امام زمانہ (عج) کو بچپنے میں دیکھا گیا ہے
ڈاکٹر : یہ کیسے ممکن ہے کہ کسى کے یہاں بیٹا پیدا ہو اور کسى کو اس کى اطلاع نہ ہو؟
پانچ سال گزرجائیں اور کوئی اسے پہچانتا نہ ہو ؟ کیا امام حسن عسکرى کى سامرہ میں بودوباش نہیں تھی؟ کیا ان کے گھر کسى کى بھى آمد و رفت نہیں تھى ؟ کیا صرف عثمان بن سعید کے کہنے سے اس چیز کو قبول کیا جا سکتا ہے ؟
ہوشیار: اگر چہ یہ طے تھا کہ امام حسن عسکرى (ع) کے بیٹے کو کوئی نہ دیکھنے پائے لیکن پھر بھى بعض قریبى اور قابل اعتماد اشخاص نے انھیں بچپن میں دیکھا ہے اور ان کے وجود کى گواہى دى ہے مثلاً:
1_ حکیمہ خاتون بنت امام محمد نقى امام حسن عسکرى کى پھوپھى ، صاحب الامر کى ولادت کے وقت وہاں موجود تھیں اور انہوں نے اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے _ اس کا خلاصہ یہ ہے : حکیمہ خاتون کہتى ہیں : پندرہ شعبان (225) کى شب ، میں امام حسن عسکرى کے گھر تھى _ جب میں اپنے گھر واپس آنا چاہتى تھى اس وقت امام حسن عسکرى نے فرمایا: پھوپھى جان آج کى رات آپ ہمارے ہى گھر ٹھر جایئےیونکہ آج کى رات ولى خدا اور میرا جانشین پیدا ہوگا _ میں نے دریافت کیا کس کنیز سے ؟ فرمایا : سوسن سے _ میں نے سوسن کو اچھى طرح سے دیکھا لیکن مجھے حمل کے آثار نظر نہ آئے _ نماز اور افطار کے بعد سوسن کے ساتھ میں ایک کمرے میں سوگئی _ تھوڑى دیر بعد بیدار ہوئی تو امام حسن عسکرى کى باتوں کے متعلق سوچنے لگى _ پھر نماز شب میں مشغول ہوئی _ سوسن نے بھى نماز شب ادا کى _ صبح صادق کا وقت قریب آگیا _ لکن وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے مجھے امام حسن عسکرى کى باتوں میں شک ہونے لگا تو دوسرے کمرہ سے امام حسن عسکرى (ع) نے فرمایا : پھوپھى جان شک نہ کیجئے میرے بیٹے کى ولادت کا وقت قریب ہے _
اچانک سوسن کى حالت بدل گئی میں نے پوچھا : کیا بات ہے _ فرمایا : شدید درد محسوس ہورہا ہے _ میں وضع حمل کے وسائل فراہم کرنے میں مشغول ہوگئی اور دایہ کے فرائض کى ذمہ دارى اپنے ذمہ لے لى _
کچھ دیر نہ گزرى تھى کہ ولى خدا پاک و پاکیزہ پیدا ہوئے اور اسى وقت امام حسن عسکرى نے فرمایا : پھوپھى جان میرے بیٹے کو لایئے میں بچہ کو ان کے پاس لے گئی انہوں نے بچہ کو لیا اور اپنى زبان مبارک اس کى آنکھوں پر پھرائی تو بچہ نے آنکھین کھولدیں اس کے بعد نوزاد کے دہان اور کان پر زبان پھرائی اور سر پر ہاتھ پھیراتو بچہ گویا ہوا اور تلاوت قرآن کرنے میں مشغول ہوگیا _ اس کے بعد بچہ مجھے دیدیا اور فرمایا : '' اس کى ماں کے پاس لے جایئے' حکیمہ خاتو ن کہتى ہیں:میں نے بچہ کو اس کى ماں کو دیدیا اور اپنے گھرلوٹ آئی _ تیسرے دن میں پھر امام حسن عسکرى کے گھر گئی اور پہلے بچہ کو دیکھنے کى غرض سے سوسن کے کمرہ میں داخل ہوئی لیکن بچہ وہاں نہیں تھا _ اس کے بعد امام حسن عسکرى کى خدمت میں پہنچى _ لیکن بچہ کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہى تھى ، کہ امام حسن عسکرى نے فرمایا: پھوپھى جان میرا بیٹا خدا کى پناہ میں غائب ہوگیا ہے _ جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا اور ہمارے شیعہ ہمارے جانشین کے بارے میں اختلاف کرنے لگیں تو آپ قابل اعتماد شیعوں سے میرے بیٹے کى داستان ولادت بیان کردیجئے گا لیکن اس قضیہ کو مخفى رکھنا چاہئے کیونکہ میرا بیٹا غائب ہوجائے گا _ (1)
