کرنے کے لئے ایک خط میں صورت حال لکھ کر ارسال کردیا اور جواب امام کى دستخط کے ساتھ موصول ہوا '' (5) صدوق فرماتے ہیں : '' جو توقیع امام زمانہ نے اپنے دست مبارک سے میرے والد کیلئے رقم کى تھى وہ میرے پاس ابھى تک موجود ہے '' (6)
مذکورہ افرادنے اس بات کى تو گواہى دى ہے کہ وہ خطوط امام زمانہ کى تحریرہوتے تھے لیکن اس سے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس طریقہ سے امام زمانہ کا خط پہچانتے تھے کیونکہ غیبت کے زمانہ میں مشاہدہ کا امکان نہیں تھا اس کے علاوہ بعض اشخاص نے اس کے برخلاف کہا ہے _ مثلاً ابو نصر ہبة اللہ نے روایت کى ہے کہ صاحب الامر کى توقیعات وہ جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے ذریعہ شیعوں تک پہنچتى تھیں ان کا وہى خط ہے جو امام حسن عسکرى کے زمانہ کى توقیعات کا تھا _ (7)
پھر ابو نصر ہى کہتے ہیں : 304 ھ میں ابوجعفر عمرى کا انتقال ہوا_ تقریباً وہ پچاس سال تک امام زمانہ کے وکیل رہے _ ان کے پاس لوگ اپنے اموال لاتے تھے اور وہ بھى شیعوں کو اسى خط میں امام کى توقیعات دیتے تھے جس میں امام حسن عسکرى کے زمانہ میں لکھى جاتى تھیں (8)_
دوسرى جگہ کہتے ہیں : امام زمانہ کى توقیعات محمد بن عثمان اسى خط میں لکھتے تھے جس میں امام حسن عسکرى (ع) کے زمانہ میں ان کے باپ عثمان بن سعید لکھتے تھے _ (9)
عبداللہ بن جعفر حمیرى کہتے ہیں : عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد صاحب الامر کى توقیعات اسى خط میں صادرہوتى تھیں جس میں ہم سے پہلے خط و کتابت ہوتى تھى _ (10)
ان روایات سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ جو توقیعات عثمان بن سعید او ر ان کے بعد محمد بن عثمان کے توسط سے لوگوں تک پہنچى ہیں ان کا خط بالکل وہى تھا کہ جس میں امام حسن عسکرى کے زمانہ میں توقیعات صادر ہوتى تھیں _ یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتى ہے کہ توقیعات امام کے خط میں نہیں تھیں بلکہ یہ کہا جائے کہ امام حسن عسکرى (ع) نے توقیعات اور خط و کتابت کیلئے ایک مخصوص محرّر مقرر کررکھا تھا جو کہ عثمان بن سعید اور محمد بن عثمان کے زمانہ تک زندہ رہا _ یہ بھى کہا جا سکتا ہے کہ بعض توقیعات خود امام نے اور کچھ دوسروں نے تحریر کى ہیں _ لیکن یادرہے کہ زمانہ غیبت صغرى کے علماء اور شیعوں کے حالات اور توقیعات کے متن کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ ان خطوط کى عبارت شیعوں کے نزدیک موثق اور قابل اعتماد تھى اور وہ انھیں امام ہى کى طرف سے سمجھتے اور قبول کرتے تھے_
اختلافات کے سلسلے میں مکاتبہ کرتے اور جواب کے بعد سراپا تسلیم ہوجاتے تھے ، یہاں تک اگر کبھى کسى توقیع کے بارے میں شک ہوجاتاتھا تو بھى مکاتبہ ہى کے ذریعہ حل کرتے تھے _ (11)
على بن حسین بابویہ نے امام زمانہ کى خدمت میں عریضہ ارسال کیا اور بیٹے کى پیدائشے کے لئے دعا کا تقاضا کیا اور اس کا جواب بھى ملا_(12)
