پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

پيش لفظ

پیش لفظ

ہر لڑکے اور لڑکى ، سن بلوغ کو پہونچنے کے بعد سب سے بڑى آرزو یہ ہوتى کہ وہ شادى کریں اور شادى کے ذریعہ اپنى مشرتکہ زندگى کى اساس پر زیادہ سے زیادہ استقلال و آزادى حاصل کریں اور ایک مونس و غمخوار اور ہمدم و ہمراز پالیں _ ازدواجى زندگى کو زندگى کا نقطہ عروج اور خوش نصیبى کا آغاز سمجھا جاتا ہے اسى لئے شادى کا جشن منایا جاتا ہے _ عورت کو مرد کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور مرد کو عورت کیلئے جو مقناطیس کى طرح ایک دوسرے کو اپنے میں جذب کرلیتے ہیں _ شادى اور مشترکہ زندگى کے ذریعہ خاندان کى تشکیل ایک فطرى خواہش ہے جو انسان کى سرشت میں رکھى گئی ہے _ اور یہ چیز خود ، خداوند عالم کى عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے _

یقینا خاندان کے نرم و گرم ماحول کے علاوہ وہ کون سى جگہ ہوسکتى ہے جو جوانوں کے لئے ایک قابل اطمینان پناہ گاہ کى حیثیت رکھتى ہو_ یہ اپنے خاندان سے تعلق خاطر اور محبت ہى تو ہوتى ہے جو جوانوں کو پراگندہ افکار اور ذہنى پریشانیوں سے نجات دلاتى ہے _ یہیں پر انھیں ایک وفادار مہربان ساتھى و غمگسار مل سکتا ہے جو مصیبتوں اور پریشانیوں میں ان سے اظہار ہمدردى کرے اور ان کے غم میں برابر کا شریک ہو _

ازدواج کا مقدس پیمان ایک ایک آسمانى رشتہ ہے جودلوں کو آپس میں جوڑ دیتاہے _ پریشان دلوں کو سکوں بخشتا ہے _ پراگندہ افکار کا رخ ایک مقصد کى جانب موڑدیتا ہے _'' گھر '' عشق و محبت کا گہوارہ، انس و مودت کا مرکز اوربہترین پناہ گاہ ہوتا ہے _

خدائے بزرگ و برتر، قرآن مجید میں اس عظیم نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : '' خدا کى نشانیوں میں سے ایک نشانى یہ ہے کہ اس نے تمہارے ہى جنس میں سے تمہارے لئے شریک زندگی(ہمسر) پیدا کى تا کہ ان سے انس پیدا کرو اور ان کے ساتھ آرام و چین سے رہو اور تمہارے درمیان الفت و محبت پیدا کى _ اس سلسلے میں غور کرنے والوں کے لئے بہت سى نشانیاں موجود ہیں _ (1)

پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں :'' ایسا مرد ، جو بیوى نہیں رکھتا ، مسکین اور بیچارہ ہے خواہ وہ دولتمند ہى کیوں نہ ہو _ اسى طرح بے شوہر کى عورت مسکین اور بیجارى ہے اگر چہ دولتمند ہى کیوں نہ ہو ''_ (2)

حضرت امام جعفر صادق (ع) نے ایک شخص سے پوچھا _ تمہارى بیوى ہے ؟ اس نے کہا نہیں _ آپ نے فرمایا میں پسند نہیں کرتا کہ ایک شب بھى بغیر بیوى کے رہوں چاہے اس کے بدلہ میں سارى دنیا کى دولت کا مالک ہى کیوں نہ بن جاؤں_ (3)

رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامى ہے : اسلام میں کوئی چیز ایسى نہیں جو خدا کے نزدیک شادى سے زیادہ عزیز اور محبوب ہو _ (4) جى ہاں خداوند مہربان نے انسان کو ایک عظیم اور گران بہا نعمت عطا کى ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ اس عظیم نعمت کى قدر نہیں کى جاتى اور اکثر اوقات نادانى اور خود غرضى کے سبب، مہر و محبت کا یہ مرکز ، ایک تاریک زندان بلکہ دہکتے ہوئے جہنّم میں تبدیل ہوجاتا ہے _

انسان کى جہالت اور نادانى کا نتیجہ ہوتا ہے کہ گھر کى رونق اور خاندان کا سکون و چین ایک اذیت ناک قید خانے میں تبدیل ہوجاتا ہے اور خاندان کے افراد مجبور ہوجاتے ہیں کہ یا تو آخر عمر تک اس تاریک زندان میں زندگى گزاریں یا پھر شادى کے مقدس بندھں کو توڑڈالیں _

ہاں اگر میاں بیوى اپنے اپنے حقوق و فرائض سے پورى طرح واقف ہوں اور اس پرعمل کریں تو گھر ، کا ماحول بہشت برین کى مانند صاف ستھرا اور پاکیزہ ہوگا اور اگر آپس میں اختلاف اور باہمى کشمکش پیدا ہوجائے تو گھر ، ایک حقیقى قیدخانہ بن جائے گا _