2_ امام حسن عسکرى کى خدمت گار نسیم و ماریہ نے روایت کى ہے کہ : جب صاحب الامر نے ولادت پائی تو پہلے وہ دو زانو بیٹھے اور اپنى انگشت شہادت کو آسمان کى طرف بلند کیا _ اس کے بعد چھینک آئی تو فرمایا : '' الحمد للہ ربّ العالمین'' (2)
3_ ابوغانم خادم کہتا ہے : امام حسن عسکرى (ع) کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام محمد رکھا ، تیسرے دن اس بچہ کو آپ نے اپنے اصحاب کو دکھایا اور فرمایا : '' یہ میرا بیٹا میرے بعدتمہارا امام و مولى ہے اور یہى وہ قائم ہے جس کا تم انتظار کروگے اور اس وقت ظہور کرے گا جب زمین ظلم و ستم سے بھر جائے گى اور اسے عدل و انصاف سے پر کرے گا '' (3)
4_ ابو على خیزرانى اس کنیز سے نقل کرتے ہیں جو کہ اما م حسن عسکرى نے انھیں بخش دى تھى کہ اس نے کہا : '' صاحب الامر کى ولادت کے وقت میں موجود تھى ، ان کى والدہ کا نام صیقل ہے '' (4)
5_ حسن بن حسین علوى کہتے ہیں :'' میں سامرہ میں امام حسن عسکرى کى خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے فرزند کى ولادت کى مبارک بادپیش کى _ (5)
6_ عبداللہ بن عباس علوى کہتے ہیں :'' میں سامرہ میں امام حسن عسکرى کى خدمت میں شرفیاب ہوا اور آپ کے فرزند کى ولادت کى مبارک باد پیش کى _ (6)
7_ حسن بن منذر کہتے ہیں :'' ایک دن حمزہ بن ابى الفتح میرے پاس آئے اور کہا : مبارک ہو کل رات خدا نے امام حسن عسکرى کو فرزند عطا کیا ہے _ لیکن ہمیں اس خبر کے مخفى رکھنے کاحکم دیا ہے _ میں نے نام پوچھا تو فرمایا : ان کا نام محمد ہے _ (7)
8_ احمد بن اسحاق کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکرى کى خدمت میں شرفیاب ہوا _ میرا قصد تھا کہ آپ کے جانشین کے بارے میں کچھ دریافت کروں _ لیکن آپ (ع) ہى نے گفتگور کا آغاز کیا اور فرمایا : اے احمد بن اسحاق خداوند عالم نے حضرت آدم کى خلقت سے قیامت تک ، زمین کو اپنى حجت سے خالى نہیں رکھا ہے ، اور نہ رکھے گا _ اس کے وجود کى برکت سے زمین سے بلائیں دور ہوتى ہیں ، بارش برستى ہے اور زمین کى برکتیں ظاہر ہوتى ہیں _ میں نے عرض کى اے فرزند رسول (ص) آپ (ع) کا جانشین کون ہے ؟ امام گھر میں داخل ہوئے اور ایک تین سالہ بچہ کو لائے جو کہ چو دھویں کے چاند کى مانند تھا اور فرمایا : اے احمد اگر تم خدا اور ائمہ کے نزدیک معزز نہ ہوتے تو میں تمہیں اپنا بیٹا نہ دکھاتا _ جان لو یہ بچہ رسول کا ہمنام اور ہم کنیت ہے _ یہى زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _ (8)
9_ معاویہ بن حکیم ، محمد بن ایوب اور محمد بن عثمان عمرى نے روایت کى ہے کہ ہم چالیس آدمى امام حسن عسکرى (ع) کے گھر میں جمع تھے کہ آپ اپنے بیٹے کو لائے اور فرمایا : یہ تمہارا امام اور جانشین ہے _ میرے بعد تمہیں اس کى اطاعت کرنا چاہئے اور اختلاف نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے _ واضح رہے کہ میرے بعد تم اسے نہ دیکھوگے '' _ (9)
