پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

طول عمر سے متعلق تحقيقات

طول عمر سے متعلق تحقیقات

میں نے ایک عربى مجلہ میں ، ایک مقالہ پڑھاہے چونکہ ہمارى بحث سے مربوط ہے _ اس لئے آپ کى خدمت میں اس کا ترجمہ پیش کرتاہوں _

قابل اعتماد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حیوان کے بدن کے اعضاء رئیسہ میں سے ہر ایک میں لا محدود مدت تک زندہ رہنے کى صلاحیت موجود ہے _ اگر انسان کے سامنے ایسے عوارض و حوادث پیش نہ آئیں جو کہ اس کى حیا ت کا سلسلہ منقطع کردیں تو وہ ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتا ہے _ ان سائنس دانوں کا قول کوئی خیال و تخمینہ نہیں ہے بلکہ ان کے تجربوں کا نتیجہ ہے _

ایک جرّاح ایک جاندار کے کٹے ہوئے جز کو اس حیوان کى معمولى زندگى سے زیادہ دنوں تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کٹے ہوئے جز کى حیات کا دارومدار اس کے لئے فراہم کى جانے والى غذا سے پر ہے جب تک اسے کافى غذا ملتى رہے گى اس وقت وہ زندہ رہے گا _

اس جراح کا نام ڈاکٹر '' الکسیس کارل'' تھا جو کہ راکفلر کے علمى ادارہ نیویارک میں ملازم تھا _ یہ تجربہ اس نے ایک چوزہ کے کٹّے ہوئے جز پر کیا تھا ، یہ مقطوع جز آٹھ سال سے زائد زندہ رہا اور رشد کرتا رہا _ موصوف اور دیگرا افراد نے یہى تجربہ انسان کے مقطوع اجزاء جیسے عضلات قلب اور پھپڑے پر بھى کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ جب تک اجزاء کو ضرورى غذا ملتى رہے گى اس وقت تک وہ اپنى حیات و نمو کا سلسلہ جارى رکھیں گے _ یہاں تک کو جونس ہبکس یونیورسٹى کے پروفیسر ''ریمونڈ'' اور ''برل'' کہتے ہیں انسان کے جسم کے اعضاء رئیسہ میں دائمى قابلیت و استعداد موجود ہے _ یہ بات تجربات سے ثابت ہوچکى ہے کم از کم احتمال کو ترجیح ہے کیونکہ اجزاء کى حیات کے سلسلہ میں ابھى تک تجربات ہورہے ہیں _ مذکورہ نظریہ نہایت ہى واضح اور اہم اور علمى غور و فکر کے بعد صادر ہوا ہے _

جسم حیوان کے اجزاء پر بظاہر مذکورہ تجربہ سب سے پہلے ڈاکٹر ''جاک لوب'' نے کہا تھا وہ بھى علمى ادارہ راکفلر میں ملازم تھا ، جس وقت وہ مینڈک کو تلقیح نہ شدہ تخم سے پیدا کرنے والے موضوع پر تحقیق میں مشغول تھا اس وقت اچانک اس بات کى طرف متوجہ ہوا کہ بعض انڈوں کو مدت دراز تک زندہ رکھا جا سکتا ہے اس کے برعکس بہت سے کم عمر میں مرجاتے ہیں _ یہ قضیہ باعث ہوا کہ وہ مینڈک کے جسم کے اجزاء پر تجربہ کرے چنانچہ اس تجربہ میں انھیں مدت دراز تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوا _ اس کے بعد ڈاکٹر ''ورن لویس'' نے اپنى زوجہ کے تعاون سے یہ ثابت کیا کہ : پرندے کے جنین کے اجزاء کو نمکین پانى میں زندہ رکھا جا سکتا ہے ، اس طرح کہ جب بھى اس میں آبى مواد کا ضمیمہ کیا جائے گا اسى وقت ان کے رشد و نمو کى تجدید ہوگى _ ایسے تجربہ مسلسل ہوتے رہے اور اس بات کو ثابت کرتے رہے کہ حیوان کے زندہ خلیے ایسى سیّال چیز میں اپنى حیات کے سلسلہ کو جارى رکھ سکتے ہیں کہ جس میں ضرورى غذائی مواد موجود ہوتا ہے _ لیکن اسى وقت تک ان کے پاس ایسى کوئی نہیں تھى جس سے وہ موت کى نفى کرتے _

