پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

موت كى علّت كے سلسلہ ميں غير معروف فرضيہ

موت کى علّت کے سلسلہ میں غیر معروف فرضیہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدن سے روح کے جدا ہونے کا نام موت ہے ، لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا روح کى مفارقت کى علت بدن اور اس کے عوارض ہیں؟کیا جسم ہى موت کے اسباب فراہم کرتا ہے؟

اکثر علماء اور اطبّاء نے پہلے نظریہ کو تسلیم کیا ہے وہ کہتے ہیں: جب بدن کى غریزى حرارت ختم ہوجاتى ہے تو بدن کا عام نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے اور اس کے آلات و قوا بیکار ہوجاتے ہیں ، بدن کے اعضاء رئیسہ فرسودہ ہوجاتے ہیں ، بقا کى صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور چونکہ روح اس فرسودہ جسم کى حیات کو جارى رکھنے اور اسے چلانے سے عاجز ہوجاتى ہے اس لئے اس سے جدا ہوجاتى ہے اور موت واقع ہوتى ہے _

لیکن اس گروہ کے مقابل میں بڑے اسلامى فلاسفر مرحوم ملاّ صدرا دوسرے نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں ،وہ اپنى کتاب ''اسفار'' میں لکھتى ہیں :'' جسم کى حفاظت اور اسے چلانے کى ذمہ دارى روح پر ہے _ جب تک اسے بدن کى زیادہ ضرورت رہتى ہے اس وقت تک وہ بدن کى حفاظت و نگہبانى میں کوشاں رہتى ہے ، ہر طرح سے اس کا تحفظ کرتى ہے _ لیکن جب وہ مستقل اور بدن سے مستغنى ہوجاتى ہے تو پھر بدن کى طرف توجہ نہیں دیتى جس کے نتیجہ میں ضعف ، سستى اور اختلال پیدا ہونے لگتا ہے اور فرسودگى و ضعیفى آجاتى ہے یہاں تک کہ روح بدن کے امور کو بالکل نظر انداز کردیتى ہے اور طبیعى موت واقع ہوجاتى ہے ''_

احباب جانتے ہیں کہ اگر دوسرا نظریہ ثابت ہوجائے اور موت کا اختیار روح کے ہاتھ میں ہوتو صاحب الامر کى طول عمر کے موضوع کى راہ ہموار ہوجائے گى _ یہ کہا جا سکتا ہے کہ : چونکہ آپ (ع) کى روح کو دنیائے انسانیت اور عالم کى اصلاح کے لئے آپ کے وجود کى ضرورت ہے _ اس لئے بدن کى حفاظت و نگہبانى میں مستقل کوشش کرتے ہے اور اپنى جوانى و شادابى کو محفوظ رکھتى ہے _

آخر میں اس بات کى وضاحت کردینا بھى ضرورى ہے کہ میں اس وقت اس مدعا کى صحت کو ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں اور نہ اس سے دفاع کى خواہش ہے _ سردست میں نے دوستوں کے سامنے غیر معروف فرضیہ کے عنوان سے پیش کیا ہے _ مجھے اس با ت کا اعتراف ہے کہ یہ غیر مانوس اور نئی بات ہے لیکن بغیر غور و فکر کے اسے باطل نہیں سمجھنا چاہئے _ قطعى فیصلہ اس وقت کیا جا سکتا ہے جب حقیقت نفس ، بدن پر اسکى تاثیر کى مقدار اور اس کى ارتباط کى کیفیت و تاثیر بخوبى پہچان لى جائے اور یہ بہت دشوار ہے کہ اس میں فلسفى و نفسیاتى اور بیالوجى کے ایک طویل سلسلہ کے تجربہ کى ضرورت ہے _ ابھى انسان کا علم اس حد تک نہیں پہنچاہے کہ حقیقت نفس اور اس کے بدن سے ارتباط کے بارے میں فیصلہ کرلے بلکہ ابھى وہ اپنے نفس و نفسیات کے ابتدائی مراحل طے کررہا ہے _ اگر علم آدمى کى روح و تن کى طرف متوجہ ہوگیا ہوتا تو یقینا ہمارى دنیا کى حالت کچھ اور ہى ہوتى _

ڈاکٹر اکلسیس کارل اپنى کتاب '' انسان موجود ناشناختہ ، میں لکھتا ہے ، ہمیں بھى اپنى وجودى تعمیر کے بارے میں کافى علم حاصل نہیں ہوا ہے ،اگر نیوٹن ، گالیلہ اور لاوازیہ اپنى فکرى صلاحیت انسان کے بدن و نفسیات کے مطالعہ پر صرف کرتے تو ہمارى دنیا کى حالت ہى بدل گئی ہوتى _