10 _ جعفر بن محمد بن مالک نے شیعوں کى ایک جماعت منجملہ على بن بلال ، احمد بن ہلال ، محمد بن معاویہ بن حکیم اور حسن بن ایوب سے روایت کى ہے کہ انہوں نے کہا : ہم لوگ امام حسن عسکرى (ع) کے گھر میں اس لئے جمع ہوئے تھے تا کہ آپ کے جانشین کے بارے میں معلوم کریں _ اس مجلس میں چالیس اشخاص موجود تھے کہ عثمان بن سعید اٹھے اور عرض کى : یابن رسول اللہ ہم ایک سوال کى غرض سے آئے ہیں _ آپ (ع) نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، اس کے بعد فرمایا کوئی شخص مجلس سے باہر نہ جائے ، یہ کہہ کر آپ (ع) تشریف لے گئے اور ایک گنھٹے کے بعد واپس تشریف لائے ، چاند سا بچہ اپنے ساتھ لائے اور فرمایا : یہ تمہارا امام ہے _ اس کى اطاعت کرو _ لیکن اس کے بعد اسے نہ دیکھو گے _ (10)
11_ ابوہارون کہتے ہیں : میں نے صاحب الزمان کو دیکھا ہے جبکہ آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند کى مانند چمک رہا تھا _ (11)
12_ یعقوب کہتے ہیں : ایک روز میں امام حسن عسکرى (ع) کے گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ع) کے داہنى طرف پردہ پڑا ہوا ہے _ میں نے عرض کى : مولا صاحب الامر کون ہے ؟ فرمایا : پردہ اٹھاؤ، جب میں نے پردہ اٹھایا تو ایک بچہ ظاہر ہوا جو آپ (ع) کے زانو پر آکر بیٹھ گیا ، امام نے فرمایا یہى تمہارا امام ہے _ (12)
13_ عمرو اہوازى کہتے ہیں : امام عسکرى نے مجھے اپنا بیٹا دکھایا اور فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا تمہارا امام ہے _ (13)
14_ خادم فارسى کہتے ہیں : میں امام حسن عسکرى (ع) کے دروازے پر تھا کہ گھر سے ایک کنیز نکلى جبکہ اس کے پاس کوئی چیز تھى جس پر کپڑا پڑا تھا امام نے فرمایا: اس سے کپڑا ہٹاؤ، تو کنیز نے ایک حسین و جمیل بچہ دکھایا _ امام نے مجھ سے فرمایا : یہ تمہارا اما م ہے _ خادم فارسى کہتے ہیں : اس کے بعد میں نے اس بچہ کو ہیں دیکھا _ (14)
15_ ابو نصر خادم کہتے ہیں : میں نے صاحب الزمان کو گہوارہ میں دیکھا ہے _ (15)
16_ ابو على بن مطہر کہتے ہیں : میں نے حسن عسکرى کے فرزند کو دیکھا ہے _ (16)
17_ کامل بن ابرایہم کہتے ہیں :'' میں نے صاحب الامر کو امام حسن عسکرى کے گھڑ میں دیکھا ہے : چار سال کے تھے اور چہرہ چاند کى مانند چمک رہا تھا ، میرى مشکلوں کو میرے سوال کرنے سے پہلے ہى حل کیا تھا _ (17)
18_ سعد بن عبداللہ کہتے ہیں : میں نے صاحب الامر کو دیکھا ہے آپ کا چہرہ چاند کے ٹکڑے کى مانند تھا _(18)
19_ حمزہ بن نصیر ، غلام ابى الحسن (ع) نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب صاحب الامر پیدا ہوئے تو آپ کے گھر میں رہنے والے افراد نے ایک دوسرے کو مبارک باد دى _ جب کچھ بڑے ہوئے تو مجھے حکم ملا کہ روزانہ نلى کى ہڈى گوشت سمیت خرید کر لاؤ اور فرمایا یہ تمہارے چھوٹے مولا کے لئے ہے _ (19)
20_ ابراہیم بن محمد کہتے ہیں : ایک روز میں حاکم کے دڑسے فرار کرنا چاہتا تھا لہذا وداع کى غرض سے امام حسن عسکرى کے گھر گیا تو آپ کے پاس ایک حسین بچہ کو دیکھا ، عرض کى فرزند رسول یہ کس کا بچہ ہے ؟ فرمایا: یہ میرا بیٹا اور جانشین ہے _ (20)