ڈاکٹر کارل نے اپنے پے درپے تجربوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اجزاء ضعیف نہیں ہوتے جن پر تجربہ کیا جاتا ہے اور پھر جو انوں کى زندگى بھى طویل ہوتى ہے _ اس نے جنورى 1912 ء میں اپنے کام آغاز کیا ، اس سلسلے میں مشکلات پیش آئے ، لیکن اس اور اس کے عملہ نے ان پر غلبہ پالیا اور درج ذیل موضوعات کا انکشاف کیا _

الف: جب تک تجربہ کئے جانے والے زندہ خلیوں پر کوئی ایسا عارضہ نہ ہو جو ان کى موت کا باعث ہو ، جیسے جراثیم کا داخل ہونا یا غذائی مواد کا کم ہونا ، تو وہ زندہ رہیں گے _

ب : مذکورہ اجزاء صرف حیات ہى نہیں رکھتے بلکہ ان میں رشد و کثرت بھى پائی جاتى ہے _ بالکل ایسے ہى جیسے یہ اس وقت رشد و کثرت اختیار کرتے جب حیوان کے بدن کا جز ہوتے _

ج: ان کے نمو اور تکاثر کا ان کے لئے فراہم کى جانے والى غذا سے موازنہ کیا جاسکتا ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے _

د: ان پرمرور زمان کا اثر نہیں ہوتا ہے ، ضعیف و بوڑھے نہیں ہوتے بلکہ ان میں ضعیفى کا معمولى اثر بھى مشاہدہ نہیں کیا جاتا _ وہ ہر سال ٹھیک گزشتہ سال کى نمو پاتے اور بڑھتے ہیں _ ان موضوعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب تجربہ کرنے والے ان اجزاء کى دیکھ بھال کریں گے ، انھیں ضرورى و کافى غذا دیں گے اس وقت وہ اپنى حیات اور رشد کو جارى رکھیں گے _

یہاں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بڑھاپا علت نہیں ہے بلکہ معلول و نتیجہ ہے _ پھر انسان کیوں مرتا ہے ؟ اس کى حیات کى مدت محدود کیوں ہے ، معدود افراد کى عمر ہى سو سال سے آگے کیوں بڑھتى ہے اور عام طور پر اس کى عمر ستّر یا اسى سال ہوتى ہے؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ حیوان کے جسم کے اعضائ زیادہ اور مختلف ہیں اوران کے در میان کمال کا ارتباط و اتصال ہے _ ان میں سے بعض کى حیات دوسرے کى زندگى پر موقوف ہے _ اگر ان میں سے کوئی کسى وجہ سے نا تواں ہو جائے اور مرجائے تو اس کى موت کى وجہ سے دوسرے اعضاء کى بھى موت آجاتى ہے ، اس کے ثبوت کے لئے وہ موت کافى ہے جو کہ جراثیم کے حملہ سے اچانک واقع ہوجاتى ہے ، یہى چیز اس بات کا سبب ہوئی کہ عمر کا اوسط ستر ، اسى سال سے بھى کم قرار پائے بہت سے بچپنے ہى مرجا تے ہیں _

یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ستر ، اسى سویا اس سے زیادہ سال کى عمر ، موت کى علت نہیں ہے بلکہ اس کى اصلى علت : اعضا ہیں سے کسى ایک پر عوارض ، امراض کا حملہ کر کے اسے بیکار بنانا ہے چنانچہ اعضاء کى موت واقع ہو جاتى ہے _پس جب علم عوارض کا علاج تلاش کرنے یا ان کے اثر کو بیکار بنا نے میں کا میاب ہوجائے گا تو پھر سیکڑوں سالہ زندگى کے لئے کوئی چیز مانع ہوگى _ جیسا کہ بعض درختوں کى بہت طولانى عمر ہے ، لیکن اس بات کى توقع نہیں ہے کہ علم طب و حفظان صحت اتنى جلد اس عالى مقصد تک پہنچ جائیں گے _ لیکن اس مقصد سے نزدیک ہونے اور موجود عمر کى بہ نسبت دویا تیں گنا عمر تک پہنچنا بعید نہیں ہے _ (1)_

 

پھر طول عمر

بر طانیہ کے ایک ڈاکٹر نے اپنے تفصیلى مقالہ کے ضمن میں لکھا ہے : بعض سائنسداں میوہ جات کے کیٹروں کى عمرکو اس نوع کے دیگر کیٹروں کى طبیعى عمر سے نو سو گنا بنا نے میں کا میاب ہوگئے ہیں _ یہ کا میابى انھیں اس لئے میسر آئی ہے کے انہوں نے اس جاندار کو ز ہر اور دشمنوں سے محفوظ رکھا اور اس کے لئے مناسب ما حول فراہم کیا تھا_(2)_

انجینئر : میں نے بھى اپنے مطالعات کے در میان چند علمى اور دلچسپ مقا لے دیکھے ہیں کہ جن میں سائنسد انوں نے طول عمر کے راز ، ضعیفى و موت کے علل اور ان سے مبارزہ کے متعلق بحث کى ہے _ لیکن وقت ختم ہوگیا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ان کا تجزیہ آیندہ جلسہ پر موقوف کیا جائے _

ہفتہ کى شب میں جناب فہیمى صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا ، ہوشیار صاحب نے انجینئر صاحب سے خواہش کى کہ اپنے مطالب بیان کریں _

انجینئر : بہتر ہے کہ ان مقالات کامتن ہى آپ حضرات کے سامنے پیش کروں شاید مشکل حل ہو سکے _


طول عمر کے بارے میں

موت کے کارشناس و ماہر پروفسیر متالینکف لکتھے ہیں : انسان کا بدن تیس ٹر یلین مختلف خلیوں سے تشکیل پایا ہے وہ سب یکبار گى نہیں مر سکتے_ اس بنا پر موت موت اس وقت مسلّم ہوگى جب انسان کے مغز میں ایسے کیمیائی تغیرات واقع ہوجائیں کہ جن کى مرمت ممکن نہ ہو 30 اگست 1959ء کو ڈاکٹر ہانس سیلى نے کنیڈا کے شہر مونٹرال میں اخبارى نمائندوں کو ایک خلیئےى ساخت و بافت دکھائی اور بتا یا کہ یہ زندہ خلیہ حرکت میں ہے اور ہر گز نہیں مرے گا _ موصوف نے مزید دعوى کیا کہ یہ خلیہ ازلى ہے اور کہا : اگر انسان کے بافت خلیہ بھى اسى شکل میں لے آئیں تو انسان ایک ہزار سال تک زندہ رہے گا _

پر وفیسر سیلى کا خیال ہے کہ موت تھیورى کے نقطہ نگاہ سے ایک تدریجى بیمارى ہے _موصوف ہى کا نظریہ ہے کہ کوئی شخص بڑھا پے کى وجہ سے نہیں مرتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص ضعیفى کى وجہ سے مرے تو اس کے بدن کے خلیوں کو فرسودہ اور بیکار ہوجانا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ بہت سے بوڑھوں کے مختلف اعضاء اور ان کے بدن کے خلئے سالم رہتے ہیں ان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا _ بعض لوگوں کا انتقال اس لئے اچانک ہوجاتا ہے کہ یک بیک ان کے بدن کا کوئی عضو بیکار ہوجاتا ہے اور چونکہ بدن کے تمام اعضاء ایک مشین کے پرزوں کى طرح مربوط و متصل ہیں اس لئے ایک کے بے کار ہوجانے سے سارے بیکار ہوجاتے ہیں _ پروفیسر سیلى نے اعلان کیا علم طب و میڈیکل سائنس ایک دن اتنى ترقى کرے گا کہ فرسودہ خلئے کى جگہ انجکشن کے ذریعہ نیا خلیہ انسان کے بدن میں رکھدیا جائے گا اور اس طرح انسان جب تک چاہے گا زندہ رہے گا _ (3)