جن علا نے غیبت صغرى اور نواب کا زمانہ درک کیا ہے ان میں سے ایک محمد بن ابراہیم بن جعفر نعمانى ہیں _ انہون نے اپنى کتاب '' غیبت'' میں نوّاب کى نیابت اور سفارت کى تائید کى ہے چنانچہ غیبت سے متعلق احادیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : غیبت صغرى کے زمانہ میں امام اور لوگوں کے درمیان معین و مشہور افراد واسطہ تھے ، ان کے توسط سے بیمار شفا پاتے اور شیعوں کى مشکلوں کے حل صادر ہوتے تھے لیکن اب غیبت صغرى کا زمانہ ختم ہوچکا ہے اور غیبت کبرى کا زمانہ آگیا ہے _ (13)
معلوم ہوتا ہے کہ توقیعات کے ساتھ کچھ سچے قرائن و شواہد ہوتے تھے کہ جن کى بناپر علمائے وقت اور شیعہ انھیں تسلیم کرتے تھے _ شیخ حر عاملى لکھتے ہیں : ابن ابى غانم قزوینى شیعوں سے بحث کرتا اور کہتا تھا : امام حسن عسکری(ع) کے یہاں کوئی بیٹا ہى نہیں تھا _ شیعوں نے امام کى خدمت میں خط ارسال کیا ، وہ بغیر روشنائی کے قلم سے سفید کاغذ پر لکھا جاتا تھا تا کہ علامت و معجزہ بن جائے چنانچہ امام (ع) نے ان کے خط جواب دیا _ (14)
نوّاب کى تعداد
نوّاب کى تعداد میں اختلاف ہے _ سید بن طاؤس نے اپنى کتاب '' ربیع الشیعہ '' میں جو نام ذکر کئے ہیں وہ یہ ہیں : ابو ہاشم داؤد بن القاسم ، محمد بن على بن بلال ، عثمان بن سعید ، محمد بن عثمان ، عمر اہوازى ، احمد بن اسحاق ، ابو محمد الو جناى ، ابراہیم بن مہزیار ، محمد بن ابراہیم (15)_
شیخ طوسى نے وکلاء کے نام اسى طرح نقل کئے ہیں : بغداد سے عمرى ، ان کا بیٹا ، حاجز ، بلالى اور عطار ، کوفہ سے عاصمى ، اہواز سے محمد بن ابراہیم بن مہزیار ، قم سے احمد بن اسحاق ، ہمدان سغ محمد بن صالح ، رَى سے شامى واسدى ، آذربائجان سے قاسم بن العلاء اور نیشاپور سے محمد بن شاذان _ (16)
لیکن شیعوں کے درمیان چار اشخاص کى وکالت مشہور ہے : ا_ عثمان بن سعید 2_ محمد بن عثمان 3_ حسین بن روح 4_ على بن محمد سمرى _ ان میں سے ہر ایک نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کررکھے تھے _(17)
عثمان بن سعید
عثمان بن سعید امام حسن عسکرى (ع) کے موثق و بزرگ صحابہ میں سے تھے _ ان کے متعلق بوعلى لکھتے ہیں : '' عثمان بن سعید موثق و جلیل القدر تھے ، ان کى توصیف کرنا سورج کو چراغ دکھانا ہے '' (18) علامّہ بہبہانى لکھتے ہیں :'' عثمان بن سعید ثقہ اور جلیل القدر ہیں (19) _ امام على نقى اور امام حسن عسکرى نے آپ کى توثیق کى ہے _
احمد بن اسحاق کہتے ہیں :'' میں نے امام على نقى کى خدمت میں عرض کى ہیں کس کے ساتھ معاشرت کروں اور احکام دین کس سے دریافت کروں اور کس کى بات قبول کروں ؟ فرمایا: سعید بن عثمان ہمارے معتمد ہیں _ اگر وہ تم سغ کوئی بات کہیں تو صحیح ہے _ انکى بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے ''_
ابوعلى نقل کرتے ہیں کہ: امام حسن عسکرى سے بھى ایسا ہى سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: عثمان بن سعید اور ان کے بیٹے پرمجھے اعتماد ہے _ تمہارے سامنے وہ جو روایت بھى بیان کریں وہ صحیح ہے _ ان کى بات سنو، اور اطاعت کرو کیونکہ مجھے ان پر اعتماد ہے _ اصحاب کے درمیان یہ حدیث اس قدر مشہور تھى کہ ابو العباس حمیرى کہتے ہیں : ''ہم لوگوں کے درمیان بہت زیادہ مذاکرہ ہوتا تھا اور اس میں عثمان بن سعید کى ستائشے کرتے تھے '' (20)_