خاندان میں اختلاف کے مختلف اسباب و عوامل ہوتے ہیں مثلاً مالى وجوہات ، میاں بیوى کى خاندانى ، تربیت ، زندگى ، کا ماحول ، شوہر یا بیوى کے ماں باپ یا دوسرے عزیزوں کى بیجامداخلت ، اور اسى طرح کى دوسرى بہت سى وجوہات _

لیکن منصف کا عقیدہ ہے کہ خاندانى اختلافات اور آپسى کشیدگى کا سب سے بڑا سبب، میاں بیوى کى ازدواجى زندگى کے فرائض سے عدم واقفیت اور خاندان کى مشترک زندگى کے لئے پہلے سے آمادہ نہ ہوتا ہے

کسى بھى ذمہ دارى کو سنبھالنے سے پہلے اور کسى کام کو انجام دینے کے لئے تیارى اور مہارت حاصل کرنا ایک بنیادى شرط مانى جاتى ہے _ اور جو شخص کافى معلومات نہ رکھتا ہو اور پہلے سے آمادہ نہ ہو وہ کسى بھى کام کو بخوبى انجام نہیں دے سکتا یہى وجہ ہے کہ کسى ذمہ دارى کو سنبھالنے سے پہلے اس کے لئے ٹرنینگ حاصل کرنى ہوتى ہے _

شادى اور مشترک زندگى کى بنیاد قائم کرنے کے لئے بھى پہلے سے کافى معلومات ، تیارى اور مہارت حاصل کرنا ضرورى ہے _ لڑکى کو چاہئے کى اپنى بیوى کى طرز فکر ، اس کى پسند و ناپسند ، اس کى جذبات و خواہشات اور ازدواجى زندگى کى مشکلات اور اس کے حل نیز آداب و معاشرت کے متعلق کافى معلومات حاصل کرے _ اس بات پر توجہ رکھنى چاہئے کہ بیوى لانے کا مطلب کوئی چیز خرید نا یا نوکرانى لانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب وفادارى ، صداقت ، محبت اور تعاون کا عہد کرنے اور خاندان کى مشترک زندگى میں قدم رکھنا ہے لڑکى کو بھى چاہئے کہ اپنے شوہر کے طرز فکر ، اس کى اندرونى خواہشات و جذبات اور پسند و ناپسند کو مد نظر رکھے اور سمجھے کہ شادى کا مطلب نوکر حاصل کرنا اور بغیر کسى قید و شرط کے تمام خواہشات و آرزؤوں کا پورا ہوجانا نہیں ہے _ بلکہ شادى کا مقصد آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور زندگى کى جد و جہد میں برابر کا شریک ہونا ہے اور اس مقدس مقصد کے حصول کے لئے عفو و درگذر اور ایثار و قربانى جیسى خصوصیات اور آپسى سمجھوتے کا ہونا بہت ضرورى بلکہ لازمى ہے _ چونکہ شادى کے ذریعہ لڑکے اور لڑکى کى قسمت کا فیصلہ ہوتاہے لہذا ان کے لئے ضرورى معلومات حاصل کرنا اور اخلاقى طور پر آمادہ رہنا نہایت ضرورى ہے _ مگرافسوس ہمارے معاشرے میں اس اہم موضوع کى نسبت غفلت برتى جاتى ہے _

جہیز مہر ، خوبصورتى اور شخصیت کے مسئلہ پر والدین کا فى توجہ دیتے ہیں _ مگر لڑکے اور لڑکى کے لئے خاندانى زندگى کو تشکیل دیتے نیز ایک دوسرے کے حقوق کو بخوبى ادا کرنے کے لئے پہلے سے آمادگى کو شادى کى اصل شرط قرار نہیں دیتے _

لڑکى کى شادى کردیتے ہیں لیکن ایسى حالت میں کہ وہ امور خانہ دارى اور شوہر دارى کے آداب و طور طریقوں سے نا آشنا ہوتى ہے لڑکے کے لئے بیوى فراہم کردیتے ہیں اگر چہ وہ ''زن داری'' اور خاندان کى سرپرستى کے اصولوں سے ناواقف ہوتا ہے _

جب دونا تجربہ کا نوجوان زندگى کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو اپنى کم علمى اور ناسمجھى کى بناپر سینکڑوں قسم کى مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں _ اختلافات ، تلخیاں ، لڑائی اور جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں _ ماں باپ کى مداخلت بھى ، چونکہ عقل و تدبر کى روسے نہیں ہوتى ، لہذا ان مشکلات کو حل کرنے کے بجائے ، اختلافات کو اور زیادہ بڑھانے اور اس میں اضافہ کرنے کا سبب بنتى ہے _

