پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

سختيوں كو جھيلنا سيكھئے

سختیوں کو جھیلنا سیکھئے

دنیا میں ہر ایک کے حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے _ انسان کى زندگى میں ہزاروں نشى و فراز آتے ہیں _ کبھى انسان کسى شدید مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے _ کبھى بے روزگار ہوکر گھر بیٹھ رہتا ہے _ کبھى ایسا ہوتا ہے کہ سارامال و متاع لٹ جاتاہے اور تہى دست ہوجاتا ہے_ غرض کہ انواع و اقسام کے حادثات اورپریشانیاں ہر انسان کى زندگى میں وقوع پذیر ہوتى رہتى ہیں _

میاں بیوى ، جو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوکر ایک دوسرے کاساستھ نبھانے کا عہد کرتے ہیں ، اس رشتہ کا تقاضہ ہے کہ ہر حال میں ایک دوسرے کے یارومددگار اور مونس و غمخوار رہیں ... رشتہ ازدواج اس قدر استوار اور محبت کا رشتہ اس قدر مستحکم ہونا چاہئے کہ ہر حال میں اپنے عہد و پیمان پر باقى رہیں ، خوشى و غم ہر حال میں ساتھ رہیں س_ سلامتى اور بیمارى ، خوشحالى اور تنگ دستى ہر حال میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں _

خواہر عزیز اگر گردش روزگار سے آپ کے شوہر تہى دست ہوجائیں تو ایسا ہرگز نہ کریں کہ خود رنجیدہ ہوکر اس کے غموں میں اضافہ کریں اور اعتراض و شکایتیں کرنے لگیں اگر شدید بیمارى میں مبتلا ہوکر ایک مدت تک گھر بیٹھ رہا یا اسپتال میں بھرتى ہوگیا تو وفادارى اور انسانیت کا تقاضہ یہ ہے کہ پہلے ہى کى طرح بلکہ پہلے سے بھى زیادہ اس سے محبت کا اظہار کریں اور نہایت صدق دلى سے اس کى تیماردارى کریں _ایسے موقع پر تیماردارى اور خرچ کرنے سے دریغ نہ کریں _اگر آپ کے شوہر کے پاس نہیں ہے لیکن آپ کے پاس ہے تواپنے مال میں سے اس کے علاج کے لئے خرچ کیجئے _

 

اگر آپ بیمار پڑجاتى ہیں تو وہ اپنے امکان بھر اپنے مال کو آپ کے علاج و معالجہ پر صرف کرتا ہے _اب اگر اس کے پاس نہیں ہے لیکن آپ پاس ہے تو وفادارى اور خلوص کا تقاضہ ہے کہ اپنے مال و متاع کو اس کے لئے خرچ کیجئے _ اگر اس حسّاس موقع پر آپ نے ذرا بھى کوتاہى کى تو وہ آپ کو ایک بے وفا اور خود غرض عورت سمجھے گا جو مال دنیا کو اپنے شوہر کے وجود پر ترجیح دیتى ہے ایسى صورت میں اس کے دل میں آپ کى محبت و الفت کم ہوجائے گى _ حتى کہ ممکن ہے اس قدر بیزار ہوجائے کہ آپ شریک حیات اور بیوى بنانے کے لائق نہ سمجھے اور طلاق کو ترجیح دے _

ذیل کے واقعہ پر غور کیجئے :_

ایک شخص نے عدالت میں بیوى کو طلاق دینے کى درخواست دى _ اس نے اپنے بیان میں کہا کہ میں بیمار تھا اورڈاکٹر نے آپریش کرانے کے لئے کہا تھا میں نے اپنى بیوى سے کہا کہ تمہارے پاس جو رقم جمع ہے وہ مجھے قرض کے طور پر دیدو لیکن وہ تیار نہیں ہوئی اور جھگڑکر میرے گھر سے چلى گئی _ مجبوراً مجھے ایک سرکار اسپتال میں اپنا آپریشن کرانا پڑا اوراب میں صحت یاب ہوگیا ہوں _ لیکن ایسى عورت کے ساتھ زندگى گزارنا میرے لئے محال ہے جو روپیہ کو مجھ پر فوقیت دیتى ہو _ ایسى عورت کو میں شریک زندگى کانام نہیں دے سکتا _ ''(94)'' _

ہر انسان کا ضمیر اس بات کى تصدیق کرے گا کہ یہ شخص حق بجانب تھا _ ایسى خود غرض عورت جو ایک ایسے حساس اور نازک موقع پر جبکہ اس کے شوہر کى جان خطرہ میں پڑى ہو اور اپنے شوہر کو بچانے کے لئے اپنى جمع رقم خرچ کرنے سے دریغ کرے اور ایسى حالت میں اسے چھوڑ کر اپنے میکے چلى جائے واقعى ''شریک حیات'' جیسے قابل احترام مرتبہ کى مستحق نہیں ہے _

پیارى بہنو آپ اس بات کا دھیان رکھیں کہ ایسے حساس موقعوں پر انسانیت اور خلوص و ہمدردى کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں _ اگر آپ کے شوہر ( خدانخواستہ ) دائمى طور پر بیماررہنے لگے ہیں تو ایسا ہرگز نہ کیجئے گا کہ اس کو اور بچوں کو تنہا و بے سرپرست چھوڑکر چلى جائیں _ کیا آپ کا ضمیر اس بات کو گوارا کرے گا کہ شوہر بیچارہ جس کے ساتھ خوشى کے دنوں میں تو آپ ساتھ تھیں ، اب مجبور و لاچار پڑاہے تو اس کا ساتھ چھوڑ کر چلى جائیں _ کہیں ایسا نہ ہو کہ خو د آپ بھى اسى لا میں گرفتار ہوجائیں فرض کیجئے آپ نے طلاق لے لى اور دوسرى شادى بھى کرلى تو کیا خبر کہ وہ آپ کے حق میں اچھا ہوگا خود غرضى اور ہوش بازى چھوڑیئے ایثار و قربانى سے کام لیجئے _ جذبات و احساسات سے مملو رہئے _ رضائے خدا اور اپنى عزت و ناموس کا پاس کیجئے _ اور اپنے شوہر اور بچوں کا ہر حال میں ساتھ دیجئے _صبر و بردبارى سے کام لیجئے _ اپنے بچوں کى اچھى طرح تربیت کیجئے اور عملى طور پر انھیں ہر حال میں خوش رہنے اور ایثار و قربانى کرنے کاسبق سکھایئے یقینا اس کے عوض آپ کو دنیا و آخرت میں بہترین اجر ملے گا کیونکہ آپ کا یہ عمل عین شوہردارى ،کے مصداق ہے کہ جسے جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے _

پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامى ہے _ عورت کا جہاد یہى ہے کہ اپنے شوہر کى اچھى طرح دیکھ بھال کرے '' _ (95)

 


94 _ روزنامہ اطلاعات 6 اردسمبر 1971
95_ بحارالانوار ج 103 ص 247