یہ لوگ امام حسن عسکرى کے معتمد ثقہ اور اصحاب و خدام ہیں کہ جنہوں نے بچپنے میں آپ کے لخت جگر کو دیکھا ہے اور اس کے وجود کى گواہى دى ہے _ جب ہم اس گواہى کے ساتھ پیغمبر اور ائمہ کى احادیث کو ضمیمہ کرتے ہیں تو امام حسن عسکرى کے بیٹے کے وجود کا یقین حاصل ہوجاتا ہے _
وصیت میں ذکر کیوں نہیں ہے ؟
انجینئر : کہتے ہیں کہ امام حسن عسکرى نے مرتے دم اپنى مادر گرامى کو اپنا وصى قرار دیا تھا تا کہ ان کے امور کى نگرانى کریں اور یہ بات قضات وقت کے نزدیک ثابت ہوچکى ہے لیکن آ پ(ع) نے کسى بیٹے کا نام نہیں لیا ہے اور انتقال کے بعد آپ کا مال آپ کى والد ہ اور بھائی کے درمیان تقسیم ہوا _ (21) اگر کوئی بیٹا ہوتا تو اپنى وصیت کے ضمن میں اس کا نام بھى درج کرتے تا کہ میراث سے محروم نہ رہے _
ہوشیار: امام حسن عسکرى نے عمداً وصیت میں اپنے بیٹے کا نام ذکر نہیں کیا تھا تا کہ بادشاہ وقت کى طرف سے یقینى خطرات سے انھیں نجات دلائیں _ اس سلسے میں آپ بہت زیادہ محتاط رہے اور اپنے بیٹے کى ولادت کى خبرکے طشت از بام ہونے سے اس قدر خوف زدہ رہتے کہ کبھى تو اپنے خاص اصحاب سے بھى اسے چھپاتے اور اس موضوع کو مبہم بنادیتے تھے_
ابراہیم ابن ادریس کہتے ہیں :
'' امام حسن عسکرى (ع) نے میرے پاس ایک گوسفند بھیجى اور کہلوایا : اس گوسفند سے میرے بیٹے کا عقیقہ کردو اور اپنے خاندان کے ساتھ کھاؤ_ میں نے حکم کى تعمیل کى لیکن جب میں آپ (ع) کى خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا ہمارا بچہ دنیا سے چلا گیا _ ایک مرتبہ پھر دو گوسفند کے ساتھ ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون یہ تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم _ ان دو گوسفندوں سے اپنے مولا کا عقیقہ کرو اور اپنے عزیزوں کے ساتھ کھاؤ، میں نے حکم تعمیل کى _ لیکن جب میں حاضر خدمت ہوا تو مجھ سے کچھ نہ فرمایا '' _ (22)
حضرت امام جعفر صادق (ع) نے بھى اپنى وصیت میں بہت احتیاط سے کام لیا تھا _ آپ نے پانچ اشخاص ، خلیفہ وقت منصور عباسى ، محمد بن سلیمان مدینہ کے گور نر کا بیٹا ، اپنے دو بیٹے عبداللہ و موسى (ع) اور موسى (ع) کى مادرگرامى حمیدہ کو اپنا وصى مقرر کیا تھا _ (23)
امام صادق (ع) نے اپنے اس عمل سے اپنے فرزند موسى کو یقینى خطر ے سے نجات عطا کى _ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اگر موسى کاظم کى امامت و وصایت خلیفہ پر ثابت ہوگئی تو وہ ان کے قتل کے درپے ہوجائے _ چنانچہ امام کا خیال صحیح ثابت ہوا اور خلیفہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ اگر امام صادق کا کوئی معین وصى ہے تو اسے قتل کردو_
دوسرے کیوں خبر دار نہ ہوئے ؟
فہیمى : اگر کسى کے یہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب اور دوست و ہمسایوں کو اس کى اطلاع ضرورى ہوتى ہے اور ولادت کے موضوع میںکوئی اختلاف نہیں ہوتا _ یہ بات کیونکر قبول کى جا سکتى ہے کہ امام حسن عسکرى ، جو کہ شیعوں کے نزیدک معزز تھے ، کے یہاں بیٹا پیدا ہوا لیکن لوگ اسى سے اتنے ہى بے خبر رہے کہ اصل موضوع ہى میں شک و اختلاف میں پڑگئے :