شادى کے شروع کادور ایک پر آشوب اور بحرانى دورہوتا ہے _ اسى نازک دور میں بہت سى زندگیاں اطلاق کے ذریعہ تباہ و برباد ہوجاتى ہیں بعض ایسے بھى ہوتے ہیں جو شادى کے بندھن کو توڑتے تو نہیں مگر ان کى زندگیوں میں آخر عمر تک کشمکش اور زور آزمائی کا سلسلہ جارى رہتا ہے اوراس '' اختیارى قیدخانے'' کے عذاب و مصیبت کو طلاق پر ترجیح دیتے ہیں _ بعض خاندان کچھ دن بعد ، جلدہى یا دیر میں ایک دوسرے کے اخلاق و کردار سے واقف ہوجائے ہیں اور ان کى زندگیوں میں ایک حد تک سکون او ر ٹھہراؤ پیدا ہوجاتا ہے _

کاش ایسے لڑکے اور لڑکیوں کے لئے جو شادى کى منزل میں قدم رکھنا چاہتے ہیں ، ازدواجى زندگى کے آداب اور طور طریقے سکھانے کے نام سے کچھ تربیتى ادارے قائم کئے جائیں اور وہاں ان کى صحیح طریقے سے تربیت کى جائے اور جب وہ وہاں کے کورس کو پورا کرلیں اور مشترکہ خاندانى زندگى گزارنے کیلئے تیار ہوجائیں تو انھیں با صلاحیت ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا جائے اس کے بعد وہ شادى کریں ( خدا کرے جلد وہ دن آئے ) _ چونکہ مصنف کى نظر میں یہ بہت اہم سماجى مسئلہ ہے اور وہ اس کى اہمیت کو شدت سے محسوس کرتا ہے _ اسى لئے اس نے یہ کتاب تصنیف کى ہے _ اس کتاب میں ازدواجى زندگى کى مشکلات کاجائزہ لیا گیاہے اور قرآں مجید ، پیغمبر اسلام و ائمہ علیہم السلام کى احادیث سے استفادہ کیا گیا ہے _ کہیں پر ذاتى تجربوں اور روزمرہ رونما ہونے والے واقعات کے اعداد و شمار کى مدد سے اہم نکتوں کى طرف توجہ دلائی گئی ہے او ر ضرورى ہدایات دى گئی ہیں _

مصنف اس بات کا دعوى نہیں کرتا کہ اس کتاب کو پڑھنے سے زندگى کى تمام مشکلات حل ہوجائیں گے بلا شبہ زندگى میں اور بہت سى مشکلات اور اس کے گوناگوں اسباب ہوتے ہیں لیکن یہ امید کرتا ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے اور اس پرع مل کرکے ، بہت سى خاندانى ، الجھنوں اورپریشانیوں کا سدباب کیا جا سکتا ہے _

ملت کے خیرخواہوں اور دانشوروں سے توقع کى جاتى ہے کہ اس موضوع کى اہمیت و ضرورت کو محسوس کریں گے اور اپنے مؤثر اور سنجیدہ اقدامات کے ذریعہ خاندانوں کو پریشانیوں اور بدبختى سے نجات دلائیں گے _ ( انشاء اللہ)

اس کتاب میں عورت اور مرد دونوں کے فرائض کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے _ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے _ پہلے حصہ میں شوہر کے لئے بیوى کے فرائض کے موضوع پر بحث کى گئی ہے اور دوسرے حصے میں بیوى کى نسبت شوہر کے فرائض پر روشنى ڈالى گئی ہے _ لیکن شوہر و بیوى دونوں کیلئے ضرورى ہے کہ دونوں حصوں کا مطالعہ کریں تا کہ اپنے مشترکہ فرائض سے واقفیت حاصل کریں اور اپنے حالات میں بہترى پیدا کریں _

ممکن ہے جب آپ کتاب کے کسى حصے کو پڑھیں تو خیال ہو کہ ایک طرف جانبدارى سے کام لیا گیا ہے اور دوسرے کے فرائض کو بیان کرنے کے سلسلے میں غفلت برتى گئی ہے _ لیکن ایسا نہیں ہے _ جب آپ دوسرے حصہ کو بھى پڑھیں گے تو اس بات کى تصدیق کریں گے کہ کسى قسم کا تعصب نہیں برتا گیا ہے بلکہ زن و شوہر دونوں کے حقوق و فرائض کے سلسلے میں غیر جانبدارى سے کام لیا گیا ہے _
قم _ حوزہ علمیہ_ ابراہیم امینی

تیرماہ سنہ 1354 ہجرى شمسى _جولائی سنہ 1975 ئ

1_ سورہ روم آیت 21
2_ مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، مصنف : على بن ابى بکر ابوالحسن نور الدین الہیثمى مصری(م سنہ 807 ھ ،سنہ 1405ئ)
3_بحار الانوار ، مصنف ، علامہ محمد باقر مجلسى (رہ) (م سنہ 1111ھ) جلد 103 ص 217
4_ بحارالانوار ، جلد 103 ص 222