پایگاه اطلاع رسانی آیت الله ابراهیم امینی قدس سره

عرض مترجم

دوسرى زبانوں کے لٹریچر اپنى زبان میں منتقل کرنے کا مقصد کسى قوم کے ادب و ثقافت اور تہذیب و تمدّن سے اپنى قوم اور اپنے ہم وطنوں کو روشناس کرانا ہوتا ہے _ ترجمہ کا کام ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور یہ بڑى عمدہ روش ہے _

البتہ زیر نظر کتاب کا ترجمہ مذکورہ مقصد کو سامنے رکھ کر نہیں کیا گیا ہے بلکہ ترجمہ کے لئے اس کتاب کو منتخب کرنے کے کچھ دوسروے اسباب ہیں _

خاندان میں افراد کے درمیان باہمى تعلقات و روابط اوراخلاق کے متعلق اردو میں جامع اور قابل قدر تصانیف بہت کم نظر آتى ہیں خصوصاً ہمارى زبان میں ایسى کتابوںکى بے حد کمى ہے جس میں ان روابط کو قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ اطہار (ع) کى روشنى میں بیان کیا گیا ہو _

ہم سبھى اپنے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کى ادائیگى میں رات دن مشغول رہتے ہیں لیکن اگر اس میں خدا کى خوشنودى کا تصور بھى شامل رہے اور اگر ہم اس بات سے واقف ہوں کى خدا کى نظر میں ہمارے روزمرہ کے معمولى سے معمولى کاموں کى بھى کتنى اہمیت ہے ، تو ان کاموں کى قدر و قیمت کئی گنا بڑھ جاتى ہے _

مثلاً خواتین رات دن گھروارى کے گوناگوں کاموں میں مشغول رہتى ہیں ان صبر آزما کاموں کو ہنسى خوشى یا بددلى کے ساتھ چار و ناچار انجام دینا ہى پڑتا ہے _ البتہ اگر انھیں یہ معلوم ہوجائے کہ یہ تمام کام محض ان کے فرائض کى انجام وہى میں شامل نہیں ہیں بلکہ ان کا شمار عبادات الہى میں ہوتا ہے اور خداوند عالم نے اسے عورت کے جہاد سے تعبیر کیا ہے تو ان کاموں کو انجام دینے میں زیادہ شوق ، دلچسپى اور لگن پیدا ہوگى _ اور جو کام ذوق و شوق اور دلچسپى کے ساتھ انجام دیا جائے خواہ وہ کیسا ہى تھى تھکا دینے والا کیوں نہ ہو اس میں زیادہ تھکن کا احساس نہیں ہوتا _ البتہ وہى کام اگر مجبورى اور اپنے اوپر مسلط سمجھ کرکیا جائے تو چونکہ دل جمعى اور دلچسپى کے ساتھ نہیں کیا جاتا ، اس لئے اس میں تھکن زیادہ محسوس ہوتى ہے اوراکتا ہٹ بھى قائم رہتى ہے _ یہى وجہ ہے کہ جو کام ہم پر ہمارى مرضى کے بغیر مسلط کئے جاتے ہیں ان کو ہم اچھى طرح انجام نہیں دے پاتے لیکن جن چیزوں سے ہم کو دلچسپى ہے ان کاموں کو ہم مختصر وقت میں اور بہتر طریقے سے انجام دیتے ہیں _

بچّے کى پرورش آسان کام نہیں _ ماں دن بھر کے کاموں کے بعد تھک کررات کو سنا چاہتى ہے مگر بچّے کو کسى وجہ سے نیند نہیں آرھى ہے وہ بے چین ہے _ کبھى بہانے کرکے روتا ہے کبھى کسى چیز کى فرمائشے کرتا ہے_ ماں پر نیند کا غلبہ ہے _ ایک طرف نرم و گرم بستر آرام کرنے کى دعوت دے رہا ہے دوسرى طرف بچے کو پرسکون کرنا ہے _ مامتا کا عظیم جذبہ ہر چیز پر غالب آتا ہے وہ اپنا آرام بھول کر بچے کو آرام پہونچانے کى فکر میں لگ جاتى ہے _ مامتا کا یہ جذبہ خداوند رحیم و کریم کا ہى عطا کردہ ہے لیکن اگر ماں کے دل میں بچّے کى محبت کے ساتھ یہ جذبہ بھى شامل رہے کہ وہ خدا کى معصوم مخلوق اور معاشرہ کى ایک فرد کى خدمت انجام دے رہى تو یقینا اجر میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا _

آج کل بعض خواتین بچوں کو دودھ پلانا معیوب سمجھتى ہیں اگر انھیں یہ معلوم ہوجائے کہ ان کے بچے کى صحت و سلامتى نیز ذہنى و جسمانى نشو و نما اور کردار سازى کے لئے ماں کا دودھ کتنى اہمیت رکھتا ہے نیز خدا و رسول (ص) نے بھى اس کى بہت تاکید کى ہے اور اس کا بڑا اجر مقرر فرمایا ہے تو یقین ہے مومن خواتین اس سے ہوے والے دہرے فائدے کو نظر انداز نہیں کریں گے _ ایران میں اسلامى انقلاب کى کامیابى کے بعد ماؤں کى یادآورى کے لئے دودھ کے ڈبوں پر حضرت رسول اکرم (ص) کے اقوال درج ہوتے ہیں _ اسى طرح کسب معاش اور بیوى بچّوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے مرد کوگھر سے باہر گوناگوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے البتہ کسى کو کم زحمات کے ساتھ روزى مہیّا ہوجاتى ہے اور کسى کو اس کے حصول کے لئے بے حد زبردست صبرو ضبط اور محنت و مشقّت سے کام لینا پڑتا ہے _ البتہ اگر مرد کو خدا کے نزدیک اپنے عمل کى قدر و قیمت کا اندازہ ہوجائے اور وہ اپنے فرائض کو خوشى خوشى اور خوشنودى خدا کے تصور کو سامنے رکھ کر انجام دے تو اس کو کہیں زیادہ ثواب ملے گا _

