احادیث اہل بیت (ع)
تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں
فہیمى :انصاف کى بات تو یہ ہے کہ آپ کى احادیث نے مہدى کى خوب تعریف و توصیف کى ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کى قدر و قیمت نہیں ہے _
ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنى احادیث میں جو کہ قطعى ہیں اور شیعہ ، سنى دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمى مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:
رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :
'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھى گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑى ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو'' (1)
اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنى اپنى کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبى اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکى روایت کى ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کى ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسى پر ان کے بارے میں تاکید کى _
ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کى ہے کہ آپ نے فرمایا:
'' میرے اہل بیت کى مثال کشتى نوح کى سى ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانى کى وہ ہلاک ہوا '' (2)
رسول (ص) کاارشاد ہے :
'' جو چاہتا میرى زندگى جئے او رمیرى موت مرے اورجنت میں درخت طوبى کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد على کو اپنا ولى قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستى کرے اور میرے بعد ائمہ کى اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میرى عترت ہیں ، میرى ہى طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہى ہے ، انھیں ہرگز میرى شفاعت نصیب نہیں ہوگى '' (3)
رسول خد ا نے حضرت على (ع) سے فرمایا:
'' اے على آپ اور آپ کى اولاد سے ہونے والے ائمہ کى مثال کشتى نوح کى سى ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانى کى وہ ہلاک ہوا آپکى مثال ستاروں جیسى ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کى جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جارى رہے گا _ (4)
جابر بن عبداللہ انصارى نے رسول خدا سے روایت کى ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:
'' على (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، على ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کى حجت ہیں _ میرى امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کى پیروى کرنے والے آتش جہنّم سے برى ہیں _ ان کى اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کى محبت خدا اسى کو نصیب کرتا ہے جو جنتى ہے '' (5)
حضرت على بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:
'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھى گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دى ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کى حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کى : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا على ہیں اور على (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کى اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کى حجت ہیں _ جس نے ان کى اطاعت کى اس نے خدا کى اطاعت کى اور جس نے ان کى نافرمانى کى اس نے خدا کى معصیت و نافرمانى کى _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہى دیتے ہیں رسول خدا نے یہى فرمایا تھا ''_ (6)
اس قسم کى احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنى کتابیں بھرى پڑى ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتى ہیں:
الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقى رہے گا اسى طرح اہل بیت رسول بھى قیامت تک باقى رہیں گے _ ایسى احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _
ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_
ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنى اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کى ہے _
د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کى ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابى عطا کرتا ہے _ اسى طرح امام سے بھى راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتى ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _
علی(ع) علم نبى (ص) کا خزانہ ہیں
رسول (ص) کى احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کى کہ تمام صحابہ علم نبى (ص) کے برداشت کرنے کى صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھى سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کى ضرورت ہوگى تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت على (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے مخصوص کیا اور ان کى تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کى جاتى ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :
''على (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے'' (7)
پیغمبر (ص) نے حضرت على (ع) سے فرمایا:
''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کى تعلیم دوں تم بھى ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہارى مدد کرنا ضرورى ہے '' (8)
''حضرت على (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _ (9)
آپ (ع) ہى کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا'' (10)
حضرت على (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کى احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:
'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہى گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _ (11)
حضرت على (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:
'' میرى باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کى اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کى ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنى اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کى برکت سے بارش ہوتى ہے _ لوگوں کى دعائیں مستجاب ہوتى ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتى ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتى ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کى طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کى طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کى اولاد سے نو امام ہونگے '' (12)_
کتاب علی(ع)
حضرت على (ع) نے اپنى ذاتى صلاحیت ، توفیق الہى اور رسول خدا کى کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کى تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _
اہل بیت کى احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :
حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:
'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کى وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت على (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے '' (13)_
حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :
'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضى سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہى حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسى طرح ذخیرہ کى ہے جیسے لوگ سونا چاندى جمع کرتے ہیں '' (14)_
عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :
''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبى ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت على (ع) کا خط ہے ، لوگوں کى تمام علمى ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والى خراش بھى مرقوم ہے '' (15)
علم نبوّت کے وارث
فہیمى صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کى امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کى احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسى طرح عترت رسول (ص) کى بیان کردہ احادیث کو بھى حجت سمجھئے بالفرض اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کى اہمیت ایک معمولى راوى سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھى ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (16)
ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنى طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :
حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :
'' میرى حدیث میرے والد کى حدیث ہے اور ان کى حدیث میرے جد کى حدیث ہے اور میرے جد کى حدیث حسین (ع) کى حدیث ہے ، حسین (ع) کى حدیث حسن (ع) کى حدیث ہے اور حسن (ع) کى حدیث امیر المؤمنین کى حدیث ہے اور امیر المومنین کى حدیث رسول اللہ (ص) کى حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے '' (17)
فہیمى صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقى اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کى احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کى حدیثوں کے برابر بھى نہیں ہیں ؟
پیغمبر اسلا م نے على (ع) اور ان کى اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کى طرف لوگوں کى راہنمائی کى ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقى راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کى پسماندگى کا سبب ہوا _
جلالى : ابھى میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقى ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _
انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _
1_ ذخائر العقبى طبع قاہرہ ص 16 ، صواعق محرقہ ص 147 ، فصول المہمہ ص 22 _ البدایہ و النہایہ ج 5 ص 209_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص 153و 167 ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص 232 ، تذکرة الخواص ص 182
2_ صواعق محرقہ ص 150 و ص 184_ تذکرة الخواص ص 182 _ذخائر العقبى ص 20 _ دررالسمطین ص 235_
3_ اثبات الہداة ج 2 ص 153_
4_ اثبات الہداة ج 1 ص 24_
5_ اثبات الہداة ج 1 ص 54_
6_ جامع احادیث الشیع ج 1 مقدمہ _
7_ اعیان الشیعہ ج 3 ص 11_
8_ ینابیع المودة ج 1 ص 104_
9_ اعیان الشیعہ ج 3_
10_ ینابیع المودة ج 1 ص 77_
11_ ینابیع المودة ج 2 ص 36_ طبقات بن سعد ج 2 ص 101_
12_ ینابیع المودة ج 1 ص 17_
13_ جامع احادیث الشیعہ ج 1 مقدمہ
14_ جامع احادیث الشیعہ ج 1 مقدمہ
15_ جامع احادیث الشیعہ ج 1_
16_ روضة الصفا ج3 ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی
17_ جامع احادیث الشیعہ ج 1 مقدمہ