اى اى مچنیکف کے نقطہ نظر سے فیزیولوجى بڑھاپے جو کہ طبیعى پیش رفت کا نتیجہ ہے اور اس ضعیفى کو جو کہ ارگانزم کى اساس پر مختلف تاثیرات _ زہر ، امراض اور دوسرے مخصوص عوامل _ کا نتیجہ ہے ، کو معین کر سکتا ہے _ اس کے نظریات کى بنیاد یہ ہے کہ انسان کا بڑھا پا ایک بیمارى ہے لہذا تمام بیماریوں کى طرح اس کا بھى علاج ہونا چاہئے اس کا نظریہ تھا کہ انسان کى زندگى موجودہ زندگى سے زیادہ ہوسکتى ہے اور مزید آگے بڑھ سکتى ہے _ انسان کى زندگى درمیان را ہ گم ہوتى ہے ، اپنى اصل منزل تک نہیں پہنچتى ، لیکن میرے لحاظ سے تمام کوشش کرنا چاہئے تا کہ بشر بڑھاپے ، انحطاط کے بغیر اپنى فیزیولوجى کى عادى ضعیفى تک پہنچ جائے _ (4)


طول عمر

پروفیسر سلیہ اور اس کا عملہ ایک طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کیلشم( calcium) کا نقل و انتقال ضعیفى اور اس کى تغیرات کا عامل ہے _ کیا بڑھا پے کے عوارض کے علاج کے لئے کوئی چیز ایجاد ہوتى ہے یا نہیں؟ سلیہ نے مکرر تجربوں کے بعد ، ایرون ڈکٹر ان کے مادہ کا انکشاف کیا ہے جو کیلیشیم کو اجزاء ترکیبى سے روکتا ہے _ اس بناپر کہاجاتا ہے کہ ضعیفى کى علامتیں اور عوارض حیوانات پر کئے جانے والے تجربوں کے ذریعہ انسان کى دست رس میں آچکے ہیں اور اس سے تحفظ کا وسیلہ مل گیا ہے _ پروفیسر سلیہ کا نظریہ ہے کہ اس بات کا تو احتمال بھى نہیں دیا جا سکتا کہ نوے سالہ انسان کو ساٹھ سالہ انسان کى زندگى کى حالت کى طرف پلٹا یا جا سکتا ہے لیکن ساٹھ سالہ انسان کى زندگى کو عوارض سے بچا کر نوے سالہ عمر میں بھى ساٹھ سالہ عمر کى حالت میں رکھا جا سکتا ہے _ (5)

پروفیسر اتینگر نے اپنى ایک تقریر کے دوران کہا:'' جوان نسل ایک دن انسان کى جاویدانى اور ابدى حیات کو اسى طرح قبول کرے گى جیسا کہ آج لوگوں نے فضائل سفر کو تسلیم کر لیا ہے _ میرا نظریہ ہے کہ ٹیکنالوجى کى ترقى اور اس تحقیق سے جس کا ہم نے آغاز کیا ہے کم از کم آئندہ صدى کا انسان ہزاروں سال کى زندگى بسر کرے گا _ (6)

 

1 _ المہدى تالیف آیت اللہ صدر منقول از مجلہ ء المقتطف شمارہ 3
2 _ منتخب الاثر ص 278 منقول از مجلہ الھلال _
3_ مجلہ دانشمند شمارہ 7
4_ مجلہ دانشمند شمارہ 5 1342 ھ ش _
5_ دانشمند شمارہ5 3421 ہ ش
6_ دانشمند شمارہ 6 سال ششم