اسلام میں عورت و مرد دونوں کو حقوق عطا کئے گئے ہیں اور ان کى جسمانى ساخت کى مناسبت سے عادلانہ طور پر ان کے فرائض بھى مقرر کئے گئے ہیں _

ہم کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے اور اپنى مقدس کتاب قرآن مجید بے حد عزیز ہے لہذا ہم میں سے ہر مسلمان عورت و مرد کا فرض ہے کہ اسلام کى روشنى میں اپنے حقوق و فرائض کو سمجھ کر اس پر عمل کریں اور اپنے مثال کردار کے ذریعہ اپنے مقدس دین کى تبلیغ کریں _

زیر نظر کتاب ایک مشہود و معروف عالم دین اور مصنف کى فکر کا نتیجہ ہے اس کتاب میں بعض جملوں یا مفہوم کى تکرار کى گئی ہے لیکن اسے مصنف کے طرز نگارش کى خامى نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اس کا مقصد اس موضوع پر تاکید کرنا ہے اور باربار مختلف طریقوں سے اسے دہراکر ذہن نشین کرانا ہے _ بعض جگہ طوالت سے کام لیا گیا ہے _ اس کا مقصد بھى یہى ہے کہ مثالوں کے ذریعہ بات اس طرح بیان کى جائے کہ دل میں اتر جائے _

شاہى دور میں ایرانى معاشرہ مغرب کى اندھى تقلید کے نتیجہ میں گوناگوں برائیوں میں ملوث تھا غیر اسلامى افکار کى پیروى کے سبب اخلاقى بے راہ روى عام تھى عام طور پر خاندانى انس و محبت ، ایثارو قربانى کا فقدان تھا _ اسى لئے اس دور میں طلاقوں کى تعداد بہت زیادہ تھى بلکہ اس سلسلے میں ایران کا شمار دنیا کے ملکوں میں چوتھى نمبر پر تھا _ خدا کا شکر ہے اسلامى انقلاب کى کامیابى کے بعد ایران میں زندگى کے ہر شعبہ میں نمایان تبدیلیاں نظر آتى ہیں _ کل کے ایران میں جن چیزوں کو اعلى معیار کى نشانى سمجھا جاتا تھا آج ان چیزوں کو معیوب سمجھا جانے لگا ہے چونکہ پرانے آثار یہ لخت اور یکسر تو مٹ نہیں سکتے اس لئے طاغوتى دور کى سچى مثالوں اور واقعات سے مددلى گئی ہے تا کہ اس کى خامیاں واضح ہوسکیں اور آئندہ نسلیں ان سے محفوظ رہتے کى کوشش کریں _ خدا کا شکر ہے بر صغیر میں اسلامى معاشرہ ابھى تک ان بہت سى خامیوں سے پاک ہے جن کا اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے اس لئے بہت سى باتیں عجیب و غریب معلوم ہوں گى _ لیکن دوسروں کى اندھى تقلید کا انجام ہمیشہ بہت خراب ہوتاہے اور ہمارے یہاں بھى ماڈرن اور ترقى یافتہ بننے کا شوق بڑھتا جارہا ہے اور اپنے دینى و اسلامى اقدار کو فراموش کیا جارہاہے اور اگر خدا نخواستہ یہ شوق اسى شدّت سے جارى رہا تو وہ دن دور نہ ہوگا کہ ہمارا معاشرہ بھى فسق و فجور میں گرفتار ہوجائے اور خاندانوں سے محبت و خلوص کا خاتمہ ہوجائے_

اس کتاب کا ترجمہ کرنے کا مقصد یہى ہے کہ ہمارے ملک میں ناسمجھى اور ناتجربہ کارى کى وجہ سے برباد ہونے والى زندگیوں کوتباہى سے بچایا جا سکے اور اس کے مطا لعہ کے ذریعہ خاندانوں کى اصلاح ہو _ بہتر ہے کہ شادى سے پہلے لڑکے اور لڑکى کو اس کا مطالعہ کرنے کى ترغیب دلائی جائے _ جن نوجواں جو روں نے نئی زندگى میں قدم رکھا ہے ، اس کتاب کا مطالعہ کرکے شروع سے ہى اپنے حالات اور اخلاق کو سنوارنے کى کوشش کریں _ جن میں بیویوں کى زندگیاں نصف گزر چکى ہیں وہ بھى اس کتاب کا مطالعہ کرکے اپنے اصلاح کرکے اپنے خاندان اور نئی نسل کو تباہى و بربادى سے بچا سکتے ہیں _ مثل مشہور ہے :'' صبح کا بھولا اگر شام کو گھرواپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے _''

بہر حال میرے خیال میں زیر نظر کتاب معاشروں کى اصلاح کے لئے کافى کارآمد اور مفید ثابت ہوسکتى ہے _ اپنى قوم و ملت کى سربلندى و کامیابى کى آرزو اور دعاؤں کے ساتھ _


والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
عندلیب زہرا موسى کاموں پوری