محمد بن اسمعیل و على بن عبداللہ کہتے ہیں :'' سامرہ میں ہم لوگ حضرت امام حسن عسکرى کى خدمت میں شرف یاب ہوئے اس وقت شیعوں کى ایک جماعت بھى موجود تھى ناگہان بدر خادم آیا اور عرض کى ایک پریشان بال جماعت آئی ہے ، داخل ہونے کى اجازت چاہتى ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : وہ یمن کے شیعہ ہیں اس کے بعد آپنے بدر خادم سے فرمایا: عثمان بن سعید کو بلاؤ_ عثمان آئے ، امام نے فرمایا : تم ہمارے موثق وکیل ہو یہ جماعت جو مال خدا لیکر آئی ہے _ اسے تحویل میں لے لو _ راوى کہتا ہے : میں نے عرض کى : ہم تو یہ جانتے تھى کہ عثمان بہترین شیعہ ہیں لیکن آپ(ع) نے اس عمل سے ان کا مرتبہ بڑھا دیا اور ان کے ثقہ اور وکیل ہونے کا اثبات کردیا ہے _ آپ (ع) نے فرمایا : حقیقت یہى ہے جان لو کہ عثمان بن سعید میرے وکیل ہیں اور ان کا بیٹا میرے بیٹے مہدى کا وکیل ہوگا _ (21)
امام حسن عسکر ی(ع) نے اپنے بیٹے کے بارے میں چالیس افراد ، منجملہ ان کے على بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاویہ اور حسن بن محبوب ، کے سامنے فرمایا: '' یہ میرا جانشین اور تمہارا امام ہے اس کى اطاعت کرو ،واضح رہے آج کے بعد مدتوں تک تم اسے نہیں دیکھ سکوگے ، عثمان بن سعید کى باتوں کو تسلیم کرو اور ان کے حکم کے مطابق چلو کیونکہ وہ تمہارے امام کا جانشین ہے اور شیعوں کے امور کے حل و فصل اسى کے ہاتھ میں ہیں _ (22)
ان کى کرامات
ان تمام باتوں کے علاوہ ان کى طرف کچھ کرامات بھى منسوب ہیں جس سے ان کى صداقت ثابت ہوتى ہے _ ان میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیں _
شیخ طوسى نے اپنى کتاب ، غیبت میں بنى نوبخت کیایک جماعت منجملہ اس کے ابوالحسن کثیرى سے روایت کى ہے کہ : قم اور اس کے مضافات سے عثمان بن سعید کے پاس کچھ مال بھیجا گیا پہنچا نے والا جب واپس لوٹنے لگا تو عثمان بن سعید نے کہا : ایک اور امانت تمہارے سپردکى گئی تھى وہ تم نے تحویل میں کیوں نہیں دى ؟ اس نے عرض کى : میرے پاس اور کوئی چیز باقى نہیں ہے _ عثمان بن سعید نے کہا : واپس جاؤ اور اسے تلاش کرو _ چند دن تلاش کرنے کے بعد وہ شخص پھر آیا اور کہا : مجھے تو کوئی چیز دستیاب نہیں ہوئی _ فلاں بن فلاں نے ہمارے لئے سردانى کے دوپارچے تمہارے سپردکئے تھے وہ کیا ہوئے ؟ عرض کى : خدا کى قسم آپ کى بات سچ ہے لیکن میں بھول گیا اب نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں _ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنے گھر لوٹ آیا اور بہت تلاش کیا لیکن ناکام رہا _ پھر عثمان بن سعید کے پا گیا ، اور پورا واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا : فلان بن فلاں روئی بیچنے والے کے پاس جاؤ_ روئی کى دو تھیلے تم اس کے پاس لے گئے تھے ، جس تھیلے پر یہ تحریر ہو اسے کھول کر دیکھو وہ امانت تمہیں اس میں ملے گى اس نے حکم کى تعمیل کى پارچہ اس میں ملا تو ان کى خدمت میں پہنچا دیا (23) _
