پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ايك روسى كتاب كا خلاصہ

ایک روسى کتاب کا خلاصہ

روس کا مشہور سائنسدان مچنیکوف طویل العمرى کو انسان کى قدیم ترین امیدوں میں سے اسک کہتا ہے _ لیکن ابھى تک عمر میں اضافہ کے لئے کوئی عملى طریقہ کشف نہیں ہوسکا ہے _ واضح ہے کہ طبیعى زندگى کے خاتمہ کا نام موت ہے اور کسى جاندار کو اس سے مضر نہیں ہے _


1_ ضعیفى کى علّت

انسان کا بدن تقریباً ساٹھ تریلین خلیوں سے تشکیل پایا ہے _ یہ خلئے ایک منزل پر پہنچ کربوڑھے ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں اپنى زندگى کى ضرورت کو بڑى مشکل سے پورا کرتے ہیں _ ان کى تولید مثل میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد انسان مرجاتا ہے _ عصبى خلئے اور مرجانے والے عضلات کى تعداد رفتہ رفتہ بڑھ جاتى ہے اور ایک کپڑے کى شکل میں سخت ہوجاتے ہیں _ اس سخت ہونے سے ماہیچے اور اعصاب ، مرجانے اور بڑھنے والے خلیوں ، جن کو اسکلروز soclerose کہتے ہیں جیسے قلب کے اسکلروز ، رگوں کے اسکلروز ، اعصاب کے اسکلروز و غیرہ _

روس کے مشہور ڈاکٹر اور فیزیولوجسٹ ایلیا مچنیکوف کا خیال تھا کہ یہ وقوعہ ٹرکشین کے زہر کى وجہ سے پیدا ہوتا ہے _ حیوان کے بدن میں جراثیم جاگزین ہوجاتے ہیں اور اس زہر کو انسان اندرونى اعضا میں پیدا کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ زندہ خلیوں کے تعمیر کو مسموم کردیتے ہیں _ پالوف کا نظریہ تھا کہ اعصاب کا سلسلہ خصوصاً مغز کا خارجى دباؤ ضعیفى میں بنیادى اثر رکھتا ہے ، نفسیاتى تاثرات ، غصہ ، دل تنگى ، یاس اور وحشت سے بدن کے امراض پیدا ہوتے ہیں کہ جس سے بڑھا پا اور اس کے بعد موت آجاتى ہے _ دائمى زندگى کا خواب ایک سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں ہے _ لیکن انسان کى عمر بڑھانا اور ضعیفى پر غلبہ پاناممکن عمل ہے _


2_ ضعیفى شناسى اور موت شناسی

تقریباً تین سو سال قبل علم الحیات کى ایک نئی شاخ ضعیفى شناسى (cetmotologei) وجود میں آئی _ اس علم کا مقصد بڑھا پے پر غلبہ پانے کیلئے عملى قوانین کى معرفت و شناخت ہے _ اس اور موت شناسى کے علم کے درمیان لطیف رابطہ ہے ، موت سے مربوط قوانین کا مطالعہ اور ممکن حد تک اسے پیچھے ہٹانا اس علم کے مسائل ہیں جو کہ اسى لم کے قلم روکا جز ہیں ، سائنسدانوں کے نقطہ نظر کے مطابق موت ہمیشہ اختلال کى وجہ سے آتى ہے جبکہ زندگى کے خاتمہ پر آنے والى موت کو فیزیالوجى کہتے ہیں_ اب سائنسدان عمر بڑھانے کیلئے کوئی منطقى اور طبیعى راہ کى تلاش میں منہمک ہیں زندگى کى حد کے سلسلے میں دانشوروں کے درمیان اختلاف ہے _ پاؤلوف انسان کى طبیعى حیات کى حد سو سال قرار دیتا تھا _مچنیکوف نے یک سو چالیس سے ایک سو پچاس تک تحریر کى ہے _ جرمنى کے مشہور سائنسدان گو فلانڈ کا خیال تھا کہ انسان کى عام عمر 200 سال ہے _ انیسویں صدى کے مشہور فیزیولوجسٹ فلوگرنے 600 سال اور برطانوى ورد جربیکن نے 1000 سال تحریر کى ہے _ لیکن کوئی سائنسدان بھى اپنے مدعا پر اطمینان بخش دلیل پیش نہیں کرسکا _


