پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

ضعيفى اور اس كے اسباب

ضعیفى اور اس کے اسباب

ہوشیار: ضعیفى کیا ہے ؟

ڈاکٹر: جس وقت بدن کے اعضاء رئیسہ ، جیسے قلب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور داخلى غدود فرسودہ ہوکر اپنے فرائض کى انجام دى ، سے معذور ہوجاتے ہیں _ خون کے تصفیہ اور ضرورى ترشحات سے عاجز ہوجاتے ہیں تو بدن پر ضعف و ناتوانى کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور بڑھا پا آجاتا ہے _

ہوشیار: بڑھاپے کے بنیادى اسباب کیا ہیں؟

ڈاکٹر: بڑھاپے کى علامتیں عام طور پر کسى بھى شخص میں معین وقت پر ظاہر ہوتى ہیں _ لیکن یہ بھى مسلّم نہیں ہے کہ بڑھا پے کى اصل وجہ عمر کى یہى مقدار نہیں ہے کہ بدن کے اعضاء پر اتنى مدت گزرجائے تو بڑھاپا آجاتا ہے بلکہ ضعیفى کى بنیادى علت اختلال کى پیدائشے کو قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ اختلال عام طور پر اسى عمر میں پیدا ہوتا ہے اس بنا پر ضعیفى کى علت مرور زمان نہیں ہے بلکہ اس کى اصل علت اختلال ہے جو کہ اسى عمر میں اعضاء بدن میں پیدا ہوتا ہے _ اور اسى عمر میں بدن کى مختلف مشنریوں کى فعالیت میں کمى واقع ہوتى ہے اور تشریح الاعضاء کے نقطہ نظر سے ان کى مختلف صنعتیں سکڑجاتى ہیں_ ان کى رگوں کى تعداد بھى کم ہوجاتى ہے ، نظام ہا ضمہ بیکار اور ضرورى غذائیں فراہم کرنے سے عاجر ہوجاتا ہے اور نتیجہ میں پورے بدن پر ضعف طارى ہوجاتاہے ، طاقت تناسل کم اور مغز کى حرکت مدہم پڑجاتى ہے _ بعض اشخاص کا حافظہ خصوصاً اسماء کے سلسلہ میں بے کار ہوجاتا ہے ، نیز قوت ارادى متاثر ہوجاتى ہے _ لیکن یہ ممکن ہے کہ بدنى قوت کے کم ہونے سے روحانى طاقت میں اضافہ ہوجائے _ ممکن ہے تمام اعضاء بدن کى طرح داخلى مترشح غدود بھى چھوٹے اور ضرورى ترشحات سے معذور ہوجائیں _ لیکن مذکورہ حوادث اور ناتوانیاں بدن میں واقع ہونے والے اختلال کى پیدا وارہیں _ پس یہ کہنا چاہئے کہ ضعیفى علت نہیں ہے بلکہ معلول ہے یہاںتک کہ اگر کوئی شخص ایسا پایا جائے کہ جس کے اعضاء بدن میں طویل عمر کے باوجود اختلال پیدا نہیں ہوا ہے تو وہ سالم و شاداب بدن کے ساتھ عرصہ دراز تک زندہ رہ سکتا ہے جیسا کہ ایسے افراد بھى مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ جو کم عمرى کے باوجود طبیعى حالات کے تحت جلد فرسودہ ہوجاتے ہیں اور جلد ان پر برھاپا طارى ہوجاتا ہے _

ہوشیار: بدنى ضرورتوں کو منظم کرنے والى مشنریوں کى فرسودگى اور ناتوانى کا سرچشمہ کیا ہے؟

ڈاکٹر: پیدائشے کے وقت ہر شخص کے اعضاء بدن کام کرنے کى صلاحیت واستعداد سے مالامال ہوتے ہیں اور یہ خود والدین کے جسم ، غذا کى کیفیت ، ان کى زندگى کے ماحول اور آب و ہوا کى پیداوار ہوتے ہیں _ اس کے بعد یہ بات سمجھ میں آتى ہے کہ جب تک ان کے اعضاء میں کوئی اختلال پیدا نہ ہوگا تو وہ اپنى طبیعى استعداد کے اختتام تک اپنا کام جارى رکھیں گے اور انسان زندہ رہے گا _ لیکن جب تمام اعضاء یا ان میں سے ایک میں کوئی خلل پیدا ہوجائے گا تو وہ بے کار ہوجائے گا اور بدن کا کارخانہ نصف کام انجام دے گا اور ضعیفى کے آثار آشکار ہوجائیں گے _

مختصر یہ کہ انسان کا بدن مستقل مختلف اقسام کے دائر س ، بیکٹیریا ، جراثیم اور زہریلى چیزوں کى زدمیں رہتا ہے جو مختلف طریقوں سے اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بدن کے اندر زیریلا مواد ترشح کرتے ہیں اور بے گناہ خلیوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے ان گى زندگى کا خاتمہ کردیتے ہیں _

اس وقت انسان کے بدن پر اہم ذمہ دارى عائد ہوتى ہے _ ایک طرف اسے غذائی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، اور دوسرى طرف متعدى بیماریوں اور ضرر رساں جراثیموں کو نابود کرنے کى کوشش کرتا ہے _ خراب اعضاء کو مدد دیتا ہے ، لیکن ابھى اس دشمن کے حملہ کو ناکام نہیں بنا پاتا کہ دوسرا دشمن حملہ آور ہوتا ہے _ اس لحاظ سے بدن کى داخلى طاقت کو ہمیشہ آمادہ _ اٹینشن _ اور جنگ کے لئے تیار ، رکھتا ہے _