محمد بن على اسود کہتے ہیں : ایک عورت نے مجھے ایک کپڑا دیا تھا کہ اسے عثمان بن سعید کے پاس پہنچا دینا _ دوسرے کپڑوں کے ساتھ اسے میں ان کى خدمت میں لے گیا _ انہوں نے کہا : محمد بن عباس قمى کى تحویل میں دیدو _ میں نے حکم کى تعمیل کی اس کے بعد عثمان بن سعید نے پیغام بھیجا کہ فلاںعورت کا کپڑا تم نے کیوں نہیں دیا ؟ پس اس عورت کے کپڑے کى بات مجھے یاد آگئی تلاش بسیار کے بعد وہ ملاتو میں تحویل میں دے دیا _ (24)
شیخ صدوق نے اپنى کتاب '' اکمال الدین'' میں لکھا ہے :'' ایک شخص عراق سے عثمان بن سعید کے پاس سہم امام لے کر گیا _ عثمان نے مال واپس کردیا اور کہا: اس میں سے چار سو درہم اپنے چچا زاد بھائیوں کا حق نکال دو _ عراقى کو بڑا تعجّب ہوا _ جب اس نے حساب کیا تو معلوم ہوا کہ ابھى تک اس کے چچا زاد بھائیوں کى کاشتکارى کى کچھ زمیں اس کے پاس ہے _ جب صحیح طریقہ سے آنے پائی کا حساب کیا تو ان کے چار سو ہى درہم نکلے _ لہذا اس نے مبلغ مذکور کو اموال سے نکال دیا اور بقیہ کو عثمان بن سعید کے پاس لے گیا ، چنانچہ قبول کر لیا گیا _(25)
اب احباب انصاف فرمائیں ، کیا عثمان بن سعید کے بارے میں وارد ہونے والى احادیث ، امام حسن عسکرى کے نزدیک ان کى قدرومنزلت اور امام حسن عسکرى کے خاص اصحاب کا ان کے سامنے سراپا تسلیم ہونے اور ان کے عادل ہونے پر شیعوں کے اتفاق کے با وجود کیا ان کے وعد ے میں شک کیا جا سکتا ہے کیا یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو فریب دینے کى وجہ سے ایسا کیا؟
محمّد بن عثمان
عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان اپنے باپ کے جانشین ہوئے اور امام کے وکیل منصوب ہوئے _
شیخ طوسى ان کے بارے میں لکھتے ہیں : محمد بن عثمان اور ان کے والد دونوں صاحب الزمان کے وکیل تھے اور امام کى نظر میں معزز تھے _ ( 26 )
مامقانى نے لکھا ہے : محمد بن عثمان کى عظمت و جلالت امامیہ کے نزدیک مسلم ہے _ کسى دلیل و بیان کى محتاج نہیں ہے _ شیعوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ اپنے والد کى حیات میں امام حسن عسکرى کے بھى وکیل تھے اور حضرت حجّت کے بھى سفیر تھے _ (72)
عثمان بن سعید نے تصریح کى ہے کہ : میرے بعد میرا بیٹا میرا جانشین اور نائب امام ہے _ (28)
یعقوب بن اسحاق کہتے ہیں : میں نے محمد بن عثمان کے توسط سے امام زمانہ (ع) کى خدمت میں خط ارسال کیا اور کچھ دینى مسائل معلوم کئے _ امام کى تحریر میں جواب موصول ہوا آپ نے تحریر فرمایا تھا: محمد بن عثمان عمرى موثق ہیں اور ان کے خطوط میرے ہى خط ہیں _ (29)
انکى کرامات
محمد بن شاذان کہتے ہیں کہ : میرے پاس سہم امام کے چار سو اسى درہم جمع ہوگئے تھے _ چونکہ میں پانچ سو سے کم امام کى خدمت میں نہیں بھیجنا چاہتا تھا اس لئے بیس اپنى طرف سے شامل کر کے محمد بن عثمان کے توسط امام کى خدمت میں ارسال کردیئےیکن اس اضافہ کى تفصیل نہ لکھى _ امام کى طرف سے اس کى وصول یابى کى رسید اس تحریر کے ساتھ موصول ہوئی : '' پانچ سو درہم تمہارے بیس درہم کے ساتھ موصول ہوئے '' ( 30)_