ہوشیار: عام طور پر ایسا ہى ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے لیکن معمول کے خلاف امام حسن عسکرے نے پہلے ہے اپنے بیٹے کى ولادت کو مخفى رکھنے کا ارادہ کرلیا تھا ، بلکہ پیغمبر اور ائمہ اطہار کے زمانہ سے یہى مقدر تھا کہ امام مہدى کى ولادت کو مخفى رکھا جائے چنانچہ آپ (ع) کى خفیہ ولادت کو آپ کى علامت شمار کیا جاتا تھا مثلاً _
حضرت امام زین العابدین نے فرمایا:
'' ہمارے قائم کى ولادت لوگوں سے پوشیدہ رہے گى ، یہاں تک کہ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ _ پیدا ہى نہیں ہوئے ہیں ، اور یہ اس لئے ہے کہ جب آپ (ع) ظہور فرمائیں اس وقت آپ کى گردن پر کسى کى بیعت نہ ہو '' (24)
عبداللہ بن عطا کہتے ہیں : میں نے امام محمد(ع) باقر کى خدمت میں عرض کى عراق میں آپ کے شیعہ بہت ہیں خدا کى قسم آپ جیسى حیثیت کسى کى نہیں ہے آپ خروج کیوں نہیں کرتے ؟ فرمایا:
'' عبداللہ تم فضول باتوں میں آگئے ہو خدا کى قسم میں صاحب الامر نہیں ہوں جس کا روایات میں ذکر ہے''_ میں نے عرض کى : صاحب الامر کون ہے ؟
فرمایا:
'' ایسے شخص کے انتظار میں زندگى بسر کرو جس کى ولادت مخفى رہے گى _ وہى تمہارا مولا ہے ''_(25)
فہیمى : امام حسن عسکر ى (ع) نے اپنے بیٹے کو ولادت کو لوگوں سے اس لئے مخفى رکھا تا کہ لوگ شک و حیرت میں مبتلا رہیں اور گمراہ ہوجائیں ؟
ہوشیار : جیسا کہ میں پہلے بھى بیان کر چکا ہوں ، مہدى موعود کى داستان صدر اسلام ہى سے مسلمانوں کے پیش نظر رہى ہے _ پیغمبر (ص) کى جو احادیث اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں اور وہ تائیدیں جو ائمہ اطہار نے کیں ہیں وہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھیں _ بادشاہان وقت بھى ان سے بے خبر نہیں تھے _ انہوں نے بھى سنا تھا کہ مہدى موعود نسل فاطمہ (ع) اور اولاد حسین (ع) سے ہوگا، ظالموں کى حکومتوں کو برباد کرے گا اور مشرق و مغرب پراس کى حکومت ہوگى _ ظالموں کو تہ تیغ کرے گا _ اس لئے وہ مہدى موعود کى و لادت سے خوف زدہ تھے _ وہ اپنى سلطنت سے احتمال خطرہ کو دفع کرنا چاہتے تھے _ اسى وجہ سے وہ بنى ہاشم خصوصاً امام حسن عسکرى (ع) کے گھر پر کڑى نظر رکھتے تھے اور خفیہ و ظاہرى افراد کو تعینات رکھتے تھے _
معتمد عباسى نے چند قابلہ عورتوں کو مخفى طور پر اس کام پر معین کیا تھا وہ گاہ بگاہ بنى ہاشم خصوصاً امام حسن عسکرى کے گھر جائیں اور حالات کى رپورٹ پیش کریں _ جب اس کو امام حسن عسکرى کى بیمارى کى اطلاع ملى تو اس نے اپنے خاص افراد کو اس کام پر __
مامور کیا کہ وہ رات دن امام کے گھر پر نظر رکھیں _ اور جب امام کى وفات کى خبر سنى تو ایک جماعت کو امام (ع) کے فرزند کو تلاش کرنے پر مامور کیا اور آپ کے گھر کى تلاشى کا حکم دیا _ اسى پر اکتفا نہ کى بلکہ ماہر دائیوں کو بھیجا تا کہ امام کى کنیزوں کا معائینہ کریں اور اگر ان میں سے کسى کو حاملہ پائیں تو اسى قید کرلیں _