انسان کا بدن مبارزہ کے وسائل اور رزق فراہم کرنے کے لئے مجبور ہے _ باہر سے وارد ہونے والى غذائی طاقت سے مدد حاصل کرتا ہے _ افسوس ہے کہ ہمیں وجودى تعمیر اور اپنى درونى احتیاجات کے بارے میں کافى معلومات نہیں ہیں _ اور اس مقدس جہاد میں صرف اس کى مدد ہى نہیں کرتے بلکہ جہالت و نادانى کى بناپر اس کے دشمن کى مدد کرتے ہیں اور مضر غذا کھاکر دشمن کے لئے راستہ کھولتے اور اپنے حیات کى جڑیں کاٹتے ہیں _ واضح ہے کہ جب اپنى ضرورت کى چیزوں کو باہر سے حاصل نہیں کیا جائے گا ، تو جراثیموں کے حملہ کے مقابلہ میں مقاومت نہیں کرسکیں گے اور اپنے فرائض کى انجام وہى ہے عاجز ہوجائیں گے ، سرزمین بدن کو دشمنوں کے حملہ سے بچانے کیلئے کوئی طاقت نہ ہوگى اور اس میں ضعف و ناتوانى کے آثار نمایاں ہوجائیں گے _

جیسا کہ کبھى بدن زیاد ہ محنت و مشقت کى وجہ سے ضعیف ہوجاتا ہے ، کبھى غیر معمولى حوادث کى وجہ سے طبیعى عمر سے پہلے ہى بلاء میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس پر بہت جلد بڑھاپا طارى ہوجاتا ہے _ بعض سائندانوں کا خیال ہے کہ بعض بیماریوں اور برى عادتوں سے انسان پر جلد بڑھا پا طارى ہوجاتا ہے _'' مچنیکوف'' کا نظریہ ہے ROTRTIK اور خشکى کے خمیر سے جو زہر یلے جراثم وجود میں آتے ہیں وہ بھى انسان کے ضعف و بڑھاپے کا باعث ہوتے ہیں اگر ان کو ختم کردیا جائے تو اس کى عمر میں اضافہ ہوجائے گا _

اس نظریہ کى بنیاد اس تجربہ پر استوار تھى چونکہ ، بالکان خصوصاً بلغارستان ترکى اور قفقاز میں سو سال سے زیادہ بوڑھوں کى تعداد اچھى خاصى ہے ، لہذا اس عمر درازى کى علت دھى کے استعمال کو قرار دیا ، اس کا نظریہ تھا کہ دھى میں چونکہ کھٹاس ہوتا ہے جو کہ ROTROTK کو ختم کردیتا ہے اور طول عمر میں معاون ہوتا ہے _ لیکن واضح ہے کہ ان کوہ نشین لوگوں کى طول عمر کا راز ان کى غذا ہى نہیں ہے بلکہ آب و ہوا ، پر سکون زندگى ، مستقل جد و جہد او رموروثى عوامل کم و بیش سب ہى اس میں دخیل ہیں _ ان مشاہدات کى نظیر ایران کے کوہ نشین انسانوں میں بھى موجود ہے _

ہوشیار: کیا موت اور کارخانہ بدن کے بیکار ونے کى اصل علت طول عمر اور اعضاء کے کام کى کثرت ہے کہ جس سے بڑھاپے میں موت یقینى ہے یا موت کى بنیادى علت کوئی اور چیز ہے ؟

ڈاکٹر: موت کى اصلى علت بدن کے تمام اعضاء رئیسہ یا ان میں سے ایک میں خلل کا پیدا ہونا ہے جب تک خلل پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک موت واقع نہیں ہوگى _ یہ خلل اگر ضعیفى کے زمانہ سے قبل پیدا ہوجاتا ہے تو جوان انسان بھى مرجاتا ہے لیکن اگر حوادث کى گزند سے محفوظ رہے کہ عام طور پر ضعیفى کے زمانہ میں ان حوادث کا پیدا ہونا ضرورى ہے _لیکن اگر کوئی ممتاز انسان پایا جائے جس نے طویل عمر پائی ہو تو اپنے جسم کى مخصوص ترکیب اور تمام شرائط کى موجود گى کى بناپر اس کے کسى بھى عضو میں خلل پیدا ہوا ہو تو طول عمر اس کى موت کا باعث نہ ہوگى _

ہوشیار : کیا مستقبل میں انسان ایسى دو کے انکشاف میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ جس سے وہ اپنے بدن کى استعداد میں اضافہ کر سکے اور ضعیفى اور جسمانى خلل کو روک سکے ؟

ڈاکٹر: یہ ایسا موضوع ہے جو ممکن ہے اسے آج ناقص علم سے اور قیاس کى روسے غلط نہیں کہا جا سکتا _ اس سلسلے میں سائنسداں امید اور سنجیدگى کے ساتھ تحقیق میں مشغول تھے اور ہیں ، امید ہے کہ طو ل عمر کا راز جلد ہى کشف ہوجائے گا اور انسان ضعیفى اور کم عمرپر غلبہ پائے گا _