پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

عقيدہ كا اختلاف

عقیدہ کا اختلاف

ایک اور چیز جو اکثر راوى کى تضعیف کا سبب ہوتى ہے اور جس سے وہ نیک اور سچے کو بھى متہم کردیتے ہیں اور ان کى حدیثوں کو رد کردیتے ہیں وہ عقیدہ کا اختلاف ہے _ مثلاً اس زمانہ میں ایک حساس اور قابل تفتیش و متنازع موضوع خلق قرآن کا شاخسانہ تھا ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ قرآن مخلوق نہیں ہے بلکہ قدیم ہے دوسرا کہتا تھا قرآن مخلوق وحادث ہے _ ان دونوں گروہوں کى بحث و کشمکش اور جھگڑے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک نے دوسرے کو کافر تک کہنا شروع کردیا _ چنانچہ احادیث کے راویوں کى ایک بڑى جماعت کو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کے جرم میں ضعیف وکافر قراردیدیاگیا _

صاحب ''اضواء على السنة المحمدیہ '' لکھتے ہیں : علما نے راویان احادیث کى ایک جماعت ،جیسے ابن الحصیعہ ، کو کافر قراردیدیا _ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ قران کو مخلوق کہتا تھا _ اس سے بھى بڑھ کر محاسبى کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :'' انہوں نے اپنے باپ کى میراث سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا: دو متفرق مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے ، مجھے والد کى میراث نہیں چاہئے _ میراث سے انکار کى وجہ یہ تھى کہ ان کے والد واقفى تھے یعنى قرآن کے مخلوق ہونے یا مخلوق نہ ہونے کے سلسلے میں متردد تھے _ (1)

 

جیسا کہ شدید مذہبى تعصب اور عقیدوں کا اختلاف اس بات کا سبب ہوا کہ وہ لوگوں کى سچائی اور امانت دارى کو نظر انداز کردیں اور ان کى احادیث کو مسترد کردیں _ اسى طرح مذہب و عقیدے کے اتحاد کى وجہ سے لوگ اپنے ہم مسلک افراد کے جرائم اور برائیوں سے چشم پوشى کرنے اور ان کى تعدیل و توثیق کا باعث ہوا مثلا عجلى ، عمر و بن سعد کے بارے میں کہتا ہے : وہ موثق تابعین میں سے تھے اور لوگ ان سے روایت کرتے تھے _ جبکہ عمرو بن سعد حسین بن على یعنى جوانان جنت کے سردار رسول خدا کے پارہ دل کا قاتل تھا''_ (2)

اسى طرح بسر بن ارطاة ایسے _ کہ جس نے معاویہ کے حکم سے ہزاروں بے گناہ شیعوں کو قتل کیا تھا اور جانشین رسول خدا حضرت على بن ابى طالب کو کھلم کھلا برا بھلا کہتا تھا _ نجس انسان کو اس ننگ وعارکے باوجود مجتہد اور قابل درگزر قراردیتے ہى _ (3)

عتبہ بن سعید کے بارے میں یحیى بن معین کہتا ہے وہ ثقہ ہیں ،نسائی ، ابوداؤد اور دارقطنى نے بھى اسے ثقہ جانا ہے جبکہ عتبہ حجاج بن یوسف جیسے ظالم شخص کا مددگار تھا _ بخارى نے اپنى صحیح میں مروان بن حکم سے روایات نقل کى ہیں اور اس پر اعتماد کیا ہے _ حالانکہ جنگ جمل کے شعلے بھڑ کانے والوں میں سے ایک مروان بھى تھا اور حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے کیلئے طلحہ کو برا نگیختہ کیا تھا _ اور پھر اثنائے جنگ میں انھیں قتل کرد یا تھا _(4)

یہ باتیں مثال کے طور پر لکھى گئی ہیں تا کہ قارئین مصنفّین کے طرز فکر ، فیصلہ کے طریقے اور عقیدہ کے اظہار سے آگاہ ہو جائیں اور یہ جان لیا کہ محبت و بغض اور تعصب نے انھیں کس منزل تک پہنچادیا ہے _

اضواء کے مولف لکتھے ہیں کہع ذرا ان علما کے فیصلہ کو ملا حظہ فرمائیں اور غور کریں کہ اس نے اس شخص کى توثیق کردى جو علی(ع) کى شہادت پر راضى ، طلحہ کا قاتل اور حسین بن على (ع) کى شہادت کاذمہ دارتھا _ لیکن اس کے بر خلاف بخارى اور مسلم جیسے لوگوں نے امت کے علماء و حافظوں جیسے حماد بن مسلمہ اور مکحول ایسے عابد وزاہد کورد کردیا ہے _(5)

مختصر یہ کہ جو شخص اہل بیت اور حضرت علی(ع) کے فضائل میں یا شیعوں کے عقیدہ کے مطابق کوئی حدیث بیان کرتا تھا تو متعصب لوگ اس کى حدیث کى صحت کو مخدوش بنادتیے تھے اور سر کارى طور پر اس کى حدیثوں کے مردود ہونے کا اعلان کردیا جاتا تھا اور اگر کسى شخص کا شیعہ ہونا ثابت ہو جاتا تھا تو اس کے لئے بغض دعناد اور اس کى حدیث کو ٹھکرانے کیلئے اتنا ہى کافى ہوتا تھا _ اگر آپ جریر کے کلام میں غور کریں تو عامة المسلمین کے تعصب کا اندازہ ہوجائے گا ، جریر کہتے ہیں : میں نے جابر جعفى سے ملاقات کى لیکن ان سے حدیثیں نہیں لى ہیں کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے _ (6)

 

1_ اضواء على سنة المحمدیہ طبع اول ص 316_
2_ اضواء على سنة ص 319
3_ اضواء على سنة ص 321
4_ اضواء على سنة ص 317
5_ اضواء ص 319_
6_ صحیح مسلم ج 1 ص 101_