ان عورتوں کو ایک کنیز پر شک ہوگیا ، انہوں نے اس کى رپورٹ دى خلیفہ نے کنیز کو ایک حجرے میں قید کردیا اور نحریر خادم کو اس کى نگرانى پر مامور کردیا اور جب تک اس کے حمل سے مایوس نہیں ہوا ، اس وقت تک آزاد نہیںکیا _ صرف امام حسن عسکرى کى خانہ تلاشى پر اکتفا کى بلکہ جب دفن سے فارغ ہوا تو حکم دیا کہ شہر کے تمام گھروں کى تلاشى لى جائے _ (26)
اب تو اس بات کى تصدیق فرمائیں کہ ان خطرناک حالات میں امام حسن عسکرى کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنے بیٹے کى ولادت کو لوگوں سے مخفى رکھیں تا کہ وہ دشمنوں کے شہر سے محفوظ رہیں _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار نے بھى ایسى حالات کے بارے میں خبر دى تھى ولادت کے مخفى رہنے والے موضوع کو وہ پہلے سے جانتے تھے _
پھر یہ عجیب و غریب داستان ایسى نہیں ہے کہ جس کا تاریخ میں سابقہ ہى نہ ہو _ تاریخ میں ایسى مثالیں موجود ہیں _ مثلاً جب فرعون کو یہ خبر ہوئی کہ بنى اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا اور وہ اس کى حکومت کو تباہ کرے گا تو فرعون نے خطرہ کو رفع کرنے کیلئے کچھ جاسوس مقرر کئے کہ وہ حاملہ عورتوں پر نظر رکھیں اگر لڑکا پیدا ہوتو اسے قتل کردیں اور لڑکى ہو تو اسے قید خانے میں ڈال دیں _ چنانچہ اپنے مقصد میں کامیابى حاصل کرنے کى غرض سے فرعون نے سیکڑویں معصوم بچوں کو قتل کرادیا _ لیکن ان مظالم کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا ، خدا نے موسى کے حمل اور ولادت کو پوشیدہ رکھا تا کہ اپنے ارادہ کو پورا کردے _
امام حسن عسکرى نے خطرناک حالات کے باوجود لوگوں کى ہدایت کے لئے اپنے بعض معتمد اصحاب کو اپنا بیٹا دکھا بیٹا دکھا دیا تھا اور ثقہ افراد کو اپنے بیٹے کى ولادت کى خبر دى تھى لیکن اس بات کى بھى تاکید کى تھى کہ اس موضوع کو دشمنوں سے مخفى رکھنا یہاں تک ان کا نام بھى نہ لینا _
1_ غیبت شیخ ص 141 و 142_
2_ اثبات الہداة ج 7 ص 292 ، اثبات الوصیہ ص 197_
3_ اثبات الہداة ج 6 ص 431_
4_ منتخب الاثر ص 343_
5_ اثبات الہداة ج 7 ص 433_
6_ اثبات الہداة ج 7 ص 720_
7_ اثبات الہداة ج 6 ص 434_
8_ بحار الانوار ج 52 ص 23_
9_ بحار الانوار ج 52 ص 25_
10_ اثبات الہداة ج 6 ص 311_
11_ اثبات الہداة ج 7 ص 20_
12_ اثبات الہداة ج 6 ص 425_
13_ اثبات الہداة ج 7 ص 16_
14_ ینابیع المودة باب 82_
15_ اثبات الہداة جلد 7 ص 344، اثبات الوصیہ ص 198_
16_ ینابیع المودہ باب 82_
17_ اثبات الہداة ج 7 ص 323 ، ینابیع المودہ باب 82_
18_ بحار الانوار ج 52 ص 78 و ص 82_
19_ اثبات الہداة ج 7 ص 18 ، اثبات الوصیہ ص 197_
20_ اثبات الہداة ج 7 ص 356_ ولادت صاحب الامر کے سلسلہ میں تفصیل کے شائقین ، علامہ محقق سید ہاشم بحرانى کى کتاب، تبصرة الولى فیمن را ى المہدى اور بحار الانوار ج 51 باب 1 ج 52 باب 17 و 19 ملاحظہ فرمائیں _
21_ اصول کافى باب مولا ابى محمد الحسن بن على _
22_ بحار الانوار ج 51 ص 222 اثبات الہداة ج 7 ص 78 اثبات الوصیہ ص 198
23_ اصول کافى باب الاشارہ و النص على ابى الحسن موسى
24_ بحار الانوار ج 51 ص 135_
25_ بحار الانوار ج 51 ص 34_
26_ اصول کافى باب مولاابى الحسن بن على ، ارشاد مفید ، اعلا م الورى طبرسى ، کشف الغمہ باب الامام الھادى عشر