جعفر بن متیل کہتے ہیں : محمد بن عثمان نے مجھے طلب کیا ، چند کپڑے اور ایک تھیلى میں کچھ درہم دیئےور فرمایا: '' واسطہ جاؤ اور وہاں پہلا جو شخص ملے یہ کپڑے اور درہم اس کے حوالہ کردو ''_ میں واسطہ کے لئے روانہ ہوا اور پہلے جس شخص سے میرى ملاقات ہوئی وہ حسن بن محمد بن قطاة تھے _ میں نے انھیں اپنا تعارف کرایا ، معانقہ کیا اور کہا :'' محمد بن عثمان نے آپ کو سلام کہلایا ہے اور آپ کے لئے یہ امانت ارسال کى ہے '' _ یہ بات سن کر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا : محمد بن عبداللہ عامرى کا انتقال ہوگیا ہے _ اب میں ان کا کفن لینے کے لئے نکلا ہوں _ جب ہم نے اس امانت کو کو کھولا تو دیکھا کہ اس میں ایک مردہ کے دفن کى تمام چیزیں موجود ہیں _ جنازہ اٹھانے والوں اور گورکن کیلئے کچھ پیسے بھى تھے ، اس کے بعد تشییع جنازہ کے بعد انہیں دفن کردیا '' (31) _
محمد بن على بن الاسود قمى کہتے ہیں :'' محمد بن عثمان نے اپنى قبر تیار کرائی تو میں نے وجہ دریافت کى ، کہا ، مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ :'' اپنے امور کو سمیٹ لو'' چنانچہ اس واقعہ کے دو ماہ بعد ان کا انتقال ہوا _ ( 32)
محمد بن عثمان تقریباً پچاس سال تک نائب امام رہے اور 304 ھ میں انتقال کیا _ (33)
حسین بن روح
امام زمانہ کے تیسرے نائب حسین بن روح ہیں _ وہ اپنے زمانہ کے عقلمند ترین انسان تھے _ محمد بن عثمان نے انھیں امام زمانہ کا نائب منصوب کیا تھا _
بحار میں مجلسى لکھتے ہیں : جب محمد بن عثمان کا مرض شدید ہو گیا تو شیعوں کے سر برآوردہ اور معروف افراد ، جیسے ابو على بن ہمام ، ابو عبداللہ بن محمد کاتب ، ابو عبداللہ باقطانى ، ابو سہل اسماعیل بن على نوبختى اور ابو عبداللہ بن وجنا ان کے پاس گئے اور ان کے جانشین کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : '' حسین بن روح میرے جانشین اور صاحب الامر کے وکیل و معتمد ہیں _ اپنے امور میں ان سے رجوع کرنا _ مجھے امام نے حکم دیا ہے کہ حسین بن روح کو اپنا نائب مقرر کردو '' (34)
جعفر بن محمد مدائینى کہتے ہیں : امام زمانہ کے اموال کو میں محمد بن عثمان کے پاس لے جاتا تھا_ ایک روز چار سودرہم ان کى خدمت میں پیش کیئےو فرمایا : اس پیسہ کو حسین بن روح کے پاس لے جاؤ _ میں نے عرض کى میرى خواہش ہے کہ آپ ہى قبول فرمائیں فرمایا: حسین بن روح کے پاس لے جاؤ، معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے انھیں اپنا جانشین قرار دیا ہے _ میں نے دریافت کیا ، کیا امام زمانہ کے حکم سے آپ نے یہ کام انجام دیا ہے ؟ فرمایا: '' بے شک '' _ پس میں اسے حسین بن روح کے پاس لے گیا _ اس کے بعد سہم امام کو ہمیشہ انہیں کے پاس لے جاتا تھا _ ( 35 )
محمد بن عثمان کے اصحاب و خواص کے درمیان بہت سے افراد تھے جو کہ مراتب میں حسین بن روح سے بلند تھے _ مثلاً جعفر بن احمد متیل کے بارے میں سب کو یقین تھا کہ منصب نیابت ان کے سپرد کیا جائے گا _ لیکن ان کى توقع کے خلاف اس منصب کیلئے حسین بن روح کو منتخب کیا گیا _ اور تمام اصحاب یہاں تک جعفر بن احمد بن متیل بھى ان کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے _ (36)