3_فرانسوى بوفوںکا فریضہ

فرانس کے مشہور طبیعى داں بوفون کا نظریہ تھا کہ ہر جاندار کى مدت عمر اس کے رشد کے زمانہ کے پانچ گناہوتى ہے _مثلاً شتر مرغ کے نمو کى عمر آٹھ سال ہے تو اس کى عمر کا اوسط چالیس سال ہے _ گھوڑے کے رشد کا زمانہ 3 سال ہے تو اس کى عمر 15_ 20 سال ہوتى ہے _ بوفون نے اس طرخ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان کے نمو کى مدت 20 سال ہے لہذا اس کى عمر کا اوسط 100 سال ہے _ لیکن بوفون کے فارمولہ میں بے پناہ استثنائی موارد ہیں اسى لئے اسے اہمیت نہیں دى گئی ہے کیونکہ گوسفند کے رشد کى عمر پانچ سال ہے اور اس کى کل عمر 10_ 15 سال ہوتى ہے _ طوطے کى رشد کا زمانہ 12 سال ہے لیکن سو سال تک زندہ رہتا ہے _ با وجودیکہ شتر مرغ کے رشد کى عمر تین سال میں ختم ہوجاتى ہے لیکن 30_40 سال تک زندہ رہتا ہے _ سائنسدان ابھى انسان کى طبیعى زندگى کى یقینى سر حد معین نہیںکر سکے ہیں _ لیکن ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ عمر گھٹا نے والے اختلال اور بیماریوں کو رفع کرکے انسان کى عمر کو 200 سال تک بڑھایا جا سکتا ہے _ یہ نظریہ بھى ابھى تک تھیورى ہى کى صورت میں موجود ہے مگر اسے موہوم اور غیر حقیقى نہیںقرار دیا جا سکتا _


4_ انسان کى متوسط عمر

قدیم یونان میں انسان کى متوسط عمر 29 سال اور قدیم روم میں اسے کچھ زیادہ تھى سولھویں صدى میں یورپ میں انسان کى عمر 21 سال ، ستر ہویں صدى میں 26 سال اور انیسویں صدى میں متوسط عمر 34 سال تھى _ لیکن بیسویں صدى کى ابتداء میں یہ شرح یکبارگى 45_50 تک پہنچ گئی _ مذکورہ شرح یورپ سے متعلق ہے _ آج کے دنیا میں طویل العمرى اور موت کے کم ہونے کى بہترین دلیل بچے ہیں _ لیکن پسماندہ اور ترقى یافتہ ممالک میں اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے _ مثلاً روس میں متوسط عمر 71 سال اور ہندوستان میں 30 سا ل ہے _

حیوانات کے درمیان انسان کى عمر اوسط کوئی زیادہ نہیں ہے انسان کى عمر کے نسبى اوسط (60_80) کا ذیل میں موازنہ ملاحظہ فرمائیں:
بطخ 300سال گول مچھلى 150سال
کچھوا 170سال مینڈک 16سال
چھپکلی 36سال طوطا  90 سال
کوّا 70سال جنگلى مرغى 80 سال
شتر مرغ 40 - 35 سال  جالاقان 118سال
عقاب 104 سال شاہین 162 سال
گھوڑا20 - 30 سال گائے 25 - 30 سال  گوسفند 14_12 سال
بکرى    27_18 سال  کتّا   22_16 سال  بلّى   12_ 10 سال


5_ روسى سائنسدان مچنیکوف کا نظریہ

اگر ایلیا مچنیکوف کے نظریہ میں غور کیا جائے تو انسان کے نسبى سن کا چند جانوروں سے اختلاف واضح ہوجائے گا _ مچنیکوف مرگ مفاجات اور بڑھاپے کى علت خلیوں کى مسمومیت اور بیکیڑیا کے جسم کے اندر زہر پھیلانے کو قرار دیتا ہے _ یا درہے بدن کے دیگر حصّوں سے زیادہ : Rotrotic، بیکٹیریا کا محبوب حصّہ ہے _

تخمینہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں روزانہ 130 ٹریلین جراثیم پیدا ہوتے ہیں Rotrotic  کے بہت سے جراثیم بدن کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن ان میں سے بعض زہریلے ہوتے ہیں _ یہ بدن کو اندر سے اپنے زہر کے وسیلہ سے قتل کى طرح مسموم کرتے ہیں _ احتمال ہے کہ بدن کے خلئے اور اس کا نظام ( بافتہا) اس زہر کى وجہ سے جلد بوڑھا ہوجاتا ہے _ مذکورہ جدول سے َعلوم ہوتا ہے کہ پیٹ کے بل چلنے والى مچھلیاں اور پرندے پستان دار جانوروں سے زیادہ زندہ رہتے ہیں _ کیونکہ ان جانوروں کے اندر فراخ Rotrotic  نہیں ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو ایسى میں رشد بہت کم ہوتا ہے _ پرندوں میں صرف شتر مرغ فراخ Rotrotic ہوتا ہے ، اور جیسا کہ جدول سے سمجھ میں آتا ہے اس کى عمر بھى 30_ 40 سے زیادہ نہیں ہوتى ہے _ ان حیوانات میں کچھ جگالى کرنے والے ہیں کہ انکى زندگى سب سے کم ہوتى ہے _ اس کى وجہ شاید ان کے اندر فراخ کى نمو ہے _ جمگادڑ کے اندر بھى ایک چھوٹا Rotrotic ہوتا ہے چنانچہ حشرہ خوار جانوروں میں چمگاڈر کے ہم بدن سے زیادہ اس کى عمر ہوتى ہے _ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کى زندگى میں rotrotic کے فراخ و طویل ہونا بھى دخیل ہے _ لیکن اسے زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ جس کا مچنیک نے اظہار کیا ہے _ بعض افراد نے آپریشن کے ذریعہ فراخ Rotrotic کو انکلوادیا تو مدتوں زندہ رہے _ یہ بات مسلّم ہے کہ بدن کیلئے اس عضو کا وجود ضرورى نہیں ہے لیکن ایسے افراد بھى موجود ہیں جنہوں نے فراخ Rotrotic کے باوجود طویل عمر بسر کى ہے _ ضعیفى شناسى کے دانشوروں نے ایسے افراد کى تحقیقى کى ہے _


6_ مستقبل کا انسان طویل عمر پائے گا

جن لوگوں نے دنیا میں ایک سو پچاس سال سے زیادہ زندگى گزارى ہے وہ انگشت شمار ہیں ، ان میں سے جن کے نام کتابوں میں مرقوم ہیں وہ درج ذیل ہیں:

سنہ 1724 ء میں ایک دہقان مجار 185 سال کى عمر میں مرا ، جو کہ اپنى آخرى عمر تک جوانوں کى طرح کام کرتا تھا _

ایک اور شخص جان راول کیعمر مرتے دم 170 سال تھى اور اس کى زوجہ کى 164 سال تھى _ 130 سال انہوں نے ازدواجى زندگى بسر کى _

ایک آلبانوى باشندہ ، خودہ 170 سال تک زندہ رہا _ مرتے دم اس کے پوتے ، پوتیوں نواسے نواسیوں اور ان کى اولاد کى تعداد 200 تھى _

چند سال قبل اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ جنوبى امریکہ میں ایک شخص مرا ہے جس کى عمر 207 سال تھى _

روس میں ایسے تیس ہزار افراد ہیں جو کہ اپنى زندگى کى دوسرى صدى گزار رہے ہیں _ اب روس کے سائنسدان بڑھاپے کى علت اور طول عمر کے راز کے انکشاف کرنے میں مشغول ہیں _ یقینا مستقبل میں علم انسان ضعیفى پر قابو پالے گا اور نتیجہ میں انسان اپنے آبا و اجداد سے زیادہ عمر پائے گا _ (1)


1_ مجلہ دانشمند شمارہ 1 ، سال ششم