اپنے شوہر کى دلجوئی کیجئے
زندگى کا بوجھ مرد کے کندھوں پر ہوتا ہے _ خاندان کے اخراجات کو جس طرح بھى ممکن ہو ، پورا کرنا مرد کى ذمہ دارى ہے _ گھر سے باہر اسے سینکڑوں قسم کى مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کبھى باس کى ڈانٹ پھٹکار سننا پڑتى ہے کبھى اپنے ساتھیوں کى اذیت رسانى کا شکار ہونا پڑتا ہے _ ممکن ہے اس کے مطالبات وصول نہ ہوئے ہوں _ ممکن ہے چیک یا ڈرافٹ کیش نہ ہوسکے _ ممکن ہے کساد و بازارى کا سامنا کرنا پڑے اور آمدنى نہ ہو _ ممکن ہے کوئی مناسب مقام حاصل نہ کر سکا ہو _ مرد کى ایک دو پریشانیاں نہیں ہوتى _ روزمرہ کى زندگى میں اس قسم کے گوناگوں حادثات کا سامنا برابر کرنا پڑتا ہے _ کم ہى ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ کوئی نئی پریشانى نہ آکھڑى ہو ان ہى سبب کى بناپر مردوں کى عمر عموماً عورتوں سے کم ہوتى ہے _ آخر ایک انسان کے اعصاب ، فکروں اور پریشانیوں کو کب تک اور کس حد تک برداشت کرسکتے ہیں _
ایسے موقعوں پر انسان کو شدت سے اس بات کى ضرورت ہوتى ہے کہ کوئی دلسوز او رمہربان ہستى اس کی دلجوئی کرے اور اس کى روح و اعصاب کو تقویت پہونچائے _
خاتون گرامى آپ کے شوہر کا کوئی غمخوار نہیں ہے _ وہ تنہائی کا احساس کرتا ہے _ باہر کى مشکلات سے فرار حاصل کرکئے اپنے گھر میں آپ کے پاس پناہ حاصل کرنا چاہتا ہے _ اسے آپ کى دلجوئی اور تسلى کى ضرورت ہے _ اگر کسى دن وہ پریشان حال اور رنجیدہ و ملول گھر میں داخل ہوتا ہے تو اسے ہر روز سے زیادہ آپ کى توجہ کى ضرورت ہے _ آپ کو چاہئے آپ جلدى سے اس کے آرام کرنے ، کھانے یا چائے و غیرہ کا انتظام کریں ایسے موقع پر دوسرے موضوعات پر بالکل بات نہ کریں _ نہ کسى بات پر نکتہ چینى کریں _ فرمائشے نہ کریں _ اس سے اپنى پریشانیوں اور درد دل کى شکایت نہ کریں _ اسے موقع دیجئے کہ کچھ دیر آرام کرلے _ اگر بھوکا ہے تو اس کا پیٹ ھر جائے _ اگر سردى کھا گیا ہے تو گرم ہوجائے _ اگر گرمى لگ رہى ہے تو اس کے حواس ٹھیک ہوجائیں اور جب اس کى تھکن دور ہوجائے اور اس کے اعصاب ٹھکانے آجائیں تب محبت بھرے لہجے میں اس کى پریشانى کا سبب دریافت کیجئے _ اور اگر وہ اپنا دردودل بیان کرنا شروع کرتا ہے تو اسے غور سے سنئے _ بیجا ہنسئے نہیں بلکہ اس کى پریشانى سن کر اظہار افسوس کیجئے _ اور اپنے رویہ سے یہ ظاہر کیجئے کہ اس کى پریشانیوں کو سن کر آپ کو اس سے زیادہ رنج پہونچاہے _ محبت و دلسوزى کا اظہار کرکے اس کے زخموں پر مرہم رکھئے نرمى اور ملائمت سے اس کى دلجوئی کیجئے _ اس موضوع کو اس کے سامنے معمولى اور حقیر ظاہر کیجئے اور مشکل کو حل کرنے میں اس کى ہمت افزائی کیجئے _ اس سے کہئے کہ اس قسم کے حادثات تو زندگى کا لازمہ ہیں اور ہر شخص کو پیش آتے ہیں _ صبر واستقامت کے ذریعہ ان مشکلات پر غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے _ البتہ شرط یہ ہے کہ انسان خود ہمت نہ ہارجائے _ در اصل ایسے ہى موقعوں پر انسان کى شخصیت اور مردانگى ظاہر ہوتى ہے _ پریشان ہونے کے بجائے صبر اور کوشش سے کام لیا جائے تو مشکل آسانى سے حل ہوجاتى ہے _ اگر آپ کے شوہر کو رہنمائی کى ضرورت ہے اور اگر اس کے حل کى کوئی صورت آپ کى نظر میں ہے تو اس کى رہنمائی کیجئے اور اگر کوئی صحیح راہ حل آپ کے سامنے نہیں تو اسے رائے دیجئے کہ اپنے کسى خیرخواہ دوست یا رشتہ دارى مشورہ کرے _
خاتون محترم آپ کے شوہر کو مشکلات اور پریشانیوں کے موقع پر آپ کى دلجوئی اور تسلى کى ضرورت ہوتى ہے _ آپ کو اس کى مدد کرنى چاہئے ایک مہربان نرس بلکہ ایک ہمدرد ماہر نفسیات کى مانند ایسے موقع پر آپ کو اسکى دلجوئی کرنا چاہئے _ بلکہ اس سے بڑھ کر عرض کروں کہ اپنى شخصیت کو منظم و مستحکم کیجئے اور شوہر کى نگہداشت کیجئے _ جى ہاں کہیں ایک نرس یا نفسیاتى ڈاکٹر بھلا ایک فداکار بیوى کى طرح دیکھ بھال کر سکتا ہے؟ آپ کو اپنى طاقت کا اندازہ نہیں کہ آپ کى مہربانیاں اور تشفى و تسلّیاں آپ کے شوہر کى روح پر کیا جادو کا سا اثر ڈال سکتى ہیں _ اس کے دل اور اعصاب کو سکون مل جاتا ہے _ زندگى سے اس کى دلچسپى بڑھ جاتى ہے _ مشکلات سے نبرد آزماہونے کے لئے وہ تیار ہوجاتا ہے _ اور اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس دنیا میں وہ بیکس و تنہا نہیں ہے _ آپ کى وفادارى اور صمیمیت اس میں اعتماد و یقین پیدا کردیتے ہیں _ یہ چیزیں اسے آپ کا دوست اور عاشق بنادیتى ہیں _ آپ کى ازدواجى زندگى اور مستحکم و پائیدار ہوجاتى ہے _
حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں : دنیا میں شائستہ بیوى سے بہتر کوئی چیز نہیں _ ایسى بیوی، جس کو دیکھ کر اس کے شوہر کا دل مسرور و شاد ہوجائے _ (42)
حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں عورتوں کا ایک گروہ ایسا ہے جن کے زیادہ بچے ہوتے ہیں _ وہ عورتیں شفیق و مہربان ہوتى ہیں _ سختیوں اور زمانے کے حادثات کا خندہ پیشانى سے مقابلہ کرتى ہیں _ اپنے شوہر کى حمایت اور پشت پناہى کرنے والى ہوتى ہیں اور ایسے کام نہیں کرتیں جس سے ان کے شوہروں کو نقصان پہونچے ، اور ان کى پریشانیوں میں اضافہ ہو_ (43)
42 _ بحارالانوار ج 103 ص 217
43_ مستدرک ج 2 ص 534