ابو سہل نوبختى سے لوگوں نے دریافت کیا : حسین بن روح کیسے نائب بن گئے جبکہ آپ اس منصب کے لئے زیادہ سزاوار تھے؟ انہوں نے کہا : امام بہتر جانتے ہیں کہ اس منصب کے لئے کس کا انتخاب کیا جائے _ چونکہ میں ہمیشہ مخالفوں سے مناظرہ کرتا ہوں _ اگر مجھے وکیل بنایا جاتا تو ممکن تھا کہ بحث کے دوران اپنے مدعا کے اثبات کیلئے امام کا پتہ بتا دیتا _ لیکن حسن بن روح مجھ جیسے نہیں ہیں ، یہاں تک کہ اگر امام اس کے لباس میں چھپے ہوں اور لوگ قیچى سے پارہ پارہ کریں تو بھى وہ اپنا دامن نہیں کھولیں گے کہ امام نظر آجائیں _ ( 37 )
صدوق لکھتے ہیں : محمد بن على اسود نے نقل کیا ہے کہ على بن حسین بن بابویہ نے میرے ذریعہ حسین بن روح کو پیغام دیا کہ صاحب الامر(ع) سے میرے لئے دعا کرادیں شاید خدا مجھے بیٹے عطا کرے _ میں نے ان کا پیغام حسین بن روح کى خدمت میں پہنچا دیا تین روز کے بعد انہوں نے اطلاع دى کہ امام نے ان کے لئے دعا کردى ہے عنقریب خدا انہیں ایسا بیٹا عطا کرے گا کہ جس سے لوگوں کو فیض پہنچے گا _ اسى سال ان کے یہاں محمد کى ولادت ہوئی _ اس کے اور بیٹے بھى پیدا ہوئے _ اس کے بعد صدوق لکھتے ہیں جب محمد بن على جب بھى مجھے دیکھتے تھے کہ محمد بن حسن بن احمد کے درس میں آمدورفت رکھتا ہوں اور علمى کتابوں کے پڑھنے اور حفظ کرنے کا بہت زیادہ شوق ہے ، تو کہتے تھے : اس سلسلے میں برابر بھى تعجب نہ کرو کہ تحصیل علم سے تمہیں اتنا شغف ہے کیونکہ تم امام زمانہ کى دعا سے پیدا ہوئے ہو _ (38)
ایک شخص کو حسین بن روح کى نیابت پر شک تھا _ پس اس نے موضوع کى تحقیق کے لئے بغیر روشنائی کے قلم سے ایک خط لکھا اور امام زمانہ کى خدمت میں ارسال کیا چند روز کے بعد امام نے حسین بن روح کے ذریعہ اس کا جواب ارسال فرمایا_ (39) _
326 ھ ، ماہ شعبان میں حسین بن روح نے وفات پائی _ (40)
چوتھے نائب
امام زمانہ کو چوتھے نائب شیخ ابوالحسن على بن محمد سمرى تھے _ ان کے بارے میں ابن طاؤس لکھتے ہیں :'' انہوں نے امام على نقى اور امام حسن عسکرى کى خدمت کى اور ان دونوں امامو ں کا ان سے مکاتبہ تھا اور ان کے لئے بہت سى توقیعات مرقوم فرمائی ہیں _ وہ نمایان اور ثقہ شیعوں میں سے ایک تھے _ (41)
احمد بن محمد صفوانى کہتے ہیں : حسین بن روح نے على بن محمد سمرى کو اپنا جانشین مقرر کیا تا کہ وہ ان کے امور انجام دیں _ لیکن جب على بن محمد سمرى کا وقت قریب آیا تو لوگ ان کى خدمت میںآئے تا کہ ان کے جانشین کے بارے میں سوال کریں _ انہون نے فرمایا : مجھے اپنا نائب بنانے کا حکم نہیں ملا ہے _ (42)
احمد بن ابراہیم بن مخلد کہتے ہیں : ایک دن على بن محمد سمرى نے بغیر کسى تمہید کے فرمایا : خدا على بن بابویہ قمى پر رحم کرے _ حاضرین نے اس جملہ کى تاریخ لکھ لى بعد میں معلوم ہوا کہ اسى دن على بن بابویہ کا انتقال ہوا تھا _ سمرى نے بھى 329 ھ میں وفات پائی _ (43)
حسین بن احمد کہتے ہیں : على بن محمد سمرى کى وفات سے چند روز قبل میں ان کى خدمت میں تھا کہ امام زمانہ کى طرف سے صادر ہونے والے خط کو انہوں نے لوگوں کے سامنے پڑھا _ اس کا مضمون یہ تھا : '' على بن محمد سمری، خدا تمہارے انتقال پر تمہارے بھائیوں کو صبر جمیل عطا کرے _ چھ روز کے بعد تمہارے اجل آجائے گى _ اپنے کاموں کو سمیٹ لو اور اب کسى کو اپنا نائب مقرر نہ کرنا کیونکہ اس کے بعد غیبت کبرى کا سلسلہ شروع ہوگا _ میں اس وقت تک ظاہر نہ ہونگا جب تک خدا کا حکم نہ ہوگا طویل مدت ، دلوں میں قساوت اور زمین ظلم و جور سے نہ بھر جائے گى _ تمہارے در میان ایسے افراد پیدا ہوں گے جو ظہور کا دعوى کریں گے _ لیکن یادر ہے ، سفیانى کے خروج اور آسمانى چیخ سے پہلے جو شخص ظہور کا دعوى کرے گا وہ جھوٹا ہے _ ( 44)
شیعوں کا درمیان چار اشخاص کى نیابت مشہور ہے _ کچھ لوگوں نے انپے مہدى ہونے کا جھوٹا دعوى کیا ہے لیکن دلیل نہ ہونے کى بناپر ان کا جھوٹ آشکار ہوا اور ذلیل ہوئے _ جیسا کا حسن شرعى ، محمد بن نصیر نمیرى ، احمد بن ہلال کرخى ، محمد بن على بن ہلال ، محمد بن على شلمغانى اورابوبکر بغدادى نے کیا تھا _ یہ تھى نوّاب کے بارے میں میرى معلومات _ ان مدارک سے ان کے دعوے کے صحیح ہونے کا اطمینان حاصل ہوجاتاہے _
ڈاکٹر: اس سلسلے میں میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے لیکن آج کى رات ہمارى بحث بہت طویل ہوگئی اسلئے آئندہ جلسہ میں پیش کرونگا _
1_ اثبات الھداة ج 7 ص 69 ، بحارالانوار ج 52 ص155
2 _ بحارالانوار ج 52 ص 153
3_ بحارالانوار ج 51 ص 33
4 _ بحارالانوار ج 51 ص 349 ، اثبات الھداة ج ، ص 460
5_ بحار الانوار ج 53 ص 178_
6_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج 2 ص 22_
7_ بحارالانوار ج 51 ص 346_
8_ بحارالانوار ج 51 ص 352_
9_ بحار الانوار ج 51 ص 350_
10_ بحارالانوار ج 51 ص 349_
11_ بحار الانوار ج 53 ص 150_
12_ بحار الانوار ج 51 ص 306_
13_ کتاب ''غیبت'' /91_
14_ اثبات الہداة ج 7 ص 260_
15_ رجال ابو على طبع سنہ 1102 ھ ص 312_
16_ رجال مامقانى طبع نجف ج 1 ص 200 ، اثبات الہداة ج 7 ص 294_
17_ بحارالانوار ج 51 ص 362_
18_ رجال بوعلى ص 200_
19_ منہج البلاغ مؤلف علامہ بہبہانى ص 219_
20_ بحارالانوار ج 51 ص 348_
21_ بحار الانوار ج 51 ص 345_
22_ بحار الانوار ج 51 ص 346_
23_ بحار الانوار ج 51 ص 316_
24_ بحار الانوار ج 51 ص 335_
25_ بحار الانوار ج 51 ص 326، اثبات اهداةج7 ص 302
26_ منہج المقال ص 305 ، رجال مامقانى ج 3 ص 149 _
27_ رجال مامقانى ج 3 ص 149 _
28_ رجال مامقانى ج 1 ص 200_
29_ بحار الانوار ج 51 ص 349_
30_ بحارالانوار ج 51 ص 337_
31_ بحار الانوار ج 51 ص 351 _
32_ بحار الانوار ج 51 ص 352_
33_ بحارالانوار ج 51 ص 352_
34_ بحارالانوار ج 51 ص 355_
35_ بحار الانوار ج 51 ص 352_
36_ بحار الانوار ج 51 ص 353_
37_ بحار الانوار ج 51 ص 359_
38_ کمال الدین ج 2 ص 180 _
39_ اثبات الہداة ج 7 ص 340_
40_ رجال مامقانى ج 1 ص 200_
41_ رجال مامقانى ج 2 ص 302_
42_ بحاراالانوار ج 51 ص 360_
43_ بحارالانوار ج 51 ص 360_
44_ بحار الانوار ج 51 ص 361 _